کتابیں ۔۔۔
ماَدّی سے مجازی کتب خانوں تک
ہم مطالعے کے شائق اور کتابوں کے عاشق ہیں، سو جب یار لوگوں نے کہا کہ کتابوں کا زمانہ لد گیا اور یہ دور موبائل اور کمپیوٹر کا دور ہے تو کچھ لمحوں کے لیے ہم پریشان ہوگئے کہ واقعی کتابیں اب گئیں کہ تب گئیں- لیکن جب کمپیوٹر کے ساتھ پرنٹر کو نتھی دیکھا تو ایک گونہ اطمینان ہوا کہ نہیں جی ایسی کوئی بات نہیں، کتابوں کا زمانہ گیا نہیں بلکہ یہ گھر گھر تک پہنچ رہا ہے۔
اور ہمارا یہ اطمینان اس وقت اور بھی سوا ہو گیا جب انٹرنیٹ پر بھی ''پرنٹ'' کا ''اوپشن'' موجود پایا۔ اور سب سے اہم بات کہ جب آپ کمپیوٹر خریدتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اکثر کتابی صورت میں ہی اس کا کبھی مختصر تو کبھی ضخیم سا مینوئل بھی تھمادیا جاتا ہے کہ جس کی بغل میں ایک سی ڈی بھی اٹکی ہوئی ہوتی ہے وغیرہ۔ تو صاحبو! کتابوں کا زمانہ لد نہیں گیا -ہاں اب یہ ہوگیا ہے کہ آپ کتابوں کو لاد کر پھرنے کے بجائے ان کو لوڈ کر نے لگے ہیں اور کتابیں حقیقی سے مجازی ہوگئی ہیں۔
جی ہاں صاحبو! پانچ ہزار سال کی تاریخ میں کتابیں کاغذ سے ڈیجیٹل صفحات پر منتقل ہورہی ہیں۔ اس عمل میں کتب خانے بھی تغیر پذیر ہیں اور مادی عمارتوں سے مجازی کتب خانوں کو منتقل ہو رہے ہیں۔ کتابیں گذشتہ ہزاروں برس سے زیرمطالعہ ہیں۔ اور موہن جو دڑو سے دست یاب مہروں کے مدنظر ہم کہہ سکتے کہ ہم جو کہ وادی سندھ کی تہذیب سے وابستہ ہیں دنیا کے قدیم ترین مصنفین وقارئین میں سے ہیں، کہ جس خطے میں تحریر موجود تھی وہاں مطالعہ اور قارئین کیوں نہ ہوں گے؟ جہاں کپڑا بُنا جاتا تھا وہاں کتابیں اور کتب خانے کیوں کر نہ ہوں گے؟ البتہ یہ موضوع مؤرخین اور ماہرین آثارقدیمہ کی تحقیق و تصنیف کا ہے نہ کہ ہمارا سو ان کو مبارک ہو! ہمارا تحقیق و تصنیف میں کیا دخل___ سو ہم تو بس کتب و کتب خانوں کی اور مجازی کتب خانوں کی بات ہی کرتے ہیں۔
ماہرین و مؤرخین کے مطابق، سمیری دور میں میسوپوٹیمیائی خطے میں کتابیں مٹی کی تختیوں پر تحریر کی جاتی تھیں۔ ان میں ''گلگامش کی الواح'' قابل ذکر ہیں۔ مصریوں نے پاپائرس کو استعمال کرکے بیلن نما کتابیں تیار کیں، جب کہ دنیا کے کتنے ہی خطوں میں کتب جانوروں کی کھالوں پر تحریر کی گئیں۔ کھالوں یا پوست پر تحریر کیے جانے کے باعث ہی برصغیر میں کتاب نے پُستک کا نام پایا۔ اچھی بات یہ ہے کہ کتاب پڑھنے والے ''پستکی'' یا ''پوستی'' نہیں کہلائے_ یہ اور بات ہے کہ کباب خور، کتاب خواں کو پوستی ہی سمجھتے ہیں۔ یورپ میں کتابوں نے بارہویں صدی کے اواخر میں کہیں جاکر طبعی شکل اور مادی قدر و قیمت حاصل کی۔
اور اگرچہ پندرھویں صدی میں طباعت کی ایجاد سے کتابوں کی نشرواشاعت میں توسیع ہوئی اور سرعت آئی لیکن یہ انقلاب ِفرانس ہی تھا کہ جس کے بعد لائبریریوں نے فروغ عام پایا۔ مطالعہ عوام و خواص میں عام ہوا اور کتب پر چند لوگوں یا طبقوں کی اجارہ داری ختم ہونے لگی۔ یہ اور بات ہے کہ کسی دور میں جو کتابیں بادشاہوں اور علما کے قبضہ میں ہوتی تھیں ان میں سے کچھ پر ہمارے ریگل چوکی دوستوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے اور وہ کتاب کی قیمت کتاب کو دیکھ کر نہیں بلکہ خریدار کو دیکھ کر آنکتے ہیں بلکہ ہانکتے ہیں۔
1789 کا فرانسیسی انقلاب کتب بینی و اشاعت کتب سمیت زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھا۔ ایام انقلاب میں بورژوازیوں کے ذخائر میں سے لوٹی ہوئی اشیا میں کتب بھی شامل ہو تی تھیں جو کہ بعد میں بے کار اشیا کے طور پر سڑکوں پر ورق ورق بکھری پائی جاتی تھیں۔ یہ کچھ ایسا ہی منظر تھا جیسا کہ ہمارے گھروں اور گلیوں میں شاپنگ بیگ بکھرے ہوں__اس کے بعد کتابیں مراعات یافتہ طبقوں کی نجی ملکیت سے عوامی لائبریریوں کو منتقل ہوگئیں۔ اس سے قبل بڑی لائبریریاں یا تو کلیسیائی مراکز میں یا پھر شاہی محلات میں تک محدود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حکیم الحکما ابن سینا نے اپنے دور کے بادشاہ کا کام یاب علاج کیا تو معاوضے کے طور صرف شاہی لائبریری سے استفادے کی اجازت مانگی۔
