کچرے سے بنا دنیا کا پہلا منفرد اسکول
ایک نوجوان کی جہدِمسلسل اور نیک سوچ نے اسے دنیا کا سب سے منفرد بانی بنا دیا۔
آپ نے اکثر ایسی مثالوں کے بارے میں سن رکھا ہوگا جو سننے میں جتنی عجیب اور دلچسپ لگتی ہیں کرنے میں اسی قدر ناممکن لگتی ہیں مگر کچھ لوگ ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔
ہم میں سے بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی غلط رویے یا پھر عمل کو دیکھ کر برملا خفگی کا اظہار کرتے ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ دل میں کڑھ لیتے ہیں جبکہ اکثریت اسے نظر انداز کردیتی ہے، مگر کچھ لوگوں کے لئے اس میں ایک آئیڈیا یا تحریک چھپی ہوتی ہے۔آپ نے کبھی نہ کبھی کسی سیاحتی مقام کا دورہ تو ضرور کیا ہوگا اور اس افسوسناک صورتِ حال پہ آپ کا دل بھی دکھا ہوگا کے یہاں کس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں نے کچرا اور گندگی پھیلا رکھی ہے۔
پلاسٹک کی بوتلیں ، شاپر، ٹینز اور ڈسپوزیبل اشیاء کے پیکیٹس کی بھر مار جس قدر ٹورسٹ سپاٹس(سیاحتی مقامات) پر نظر آتی ہے شاید ہی کہیں ااور نظر آتی ہو۔ اس میں جہاں انتظامی غفلت کا عنصر نمایاں ہے انہیں ایک تاریک پہلوعوام کی لاپرواہی اور بے حسی بھی ہے۔ یہ وہ سوک سینس ہے جس کی موجودگی مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کو تشکیل دیتی ہے۔
ترقی یافتہ سے مرادیہاں ٹیکنالوجی سے لیس معاشرے نہیں بلکہ عوامی شعور اور تہذیب و تمدن کے عکاس معاشرے ہیں۔شعور کا تعلق انسان کی سوچ سے ہوتا ہے کوئی انسان کس قدر اعلیٰ سوچ رکھتا ہے ، یہ اس ملک کی ترقی و خوشحالی میں معاونت فراہم کرنے والا اہم عنصر ہوتا ہے۔اکثر حساس لوگ ایسے ماحول میں جنم لیتے ہیں جہاں زندگی صعوبتوں سے پُر ہوتی ہے۔اوک وینڈے ایک ایسے باہمت نوجوان ہیں جنہوں نے ایک انوکھا کارنامہ کر دیکھایا۔آئیں آپ کو ان کی دلچسپ کہانی سناتے ہیں۔
یہ ایک عام سی شام تھی۔ وینڈے پہاڑی پہ موجودکیریرم نیشنل پارک میں(ایک سیاحتی مقام پر) گئے اور وہاں یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کے پودوں، درختوں اور پھولوں کے بجائے وہاں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے تھے۔اور تکلیف دہ منظر یہ تھا کے معصوم بچے سکول جانے کے بجائے وہاں چھوٹی چھوٹی اشیاء بیچ رہے تھے۔
وینڈے اس سب کے پس منظر سے آگاہ تھے۔ اس منظر نے وینڈے کے حساس دل کو شدید رنج میں مبتلا کیا اور ایک منفرد سوچ نے جنم لیاجس کا محرک ماحول دوستی اور معاشرتی فلاح کا جزبہ تھا ۔ وینڈے نے اس کچرے کی مدد سے ایک سکول بنانے کا سوچاجہاں غریب بچوں کو انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم دی جائے۔۔ جی ہاں کچرے سے سکول! یقیناً اس بات کو سن کر کوئی بھی یہی کہے گا کے شاید یہ شخص پاگل ہے اور لوگوں کا ایسا رویہ دیکھنے کو بھی ملا مگر وینڈے ارادہ باندھ چکے تھے۔وینڈے کا تعلق اس وقت دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہونیوالے ملک کمبوڈیا سے ہے۔
اس خیال کے ابھرنے سے پہلے تک وہ ایک ہوٹل میں بطورِ مینجر کام کرتے تھے۔ ایک ایسے پہاڑ پر سکول بنانے کا خواب دیکھنا جہاں نہ بجلی موجود تھی، نہ پانی اور لاکھوں کی تعداد میں سانپ بھی موجود ہوں تو اچھے اچھوں کے قدم ڈگمگا جاتے مگر وینڈے اپنے آئیڈیا کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے پُر عزم تھے۔ وینڈے نے اپنی نوکری چھوڑ دی اور اس جدوجہد میں لگ گئے۔پہلے پہل وینڈے نے وہاں سے خود کچرا چننا شروع کیا جس میں پلاسٹک کی بوتلیں، کاروں کے پرانے ٹائیر، پلاسٹک کے کین، بوتلوں کے ڈھکن اور بہت سی اشیاء جنہیں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا تھا۔
