زباں فہمی پِیک پَیک اور پیَکان
یہ بھی ایک دلیل ہے کہ اردو ہمہ وقت، ترقی پذیر زبان ہے اور اس میں کوئی جمود نہیں۔
ان دنوں بہت سے لوگ اردو کے گیسوئے دراز سنوارنے میں مصروف ہیں، کیونکہ اقبالؔ نے کہا تھا ع گیسوئے اردو ابھی منت پذیرشانہ ہے........ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ شانہ بمعنی کندھا نہیں، بلکہ کنگھا ہے۔
فکر نہ کریں، آج کا موضوع کندھا یا کنگھا نہیں۔ (ویسے کیا حرج ہے اگر کنگھے پر بات کی جائے تو؟ بعض لوگ کنگھے کو کنگھی ہی کہنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ دونوں کے درمیان فرق واضح ہے)۔ اردو کے دامن میں اتنی وسعت ہے کہ ناصرف دیگر زبانوں اور بولیوں سے الفاظ مستعار لے کر ہمیشہ کے لیے اپنالیتی ہے، معانی بدل دیتی ہے، بلکہ اس عمل میں ایک جہانِ معانی پیدا کرتی ہے۔
یہ بھی ایک دلیل ہے کہ اردو ہمہ وقت، ترقی پذیر زبان ہے اور اس میں کوئی جمود نہیں۔ یہاں ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ ہماری پیاری زبان میں ایسے الفاظ کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ہجوں کے لحاظ سے ایک ہوتے ہوئے بھی، اعراب کے فرق سے یکسر مختلف ہیں، حتّیٰ کہ اُن کے مآخذ جُدا اور معانی بھی مختلف ہیں۔
چونکہ ہمارے یہاں حُبّ اردو کی مہم تو نفاذ ِ اردو تحریک سے جُڑی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں کام جاری ہے، مگر اس حُبّ یعنی محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم الفاظ کی تدریس ، مع اعراب، ابتدائی جماعتوں سے شروع کرتے ہوئے جامعات کی سطح تک لے جائیں۔ ہمارے خواندہ، تعلیم یافتہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، حتّیٰ کہ شعبہ تدریس، ادب، صحافت، نشریات، تشہیر، سیاست سمیت تمام شعبوں میں بام عروج کو پہنچنے والے افراد بھی بہت سے الفاظ کے تلفظ سے قطعاً نابلد ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ ناصرف کم علمی اور لاعلمی کی وجہ سے خِفّت اُٹھاتے ہیں، بلکہ اُس پر ہٹ دھرمی سے قایم رہتے ہیں اور ڈھٹائی سے یہاں تک کہتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، بات سمجھ میں آگئی نا۔ یہ معاملہ صرف اردو ہی کے ساتھ ہے، ورنہ کسی پیشہ ور ماحول میں ''فادری'' زبان متواتر غلط بولیں، (اپنے سے کسی بہتر انگریزی داں کے سامنے)، تو پتا چل جائے گا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم یہاں ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں کہ موجودہ اردو میں ایسے کون کون سے الفاظ ہیں جن کا املاء ایک یا مماثل ہوتے ہوئے بھی معانی مختلف ہیں۔