یاد رہے کہ دنیا کی اولین عوامی لائبریریاں سترھویں صدی کے اوائلی سالوں میں آکسفرڈ یونیورسٹی اور میلان شہر میں قائم کی گئیں اور پھر دنیا بھر میں لائبریریوں کا قیا م عمل میں آنے لگا - جب کہ اس سے پہلے مختلف نجی لائبریریوں میں ہزاروں کتب اور دستاویزات کے ساتھ ساتھ قیمتی تحریری تاریخی شاہ کار، عوام کی دسترس سے پرے خوب صورت اور رنگیں عمارتوں میں الماریوں مقید تھے اور خوراک کرم و خاک بن جاتے تھے۔ گذشتہ چند صدیوں کے دوران میں جہاں کتب کی ہیئت میں تبدیلی آئی ہے وہیں لائبریریوں کی صورت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
جب ہم لائبریری کے بارے میں بات کرتے ہیں تو عموماً ایک ایسی عوامی جگہ کا تصور کرتے ہیں کہ جہاں الماریوں میں کتب چنی ہوئی ہوتی ہیں۔ مطالعے کے شیدائی وہاں جاکر اپنی پسندیدہ کتب جاری کرواتے ہیں اور مقررہ مدت تک اس کا مطالعہ کرنے کہ بعد یہ کتب لائبریری کو واپس کردی جاتی ہیں تاکہ دوسروں کو بھی ان کتب سے استفادے کا موقع مل سکے۔ موجودہ دور میں کتب خانہ کتابوں کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ معلومات کو دستاویزات، ریکارڈ، کتب، وصوتی و صوری مواد کے طور پر محفوظ کرنے کا عوامی مرکز ہے جو کہ بوقت ضرورت یہ مواد ضرورت مندوں کو فراہم کر سکتا ہے۔
چوںکہ اپنی ابتدا میں اس قسم کا مواد تحریری و کتابی صورت میں ہوا کرتا تھا اس لیے ہی ان کی ذخیرہ گاہوں کا نام لائبریری رکھا گیا۔ یہ لفظ اصلاً یونانی لفظ بائبلیوتھیک سے مشتق ہے، جس کا مطلب کتابوں کا مجموعہ یا ذخیرہ ہے۔ بنی پال اور اسکندریہ کی آشوری لائبریریاں قدیم دور کی مشہور لائبریریوں میں سے تھیں۔
لائبریریوں نے وقت کے ساتھ ساتھ فروغ پایا ہے اور آج دنیا میں بہت سے ادارے ہیں کہ جن کی اپنی اپنی لائبریریاں ہیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں ذاتی و عوامی کتب خانوں میں بھی گذشتہ برسوں کی نسبت اچھا خاص اضافہ ہوا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پاکستان اور مسلم دنیا ''اقرا'' کے حکم کے باوجود مطالعے سے پرے ہے۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو مطالعے کی عادت والے ملکوں میں پہلے تیس نمبروں میں بھی یہ کہیں بھی نظر نہیں آتا اور بھارت اس فہرست میں سرفہرست بلکہ اول درجہ پر ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب اس فہرست میں دسویں نمبر پر ہے، جب کہ دیگر مسلم ممالک میں عام طور پر عرب حضرات اوسطاً 6 منٹ سالانہ ہی مطالعہ فرماتے ہے جب کہ ایک یورپی سالانہ اوسطاً 200 گھنٹے پڑتا ہے۔
مطالعہ میں ترکی کا نمبر 19 ہے، جب کہ ایران میں بھی مطالعہ کا شوق کافی حد تک ہے۔ دنیا میں جہاں انسان مطالعے کی عادی نہیں ہیں وہاں بے خبری اور جہالت عام ہے۔ جہاں اشاعت کتب اور مطالعہ کتب باخبری اور علم و دانش کا سبب ہے۔ وہیں کتابوں کی نشرواشاعت میں کمی اور مطالعے سے اجتناب علم و بصیرت سے محرومی ہی کا نہیں بلکہ سیاسی اور اقتصادی ترقی سے محرومی اور تنزلی کا باعث بھی ہیں اور تہذیبی اور ثقافتی پس ماندگی بھی ایسی قوموں کا مقدر ہے۔
ایک دور وہ تھا کہ جب لوگ گایوں بکریوں یا دیگر جانوروں کی کھالوں یا پھر پاپائرس پر کتابیں لکھتے تھے۔ پھر کاغذی کتب کا دور آیا تو بھی بڑی مقدار میں کاغذ کا استعمال ہوتا رہا جو آج بھی بڑی حد تک جاری ہے، جب کہ آج ہی کے دور میں ایک برقی کتاب میں سیکڑوں اور ہزاروں صفحات بہ آسانی سما جاتے ہیں۔ اس رجحان میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ مجازی یا برقی کتب خانہ (ڈیجیٹل لائبریری) ایک جدید اصطلاح ہے جو کہ چند دہائیوں سے زیادہ پرانی نہیں۔ اس سے مراد ایسی لائبریری یا معلومات کا ذخیرہ ہے جو کہ روایتی لائبریری کی طرح کسی مخصوص عمارت یا خاص مقام پر الماریوں میں بند نہیں بلکہ کمپیوٹر کے مجازی حافظے میں درجہ بند اور پیش کی جاتی ہیں۔