پھر اس ضمن میں وینڈے نے مقامی بچوں کی مدد لی اور کچرا اکٹھا کیا۔ وہ مثال اس سب صورتِ حال پر بیٹھتی ہے کے قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ چار برس کی انتھک محنت اور لگن کے بعد وینڈے دنیا کے پہلے کچرے سے بنے سکول کے بانی بن گئے۔اپنی لگن، انتھک محنت اور عزم کو سچ کر دکھانے کے حوالے سے وینڈے کا کہنا ہے کے تعلیم زندگیاں بدل سکتی ہے اور اس سکول کو بنانے کا جو موٹو ہم نے رکھا وہ "Trash to Tuition" ہے تاکہ کمبوڈیا کے ہر گاؤں میں بسنے والے بچے کو مفت تعلیم کی سہولت مل سکے۔
اس ضمن میں ہم بین الاقوامی اور مقامی سطح پر رضاکارانہ طور پر بچوں کو انگریزی، کمپیوٹر سکلز اور ری سائیکلنگ کی تعلیم دینے والوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے آخر کچرے سے بنا سکول کیسا ہوگا اور اس میں انتظام کیسے چلتا ہوگا؟ سکول دو عمارتوں پر مشتمل ہے ایک حصہ کی دیواریںتو کار ٹائروں سے بنی ہیں جنہیں رسیوں کی مدد سے جوڑا گیا ہے، اس جگہ کو انگلش کلاس روم کا نام دیا گیا ہے۔
جبکہ دوسری عمارت جہاں لائبریری اور کمپیوٹر ہیں اس کے ستون اور چھتیں بھاری میٹریل سے تیار کی گئی ہیں تاکہ موسم کے سردوگرم اثرات سے محفوظ رہا جا سکے۔ انگلش کلاس روم کی پینٹ شدہ رنگین ٹائروںاور رسی کی مدد سے بنی ہوئی دیواریں جہاں سب کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں ونہیںمنفرد تخلیق کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔ جبکہ لائبریری اور کمپیوٹر کلاس جسے "Rabbish House"کا نام دیا گیا ہے اس کی دیواریں شراب کی ہری خالی بوتلوں سے تیار کی گئی ہیں۔اس کا فرش بھی انتہائی منفرد ہے۔ یہاں 200بچے زیرِ تعلیم ہیں اور 5رضاکارنہ طور پر خدمات پیش کرنے والے اساتذہ ہیں۔
اس سکول کو بنانے کے مقاصد میں سے ایک ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنا اور ماحول دوست فضا پیدا کرنا تھا۔ ہمارے ملک میں ایسے کئی نوجوان ہیں جو اپنے ملک اور ماحول کے لئے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے عملی اقدامات کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو ایسے نوجوانوں کے لئے وینڈے اور کوکونٹ سکول ایک عزم کی نشانی ہیں اور ایک ایسی مثال ہیں جو نا قابل تسخیر کو قابل تسخیر بنا دے۔ انسان کا عزم یقین اورولولہ اسے آگے بڑھنے کی ہمت بخشتا ہے۔
انوکھا سکول انوکھے اصول
ایک سکول جو کچرے سے بنا ہو یقیناً بہت دلچسپ تخلیق ہے مگر اس سکول کے اڈول بھی اتنے ہی دلچسپ اور انوکھے ہیں۔ آپ نے سکولوں کو فیسیوں کی مد میں بھاری رقم لیتے تو دیکھا ہوگا ، مگر شاید ہی کسی سکول کو فیس کی صورت کچرا مانگتے دیکھا ہو۔ جی ہاں کوکونٹ سکول میں پڑھنے والے تمام بچے فیس کے طور پر کوڑا دیتے ہیں۔
ابتدائی طور پر یہاں ناریل کے درخت کے تنوں کو کرسی اور میز کے طور پر استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے اس سکول کا نام کوکونٹ سکول رکھا گیا۔ یہاں جو بھی سامان استعمال ہوتا ہے وہ کچرے سے بنا ہے جیسے کے بچوں کو اپنی کتابیں رکھنے کے لئے جو کیبن فراہم کئے گئے ہیں وہ پلاسٹک کے کین سے بنے ہیں۔اس کے علاوہ کچرے کی مدد سے جھنڈا اور دیگر ڈیکوریشن کی اشیاء تیار کر رکھی ہیں جن کی انھیں باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔
