پرسکون نیند کیسے ممکن ہے
اچھی نیند پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کی بنیاد ہے۔
فون کی گھنٹی مسلسل بجتی رہی مگر خالد کو پتہ ہی نہیں چلا۔ معلوم تب ہوتا اگروہ جاگ رہا ہوتا، مگر وہ تو ڈیوٹی کے دوران ہی کرسی کی پشت پر سر ٹکائے سو رہا تھا۔ ساتھ بیٹھے عمران نے ہلکے سے انداز میں اس کا کندھا ہلایا تو اس نے آنکھ کھولی اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
''آپ کا فون بج رہا ہے۔'' عمران نے مطلع کیا۔ ''اوہو!!''خالد نے جلدی سے فون اٹھایا۔ دیکھا تو باس کا فون تھا۔ خالد جلدی سے ضروری فائلز اٹھاکر اُن کے دفتر گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔''کیا ہوا بھائی،کیوں پریشان ہو؟''
عمران نے پوچھا۔''یار! ایک اسائنمنٹ ملی تھی مجھے، آج اس کا آخری دِن تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ آج اس کو مکمل کرلوں گا مگر صبح سے میری آنکھ ہی نہیں کھل رہی۔ دو دفعہ کام کرتے کرتے آنکھ لگ گئی، اس کی وجہ سے باس ناراض ہوگئے اور وارننگ دے دی۔'' خالد نے تفصیل بتائی۔ ''تو کیا رات کو سوئے نہیں؟'' عمران نے پوچھا۔ ''سویا تھا لیکن دیر سے، پھر رات کو آنکھ کھلی اور صبح تک نیند ہی نہیں آئی۔'' خالد نے دوبارہ وضاحت کی۔
اگلے دِن جب خالد آفس آیا تو آدھا گھنٹہ لیٹ تھا اور گزشتہ کل کی طرح آج بھی اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ عمران نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر اس کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ لنچ بریک میں عمران، خالد کو لے کر کینٹین آیا۔ کھانے کا آرڈر دینے کے بعد عمران بولا: ''خالد بھائی!مجھے لگ رہا ہے کہ آج کل آپ کی نیند پوری نہیں ہو رہی اور اس کی وجہ سے آپ کے آفیشلی کام بھی کافی ڈسٹرب ہو رہے ہیں؟'' خالد نے کچھ دیر سوچا، پھر ندامت سے بولا: ''ایسا ہی ہے۔'' ''مگر یہ تو بڑی خطرناک بات ہے۔''عمران بولا۔''دِن بھر کے کام مکمل کرنے کے لیے پوری نیند لینا بہت ضروری ہے۔
اگر نیند پوری نہ ہو تو پھر انسان کا دماغ بھی کام نہیں کرتا۔ کاموں پر فوکس نہیں رہتا اور کارکردگی خراب ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ذہنی دبائو کا امکان بڑھ جاتا ہے اور انسان ڈیپریشن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔'' عمران نے پوری تفصیل سمجھائی اور پھر اپنا بیگ کھول کر ایک نفیس کتاب نکالی اور خالد کو دِکھاتے ہوئے بولا:''میں نے کچھ عرصہ پہلے یہ کتاب پڑھی تھی جس کا نام تھا :Sleep Smarter ۔ یہ شان اسٹیونسن نے 'پرسکون نیند'کے موضوع پر لکھی ہے۔ بڑی شاندار کتاب ہے۔کتاب میں آپ کو دیتا ہوں، آپ تفصیل سے پڑھ لینا، فی الحال میں اہم چیزیں آپ کو بتاتا ہوں ، آپ جلد از جلد ان کو اپنی زندگی میں لائیں اور یہ جو حالات آپ کے چل رہے ہیں ، انہیں ختم کریں۔''
ہمارے جسم میں موجود اینابولک پراسس انرجی بنانے کا کام کرتا ہے۔ جب ہم بھرپور نیند میں ہوتے ہیں تو ہمارا جسم اس نظام کے تحت خود کو ''درست'' کرنے میں لگا ہوتا ہے۔ جاگتے رہنے کے پراسس کو''کیٹابولک''کہا جاتا ہے جس میں ہمارا جسم انرجی کا اخراج کر رہا ہوتا ہے۔ اس تیز رفتار دور میں ہمارا یہ گمان ہے کہ جو جس قدر زیادہ جاگ کر کام کرے، وہی کامیاب ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جو لوگ بھرپور نیند نہیں لیتے انہیں اپنا کام مکمل کرنے میں دوسروں کی نسبت 14فیصد زیادہ وقت لگتا ہے اور وہ دوسروں کی نسبت 20 فیصد زیادہ غلطیاں بھی کرتے ہیں۔