ڈیجیٹل لائبریری کی اصطلاح 1960 کی دہائی کے اواخر میں زبان زد ہوئی (زباں زد عام نہیں)۔ کمپیوٹر سائنس دانوں نے اسے مستقبل کی لائبریری قرار دیا اور انہوں نے اسے برقی کتب خانہ یا مجازی کتب خانہ جیسے مختلف ناموں سے پکارا۔ 1990 کی دہائی میں دنیا بھر کے سائنسی اور تعلیمی اداروں نے معلومات کے حصول میں اضافے وسرعت کے لیے ڈیجیٹل لائبریریاں قائم کیں۔ یہ وہ دور تھا جب کمپیوٹر کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا اور انٹرنیٹ تک رسائی بھی عام ہوتی گئی۔ یہی سبب تھا کہ عوامی لائبریریوں نے اس قسم کی سہولیات فراہم کیں اور ان میں اضافہ کیا۔ اسی عمل کے سبب ان مراکز میں دست یاب کتابوں کے استعمال، ان کی تلاش یا کچھ دستاویزات ریکارڈ اور دیگر معلومات کو کمپیوٹر اور بعدازآں انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلانے کا نظام قائم کیا گیا۔
بہ الفاظ دیگر ڈیجیٹل لائبریریوں کے قیام کے ابتدائی اقدامات انٹرنیٹ پر شروع کیے گئے۔ مجازی لائبریریوں نے اپنے طریقۂ کار میں روایتی لائبریریوں کا انداز اختیار کیا ہے اور کتابوں کو بہ لحاظِ موضوع، عنوان اور مولف درجہ بند کیا گیا ہے۔ اس قسم کی عوامی لائبریریوں میں کہ جہاں وہ واقع ہیں وہاں صارف اپنے پاس ورڈ کی مدد سے رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ مجازی کتب خانوں میں برقی کتب سمیت روایتی کتب خانوں کے بہت سارے شاہ کار موجود ہیں۔ کوئی بھی ان کی نقول بنا سکتا ہے۔
مجازی کتب خانوں میں موجود مواد کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مجازی کتب خانے میں کئی قسم کی سہولیات دست یاب ہو سکتی ہیں۔ اس کا انحصار کتب خانے پر ہے۔ کسی بھی مجازی کتب خانے پر موجود مواد کو کمپیوٹر کی مانیٹر پر پڑھا یا دیکھا سنا جا سکتا ہے، اس کی نقل ممکن ہوسکتی ہے اور قابل اشاعت مواد کا پرنٹ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ممکنہ طور پر ایسا تمام مواد ذاتی کمپیوٹر پر بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔
مواصلات کے میدان میں انٹرنیٹ کا استعمال وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ نے اس سلسلے میں ایک نئی صورت حال پیدا کردی ہے اور معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ بغیر کسی کی وساطت کے شائقین کی دسترس میں ہے۔
انٹرنیٹ پر کتب خانوں کے ذریعے فراہم کردہ خدمات کا انحصار اس ادارے کی صوابدید پر ہے جو کہ اس کا منتظم ہے۔ بڑے بڑے کتب خانے معمولی سی فیس کے عوض آرکائیوز میں سے درخواست دہندہ کو مطلوبہ دستاویز یا ریکارڈ کے مواد کی کاپی فراہم کر سکتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ ادارے معمولی معاوضے پر خواست گاروں کی وسیع پیمانے پر خدمات فراہم کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس لیے کئی مجازی کتب خانے اس مقصد کے لیے بڑی مقدار میں اس قسم کا مواد و معطیات اکٹھا کر رہے ہیں۔
کچھ کتب خانے ممبرشپ فیس کے عوض شائقین کو اپنی سائٹ کی سہولیات بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ کئی مشہور و معروف کتب خانے عالمی سطح پر باہم منسلک ہیں اور مشترکہ نیٹ ورک کے ذریعے درخواست دہندگان کو وسیع پیمانے پر سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
انفارمیشن مینیجمینٹ نے ایک خاص تنظیم کو تشکیل دیا ہے جس میں آن لائن صحافت ایک نئی قسم کی صحافت کی طور متعارف ہوئی ہے۔ مجاز ی کتب خانہ ایک انقلابی قدم ہے جس نے کہ معلومات تک رسائی کو تیزتر اور آسان تر بنا دیا ہے اور یہ عمل سال بہ سال بہتر ی کی طر ف مائل ہے۔ عہدحاضر میں مجازی کتب خانوں کی ترقی کے جدید معیارات سامنے آئے ہیں اور اس شعبے میں مختلف اداروں میں عوامی توجہ کے لیے مسابقت جاری ہو چکی ہے۔ یہ معیارات معلومات اور اعدادوشمار تک لوگوں کی آسان رسائی سمیت کتنے ہی شعبوں پر کام کر رہے ہیں اور ان کو وسعت دے رہے ہیں۔ جدید ترین مقبول پروگراموں کے ساتھ نئے الفاظ واصطلاحات بھی مقبول ہو چکی ہیں۔