ہم میں سے بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی غلط رویے یا پھر عمل کو دیکھ کر برملا خفگی کا اظہار کرتے ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ دل میں کڑھ لیتے ہیں جبکہ اکثریت اسے نظر انداز کردیتی ہے، مگر کچھ لوگوں کے لئے اس میں ایک آئیڈیا یا تحریک چھپی ہوتی ہے۔آپ نے کبھی نہ کبھی کسی سیاحتی مقام کا دورہ تو ضرور کیا ہوگا اور اس افسوسناک صورتِ حال پہ آپ کا دل بھی دکھا ہوگا کے یہاں کس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں نے کچرا اور گندگی پھیلا رکھی ہے۔
پلاسٹک کی بوتلیں ، شاپر، ٹینز اور ڈسپوزیبل اشیاء کے پیکیٹس کی بھر مار جس قدر ٹورسٹ سپاٹس(سیاحتی مقامات) پر نظر آتی ہے شاید ہی کہیں ااور نظر آتی ہو۔ اس میں جہاں انتظامی غفلت کا عنصر نمایاں ہے انہیں ایک تاریک پہلوعوام کی لاپرواہی اور بے حسی بھی ہے۔ یہ وہ سوک سینس ہے جس کی موجودگی مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کو تشکیل دیتی ہے۔
ترقی یافتہ سے مرادیہاں ٹیکنالوجی سے لیس معاشرے نہیں بلکہ عوامی شعور اور تہذیب و تمدن کے عکاس معاشرے ہیں۔شعور کا تعلق انسان کی سوچ سے ہوتا ہے کوئی انسان کس قدر اعلیٰ سوچ رکھتا ہے ، یہ اس ملک کی ترقی و خوشحالی میں معاونت فراہم کرنے والا اہم عنصر ہوتا ہے۔اکثر حساس لوگ ایسے ماحول میں جنم لیتے ہیں جہاں زندگی صعوبتوں سے پُر ہوتی ہے۔اوک وینڈے ایک ایسے باہمت نوجوان ہیں جنہوں نے ایک انوکھا کارنامہ کر دیکھایا۔آئیں آپ کو ان کی دلچسپ کہانی سناتے ہیں۔
یہ ایک عام سی شام تھی۔ وینڈے پہاڑی پہ موجودکیریرم نیشنل پارک میں(ایک سیاحتی مقام پر) گئے اور وہاں یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کے پودوں، درختوں اور پھولوں کے بجائے وہاں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے تھے۔اور تکلیف دہ منظر یہ تھا کے معصوم بچے سکول جانے کے بجائے وہاں چھوٹی چھوٹی اشیاء بیچ رہے تھے۔
وینڈے اس سب کے پس منظر سے آگاہ تھے۔ اس منظر نے وینڈے کے حساس دل کو شدید رنج میں مبتلا کیا اور ایک منفرد سوچ نے جنم لیاجس کا محرک ماحول دوستی اور معاشرتی فلاح کا جزبہ تھا ۔ وینڈے نے اس کچرے کی مدد سے ایک سکول بنانے کا سوچاجہاں غریب بچوں کو انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم دی جائے۔۔ جی ہاں کچرے سے سکول! یقیناً اس بات کو سن کر کوئی بھی یہی کہے گا کے شاید یہ شخص پاگل ہے اور لوگوں کا ایسا رویہ دیکھنے کو بھی ملا مگر وینڈے ارادہ باندھ چکے تھے۔وینڈے کا تعلق اس وقت دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہونیوالے ملک کمبوڈیا سے ہے۔
اس خیال کے ابھرنے سے پہلے تک وہ ایک ہوٹل میں بطورِ مینجر کام کرتے تھے۔ ایک ایسے پہاڑ پر سکول بنانے کا خواب دیکھنا جہاں نہ بجلی موجود تھی، نہ پانی اور لاکھوں کی تعداد میں سانپ بھی موجود ہوں تو اچھے اچھوں کے قدم ڈگمگا جاتے مگر وینڈے اپنے آئیڈیا کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے پُر عزم تھے۔ وینڈے نے اپنی نوکری چھوڑ دی اور اس جدوجہد میں لگ گئے۔پہلے پہل وینڈے نے وہاں سے خود کچرا چننا شروع کیا جس میں پلاسٹک کی بوتلیں، کاروں کے پرانے ٹائیر، پلاسٹک کے کین، بوتلوں کے ڈھکن اور بہت سی اشیاء جنہیں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا تھا۔