مصنف اس کتاب میں مزید اہم نکات بھی بتاتا ہے:
سورج کی ابتدائی کرنوں سے مستفید ہونا
مصنف بتاتا ہے کہ معیاری نیند کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ صبح سویرے اٹھ سکیں یعنی جب سورج طلوع ہونے والا ہو۔ صحت و تندرستی کے لیے جسم کا زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی میں رہنا ضروری ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب آپ صبح سویرے اٹھ کر سورج کے سامنے جائیں۔
دیر سے اٹھنے سے دھوپ تیز ہوجاتی ہے جس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ بہ قدر ضرورت دھوپ لینے سے دن کے مخصوص ہارمون جنھیں ڈے ٹائم ہارمون کہا جاتا ہے جسم کو صحت مند رکھنے میں باقاعدہ معاون ہوتے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ دفتر میں کام کرنے والے لوگوں کو دھوپ نہ لگنے کی وجہ سے انہیں ایک گھنٹہ تاخیر سے نیند آتی ہے۔ ہمارا طرز ِحیات ایسا ہے کہ دن کے زیادہ تر اوقات میں مصنوعی روشنی استعمال کی جاتی ہے اور رات گئے تک ہم اس کے حصار میں رہتے ہیں۔ بلب ہوں یا انرجی سیورز، ان کی مصنوعی روشنی گہرے منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
سونے سے پہلے اسکرین ٹائم سے بچنا
جب ہم کسی تنائو میں ہوں توکارٹیسول ہارمون ہمیں اس صورت حال کو برداشت کرنے میں مدد دیتا ہے، لیکن اگر یہ زیادہ ہوجائے تو نیند بھی خراب کردیتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگردو گھنٹے تک آئی پیڈ کو زیادہ روشنی کے ساتھ استعمال کیاجائے تو جسم میں بننے والا ہارمون میلاٹونن کم بننے لگتا ہے۔ میلاٹونن ہارمون ہمیں جوان اور تروتازہ رکھتا ہے۔
لیکن نیند پوی ہونے کی وجہ سے یہ ہارمون بھرپور انداز میں بنے گا۔ اسکرین ٹائم کا مطلب ہے کہ ٹی وی، موبائل فون، کمپیوٹر وغیرہ کی اسکرین سے نکلنے والی خاص نیلی روشنی جسم کے اس فطری عمل میں خلل ڈالتی ہے جو ہمیں سونے سے پہلے سونے کے لیے تیار کرتا ہے۔ اگرچہ رات کو ہم بستر یا صوفے پر بیٹھ کر آرام سے ٹی وی دیکھتے اور موبائل استعمال کرتے ہیں مگر ہمارا دماغ تو انتہائی کام میں مصروف رہتا ہے بلکہ روشنی بند بھی کر دی جائے تو دماغ کچھ دیر تک اس کے مقابلے میں کام کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا سونے سے پہلے کوئی ایسی مصروفیت اختیار کی جائے جس میں ذہنی مشقت کے بجائے جسمانی حرکت ہو جیسے گھر والوں سے باتیں کرنا یا کسی کتاب کا مطالعہ کرنا وغیرہ۔
مناسب درجہ حرارت
سونے کے وقت کے قریب خودبخود جسمانی درجہ حرات کم ہو جاتا ہے۔ یوں جسم دماغ کو سونے کے لیے تیار کرتا ہے۔ کمرے کا مناسب درجہ حرارت ساٹھ سے ستر ڈگری فارن ہائیٹ(Fahrenheit) یا سولہ سے بیس ڈگری سیلسئس (Celsius)ہونا چاہیے۔ اس سے زیادہ یا کم درجہ حرارت سے نیند متاثر ہوتی ہے۔ اس کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ سونے سے دو گھنٹے پہلے نیم گرم پانی جسم پر ڈال لیا جائے۔ اس وقت اگرچہ جسمانی درجہ حرارت بڑھے گا لیکن آہستہ آہستہ کمرے کے درجہ حرارت کے برابر آنے کی کوشش کرے گا۔