مجازی کتب خانے حدبندیوں اور سرحدوں کو پار کر رہے ہیں، سنسرشپ سے نجات پا رہے ہیں اور معلومات کو مقبول عام اور عوامی اور سب کے لیے قابل رسائی بنا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے روایتی کتب خانوں کی تمام خصوصیات کو بھی برقرار رکھا ہے، جب کہ اپنی وسیع تر سہولیات، کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ پر تیزرفتار رسائی کے باعث یہ روایتی کتب خانوں سے برتر ثابت ہو رہے ہیں۔
مجازی کتب خانوں کا عملہ مختصر ہے، تھوڑے سے ماہرین لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو عمدہ سہولیات فراہم کر پارہے ہیں۔ یہی لوگ مواد کی فراہمی اور بازیابی کا اہتمام کرتے ہیں، کتب خانے کی ذخیروں کو چلانے اور تقسیم کرنے ترسیل کرنے کی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی جیسے امور کے بھی ضامن ہیں۔
مجازی کتب خانے محض تحریری کتب تک محدود نہیں بلکہ ان میں بڑی مقدار میں صوتی وصوری مواد بھی دست یاب ہوتا ہے۔ ان میں تصویریں، گیت اور فلمیں شامل ہیں۔ ان کتب خانوں میں معلومات اور معطیات کی مسلسل اور سرعت سے تجدید کی جاتی ہے اور نئی معلومات پرانی ڈیٹا کی جگہ لے لیتی ہے۔ ان مراکز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کوئی بھی کہیں سے بھی او ر کسی بھی وقت بذریعہ کمپیوٹر و موبائل فون ان مراکز سے رابطہ کر سکتا ہے۔ گھر بیٹھے سیکڑوں کتب خانوں سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے اور رسائی رابطے میں رہ سکتا ہے۔
مجازی کتب خانے اس معنوں میں ماحول دوست بھی ہیں کہ ان کی وجہ سے کاغذ کا زیاں نہیں ہوتا اور یوں ہر برس لاکھوں درخت کٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ مجازی طباعت کاغذ کی کھپت کو کم کرتی ہے اور اس طرح ماحول کی حفاظت میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
مجازی کتب خانے کے کوئی بھی اوقات کار نہ ہوتے ہوئے یہ ہروقت قابل استعمال ہیں۔ یوں کہیے کہ یہ زمان ومکان کی قید سے آزاد ادارے ہیں۔ مجازی کتب خانے روایتی کتب خانوں کی بہ نسبت کم ترین قیمت پر وسیع ترین خدمات پیش کرتے ہیں۔ یہ اشاعت کے اخراجات تقسیم و ترسیل کا خرچ بچاتے ہیں اور ان کے ایک ہی نسخے سے لاکھوں افراد مستفید ہو سکتے ہیں۔
البتہ اتنی آسانی اور ارزانی کے باوجود کوئی اس زعم میں مبتلا ہے کہ یہ دور کتابوں کا نہیں بلکہ کمپیوٹر اور موبائل کا ہے تو اسے شاید سن کر (کہ پڑھنا تو اس کا نصیب ہی نہیں) حیرت ہو کہ نیشنل جیوگرافک نیٹ ورکس جیسے بین الاقوامی ادارے ٹی وی اور ویب سائٹس ہی نہیں چلاتے بلکہ ٹی وی اور ویب سائٹس پر پیش کردہ مواد کو کتابی صورت میں پیش کرنے سمیت دیگر مواد کی طباعت و اشاعت میں بھی پیش پیش ہیں، جب کہ مغربی دنیا میں نہ صرف باراک اوباما بلکہ بل گیٹس جیسے سافٹ ویئر ڈویلپر جیسی شخصیات بھی نہ صرف یہ کہ کتابیں خریدتی اور پڑھتی رہتی ہیں بلکہ کتابوں پر تحریری تبصرے بھی کرتی رہتی ہیں، اور اپنے مداح و قارئین سے مختلف کتابوں کے مطالعے کی سفارش بھی کرتی رہتی ہیں۔
وہ مسلم افراد و ادارے جو علم و فن پر کسی ایک طبقہ یا حلقہ کی اجارہ داری کے مدعی یا خواہاں ہیں اور ماضی کی سائنسی کارناموں کے حوالے دیتے رہتے ہیں، وہ بھی عام طور پر لوگوں کو مطالعے کے بجائے دنیا بھر سے مقابلہ و مبارزہ کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔
ان کو یاد ہی نہیں کہ شمشیر و سناں اور طاؤس و رباب کی بیچ میں کہیں لوح وقلم بھی وجود رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ خوشی کی بات ہے کہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایک ویڈیو پیغام میں قوم سے فرمایا ہے کہ 'پاکستان کی نوجوان نسل اور عوام کو مطالعے کی عادت اپنانی چاہیے۔ کتابوں کے مطالعے سے انسان کا نقطہ نظر وسیع ہوتا ہے اور اسے اپنے تعصبات پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ میں اپنے حاصل کیے گئے علم کو اپنی تقاریر کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں اور حالات حاضرہ اور کمپیوٹر سائنس سے متعلق کتابیں پڑھتا ہوں۔ ملک میں کتب بینی کے شوق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔''