لغت کے شروع میں دیکھیں تو حرف اَلِف ہی ہماری معلومات میں اضافے اور تصحیح کا باعث ہے۔ اردو سمیت متعدد زبانوں میں پہلا حرف یہی ہے جسے الف مقصورہ بھی کہتے ہیں۔ جب اس کے ساتھ مَدّ ( ٓ ) لگ جائے تو اسے الف مَمدُودہ کہتے ہیں۔ اسے شمار یا عددی ترتیب میں ایک یا اوّل (پہلا) مانا جاتا ہے اور متعدد مقامات پر اس کا استعمال مثال کے لیے بھی ہوتا ہے۔ جمل کے حساب سے اس کی قیمت ایک ہے۔ لکھنے اور استعمال میں یہ باقاعدہ لفظ کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔
بعض لوگ اسے اَلف (لام اور فے ساکن) کہتے ہیں اور یوں اس کے معنیٰ بدل دیتے ہیں۔ اَلف کا عربی میں مطلب ہے ایک ہزار۔ مشہور داستان کا نام ہے ''اَلف لیلہ ولیلہ '' یعنی ایک ہزار اور ایک راتوں کی کہانی (حقیقت میں کہانیاں)۔ اس کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے 'الف لیلہ، ہزار داستان ' بھی نام رکھا گیا تھا۔ یہ بات دُہرانا بھی ناگزیر ہے کہ یہ عالمی ادب میں واحد داستان ہے جس کی تشکیل، ترتیب وتدوین میں دنیا کی مختلف اقوام کے مختلف اراکین نے گاہے گاہے حصہ لیا اور ایسا ہرگز نہیں کہ یہ فقط خلفائے بنوعباس کے عہد کی قصہ کہانیوں پر مشتمل ہو یا اس میں محض عرب ہی عرب جھلکتا ہو۔
اس عظیم داستان سے مرعوب ومتأثر ہونے والوں نے ایک طرف ادبیات میں اسی کے بنیادی عناصر پر مبنی کہانیاں مختلف زبانوں (خصوصاً انگریزی) میں تخلیق کیں تو دوسری طرف سائنس کے مختلف شعبوں میں ایجادات بھی کی گئیں۔ اس بات کا اعادہ بھی لازم ہے کہHarry Potter سے متأثر ہونے والی نئی نسل کو الف لیلہ کا خلاصہ، سہل زبان میں پڑھایا جائے اور اس کی دونوں جہتوں کی توجیہ وتشریح کراتے ہوئے اسے دیگر مضامین مثلاً اسلامیات، اخلاقیات، معاشرتی علوم (تاریخ، مدنیات وجغرافیہ)، طبیعیات، کیمیاء، حیاتیات (حیوانات و نباتات) سمیت بہت سے علوم سے متعلق [Relate] کیا جاسکتا ہے۔ آگے بڑھیں تو لفظ ''اَب'' نظر آتا ہے۔ ایک ہی ہجے میں دو مختلف لفظ یہاں موجود ہیں۔
اَب زمانہ حال، فعل ِ حال، اس وقت، اس گھڑی، اس دَم، اس حالت میں، ان دنوں، ہنوز، اگلے ہی لمحے سمیت متعدد مفاہیم کے ساتھ مستعمل ہے۔ اردو کے بعض لہجوں میں یہ لفظ کسرہ یعنی زیر سے بولا جاتا ہے، جیسے ''اِب کے مار''، ''اِب کے کہیو'' ،''اِب کے ایسا نہ ہووے'' وغیرہ۔ ایک لفظ ''اَب'' عربی سے آیا ہے جس کے معنیٰ ہیں، باپ۔ اس کی ایک شکل اَبو یا اَبّو ہے، دوسری شکل اَبّا ہے تو تیسری شکل اَبی یا اَبّی ہے۔ صحابہ کرامؓ کے ناموں میں کُنیت یا عرفیت کے طور پر بے شمار اسمائے گرامی اسی اَب، اَبو، اَبی اور اَبا (بلاتشدید) سے شروع ہوتے ہیں۔
مشہورترین نام ہے: حضرت اَبوبَکر صِدّیق (رضی اللہ عنہ')۔ لفظ آن کے کوئی پندرہ معانی ہیں، اس سے آن بان کی ترکیب بنتی ہے جس کی توضیح میں کئی الفاظ موجود ہیں۔ اس سے آن پر بننا، آن پر جان دینا، آن پھنسنا اور آن دھمکنا جیسے محاورے بنتے ہیں۔ یہ ساری دل چسپ تفصیل لغات میں دیکھیں اور پھر اپنے آپ سے سوال کریں کہ آیا اردو کا دامن کسی ایک لفظ کے مفاہیم بیان کرنے میں ویسا تنگ ہے جیسا کہ آپ نے سمجھ لیا یا آپ کو باوَر کرادیا گیا۔