مخصوص اور مقررہ وقت پر سونے کیلئے جانا
نیند کے دوران جسمانی ہارمون جسمانی شکست وریخت کی تعمیر کا کام کرتے ہیں اور سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ کام سب سے زیادہ رات دس بجے سے دو بجے کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ اس دوران نہیں سوتے اُن کی جسمانی تعمیر کا یہ کام نہیں ہوتا اور ایسے افراد جب اٹھتے ہیں توتھکے ہوئے اور غنودگی میں ہوتے ہیں۔ نیند کے دوران تین مراحل ہوتے ہیں۔ (۱)گہری نیند (۲)چوکنی نیند ، جس میں سانس کی سپیڈ کم ہوتی ہے ۔ (۳) خواب کی نیند، جس میں ہمیں خواب دِکھائی دیتے ہیں۔
ان تینوں مراحل کا دورانیہ 90منٹ کا ہوتا ہے اور ہماری نیند کے دوران یہ سائیکل دو بار چلتا ہے۔ انٹرنیشنل جرنل آف کینسر میں ایک مطالعہ شائع ہوا جس میں بتایا گیا کہ جو خواتین رات کی شفٹ میں کام کرتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ دیگر خواتین کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ رات دس بجے سے پہلے سو جائیں۔ یوں کورٹیسول کی فطری سطح کو برقرارر کھنے میں مدد ملے گی اور آپ صبح ترو تازہ اور چاق وچوبند اُٹھیں گے۔
اپنی آرام گاہ کو عبادت گاہ کی طرح رکھنا
نیند کے لیے خاموشی اور ایک خاص ماحول چاہیے۔ اگر آپ کے کمرے میں دفتر کی فائلیں، لیپ ٹاپ، موبائل، وائی فائی اور ٹی وی موجود ہوں گے تو سونے کے لیے پُرسکون ماحول نہیں ہوگا۔ جیسے ایک عبادت گاہ میں بالکل خاموشی ہوتی ہے تاکہ آدمی سکون پاسکے، ایسے ہی بیڈروم کو بھی ہونا چاہیے۔ سونے کے کمرے کو کام کی جگہ بنا کر اپنی نیند خراب مت کریں۔
تاریکی رکھنا
آپ کی جلد میں ایسے ریسپٹرز(Receptors) ہوتے ہیںجوروشنی وصول کرتے ہیں اور اگر آپ کے بیڈروم میں روشنی ہوگی تو یہ ریسپٹرز دماغ کو یہ پیغام بھیجیں گے کہ جاگنا ہے۔ یوں دماغ خود کو نیند کے لیے تیار نہیں کرے گا بلکہ نیند کوسوں دور بھاگے گی۔ سرخ روشنی سب سے کم Circadian Rythmکو تبدیل کرتی اور میلاٹونن کو دباتی ہے۔ اس لیے خواب گاہ میں ہلکی سرخ روشنی تجویز کی جاتی ہے۔
اپنے آپ کو پُرسکون رکھنا
اکثر لوگ بستر پر براجمان ہوتے ہی کیا، کیوں، کیسے وغیرہ کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ دن بھر کا اسٹریس اور شدید مصروفیت ہوتی ہے۔ دن بھر جس مسئلے کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ملتا رات سوتے وقت دماغ اِس فکر میں مصروف ہو جاتا ہے اور اسی فکر میں مصروف رہتا ہے۔ بظاہر وہ سو رہے ہوتے ہیں مگر ان کا مائنڈ بحث مباحثے میں لگا ہوتا ہے۔ امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن نے ایک تحقیق کے بعد یہ بتایا کہ رات کو سونے سے فوراً پہلے چند منٹ کا مراقبہ دماغی بحث مباحثے کو ختم کرتا ہے، جس سے انسان پرسکون نیند لیتا ہے۔''
عمران نے اپنی تفصیل ختم کی اور کتاب بندکرکے ایک طرف رکھ دی۔''ہاں تو خالد میاں! کیا سمجھے؟''
''عمران بھائی! آپ نے تو واقعی بڑی اہم معلومات مجھے دیں۔ نیند ہماری زندگی کا ایک بنیادی عنصر اور اہم ترین ضرورت ہے لیکن ہم اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ میں آج سے ہی اپنی روٹین ایسی بناتا ہوں کہ رات دس بجے سے پہلے سو جائوں اور آٹھ گھنٹے کی نیند پوری کروں۔آپ کا بہت بہت شکریہ'' خالد بولا۔