دیکھیں ان کی کون سنتا ہے؟
اور ہمارا یہ اطمینان اس وقت اور بھی سوا ہو گیا جب انٹرنیٹ پر بھی ''پرنٹ'' کا ''اوپشن'' موجود پایا۔ اور سب سے اہم بات کہ جب آپ کمپیوٹر خریدتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اکثر کتابی صورت میں ہی اس کا کبھی مختصر تو کبھی ضخیم سا مینوئل بھی تھمادیا جاتا ہے کہ جس کی بغل میں ایک سی ڈی بھی اٹکی ہوئی ہوتی ہے وغیرہ۔ تو صاحبو! کتابوں کا زمانہ لد نہیں گیا -ہاں اب یہ ہوگیا ہے کہ آپ کتابوں کو لاد کر پھرنے کے بجائے ان کو لوڈ کر نے لگے ہیں اور کتابیں حقیقی سے مجازی ہوگئی ہیں۔
جی ہاں صاحبو! پانچ ہزار سال کی تاریخ میں کتابیں کاغذ سے ڈیجیٹل صفحات پر منتقل ہورہی ہیں۔ اس عمل میں کتب خانے بھی تغیر پذیر ہیں اور مادی عمارتوں سے مجازی کتب خانوں کو منتقل ہو رہے ہیں۔ کتابیں گذشتہ ہزاروں برس سے زیرمطالعہ ہیں۔ اور موہن جو دڑو سے دست یاب مہروں کے مدنظر ہم کہہ سکتے کہ ہم جو کہ وادی سندھ کی تہذیب سے وابستہ ہیں دنیا کے قدیم ترین مصنفین وقارئین میں سے ہیں، کہ جس خطے میں تحریر موجود تھی وہاں مطالعہ اور قارئین کیوں نہ ہوں گے؟ جہاں کپڑا بُنا جاتا تھا وہاں کتابیں اور کتب خانے کیوں کر نہ ہوں گے؟ البتہ یہ موضوع مؤرخین اور ماہرین آثارقدیمہ کی تحقیق و تصنیف کا ہے نہ کہ ہمارا سو ان کو مبارک ہو! ہمارا تحقیق و تصنیف میں کیا دخل___ سو ہم تو بس کتب و کتب خانوں کی اور مجازی کتب خانوں کی بات ہی کرتے ہیں۔
ماہرین و مؤرخین کے مطابق، سمیری دور میں میسوپوٹیمیائی خطے میں کتابیں مٹی کی تختیوں پر تحریر کی جاتی تھیں۔ ان میں ''گلگامش کی الواح'' قابل ذکر ہیں۔ مصریوں نے پاپائرس کو استعمال کرکے بیلن نما کتابیں تیار کیں، جب کہ دنیا کے کتنے ہی خطوں میں کتب جانوروں کی کھالوں پر تحریر کی گئیں۔ کھالوں یا پوست پر تحریر کیے جانے کے باعث ہی برصغیر میں کتاب نے پُستک کا نام پایا۔ اچھی بات یہ ہے کہ کتاب پڑھنے والے ''پستکی'' یا ''پوستی'' نہیں کہلائے_ یہ اور بات ہے کہ کباب خور، کتاب خواں کو پوستی ہی سمجھتے ہیں۔ یورپ میں کتابوں نے بارہویں صدی کے اواخر میں کہیں جاکر طبعی شکل اور مادی قدر و قیمت حاصل کی۔
اور اگرچہ پندرھویں صدی میں طباعت کی ایجاد سے کتابوں کی نشرواشاعت میں توسیع ہوئی اور سرعت آئی لیکن یہ انقلاب ِفرانس ہی تھا کہ جس کے بعد لائبریریوں نے فروغ عام پایا۔ مطالعہ عوام و خواص میں عام ہوا اور کتب پر چند لوگوں یا طبقوں کی اجارہ داری ختم ہونے لگی۔ یہ اور بات ہے کہ کسی دور میں جو کتابیں بادشاہوں اور علما کے قبضہ میں ہوتی تھیں ان میں سے کچھ پر ہمارے ریگل چوکی دوستوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے اور وہ کتاب کی قیمت کتاب کو دیکھ کر نہیں بلکہ خریدار کو دیکھ کر آنکتے ہیں بلکہ ہانکتے ہیں۔
1789 کا فرانسیسی انقلاب کتب بینی و اشاعت کتب سمیت زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھا۔ ایام انقلاب میں بورژوازیوں کے ذخائر میں سے لوٹی ہوئی اشیا میں کتب بھی شامل ہو تی تھیں جو کہ بعد میں بے کار اشیا کے طور پر سڑکوں پر ورق ورق بکھری پائی جاتی تھیں۔ یہ کچھ ایسا ہی منظر تھا جیسا کہ ہمارے گھروں اور گلیوں میں شاپنگ بیگ بکھرے ہوں__اس کے بعد کتابیں مراعات یافتہ طبقوں کی نجی ملکیت سے عوامی لائبریریوں کو منتقل ہوگئیں۔ اس سے قبل بڑی لائبریریاں یا تو کلیسیائی مراکز میں یا پھر شاہی محلات میں تک محدود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حکیم الحکما ابن سینا نے اپنے دور کے بادشاہ کا کام یاب علاج کیا تو معاوضے کے طور صرف شاہی لائبریری سے استفادے کی اجازت مانگی۔