حرف 'ب' سے یہ الفاظ ایک ساتھ ملاحظہ فرمائیں: بَلا، بَلّا، بِلا، بِلّا۔ بَلا یعنی آفت، مصیبت، قہر، غضب، آسیب، مصیبت، چُڑیل، ڈائن سمیت متعدد معانی کا حامل لفظ ہے۔ بَلّایعنی کسی خاص وضع اور مقرر سائز کا، لکڑی سے بنا ہوا ڈنڈا جس سے کرکٹ کھیلتے ہیں (نیز گیند پر ضَرب لگانے کا ڈنڈا) اور جس کا انگریزی نام Bat ہمارے یہاں زیادہ معروف ہے، حالانکہ Bat تو چمگادڑ کو بھی کہتے ہیں۔ پنگ پانگ یا ٹیبل ٹینس کے ریکٹ کو بھی بَلّا کہتے ہیں۔ بِلا یعنی بغیر جیسے بِلاضرورت، بِلاوجہ وغیرہ۔ بِلّا کے کئی معانی ہیں، جیسے فوج اور پولیس سمیت مختلف سرکاری ملازمین کی وردی پر لگایا جانے والا، دھاتی یا کپڑے سے بنا ہوا ٹکڑا یا فیتہ، تمغہ، نیز تلوار، خنجر اور ریوالور کے دَستے میں اس غرض سے باندھا جانے والا فیتہ کہ میان سے علیٰحدہ نہ ہو۔
اس کے علاوہ بِلّی کے نَر کو بھی بِلّا کہتے ہیں۔ یہ دو مختلف الفاظ ہیں: بیک (بہ یک)، بَیک: بہ یک کو ایک مدت سے بَیَک لکھا جاتا رہا ہے، مگر اَب جُداجُدا لکھنا اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ لوگ اسے بَیک بولنے لگے ہیں جیسے بہ یک وقت اتنے سارے لوگ وہاں جمع ہوگئے کی بجائے ''بَیک وقت'' .......بَیک تو انگریزی لفظ Back ہے جو اِن دنوں ہماری مخلوط بولی ٹھولی میں خوب مستعمل ہے، جیسے ''ڈاکٹر صاحب! میرے Backache ہورہا ہے یا Back میں Pain ہورہا ہے۔'' یہ تین الفاظ دیکھیں: پِیک، پَیک، اور پیَکان: پہلا لفظ تو پان کھانے والوں کے لیے نیا یا نامانوس نہیں۔ پان کھاکر تھوکا جائے تو یہ پان کی پِیک کہلاتی ہے ۔ یہ لفظ ہندی الاصل ہے۔
نوراللغات میں معانی دیکھئے: (اسم مؤنث) چبائے ہوئے پان کا رنگین تھوک، پان کا عرق (تھوکنا کے ساتھ)، ۲۔ (دکن) کھیت کی تیار فصل ۳۔ بوتلوں میں تیل یا عرق ڈالنے کا آلہ، پیک دان (مذکر)، اُگال دان۔ ع کوئی مورچھل لے، کوئی پیک دان۔ {ہمارے عہد میں لفظ پیک دان تو متروک ہوچکا ہے، البتہ پرانے لوگ، اُگال دان، اب بھی بولتے ہیں۔ نئی نسل تو اُس سے بھی ناواقف ہوگی}۔ اردو لغت بورڈ کی ''مختصر اردو لغت'' میں مزید وضاحت یوں کی گئی ہے: ''پان کھانے سے منھ میں سُرخ رنگ کا لیس دار مادہ۔ پیک دان (مذکر)، اُگال دان کی وضاحت بھی صاحب ِ نوراللغات سے رہ گئی تھی، سو یہاں درج ہے: تھوکنے کا برتن، اُگال دان، وہ برتن جس میں پان کی اُگال ڈال دیتے ہیں۔ اردو میں لفظ ''پِیک'' بمعنی بادبان، پھننگ اور ٹوپی کا چھجا بھی مستعمل ہے۔