کھانا آچکا تھا، جس کی اشتہاء انگیز خوشبو نے دونوں کی بھوک بڑھا دی تھی، وہ مسکرائے اور کھانے کے ساتھ انصاف کرنے لگے۔
''آپ کا فون بج رہا ہے۔'' عمران نے مطلع کیا۔ ''اوہو!!''خالد نے جلدی سے فون اٹھایا۔ دیکھا تو باس کا فون تھا۔ خالد جلدی سے ضروری فائلز اٹھاکر اُن کے دفتر گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔''کیا ہوا بھائی،کیوں پریشان ہو؟''
عمران نے پوچھا۔''یار! ایک اسائنمنٹ ملی تھی مجھے، آج اس کا آخری دِن تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ آج اس کو مکمل کرلوں گا مگر صبح سے میری آنکھ ہی نہیں کھل رہی۔ دو دفعہ کام کرتے کرتے آنکھ لگ گئی، اس کی وجہ سے باس ناراض ہوگئے اور وارننگ دے دی۔'' خالد نے تفصیل بتائی۔ ''تو کیا رات کو سوئے نہیں؟'' عمران نے پوچھا۔ ''سویا تھا لیکن دیر سے، پھر رات کو آنکھ کھلی اور صبح تک نیند ہی نہیں آئی۔'' خالد نے دوبارہ وضاحت کی۔
اگلے دِن جب خالد آفس آیا تو آدھا گھنٹہ لیٹ تھا اور گزشتہ کل کی طرح آج بھی اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ عمران نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر اس کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ لنچ بریک میں عمران، خالد کو لے کر کینٹین آیا۔ کھانے کا آرڈر دینے کے بعد عمران بولا: ''خالد بھائی!مجھے لگ رہا ہے کہ آج کل آپ کی نیند پوری نہیں ہو رہی اور اس کی وجہ سے آپ کے آفیشلی کام بھی کافی ڈسٹرب ہو رہے ہیں؟'' خالد نے کچھ دیر سوچا، پھر ندامت سے بولا: ''ایسا ہی ہے۔'' ''مگر یہ تو بڑی خطرناک بات ہے۔''عمران بولا۔''دِن بھر کے کام مکمل کرنے کے لیے پوری نیند لینا بہت ضروری ہے۔
اگر نیند پوری نہ ہو تو پھر انسان کا دماغ بھی کام نہیں کرتا۔ کاموں پر فوکس نہیں رہتا اور کارکردگی خراب ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ذہنی دبائو کا امکان بڑھ جاتا ہے اور انسان ڈیپریشن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔'' عمران نے پوری تفصیل سمجھائی اور پھر اپنا بیگ کھول کر ایک نفیس کتاب نکالی اور خالد کو دِکھاتے ہوئے بولا:''میں نے کچھ عرصہ پہلے یہ کتاب پڑھی تھی جس کا نام تھا :Sleep Smarter ۔ یہ شان اسٹیونسن نے 'پرسکون نیند'کے موضوع پر لکھی ہے۔ بڑی شاندار کتاب ہے۔کتاب میں آپ کو دیتا ہوں، آپ تفصیل سے پڑھ لینا، فی الحال میں اہم چیزیں آپ کو بتاتا ہوں ، آپ جلد از جلد ان کو اپنی زندگی میں لائیں اور یہ جو حالات آپ کے چل رہے ہیں ، انہیں ختم کریں۔''
ہمارے جسم میں موجود اینابولک پراسس انرجی بنانے کا کام کرتا ہے۔ جب ہم بھرپور نیند میں ہوتے ہیں تو ہمارا جسم اس نظام کے تحت خود کو ''درست'' کرنے میں لگا ہوتا ہے۔ جاگتے رہنے کے پراسس کو''کیٹابولک''کہا جاتا ہے جس میں ہمارا جسم انرجی کا اخراج کر رہا ہوتا ہے۔ اس تیز رفتار دور میں ہمارا یہ گمان ہے کہ جو جس قدر زیادہ جاگ کر کام کرے، وہی کامیاب ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جو لوگ بھرپور نیند نہیں لیتے انہیں اپنا کام مکمل کرنے میں دوسروں کی نسبت 14فیصد زیادہ وقت لگتا ہے اور وہ دوسروں کی نسبت 20 فیصد زیادہ غلطیاں بھی کرتے ہیں۔