یاد رہے کہ دنیا کی اولین عوامی لائبریریاں سترھویں صدی کے اوائلی سالوں میں آکسفرڈ یونیورسٹی اور میلان شہر میں قائم کی گئیں اور پھر دنیا بھر میں لائبریریوں کا قیا م عمل میں آنے لگا - جب کہ اس سے پہلے مختلف نجی لائبریریوں میں ہزاروں کتب اور دستاویزات کے ساتھ ساتھ قیمتی تحریری تاریخی شاہ کار، عوام کی دسترس سے پرے خوب صورت اور رنگیں عمارتوں میں الماریوں مقید تھے اور خوراک کرم و خاک بن جاتے تھے۔ گذشتہ چند صدیوں کے دوران میں جہاں کتب کی ہیئت میں تبدیلی آئی ہے وہیں لائبریریوں کی صورت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
جب ہم لائبریری کے بارے میں بات کرتے ہیں تو عموماً ایک ایسی عوامی جگہ کا تصور کرتے ہیں کہ جہاں الماریوں میں کتب چنی ہوئی ہوتی ہیں۔ مطالعے کے شیدائی وہاں جاکر اپنی پسندیدہ کتب جاری کرواتے ہیں اور مقررہ مدت تک اس کا مطالعہ کرنے کہ بعد یہ کتب لائبریری کو واپس کردی جاتی ہیں تاکہ دوسروں کو بھی ان کتب سے استفادے کا موقع مل سکے۔ موجودہ دور میں کتب خانہ کتابوں کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ معلومات کو دستاویزات، ریکارڈ، کتب، وصوتی و صوری مواد کے طور پر محفوظ کرنے کا عوامی مرکز ہے جو کہ بوقت ضرورت یہ مواد ضرورت مندوں کو فراہم کر سکتا ہے۔
چوںکہ اپنی ابتدا میں اس قسم کا مواد تحریری و کتابی صورت میں ہوا کرتا تھا اس لیے ہی ان کی ذخیرہ گاہوں کا نام لائبریری رکھا گیا۔ یہ لفظ اصلاً یونانی لفظ بائبلیوتھیک سے مشتق ہے، جس کا مطلب کتابوں کا مجموعہ یا ذخیرہ ہے۔ بنی پال اور اسکندریہ کی آشوری لائبریریاں قدیم دور کی مشہور لائبریریوں میں سے تھیں۔
لائبریریوں نے وقت کے ساتھ ساتھ فروغ پایا ہے اور آج دنیا میں بہت سے ادارے ہیں کہ جن کی اپنی اپنی لائبریریاں ہیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں ذاتی و عوامی کتب خانوں میں بھی گذشتہ برسوں کی نسبت اچھا خاص اضافہ ہوا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پاکستان اور مسلم دنیا ''اقرا'' کے حکم کے باوجود مطالعے سے پرے ہے۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو مطالعے کی عادت والے ملکوں میں پہلے تیس نمبروں میں بھی یہ کہیں بھی نظر نہیں آتا اور بھارت اس فہرست میں سرفہرست بلکہ اول درجہ پر ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب اس فہرست میں دسویں نمبر پر ہے، جب کہ دیگر مسلم ممالک میں عام طور پر عرب حضرات اوسطاً 6 منٹ سالانہ ہی مطالعہ فرماتے ہے جب کہ ایک یورپی سالانہ اوسطاً 200 گھنٹے پڑتا ہے۔
مطالعہ میں ترکی کا نمبر 19 ہے، جب کہ ایران میں بھی مطالعہ کا شوق کافی حد تک ہے۔ دنیا میں جہاں انسان مطالعے کی عادی نہیں ہیں وہاں بے خبری اور جہالت عام ہے۔ جہاں اشاعت کتب اور مطالعہ کتب باخبری اور علم و دانش کا سبب ہے۔ وہیں کتابوں کی نشرواشاعت میں کمی اور مطالعے سے اجتناب علم و بصیرت سے محرومی ہی کا نہیں بلکہ سیاسی اور اقتصادی ترقی سے محرومی اور تنزلی کا باعث بھی ہیں اور تہذیبی اور ثقافتی پس ماندگی بھی ایسی قوموں کا مقدر ہے۔
ایک دور وہ تھا کہ جب لوگ گایوں بکریوں یا دیگر جانوروں کی کھالوں یا پھر پاپائرس پر کتابیں لکھتے تھے۔ پھر کاغذی کتب کا دور آیا تو بھی بڑی مقدار میں کاغذ کا استعمال ہوتا رہا جو آج بھی بڑی حد تک جاری ہے، جب کہ آج ہی کے دور میں ایک برقی کتاب میں سیکڑوں اور ہزاروں صفحات بہ آسانی سما جاتے ہیں۔ اس رجحان میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ مجازی یا برقی کتب خانہ (ڈیجیٹل لائبریری) ایک جدید اصطلاح ہے جو کہ چند دہائیوں سے زیادہ پرانی نہیں۔ اس سے مراد ایسی لائبریری یا معلومات کا ذخیرہ ہے جو کہ روایتی لائبریری کی طرح کسی مخصوص عمارت یا خاص مقام پر الماریوں میں بند نہیں بلکہ کمپیوٹر کے مجازی حافظے میں درجہ بند اور پیش کی جاتی ہیں۔
