لیاری کی بدلتی ہوئی صورتحال
لیاری کے مکینوں کی اکثریت کو چند امن دشمن عناصر کے ہاتھوں واپس یرغمال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
شہرکراچی کے حوالے سے آئے روز میڈیا میں رہزنی، ڈکیتی، قتل و غارت گری ، منشیات فروشی ، جوئے سٹے کے اڈوں کی بازگشت ہے۔ یہ تمام جرائم شب و روز جاری ہیں۔
ایک طرف شہریوں کی جان و مال کی تحفظ میں مامور ادارے کے اہلکار گشت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف شہری روزانہ کسی نہ کسی علاقے میں ان ڈکیتوں و رہزنوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شہر کراچی کو امن و سکون راس نہیں آیا وہ ایک مرتبہ پھر بدامنی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
2013 میں شہر کراچی کو جرائم کی دنیا سے آزاد کرانے کے لیے رینجرز و پولیس پر مشتمل آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں کراچی میں امن و سکون لوٹ آیا، لیکن گزشتہ مہینے سے کراچی کے پوش اور مضافاتی علاقوں میں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو تشویش ناک صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔
شہرکراچی کا قدیمی علاقہ لیاری بھی ایک مرتبہ پھر جرائم پیشہ عناصر کے تصرف میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ سرعام منشیات فروشی و سٹے کے اڈے چلنا معمول ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ رہزنی و ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لیاری کے مکینوں کی اکثریت کو چند امن دشمن عناصر کے ہاتھوں واپس یرغمال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لیاری کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے یہاں کلا کوٹ، چاکیواڑہ، بغدادی اورکلری کے ناموں سے چار تھانے ہیں علاوہ ازیں چوکیاں بھی قائم ہیں۔ پولیس کا گشت بھی دکھائی دیتا ہے لیکن موقع پاتے ہی جرائم پیشہ عناصر سڑکوں اور گلیوں میں در آتے ہیں اور مطلوبہ واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہی لیاری کے مکینوں کا حکمرانوں سے سوال ہے۔
سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے پولیس و رینجرز بھی موجود ہیں۔ لیاری میں ایک ایم این اے ہے جو پی ٹی آئی سے تعلق رکھتا ہے، تین ایم پی ایز ہیں جن میں سے دو ایم پی ایز عوام کی جانب سے منتخب کردہ ہیں ان میں سے ایک کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور دوسرے کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے ہے۔ تیسرے ایم پی اے کا تعلق پی پی پی سے ہے جو خواتین کی خصوصی نشست پر نامزد ہوئی ہیں۔ ان سب کے ہوتے ہوئے بھی لیاری کے اکثریتی مکین جن کی تعداد 99 فیصد ہے وہ ایک فیصد جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں یرغمال بنتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
اس ضمن میں لیاری سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اشفاق جعفری کا کہنا ہے کہ بات دراصل یہ ہے کہ لیاری کو جاننے اور سمجھنے والے پولیس افسران و جوانوں کو لیاری کے تھانوں سے تبادلہ کروا کر انھیں کہیں اور تعینات کیا گیا ہے جس کے باعث لیاری میں جرائم کی دنیا پھر سر اٹھانے لگی ہے۔ یہ وہ پولیس افسران اور جوان تھے جن کے نام سے جرائم پیشہ عناصر تھر تھر کانپتے تھے وہ لیاری کے کسی بھی تھانے میں تعینات کیے جاتے تھے ان علاقوں میں کھلبلی مچتی تھی، جرائم کی دنیا میں سناٹا چھا جاتا تھا لیکن ان کو لیاری سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیاری کو پھر سے ماضی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
اشفاق جعفری کا کہنا ہے کہ جرائم کراچی بھر میں ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ لیاری میں جرائم نہیں ہوتے لیکن کراچی کے دیگر علاقوں کی نسبت آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن میڈیا میں ان وارداتوں کو بڑھا چڑھا کر اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ پورا لیاری گینگ وار کی زد میں ہے جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ایک سازش کے تحت لیاری کو پھر سے تباہی کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ لیاری کے لوگ آگ اور خون کا دریا عبورکرکے باشعور ہو چکے ہیں ان کو پتا ہے کہ ان کے ساتھ پھر ہاتھ کیا جا رہا ہے سیاسی لوگ تو چاہتے ہیں کہ لیاری والے مریں تاکہ ان کی سیاست کو دوام پہنچے۔ لیاری والوں کو کچھ نہ ملے، ملے تو ان کی تجوریاں بھریں۔ کون ہیں یہ لوگ؟ یہ ہمارے اندر سے پیدا ہونے والے لوگ ہیں جو اپنے ہی لوگوں کو فروخت کر رہے ہیں۔