مصنف اس کتاب میں مزید اہم نکات بھی بتاتا ہے:
سورج کی ابتدائی کرنوں سے مستفید ہونا
مصنف بتاتا ہے کہ معیاری نیند کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ صبح سویرے اٹھ سکیں یعنی جب سورج طلوع ہونے والا ہو۔ صحت و تندرستی کے لیے جسم کا زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی میں رہنا ضروری ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب آپ صبح سویرے اٹھ کر سورج کے سامنے جائیں۔
دیر سے اٹھنے سے دھوپ تیز ہوجاتی ہے جس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ بہ قدر ضرورت دھوپ لینے سے دن کے مخصوص ہارمون جنھیں ڈے ٹائم ہارمون کہا جاتا ہے جسم کو صحت مند رکھنے میں باقاعدہ معاون ہوتے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ دفتر میں کام کرنے والے لوگوں کو دھوپ نہ لگنے کی وجہ سے انہیں ایک گھنٹہ تاخیر سے نیند آتی ہے۔ ہمارا طرز ِحیات ایسا ہے کہ دن کے زیادہ تر اوقات میں مصنوعی روشنی استعمال کی جاتی ہے اور رات گئے تک ہم اس کے حصار میں رہتے ہیں۔ بلب ہوں یا انرجی سیورز، ان کی مصنوعی روشنی گہرے منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
سونے سے پہلے اسکرین ٹائم سے بچنا
جب ہم کسی تنائو میں ہوں توکارٹیسول ہارمون ہمیں اس صورت حال کو برداشت کرنے میں مدد دیتا ہے، لیکن اگر یہ زیادہ ہوجائے تو نیند بھی خراب کردیتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگردو گھنٹے تک آئی پیڈ کو زیادہ روشنی کے ساتھ استعمال کیاجائے تو جسم میں بننے والا ہارمون میلاٹونن کم بننے لگتا ہے۔ میلاٹونن ہارمون ہمیں جوان اور تروتازہ رکھتا ہے۔
لیکن نیند پوی ہونے کی وجہ سے یہ ہارمون بھرپور انداز میں بنے گا۔ اسکرین ٹائم کا مطلب ہے کہ ٹی وی، موبائل فون، کمپیوٹر وغیرہ کی اسکرین سے نکلنے والی خاص نیلی روشنی جسم کے اس فطری عمل میں خلل ڈالتی ہے جو ہمیں سونے سے پہلے سونے کے لیے تیار کرتا ہے۔ اگرچہ رات کو ہم بستر یا صوفے پر بیٹھ کر آرام سے ٹی وی دیکھتے اور موبائل استعمال کرتے ہیں مگر ہمارا دماغ تو انتہائی کام میں مصروف رہتا ہے بلکہ روشنی بند بھی کر دی جائے تو دماغ کچھ دیر تک اس کے مقابلے میں کام کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا سونے سے پہلے کوئی ایسی مصروفیت اختیار کی جائے جس میں ذہنی مشقت کے بجائے جسمانی حرکت ہو جیسے گھر والوں سے باتیں کرنا یا کسی کتاب کا مطالعہ کرنا وغیرہ۔
مناسب درجہ حرارت
سونے کے وقت کے قریب خودبخود جسمانی درجہ حرات کم ہو جاتا ہے۔ یوں جسم دماغ کو سونے کے لیے تیار کرتا ہے۔ کمرے کا مناسب درجہ حرارت ساٹھ سے ستر ڈگری فارن ہائیٹ(Fahrenheit) یا سولہ سے بیس ڈگری سیلسئس (Celsius)ہونا چاہیے۔ اس سے زیادہ یا کم درجہ حرارت سے نیند متاثر ہوتی ہے۔ اس کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ سونے سے دو گھنٹے پہلے نیم گرم پانی جسم پر ڈال لیا جائے۔ اس وقت اگرچہ جسمانی درجہ حرارت بڑھے گا لیکن آہستہ آہستہ کمرے کے درجہ حرارت کے برابر آنے کی کوشش کرے گا۔
مخصوص اور مقررہ وقت پر سونے کیلئے جانا