ڈیجیٹل لائبریری کی اصطلاح 1960 کی دہائی کے اواخر میں زبان زد ہوئی (زباں زد عام نہیں)۔ کمپیوٹر سائنس دانوں نے اسے مستقبل کی لائبریری قرار دیا اور انہوں نے اسے برقی کتب خانہ یا مجازی کتب خانہ جیسے مختلف ناموں سے پکارا۔ 1990 کی دہائی میں دنیا بھر کے سائنسی اور تعلیمی اداروں نے معلومات کے حصول میں اضافے وسرعت کے لیے ڈیجیٹل لائبریریاں قائم کیں۔ یہ وہ دور تھا جب کمپیوٹر کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا اور انٹرنیٹ تک رسائی بھی عام ہوتی گئی۔ یہی سبب تھا کہ عوامی لائبریریوں نے اس قسم کی سہولیات فراہم کیں اور ان میں اضافہ کیا۔ اسی عمل کے سبب ان مراکز میں دست یاب کتابوں کے استعمال، ان کی تلاش یا کچھ دستاویزات ریکارڈ اور دیگر معلومات کو کمپیوٹر اور بعدازآں انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلانے کا نظام قائم کیا گیا۔
بہ الفاظ دیگر ڈیجیٹل لائبریریوں کے قیام کے ابتدائی اقدامات انٹرنیٹ پر شروع کیے گئے۔ مجازی لائبریریوں نے اپنے طریقۂ کار میں روایتی لائبریریوں کا انداز اختیار کیا ہے اور کتابوں کو بہ لحاظِ موضوع، عنوان اور مولف درجہ بند کیا گیا ہے۔ اس قسم کی عوامی لائبریریوں میں کہ جہاں وہ واقع ہیں وہاں صارف اپنے پاس ورڈ کی مدد سے رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ مجازی کتب خانوں میں برقی کتب سمیت روایتی کتب خانوں کے بہت سارے شاہ کار موجود ہیں۔ کوئی بھی ان کی نقول بنا سکتا ہے۔
مجازی کتب خانوں میں موجود مواد کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مجازی کتب خانے میں کئی قسم کی سہولیات دست یاب ہو سکتی ہیں۔ اس کا انحصار کتب خانے پر ہے۔ کسی بھی مجازی کتب خانے پر موجود مواد کو کمپیوٹر کی مانیٹر پر پڑھا یا دیکھا سنا جا سکتا ہے، اس کی نقل ممکن ہوسکتی ہے اور قابل اشاعت مواد کا پرنٹ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ممکنہ طور پر ایسا تمام مواد ذاتی کمپیوٹر پر بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔
مواصلات کے میدان میں انٹرنیٹ کا استعمال وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ نے اس سلسلے میں ایک نئی صورت حال پیدا کردی ہے اور معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ بغیر کسی کی وساطت کے شائقین کی دسترس میں ہے۔
انٹرنیٹ پر کتب خانوں کے ذریعے فراہم کردہ خدمات کا انحصار اس ادارے کی صوابدید پر ہے جو کہ اس کا منتظم ہے۔ بڑے بڑے کتب خانے معمولی سی فیس کے عوض آرکائیوز میں سے درخواست دہندہ کو مطلوبہ دستاویز یا ریکارڈ کے مواد کی کاپی فراہم کر سکتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ ادارے معمولی معاوضے پر خواست گاروں کی وسیع پیمانے پر خدمات فراہم کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس لیے کئی مجازی کتب خانے اس مقصد کے لیے بڑی مقدار میں اس قسم کا مواد و معطیات اکٹھا کر رہے ہیں۔
کچھ کتب خانے ممبرشپ فیس کے عوض شائقین کو اپنی سائٹ کی سہولیات بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ کئی مشہور و معروف کتب خانے عالمی سطح پر باہم منسلک ہیں اور مشترکہ نیٹ ورک کے ذریعے درخواست دہندگان کو وسیع پیمانے پر سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
انفارمیشن مینیجمینٹ نے ایک خاص تنظیم کو تشکیل دیا ہے جس میں آن لائن صحافت ایک نئی قسم کی صحافت کی طور متعارف ہوئی ہے۔ مجاز ی کتب خانہ ایک انقلابی قدم ہے جس نے کہ معلومات تک رسائی کو تیزتر اور آسان تر بنا دیا ہے اور یہ عمل سال بہ سال بہتر ی کی طر ف مائل ہے۔ عہدحاضر میں مجازی کتب خانوں کی ترقی کے جدید معیارات سامنے آئے ہیں اور اس شعبے میں مختلف اداروں میں عوامی توجہ کے لیے مسابقت جاری ہو چکی ہے۔ یہ معیارات معلومات اور اعدادوشمار تک لوگوں کی آسان رسائی سمیت کتنے ہی شعبوں پر کام کر رہے ہیں اور ان کو وسعت دے رہے ہیں۔ جدید ترین مقبول پروگراموں کے ساتھ نئے الفاظ واصطلاحات بھی مقبول ہو چکی ہیں۔