(مختصر اردو لغت)۔ اسی لفظ پر اگر زبر لگادیں تو پَیک بن جاتا ہے جو فارسی الاصل ہے، (یہ انگریزی لفظ Pack سے مختلف ہے جو سامان وغیرہ باندھنے اور باندھنے کا عمل کرنے کے معنوں میں اردو میں رائج ہوچکا ہے)۔ اسی لفظ نے سنسکرت سے پہلَوِی اور پھر فارسی تک آتے آتے، نیز اِس کے بعد، دیگر زبانوں میں داخل ہوتے ہوئے مختلف شکلیں اختیار کیں۔ پہلوی میں لفظ 'پیک' یا ' پیگ' کے معانی پیادہ سپاہی اور ہرکارے یا قاصد تھے، جو قدیم فارسی میں 'پادہ' (اور پھر پیادہ) بنا، جبکہ یہ لفظ سنسکرت کے لفظ 'پادیک' سے مشتق یا کم از کم ہم رشتہ ہے جس کا مطلب ہے: راہ گیر، پیدل چلنے والا۔ قدیم آرمینی میں یہ لفظ ''پائک'' اور وَسطی آرمینی میں ''پائیگ'' تھا اور جارجی [Georgian] میں پائکی بنا، {یاد رکھیں کہ یہی زبان گوجری کی اصل بھی سمجھی جاتی ہے جسے اردو کی ماں ہونے کا بھی دعویٰ ہے}، نیز قدیم (اور اَب مُردہ) زبان سُریانی[Syriac] میں فائیگی جس سے عربی لفظ فوج اور فَیج بھی بنے۔
اسم 'پیک' کی جمع 'پیک ہا' اور 'پیکان' ہے۔ یہی لفظ انگریزی اسم Peg (شراب نوشی کا پیمانہ) کا مُفَرس بھی ہے اور اُس صورت میں اس کی جمع محض 'پیک ہا' استعمال ہوتی ہے۔ امانتؔ لکھنوی کا شعر ہے: ہوں وہ دلِ سوختہ، طفلی میں اگر پیک بنا +جل اُٹھی سینۂ سوزاں سے کمر کی بَتّی۔ اہل تَشیُع کے یہاں جو بچے بڑی ارمان سے پیدا ہوتے ہیں، ان کو محرّم کے مہینے میں قاصد کا لباس پہناتے اور اس کو 'پیک بننا' کہتے ہیں' بقول مولوی نورالحسن نیئر، صاحب نوراللغات (تعجب ہے کہ انھوں نے لفظ ارمان کو مؤنث لکھا ہے)۔
اردو شاعری میں اسی پیک سے 'پیکِ اَجَل' یعنی موت کا فرشتہ، 'پیکِ امید' اور 'پیک ِفلک' (دونوں کا مطلب: چاند) جیسی فارسی تراکیب بھی تلاش کرنے پر مل جائیں گی۔ ایک بار پھر ہم دُہراتے چلیں کہ اردو میںلفظ ''پیَکان'' (پے کان) فارسی سے آیا ہے اور اس کے معانی ہیں: تیِر، نیز تِیر یا نیزے یا برَچھی کی نوک، اَنی یا پھال (پھَل)، بانک، تلوار یا چھُری کا اوپری حصہ، پھار، ڈال ]مختصر اردو لغت[، جس کے لیے انگریزی میں Arrowheadاور Spearhead کے الفاظ مستعمل ہیں۔
عیشؔلکھنوی کے دیوان میں موجود اس شعر میں لفظ پیکان کا استعمال دیکھئے: کوئی دَم گَر دیکھنا ہو تُج (تجھ) کو لطفِ زندگی+دل کی جا سینے میں رکھنا، اُوس (اُس) کا پیکاں چاہیے۔ نوراللغات میں پَیکاں کے معانی بھال، تیر کی اَنی، برچھی کی انی، نیزے کی نوک درج کرنے کے بعد، امیرؔ مینائی کا یہ مصرع نقل کیا گیا: ع دل کے بدلے بھی میرے سینے میں پیکاں ہوتا۔ ویسے جدید ایرانی فارسی میں تِیر کے لیے تِیر، خدنگ، پیکان اور سہم مستعمل ہیں۔ (مؤخرالذکر لفظ عربی الاصل ہے)۔ اب وہاں تِیر کی نوک کو نوکِ پیکان، سَرِ تِیر اور خطِ میخی کہا جاتا ہے۔ (بحوالہ فرہنگ انگلیسی۔ فارسی از عباس آریان پورکاشانی و منوچہر آریان پورکاشانی، مطبوعہ تہران، ایران : ۱۹۸۹ء)۔ ''پیکانِ خاراگذار'' ایک فارسی ترکیب ہے جس کا مطلب ہے ''وہ تیر جو سنگ ِخارا کو بھی چھید ڈالے۔'' اسی لفظ سے صفت بنی ''پیکانی'' جس کا مطلب ہے: لعل، یاقوت، الماس کی ایک قسم۔ شعورؔ نامی کسی شاعر کا شعر ہے: لنبے لنبے (لمبے لمبے) جو نکلتے ہیں مِرے آنسو سُرخ+ہنس کے فرماتے ہیں وہ، لعل یہ پیکانی ہے۔