یہاں یہ امر ناقابل ذکر ہے کہ لیاری میں بغدادی تھانے کی حدود میں جرائم کی وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں اور پولیس ان کا تعلق لیاری گینگ وارگروہ سے جوڑ رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ لیاری کی پولیس امن و امان قائم کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے۔ لیاری میں 2008 سے 2013 تک 2 نسلیں تباہ کردی گئی ہیں ، نوجوانوں کو روزگار کا جھانسا دے کر جرائم کی دنیا میں دھکیلا گیا۔ 2013 میں رینجرز آپریشن کے صدقے لیاری کے لوگ سکون کا سانس لے رہے تھے لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان قربانیوں پر پانی پھیرا جا رہا ہے۔
اگر لیاری میں امن و امان برقرار رکھنا مقصود ہے تو ان پولیس افسران و جوانوں کو پھر سے لیاری کے تھانوں میں تعینات کرنا ہوگا جو جرائم کی دنیا میں خوف و دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ بلوچستان کے گمراہ نوجوانوں کو عام معافی دے کر ان کے گھروں میں 20، 20 ہزار روپے پہنچا دیے جاتے ہیں تو یہ رحم لیاری کے بھٹکے ہوئے نوجوانوں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیاری کے مکین محب الوطن پاکستانی شہری ہیں جن کے اجداد نے لیاری میں قیام پاکستان کی تحریک کو جلا بخشی، یہاں لیاری میں قیام پاکستان کی تشکیل، خد و خال کو واضح کیا۔
لیاری کا مسئلہ معاشی ہے جس کا فائدہ جرائم کی دنیا سے تعلق دار لوگ اٹھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی سیاسی بازی گر بھی لیاری کے بے روزگار نوجوانوں کو سبز باغ دکھا کر اپنا ایندھن بناتے رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ لیاری کی معاشی صورتحال کو بہترکرنا ہوگا ورنہ لیاری میں چور سپاہی کا یہ کھیل کل اور آج کی طرح آیندہ بھی چلتا رہے گا اور نہ جانے مزید کتنے گھروں کے روشن چراغ گل ہوتے رہیں گے۔
ایک طرف شہریوں کی جان و مال کی تحفظ میں مامور ادارے کے اہلکار گشت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف شہری روزانہ کسی نہ کسی علاقے میں ان ڈکیتوں و رہزنوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شہر کراچی کو امن و سکون راس نہیں آیا وہ ایک مرتبہ پھر بدامنی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
2013 میں شہر کراچی کو جرائم کی دنیا سے آزاد کرانے کے لیے رینجرز و پولیس پر مشتمل آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں کراچی میں امن و سکون لوٹ آیا، لیکن گزشتہ مہینے سے کراچی کے پوش اور مضافاتی علاقوں میں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو تشویش ناک صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔
شہرکراچی کا قدیمی علاقہ لیاری بھی ایک مرتبہ پھر جرائم پیشہ عناصر کے تصرف میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ سرعام منشیات فروشی و سٹے کے اڈے چلنا معمول ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ رہزنی و ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لیاری کے مکینوں کی اکثریت کو چند امن دشمن عناصر کے ہاتھوں واپس یرغمال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لیاری کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے یہاں کلا کوٹ، چاکیواڑہ، بغدادی اورکلری کے ناموں سے چار تھانے ہیں علاوہ ازیں چوکیاں بھی قائم ہیں۔ پولیس کا گشت بھی دکھائی دیتا ہے لیکن موقع پاتے ہی جرائم پیشہ عناصر سڑکوں اور گلیوں میں در آتے ہیں اور مطلوبہ واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہی لیاری کے مکینوں کا حکمرانوں سے سوال ہے۔
سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے پولیس و رینجرز بھی موجود ہیں۔ لیاری میں ایک ایم این اے ہے جو پی ٹی آئی سے تعلق رکھتا ہے، تین ایم پی ایز ہیں جن میں سے دو ایم پی ایز عوام کی جانب سے منتخب کردہ ہیں ان میں سے ایک کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور دوسرے کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے ہے۔ تیسرے ایم پی اے کا تعلق پی پی پی سے ہے جو خواتین کی خصوصی نشست پر نامزد ہوئی ہیں۔ ان سب کے ہوتے ہوئے بھی لیاری کے اکثریتی مکین جن کی تعداد 99 فیصد ہے وہ ایک فیصد جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں یرغمال بنتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
اس ضمن میں لیاری سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اشفاق جعفری کا کہنا ہے کہ بات دراصل یہ ہے کہ لیاری کو جاننے اور سمجھنے والے پولیس افسران و جوانوں کو لیاری کے تھانوں سے تبادلہ کروا کر انھیں کہیں اور تعینات کیا گیا ہے جس کے باعث لیاری میں جرائم کی دنیا پھر سر اٹھانے لگی ہے۔ یہ وہ پولیس افسران اور جوان تھے جن کے نام سے جرائم پیشہ عناصر تھر تھر کانپتے تھے وہ لیاری کے کسی بھی تھانے میں تعینات کیے جاتے تھے ان علاقوں میں کھلبلی مچتی تھی، جرائم کی دنیا میں سناٹا چھا جاتا تھا لیکن ان کو لیاری سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیاری کو پھر سے ماضی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
اشفاق جعفری کا کہنا ہے کہ جرائم کراچی بھر میں ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ لیاری میں جرائم نہیں ہوتے لیکن کراچی کے دیگر علاقوں کی نسبت آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن میڈیا میں ان وارداتوں کو بڑھا چڑھا کر اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ پورا لیاری گینگ وار کی زد میں ہے جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ایک سازش کے تحت لیاری کو پھر سے تباہی کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ لیاری کے لوگ آگ اور خون کا دریا عبورکرکے باشعور ہو چکے ہیں ان کو پتا ہے کہ ان کے ساتھ پھر ہاتھ کیا جا رہا ہے سیاسی لوگ تو چاہتے ہیں کہ لیاری والے مریں تاکہ ان کی سیاست کو دوام پہنچے۔ لیاری والوں کو کچھ نہ ملے، ملے تو ان کی تجوریاں بھریں۔ کون ہیں یہ لوگ؟ یہ ہمارے اندر سے پیدا ہونے والے لوگ ہیں جو اپنے ہی لوگوں کو فروخت کر رہے ہیں۔
یہاں یہ امر ناقابل ذکر ہے کہ لیاری میں بغدادی تھانے کی حدود میں جرائم کی وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں اور پولیس ان کا تعلق لیاری گینگ وارگروہ سے جوڑ رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ لیاری کی پولیس امن و امان قائم کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے۔ لیاری میں 2008 سے 2013 تک 2 نسلیں تباہ کردی گئی ہیں ، نوجوانوں کو روزگار کا جھانسا دے کر جرائم کی دنیا میں دھکیلا گیا۔ 2013 میں رینجرز آپریشن کے صدقے لیاری کے لوگ سکون کا سانس لے رہے تھے لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان قربانیوں پر پانی پھیرا جا رہا ہے۔
اگر لیاری میں امن و امان برقرار رکھنا مقصود ہے تو ان پولیس افسران و جوانوں کو پھر سے لیاری کے تھانوں میں تعینات کرنا ہوگا جو جرائم کی دنیا میں خوف و دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ بلوچستان کے گمراہ نوجوانوں کو عام معافی دے کر ان کے گھروں میں 20، 20 ہزار روپے پہنچا دیے جاتے ہیں تو یہ رحم لیاری کے بھٹکے ہوئے نوجوانوں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیاری کے مکین محب الوطن پاکستانی شہری ہیں جن کے اجداد نے لیاری میں قیام پاکستان کی تحریک کو جلا بخشی، یہاں لیاری میں قیام پاکستان کی تشکیل، خد و خال کو واضح کیا۔
لیاری کا مسئلہ معاشی ہے جس کا فائدہ جرائم کی دنیا سے تعلق دار لوگ اٹھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی سیاسی بازی گر بھی لیاری کے بے روزگار نوجوانوں کو سبز باغ دکھا کر اپنا ایندھن بناتے رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ لیاری کی معاشی صورتحال کو بہترکرنا ہوگا ورنہ لیاری میں چور سپاہی کا یہ کھیل کل اور آج کی طرح آیندہ بھی چلتا رہے گا اور نہ جانے مزید کتنے گھروں کے روشن چراغ گل ہوتے رہیں گے۔