نیند کے دوران جسمانی ہارمون جسمانی شکست وریخت کی تعمیر کا کام کرتے ہیں اور سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ کام سب سے زیادہ رات دس بجے سے دو بجے کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ اس دوران نہیں سوتے اُن کی جسمانی تعمیر کا یہ کام نہیں ہوتا اور ایسے افراد جب اٹھتے ہیں توتھکے ہوئے اور غنودگی میں ہوتے ہیں۔ نیند کے دوران تین مراحل ہوتے ہیں۔ (۱)گہری نیند (۲)چوکنی نیند ، جس میں سانس کی سپیڈ کم ہوتی ہے ۔ (۳) خواب کی نیند، جس میں ہمیں خواب دِکھائی دیتے ہیں۔
ان تینوں مراحل کا دورانیہ 90منٹ کا ہوتا ہے اور ہماری نیند کے دوران یہ سائیکل دو بار چلتا ہے۔ انٹرنیشنل جرنل آف کینسر میں ایک مطالعہ شائع ہوا جس میں بتایا گیا کہ جو خواتین رات کی شفٹ میں کام کرتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ دیگر خواتین کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ رات دس بجے سے پہلے سو جائیں۔ یوں کورٹیسول کی فطری سطح کو برقرارر کھنے میں مدد ملے گی اور آپ صبح ترو تازہ اور چاق وچوبند اُٹھیں گے۔
اپنی آرام گاہ کو عبادت گاہ کی طرح رکھنا
نیند کے لیے خاموشی اور ایک خاص ماحول چاہیے۔ اگر آپ کے کمرے میں دفتر کی فائلیں، لیپ ٹاپ، موبائل، وائی فائی اور ٹی وی موجود ہوں گے تو سونے کے لیے پُرسکون ماحول نہیں ہوگا۔ جیسے ایک عبادت گاہ میں بالکل خاموشی ہوتی ہے تاکہ آدمی سکون پاسکے، ایسے ہی بیڈروم کو بھی ہونا چاہیے۔ سونے کے کمرے کو کام کی جگہ بنا کر اپنی نیند خراب مت کریں۔
تاریکی رکھنا
آپ کی جلد میں ایسے ریسپٹرز(Receptors) ہوتے ہیںجوروشنی وصول کرتے ہیں اور اگر آپ کے بیڈروم میں روشنی ہوگی تو یہ ریسپٹرز دماغ کو یہ پیغام بھیجیں گے کہ جاگنا ہے۔ یوں دماغ خود کو نیند کے لیے تیار نہیں کرے گا بلکہ نیند کوسوں دور بھاگے گی۔ سرخ روشنی سب سے کم Circadian Rythmکو تبدیل کرتی اور میلاٹونن کو دباتی ہے۔ اس لیے خواب گاہ میں ہلکی سرخ روشنی تجویز کی جاتی ہے۔
اپنے آپ کو پُرسکون رکھنا
اکثر لوگ بستر پر براجمان ہوتے ہی کیا، کیوں، کیسے وغیرہ کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ دن بھر کا اسٹریس اور شدید مصروفیت ہوتی ہے۔ دن بھر جس مسئلے کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ملتا رات سوتے وقت دماغ اِس فکر میں مصروف ہو جاتا ہے اور اسی فکر میں مصروف رہتا ہے۔ بظاہر وہ سو رہے ہوتے ہیں مگر ان کا مائنڈ بحث مباحثے میں لگا ہوتا ہے۔ امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن نے ایک تحقیق کے بعد یہ بتایا کہ رات کو سونے سے فوراً پہلے چند منٹ کا مراقبہ دماغی بحث مباحثے کو ختم کرتا ہے، جس سے انسان پرسکون نیند لیتا ہے۔''
عمران نے اپنی تفصیل ختم کی اور کتاب بندکرکے ایک طرف رکھ دی۔''ہاں تو خالد میاں! کیا سمجھے؟''
''عمران بھائی! آپ نے تو واقعی بڑی اہم معلومات مجھے دیں۔ نیند ہماری زندگی کا ایک بنیادی عنصر اور اہم ترین ضرورت ہے لیکن ہم اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ میں آج سے ہی اپنی روٹین ایسی بناتا ہوں کہ رات دس بجے سے پہلے سو جائوں اور آٹھ گھنٹے کی نیند پوری کروں۔آپ کا بہت بہت شکریہ'' خالد بولا۔
کھانا آچکا تھا، جس کی اشتہاء انگیز خوشبو نے دونوں کی بھوک بڑھا دی تھی، وہ مسکرائے اور کھانے کے ساتھ انصاف کرنے لگے۔