نیز ایک قسم کا نوسادر (نوشادرغلط رائج)۔ ]نوراللغات[۔ مختصر اردو لغت میں پیکانی کے معانی یوں نقل کیے گئے ہیں: نوکیلا، نوک دار ;لال (لعل) اور یاقوت کی ایک قسم،۲۔ قدیم زمانے کی ایک رَوِشِ تحریر جو تیروں کی شکل کی ہوتی تھی جس میں قلم کے سِرے کو مَٹّی پر دَبانے سے میخ یا پیکان کا نشان بنتا تھا، پیکانی خط۔
اَب لفظ 'تُرک' کی بات کرتے ہیں۔ تُرک ایک قوم کا نام ہے۔ نیز اسے معشوق کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ حافظؔ شیرازی کا بہت مشہور واقعہ ہے کہ امیر تِیمُور نے انھیں اس شعر کی توجیہ کے لیے بازپُرس کرنے، اپنے دربار میں طلب کیا تھا : اگرآں تُرکِ شیرازی بَہ دَست آرَد ،دلِ مارَا+بَخالِ ہِندویَش بَخشَم، سمرقند وبخارارا۔ عظیم فاتح نے غریب شاعر سے سوال کیا کہ ہم نے تو سمرقند اور بخار ا کی تزئین کی خاطر ایک جہان اُجاڑ دیا، تم کیسے اپنے محبوب کے ایک سیاہ تِل کے عِوَض یہ دونوں شہر بخشنے کو تیار ہوگئے۔ فارسی غزل کے عظیم سخنور نے برجستہ، تاریخی جواب دیا'''اسی لیے تو اِس حال کو پہنچا ہوں۔'' یہاں ناواقفین کے لیے عرض کردوں کہ ہمارے یہاںولیؔ گجراتی، خواجہ میردردؔ، میرزا مظہرجانِ جاناں ؔ ، ریاضؔ خیرآبادی (شاعر ِخُمریات) اور اصغر ؔ گونڈوی کی شاعری میںعشق کے ساتھ ساتھ جا بجا مذکور مَئے۔یا۔بادہ یعنی شراب حقیقی شراب نہیں۔
تَرک کے معنیٰ ہیں چھوڑ دینا، دست بَردار ہونا ، کنارہ کرلینا ، کنارہ کشی، بھول چوک، سہو، فروگذاشت نیز کاغذ کا وہ ٹکڑا یا مور (پرندے) کا پر جو بطور نشان کتاب کے بیچ رکھا جائے۔ ؎ موت مانگی تھی، خُدائی تو نہیں مانگی تھی+لے، دعا کرچکے، اَب تَرکِ دُعا کرتے ہیں (یاسؔ یگانہؔ چنگیزی) {اس شعر کا مصرع اولیٰ ایک ہندوستانی فلم کے مشہور گانے میں شامل ہے} اور پھر ناصر ؔ کاظمی کا مشہورِِزمانہ شعر: اَے دوست، ہم نے تَرکِ محبت کے باوجود+محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی۔ نہیں کہ وہ حقیقی زندگی میں بھی شرابی تھے، اسی طرح فارسی میں عمرخیام، حافظ اور سعدی ؔکا معاملہ بھی ہے۔
حافظ ؔ شیرازی، عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے نیزحافظ و مُفَسّرِ قرآن اور مستند عالم و صاحب ِکتاب مصنف تھے۔ یہ وضاحت یوں ضروری ہے کہ لوگ اپنی لاعلمی میں کلام کی تشریح کرتے ہوئے شاعر کو مجسم بدی نہ قراردیں۔ لفظ ٹیک اور ٹِیک میں بھی فرق جاننا ضروری ہے۔
اوّل الذکر کا مطلب ہے تھونی، کھمبا، روک، پایہ، ستون، آبرو، استحکام وغیرہ جبکہ ٹِیک ہندی لفظ ہے، یہ گلے کا ایک زیور ہوتا ہے۔ ایک ٹِیک انگریزی میں مشہور ہے[Teak] جو فرنیچر بنانے میں استعمال ہونے والی لکڑی ہے۔ یہ درخت اردو میں ساگوان کہلاتا ہے۔ اب یہ الفاظ یک جا دیکھیں: چین، چَین، چِین، چِیں۔ چین تو انگریزی Chainیعنی زنجیر ہے ، چَین یعنی سکون سے آپ سبھی واقف ہیں، چیِن ہمارا دوست ملک ہے اور چیِن یا چیِں یعنی شکن جیسے ماتھے کی شکن، فارسی سے آیا ہے۔ لفظ من کے کئی معانی ہیں۔ ایک تو ہندی لفظ مَن یعنی دل آج کل بہت مشہور ہے، دوسرا وزن میں مستعمل، مَن جس کی جگہ انگریزی کا لفظ Ton(اٹھائیس مَن کے برابر)، زیادہ مشہور ہے۔ یہ بھی ہندی ہے۔ تیسرا مَنّ (مع تشدید) وہ ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں ''سَلویٰ' ' (بٹیر سے مماثل پرندہ) کے ساتھ آیا ہے اور جو تفاسیر کے بیان کی رُو سے دھنیے سے مماثل کوئی بیج تھا۔
اظہار تشکر: میرے کالم ''اردو کی بہن۔ بنگلہ'' کے لیے بعض اہم مطلوبہ کتب بشمول بنگال میں اردو اور مشرقی بنگال میں اردو کی PDF فائل میرے واٹس ایپ دوست محترم اطہر اقبال (مقیم لاہور) نے فراہم کی تھیں، جس کے لیے میں صمیم قلب سے شکرگزار ہوں۔ اُن کا ذکر دو قسطوں پر مبنی گزشتہ کالم میں شامل نہ ہوسکا تھا، معذرت خواہ ہوں۔
فکر نہ کریں، آج کا موضوع کندھا یا کنگھا نہیں۔ (ویسے کیا حرج ہے اگر کنگھے پر بات کی جائے تو؟ بعض لوگ کنگھے کو کنگھی ہی کہنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ دونوں کے درمیان فرق واضح ہے)۔ اردو کے دامن میں اتنی وسعت ہے کہ ناصرف دیگر زبانوں اور بولیوں سے الفاظ مستعار لے کر ہمیشہ کے لیے اپنالیتی ہے، معانی بدل دیتی ہے، بلکہ اس عمل میں ایک جہانِ معانی پیدا کرتی ہے۔
یہ بھی ایک دلیل ہے کہ اردو ہمہ وقت، ترقی پذیر زبان ہے اور اس میں کوئی جمود نہیں۔ یہاں ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ ہماری پیاری زبان میں ایسے الفاظ کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ہجوں کے لحاظ سے ایک ہوتے ہوئے بھی، اعراب کے فرق سے یکسر مختلف ہیں، حتّیٰ کہ اُن کے مآخذ جُدا اور معانی بھی مختلف ہیں۔
چونکہ ہمارے یہاں حُبّ اردو کی مہم تو نفاذ ِ اردو تحریک سے جُڑی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں کام جاری ہے، مگر اس حُبّ یعنی محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم الفاظ کی تدریس ، مع اعراب، ابتدائی جماعتوں سے شروع کرتے ہوئے جامعات کی سطح تک لے جائیں۔ ہمارے خواندہ، تعلیم یافتہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، حتّیٰ کہ شعبہ تدریس، ادب، صحافت، نشریات، تشہیر، سیاست سمیت تمام شعبوں میں بام عروج کو پہنچنے والے افراد بھی بہت سے الفاظ کے تلفظ سے قطعاً نابلد ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ ناصرف کم علمی اور لاعلمی کی وجہ سے خِفّت اُٹھاتے ہیں، بلکہ اُس پر ہٹ دھرمی سے قایم رہتے ہیں اور ڈھٹائی سے یہاں تک کہتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، بات سمجھ میں آگئی نا۔ یہ معاملہ صرف اردو ہی کے ساتھ ہے، ورنہ کسی پیشہ ور ماحول میں ''فادری'' زبان متواتر غلط بولیں، (اپنے سے کسی بہتر انگریزی داں کے سامنے)، تو پتا چل جائے گا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم یہاں ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں کہ موجودہ اردو میں ایسے کون کون سے الفاظ ہیں جن کا املاء ایک یا مماثل ہوتے ہوئے بھی معانی مختلف ہیں۔
