یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
میرا خیال ہے جنرل پرویز مشرف اس وقت تک عسکری اسپتال میں بیمار رہیں گے جب تک جنرل راحیل شریف انھیں اس نئے ۔۔۔
ISLAMABAD:
میرا خیال ہے جنرل پرویز مشرف اس وقت تک عسکری اسپتال میں بیمار رہیں گے جب تک جنرل راحیل شریف انھیں اس نئے این آر او کی گارنٹی نہیں دے دیتے۔تو جہاں اس قافلے کے شرکا اور قافلہ سالاروں کے لیے دل سے دعا نکلی وہاں یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ ان کے مجوزہ پروگراموں میں کچھ ایسی کمیوں کو بھی پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن پر بوجوہ ابھی تک بھرپور توجہ نہیں دی جا سکی تھی، اس کے بعد عالمی شہرت یافتہ کینسر اسپیشلسٹ اور سرجن ڈاکٹر شہریار سے ایک خاص طور پر ترتیب دی گئی محفل میں ملاقات کا موقع ملا تو اس منصوبے کے کئی اور اہم اور روشن پہلو بھی سامنے آئے، مجھ سمیت کچھ احباب نے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی آواز' عوام' عوامی نمایندوں اور بالخصوص میڈیا کے دوستوں تک ایک مسلسل اور منظم انداز میں پہنچائیں کہ جس قدر زیادہ لوگ اس کی تفصیلات سے روشناس ہوں گے اسی قدر آپ کے دامے درمے قدمے سخنے رفقا کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور اسی اضافے کے بیچ سے وہ پودا تشکیل پائے گا جس کا نام آپ نے ''کینسر کیئر'' تجویز کیا ہے۔ انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا اور طے پایا کہ فرحت پروین ہم دوستوں کے تعاون سے ایک خصوصی بریفنگ کا اہتمام کریں گی جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمایندوں اور کالم نگاروں کو مدعو کیا جائے گا تاکہ وہ اس منصوبے کی غرض و غایت' تفصیلات اور طریقہ کار کے بارے میں بنیادی معلومات سے آگاہ ہو سکیں اور براہ راست ڈاکٹر شہریار سے سوالات کر کے اپنے تحفظات اور شبہات کے جوابات حاصل کر سکیں کہ فی زمانہ معاشرتی اور اصلاحی نوعیت کے ہر کام پر شک کیا جاتا ہے جو بوجوہ اتنا غلط بھی نہیں۔
اتفاق سے فرحت پروین کو بیرون ملک اپنے بچوں کے پاس جانا پڑ گیا اور یوں یہ ملاقات بظاہر کھٹائی میں پڑ گئی لیکن اس دوران میں ڈاکٹر شہریار اور ان کے رفقاء نے اپنی مہم جاری رکھی اور بہت سے ایسے ابتدائی اور بنیادی نوعیت کے کاموں میں اس قدر پیش رفت کر لی کہ بہت سی چیزیں پہلے سے زیادہ صاف اور حوصلہ افزا دکھائی دینے لگیں چنانچہ گزشتہ دنوں جب اس مجوزہ میڈیا بریفنگ کا باقاعدہ انعقاد ہوا تو اس مشن کے نسبتاً پرانے آشناؤں یعنی ہم لوگوں کو بھی کچھ نئی اور اچھی باتیں سننے کو ملیں۔
اس وقت وطن عزیز میں کینسر کے مرض' اس کے مریضوں' اسپتالوں اور ماہر ڈاکٹروں کی مستند اعدادوشمار کے حوالے سے صورت حال کیا ہے؟ اس کے بارے میں ڈاکٹر شہریار نے جو تفصیلات پیش کیں وہ واقعی دل دہلا دینے والی ہیں کہ ایک تو یہ مرض ہی بے انتہا موذی ہے اور دوسرے اس کے علاج کے ضمن میں عوامی اور سرکاری رویے ہی بے حد مایوس کن ہیں مثال کے طور پر یہ حقیقت ایک بم سے کم نہیں کہ دس کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب میں کل ملا کر کینسر کے مریضوں کے لیے صرف 591 بستر تقریباً پندرہ مختلف جگہوں پر موجود ہیں جب کہ سرکاری اسپتالوں میں صرف بارہ اور کل ملا کر 55 ڈاکٹر ایسے ہیں جنھیں کینسر کے ماہرین کا درجہ دیا جا سکتا ہے جب کہ مریضوں کی تعداد پونے دو لاکھ سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے اب اگر تمام پرائیویٹ اسپتالوں اور اداروں سے متعلق ڈاکٹرز کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا جائے تب بھی کینسر کے بیس ہزار مریضوں کے حصے میں ایک ڈاکٹر آتا ہے جب کہ 26 ہزار مریض ہر برس علاج کی کسی بھی طرح کی سہولت تک پہنچے بغیر اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شہریار نے بتایا کہ سب سے زیادہ ظلم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تقریباً ناقابل علاج مریضوں کی تکلیف کو کم یا قابل برداشت بنانے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا جا رہا۔ طب کی اصطلاح میں علاج کے اس طریقہ کار کو علامتی علاج یعنی Palliatire Care کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے چار سو بیڈز پر مشتمل مجوزہ اسپتال سے نہ صرف کسی مریض کو ناقابل علاج قرار دے کر واپس نہیں بھیجا جائے گا بلکہ Palliatire Care کے ذریعے اس کو اس ناقابل برداشت درد سے بچاؤ کے لیے ایسی موثر سستی اور خود تحقیق اور تشکیل کردہ ادویات بھی فراہم کی جائیں گی جس سے اس کے آخری دن آسانی سے گزر سکیں ان کے پروگرام میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے اس مختصر معلوماتی تحریر پر ایک نظر ڈالنا بہت ضروری ہے جو ان کے تعارفی بروشر میں شامل کی گئی ہے کہ یہ معلومات افزا بھی ہے اور چشم کشا بھی۔
''کینسر کا مرض دوسری بیماریوں سے مختلف ہے یہ 400 کے لگ بھگ مختلف امراض کا ایک اجتماعی نام ہے ان تمام امراض میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان سب میں انسانی حیات کے بنیادی اجزا یعنی خلیوں یا Cells کی نشوونما پر انسانی جسم کا کنٹرول یا قابو نہیں رہتا تب یہ اپنی بے ربط اور بے لگام نشوونما سے انسانی جسم میں پھیل جاتے ہیں یا گٹھلیوں کی شکل میں جسم کے مختلف حصوں میں نمودار ہو جاتے ہیں یہ خلیے جگر' پھیپھڑوں' گردوں' دماغ اور ہڈیوں کے گودے تک جا پہنچتے ہیں اور ان کے افعال میں رکاوٹ ڈال دیتے ہیں جس سے وہ عضو کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ایسی حالت میں اگر علاج میسر نہ ہو تو جلد ہی موت واقع ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے کینسر کا مرض دوسری بیماریوں سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ یہ مرض مرحلہ وار بڑھتا ہے اور اس مرض کے ابتدائی دو مراحل میں شفایابی کی شرح 90% سے زیادہ ہے جب کہ تیسرے اور چوتھے مرحلے کے مریضوں کی شفایابی کا تناسب انتہائی کم ہے تیسرے اور چوتھے مرحلے کے مریض جو مکمل شفایات نہیں ہو پاتے ان کی بیماری کو دو سے پانچ سال تک روکا جا سکتا ہے ایسے مریض علاج کے بعد اپنی بقایا زندگی بغیر تکالیف کے گزارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں...