پھر اس ضمن میں وینڈے نے مقامی بچوں کی مدد لی اور کچرا اکٹھا کیا۔ وہ مثال اس سب صورتِ حال پر بیٹھتی ہے کے قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ چار برس کی انتھک محنت اور لگن کے بعد وینڈے دنیا کے پہلے کچرے سے بنے سکول کے بانی بن گئے۔اپنی لگن، انتھک محنت اور عزم کو سچ کر دکھانے کے حوالے سے وینڈے کا کہنا ہے کے تعلیم زندگیاں بدل سکتی ہے اور اس سکول کو بنانے کا جو موٹو ہم نے رکھا وہ "Trash to Tuition" ہے تاکہ کمبوڈیا کے ہر گاؤں میں بسنے والے بچے کو مفت تعلیم کی سہولت مل سکے۔
اس ضمن میں ہم بین الاقوامی اور مقامی سطح پر رضاکارانہ طور پر بچوں کو انگریزی، کمپیوٹر سکلز اور ری سائیکلنگ کی تعلیم دینے والوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے آخر کچرے سے بنا سکول کیسا ہوگا اور اس میں انتظام کیسے چلتا ہوگا؟ سکول دو عمارتوں پر مشتمل ہے ایک حصہ کی دیواریںتو کار ٹائروں سے بنی ہیں جنہیں رسیوں کی مدد سے جوڑا گیا ہے، اس جگہ کو انگلش کلاس روم کا نام دیا گیا ہے۔
جبکہ دوسری عمارت جہاں لائبریری اور کمپیوٹر ہیں اس کے ستون اور چھتیں بھاری میٹریل سے تیار کی گئی ہیں تاکہ موسم کے سردوگرم اثرات سے محفوظ رہا جا سکے۔ انگلش کلاس روم کی پینٹ شدہ رنگین ٹائروںاور رسی کی مدد سے بنی ہوئی دیواریں جہاں سب کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں ونہیںمنفرد تخلیق کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔ جبکہ لائبریری اور کمپیوٹر کلاس جسے "Rabbish House"کا نام دیا گیا ہے اس کی دیواریں شراب کی ہری خالی بوتلوں سے تیار کی گئی ہیں۔اس کا فرش بھی انتہائی منفرد ہے۔ یہاں 200بچے زیرِ تعلیم ہیں اور 5رضاکارنہ طور پر خدمات پیش کرنے والے اساتذہ ہیں۔
اس سکول کو بنانے کے مقاصد میں سے ایک ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنا اور ماحول دوست فضا پیدا کرنا تھا۔ ہمارے ملک میں ایسے کئی نوجوان ہیں جو اپنے ملک اور ماحول کے لئے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے عملی اقدامات کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو ایسے نوجوانوں کے لئے وینڈے اور کوکونٹ سکول ایک عزم کی نشانی ہیں اور ایک ایسی مثال ہیں جو نا قابل تسخیر کو قابل تسخیر بنا دے۔ انسان کا عزم یقین اورولولہ اسے آگے بڑھنے کی ہمت بخشتا ہے۔
انوکھا سکول انوکھے اصول
ایک سکول جو کچرے سے بنا ہو یقیناً بہت دلچسپ تخلیق ہے مگر اس سکول کے اڈول بھی اتنے ہی دلچسپ اور انوکھے ہیں۔ آپ نے سکولوں کو فیسیوں کی مد میں بھاری رقم لیتے تو دیکھا ہوگا ، مگر شاید ہی کسی سکول کو فیس کی صورت کچرا مانگتے دیکھا ہو۔ جی ہاں کوکونٹ سکول میں پڑھنے والے تمام بچے فیس کے طور پر کوڑا دیتے ہیں۔
ابتدائی طور پر یہاں ناریل کے درخت کے تنوں کو کرسی اور میز کے طور پر استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے اس سکول کا نام کوکونٹ سکول رکھا گیا۔ یہاں جو بھی سامان استعمال ہوتا ہے وہ کچرے سے بنا ہے جیسے کے بچوں کو اپنی کتابیں رکھنے کے لئے جو کیبن فراہم کئے گئے ہیں وہ پلاسٹک کے کین سے بنے ہیں۔اس کے علاوہ کچرے کی مدد سے جھنڈا اور دیگر ڈیکوریشن کی اشیاء تیار کر رکھی ہیں جن کی انھیں باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