لغت کے شروع میں دیکھیں تو حرف اَلِف ہی ہماری معلومات میں اضافے اور تصحیح کا باعث ہے۔ اردو سمیت متعدد زبانوں میں پہلا حرف یہی ہے جسے الف مقصورہ بھی کہتے ہیں۔ جب اس کے ساتھ مَدّ ( ٓ ) لگ جائے تو اسے الف مَمدُودہ کہتے ہیں۔ اسے شمار یا عددی ترتیب میں ایک یا اوّل (پہلا) مانا جاتا ہے اور متعدد مقامات پر اس کا استعمال مثال کے لیے بھی ہوتا ہے۔ جمل کے حساب سے اس کی قیمت ایک ہے۔ لکھنے اور استعمال میں یہ باقاعدہ لفظ کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔
بعض لوگ اسے اَلف (لام اور فے ساکن) کہتے ہیں اور یوں اس کے معنیٰ بدل دیتے ہیں۔ اَلف کا عربی میں مطلب ہے ایک ہزار۔ مشہور داستان کا نام ہے ''اَلف لیلہ ولیلہ '' یعنی ایک ہزار اور ایک راتوں کی کہانی (حقیقت میں کہانیاں)۔ اس کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے 'الف لیلہ، ہزار داستان ' بھی نام رکھا گیا تھا۔ یہ بات دُہرانا بھی ناگزیر ہے کہ یہ عالمی ادب میں واحد داستان ہے جس کی تشکیل، ترتیب وتدوین میں دنیا کی مختلف اقوام کے مختلف اراکین نے گاہے گاہے حصہ لیا اور ایسا ہرگز نہیں کہ یہ فقط خلفائے بنوعباس کے عہد کی قصہ کہانیوں پر مشتمل ہو یا اس میں محض عرب ہی عرب جھلکتا ہو۔
اس عظیم داستان سے مرعوب ومتأثر ہونے والوں نے ایک طرف ادبیات میں اسی کے بنیادی عناصر پر مبنی کہانیاں مختلف زبانوں (خصوصاً انگریزی) میں تخلیق کیں تو دوسری طرف سائنس کے مختلف شعبوں میں ایجادات بھی کی گئیں۔ اس بات کا اعادہ بھی لازم ہے کہHarry Potter سے متأثر ہونے والی نئی نسل کو الف لیلہ کا خلاصہ، سہل زبان میں پڑھایا جائے اور اس کی دونوں جہتوں کی توجیہ وتشریح کراتے ہوئے اسے دیگر مضامین مثلاً اسلامیات، اخلاقیات، معاشرتی علوم (تاریخ، مدنیات وجغرافیہ)، طبیعیات، کیمیاء، حیاتیات (حیوانات و نباتات) سمیت بہت سے علوم سے متعلق [Relate] کیا جاسکتا ہے۔ آگے بڑھیں تو لفظ ''اَب'' نظر آتا ہے۔ ایک ہی ہجے میں دو مختلف لفظ یہاں موجود ہیں۔
اَب زمانہ حال، فعل ِ حال، اس وقت، اس گھڑی، اس دَم، اس حالت میں، ان دنوں، ہنوز، اگلے ہی لمحے سمیت متعدد مفاہیم کے ساتھ مستعمل ہے۔ اردو کے بعض لہجوں میں یہ لفظ کسرہ یعنی زیر سے بولا جاتا ہے، جیسے ''اِب کے مار''، ''اِب کے کہیو'' ،''اِب کے ایسا نہ ہووے'' وغیرہ۔ ایک لفظ ''اَب'' عربی سے آیا ہے جس کے معنیٰ ہیں، باپ۔ اس کی ایک شکل اَبو یا اَبّو ہے، دوسری شکل اَبّا ہے تو تیسری شکل اَبی یا اَبّی ہے۔ صحابہ کرامؓ کے ناموں میں کُنیت یا عرفیت کے طور پر بے شمار اسمائے گرامی اسی اَب، اَبو، اَبی اور اَبا (بلاتشدید) سے شروع ہوتے ہیں۔