بلاشبہ عمران خان نے اپنی والدہ مرحومہ کے نام پر شوکت خانم کینسر اسپتال قائم کر کے نہ صرف ایک بہترین مثال قائم کی ہے بلکہ اس مرض سے آگاہی کے ضمن میں بھی انتہائی قابل تعریف کام کیا ہے لیکن یہ ایک اسپتال اپنی تمام تر اصول پسندی اور شفاف طریقہ کار کے باوجود بیک وقت کتنے لوگوں کو علاج کی سہولت فراہم کر سکتا ہے؟ سو ضرورت اس بات کی ہے کہ علاج کا دائرہ وسیع کر کے اسے غریب آدمی کے لیے بھی قابل علاج بنایا جائے اور اس ضمن میں باقاعدہ علاج کے علاوہ ابتدائی تشخیص اور Palliatire Care کے شعبوں پر بھی خصوصی توجہ دی جائے معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ ساتھ اہل قلم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس طرح کے انسان دوست منصوبوں کو نہ صرف اہل وطن تک پہنچائیں بلکہ ان لوگوں سے خاص طور پر مدد کی اپیل بھی کریں جنھیں رب کریم نے زیادہ وسائل سے نوازا ہے یاد رکھیے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے سے بہتر عبادت شاید ہی کوئی اور ہو۔
میرا خیال ہے جنرل پرویز مشرف اس وقت تک عسکری اسپتال میں بیمار رہیں گے جب تک جنرل راحیل شریف انھیں اس نئے این آر او کی گارنٹی نہیں دے دیتے۔تو جہاں اس قافلے کے شرکا اور قافلہ سالاروں کے لیے دل سے دعا نکلی وہاں یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ ان کے مجوزہ پروگراموں میں کچھ ایسی کمیوں کو بھی پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن پر بوجوہ ابھی تک بھرپور توجہ نہیں دی جا سکی تھی، اس کے بعد عالمی شہرت یافتہ کینسر اسپیشلسٹ اور سرجن ڈاکٹر شہریار سے ایک خاص طور پر ترتیب دی گئی محفل میں ملاقات کا موقع ملا تو اس منصوبے کے کئی اور اہم اور روشن پہلو بھی سامنے آئے، مجھ سمیت کچھ احباب نے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی آواز' عوام' عوامی نمایندوں اور بالخصوص میڈیا کے دوستوں تک ایک مسلسل اور منظم انداز میں پہنچائیں کہ جس قدر زیادہ لوگ اس کی تفصیلات سے روشناس ہوں گے اسی قدر آپ کے دامے درمے قدمے سخنے رفقا کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور اسی اضافے کے بیچ سے وہ پودا تشکیل پائے گا جس کا نام آپ نے ''کینسر کیئر'' تجویز کیا ہے۔ انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا اور طے پایا کہ فرحت پروین ہم دوستوں کے تعاون سے ایک خصوصی بریفنگ کا اہتمام کریں گی جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمایندوں اور کالم نگاروں کو مدعو کیا جائے گا تاکہ وہ اس منصوبے کی غرض و غایت' تفصیلات اور طریقہ کار کے بارے میں بنیادی معلومات سے آگاہ ہو سکیں اور براہ راست ڈاکٹر شہریار سے سوالات کر کے اپنے تحفظات اور شبہات کے جوابات حاصل کر سکیں کہ فی زمانہ معاشرتی اور اصلاحی نوعیت کے ہر کام پر شک کیا جاتا ہے جو بوجوہ اتنا غلط بھی نہیں۔
اتفاق سے فرحت پروین کو بیرون ملک اپنے بچوں کے پاس جانا پڑ گیا اور یوں یہ ملاقات بظاہر کھٹائی میں پڑ گئی لیکن اس دوران میں ڈاکٹر شہریار اور ان کے رفقاء نے اپنی مہم جاری رکھی اور بہت سے ایسے ابتدائی اور بنیادی نوعیت کے کاموں میں اس قدر پیش رفت کر لی کہ بہت سی چیزیں پہلے سے زیادہ صاف اور حوصلہ افزا دکھائی دینے لگیں چنانچہ گزشتہ دنوں جب اس مجوزہ میڈیا بریفنگ کا باقاعدہ انعقاد ہوا تو اس مشن کے نسبتاً پرانے آشناؤں یعنی ہم لوگوں کو بھی کچھ نئی اور اچھی باتیں سننے کو ملیں۔
اس وقت وطن عزیز میں کینسر کے مرض' اس کے مریضوں' اسپتالوں اور ماہر ڈاکٹروں کی مستند اعدادوشمار کے حوالے سے صورت حال کیا ہے؟ اس کے بارے میں ڈاکٹر شہریار نے جو تفصیلات پیش کیں وہ واقعی دل دہلا دینے والی ہیں کہ ایک تو یہ مرض ہی بے انتہا موذی ہے اور دوسرے اس کے علاج کے ضمن میں عوامی اور سرکاری رویے ہی بے حد مایوس کن ہیں مثال کے طور پر یہ حقیقت ایک بم سے کم نہیں کہ دس کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب میں کل ملا کر کینسر کے مریضوں کے لیے صرف 591 بستر تقریباً پندرہ مختلف جگہوں پر موجود ہیں جب کہ سرکاری اسپتالوں میں صرف بارہ اور کل ملا کر 55 ڈاکٹر ایسے ہیں جنھیں کینسر کے ماہرین کا درجہ دیا جا سکتا ہے جب کہ مریضوں کی تعداد پونے دو لاکھ سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے اب اگر تمام پرائیویٹ اسپتالوں اور اداروں سے متعلق ڈاکٹرز کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا جائے تب بھی کینسر کے بیس ہزار مریضوں کے حصے میں ایک ڈاکٹر آتا ہے جب کہ 26 ہزار مریض ہر برس علاج کی کسی بھی طرح کی سہولت تک پہنچے بغیر اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شہریار نے بتایا کہ سب سے زیادہ ظلم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تقریباً ناقابل علاج مریضوں کی تکلیف کو کم یا قابل برداشت بنانے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا جا رہا۔ طب کی اصطلاح میں علاج کے اس طریقہ کار کو علامتی علاج یعنی Palliatire Care کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے چار سو بیڈز پر مشتمل مجوزہ اسپتال سے نہ صرف کسی مریض کو ناقابل علاج قرار دے کر واپس نہیں بھیجا جائے گا بلکہ Palliatire Care کے ذریعے اس کو اس ناقابل برداشت درد سے بچاؤ کے لیے ایسی موثر سستی اور خود تحقیق اور تشکیل کردہ ادویات بھی فراہم کی جائیں گی جس سے اس کے آخری دن آسانی سے گزر سکیں ان کے پروگرام میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے اس مختصر معلوماتی تحریر پر ایک نظر ڈالنا بہت ضروری ہے جو ان کے تعارفی بروشر میں شامل کی گئی ہے کہ یہ معلومات افزا بھی ہے اور چشم کشا بھی۔
''کینسر کا مرض دوسری بیماریوں سے مختلف ہے یہ 400 کے لگ بھگ مختلف امراض کا ایک اجتماعی نام ہے ان تمام امراض میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان سب میں انسانی حیات کے بنیادی اجزا یعنی خلیوں یا Cells کی نشوونما پر انسانی جسم کا کنٹرول یا قابو نہیں رہتا تب یہ اپنی بے ربط اور بے لگام نشوونما سے انسانی جسم میں پھیل جاتے ہیں یا گٹھلیوں کی شکل میں جسم کے مختلف حصوں میں نمودار ہو جاتے ہیں یہ خلیے جگر' پھیپھڑوں' گردوں' دماغ اور ہڈیوں کے گودے تک جا پہنچتے ہیں اور ان کے افعال میں رکاوٹ ڈال دیتے ہیں جس سے وہ عضو کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ایسی حالت میں اگر علاج میسر نہ ہو تو جلد ہی موت واقع ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے کینسر کا مرض دوسری بیماریوں سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ یہ مرض مرحلہ وار بڑھتا ہے اور اس مرض کے ابتدائی دو مراحل میں شفایابی کی شرح 90% سے زیادہ ہے جب کہ تیسرے اور چوتھے مرحلے کے مریضوں کی شفایابی کا تناسب انتہائی کم ہے تیسرے اور چوتھے مرحلے کے مریض جو مکمل شفایات نہیں ہو پاتے ان کی بیماری کو دو سے پانچ سال تک روکا جا سکتا ہے ایسے مریض علاج کے بعد اپنی بقایا زندگی بغیر تکالیف کے گزارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں...
بلاشبہ عمران خان نے اپنی والدہ مرحومہ کے نام پر شوکت خانم کینسر اسپتال قائم کر کے نہ صرف ایک بہترین مثال قائم کی ہے بلکہ اس مرض سے آگاہی کے ضمن میں بھی انتہائی قابل تعریف کام کیا ہے لیکن یہ ایک اسپتال اپنی تمام تر اصول پسندی اور شفاف طریقہ کار کے باوجود بیک وقت کتنے لوگوں کو علاج کی سہولت فراہم کر سکتا ہے؟ سو ضرورت اس بات کی ہے کہ علاج کا دائرہ وسیع کر کے اسے غریب آدمی کے لیے بھی قابل علاج بنایا جائے اور اس ضمن میں باقاعدہ علاج کے علاوہ ابتدائی تشخیص اور Palliatire Care کے شعبوں پر بھی خصوصی توجہ دی جائے معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ ساتھ اہل قلم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس طرح کے انسان دوست منصوبوں کو نہ صرف اہل وطن تک پہنچائیں بلکہ ان لوگوں سے خاص طور پر مدد کی اپیل بھی کریں جنھیں رب کریم نے زیادہ وسائل سے نوازا ہے یاد رکھیے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے سے بہتر عبادت شاید ہی کوئی اور ہو۔