مجازی کتب خانے حدبندیوں اور سرحدوں کو پار کر رہے ہیں، سنسرشپ سے نجات پا رہے ہیں اور معلومات کو مقبول عام اور عوامی اور سب کے لیے قابل رسائی بنا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے روایتی کتب خانوں کی تمام خصوصیات کو بھی برقرار رکھا ہے، جب کہ اپنی وسیع تر سہولیات، کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ پر تیزرفتار رسائی کے باعث یہ روایتی کتب خانوں سے برتر ثابت ہو رہے ہیں۔
مجازی کتب خانوں کا عملہ مختصر ہے، تھوڑے سے ماہرین لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو عمدہ سہولیات فراہم کر پارہے ہیں۔ یہی لوگ مواد کی فراہمی اور بازیابی کا اہتمام کرتے ہیں، کتب خانے کی ذخیروں کو چلانے اور تقسیم کرنے ترسیل کرنے کی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی جیسے امور کے بھی ضامن ہیں۔
مجازی کتب خانے محض تحریری کتب تک محدود نہیں بلکہ ان میں بڑی مقدار میں صوتی وصوری مواد بھی دست یاب ہوتا ہے۔ ان میں تصویریں، گیت اور فلمیں شامل ہیں۔ ان کتب خانوں میں معلومات اور معطیات کی مسلسل اور سرعت سے تجدید کی جاتی ہے اور نئی معلومات پرانی ڈیٹا کی جگہ لے لیتی ہے۔ ان مراکز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کوئی بھی کہیں سے بھی او ر کسی بھی وقت بذریعہ کمپیوٹر و موبائل فون ان مراکز سے رابطہ کر سکتا ہے۔ گھر بیٹھے سیکڑوں کتب خانوں سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے اور رسائی رابطے میں رہ سکتا ہے۔
مجازی کتب خانے اس معنوں میں ماحول دوست بھی ہیں کہ ان کی وجہ سے کاغذ کا زیاں نہیں ہوتا اور یوں ہر برس لاکھوں درخت کٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ مجازی طباعت کاغذ کی کھپت کو کم کرتی ہے اور اس طرح ماحول کی حفاظت میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
مجازی کتب خانے کے کوئی بھی اوقات کار نہ ہوتے ہوئے یہ ہروقت قابل استعمال ہیں۔ یوں کہیے کہ یہ زمان ومکان کی قید سے آزاد ادارے ہیں۔ مجازی کتب خانے روایتی کتب خانوں کی بہ نسبت کم ترین قیمت پر وسیع ترین خدمات پیش کرتے ہیں۔ یہ اشاعت کے اخراجات تقسیم و ترسیل کا خرچ بچاتے ہیں اور ان کے ایک ہی نسخے سے لاکھوں افراد مستفید ہو سکتے ہیں۔
البتہ اتنی آسانی اور ارزانی کے باوجود کوئی اس زعم میں مبتلا ہے کہ یہ دور کتابوں کا نہیں بلکہ کمپیوٹر اور موبائل کا ہے تو اسے شاید سن کر (کہ پڑھنا تو اس کا نصیب ہی نہیں) حیرت ہو کہ نیشنل جیوگرافک نیٹ ورکس جیسے بین الاقوامی ادارے ٹی وی اور ویب سائٹس ہی نہیں چلاتے بلکہ ٹی وی اور ویب سائٹس پر پیش کردہ مواد کو کتابی صورت میں پیش کرنے سمیت دیگر مواد کی طباعت و اشاعت میں بھی پیش پیش ہیں، جب کہ مغربی دنیا میں نہ صرف باراک اوباما بلکہ بل گیٹس جیسے سافٹ ویئر ڈویلپر جیسی شخصیات بھی نہ صرف یہ کہ کتابیں خریدتی اور پڑھتی رہتی ہیں بلکہ کتابوں پر تحریری تبصرے بھی کرتی رہتی ہیں، اور اپنے مداح و قارئین سے مختلف کتابوں کے مطالعے کی سفارش بھی کرتی رہتی ہیں۔
وہ مسلم افراد و ادارے جو علم و فن پر کسی ایک طبقہ یا حلقہ کی اجارہ داری کے مدعی یا خواہاں ہیں اور ماضی کی سائنسی کارناموں کے حوالے دیتے رہتے ہیں، وہ بھی عام طور پر لوگوں کو مطالعے کے بجائے دنیا بھر سے مقابلہ و مبارزہ کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔
ان کو یاد ہی نہیں کہ شمشیر و سناں اور طاؤس و رباب کی بیچ میں کہیں لوح وقلم بھی وجود رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ خوشی کی بات ہے کہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایک ویڈیو پیغام میں قوم سے فرمایا ہے کہ 'پاکستان کی نوجوان نسل اور عوام کو مطالعے کی عادت اپنانی چاہیے۔ کتابوں کے مطالعے سے انسان کا نقطہ نظر وسیع ہوتا ہے اور اسے اپنے تعصبات پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ میں اپنے حاصل کیے گئے علم کو اپنی تقاریر کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں اور حالات حاضرہ اور کمپیوٹر سائنس سے متعلق کتابیں پڑھتا ہوں۔ ملک میں کتب بینی کے شوق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔''
دیکھیں ان کی کون سنتا ہے؟