مشہورترین نام ہے: حضرت اَبوبَکر صِدّیق (رضی اللہ عنہ')۔ لفظ آن کے کوئی پندرہ معانی ہیں، اس سے آن بان کی ترکیب بنتی ہے جس کی توضیح میں کئی الفاظ موجود ہیں۔ اس سے آن پر بننا، آن پر جان دینا، آن پھنسنا اور آن دھمکنا جیسے محاورے بنتے ہیں۔ یہ ساری دل چسپ تفصیل لغات میں دیکھیں اور پھر اپنے آپ سے سوال کریں کہ آیا اردو کا دامن کسی ایک لفظ کے مفاہیم بیان کرنے میں ویسا تنگ ہے جیسا کہ آپ نے سمجھ لیا یا آپ کو باوَر کرادیا گیا۔
حرف 'ب' سے یہ الفاظ ایک ساتھ ملاحظہ فرمائیں: بَلا، بَلّا، بِلا، بِلّا۔ بَلا یعنی آفت، مصیبت، قہر، غضب، آسیب، مصیبت، چُڑیل، ڈائن سمیت متعدد معانی کا حامل لفظ ہے۔ بَلّایعنی کسی خاص وضع اور مقرر سائز کا، لکڑی سے بنا ہوا ڈنڈا جس سے کرکٹ کھیلتے ہیں (نیز گیند پر ضَرب لگانے کا ڈنڈا) اور جس کا انگریزی نام Bat ہمارے یہاں زیادہ معروف ہے، حالانکہ Bat تو چمگادڑ کو بھی کہتے ہیں۔ پنگ پانگ یا ٹیبل ٹینس کے ریکٹ کو بھی بَلّا کہتے ہیں۔ بِلا یعنی بغیر جیسے بِلاضرورت، بِلاوجہ وغیرہ۔ بِلّا کے کئی معانی ہیں، جیسے فوج اور پولیس سمیت مختلف سرکاری ملازمین کی وردی پر لگایا جانے والا، دھاتی یا کپڑے سے بنا ہوا ٹکڑا یا فیتہ، تمغہ، نیز تلوار، خنجر اور ریوالور کے دَستے میں اس غرض سے باندھا جانے والا فیتہ کہ میان سے علیٰحدہ نہ ہو۔
اس کے علاوہ بِلّی کے نَر کو بھی بِلّا کہتے ہیں۔ یہ دو مختلف الفاظ ہیں: بیک (بہ یک)، بَیک: بہ یک کو ایک مدت سے بَیَک لکھا جاتا رہا ہے، مگر اَب جُداجُدا لکھنا اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ لوگ اسے بَیک بولنے لگے ہیں جیسے بہ یک وقت اتنے سارے لوگ وہاں جمع ہوگئے کی بجائے ''بَیک وقت'' .......بَیک تو انگریزی لفظ Back ہے جو اِن دنوں ہماری مخلوط بولی ٹھولی میں خوب مستعمل ہے، جیسے ''ڈاکٹر صاحب! میرے Backache ہورہا ہے یا Back میں Pain ہورہا ہے۔'' یہ تین الفاظ دیکھیں: پِیک، پَیک، اور پیَکان: پہلا لفظ تو پان کھانے والوں کے لیے نیا یا نامانوس نہیں۔ پان کھاکر تھوکا جائے تو یہ پان کی پِیک کہلاتی ہے ۔ یہ لفظ ہندی الاصل ہے۔
نوراللغات میں معانی دیکھئے: (اسم مؤنث) چبائے ہوئے پان کا رنگین تھوک، پان کا عرق (تھوکنا کے ساتھ)، ۲۔ (دکن) کھیت کی تیار فصل ۳۔ بوتلوں میں تیل یا عرق ڈالنے کا آلہ، پیک دان (مذکر)، اُگال دان۔ ع کوئی مورچھل لے، کوئی پیک دان۔ {ہمارے عہد میں لفظ پیک دان تو متروک ہوچکا ہے، البتہ پرانے لوگ، اُگال دان، اب بھی بولتے ہیں۔ نئی نسل تو اُس سے بھی ناواقف ہوگی}۔ اردو لغت بورڈ کی ''مختصر اردو لغت'' میں مزید وضاحت یوں کی گئی ہے: ''پان کھانے سے منھ میں سُرخ رنگ کا لیس دار مادہ۔ پیک دان (مذکر)، اُگال دان کی وضاحت بھی صاحب ِ نوراللغات سے رہ گئی تھی، سو یہاں درج ہے: تھوکنے کا برتن، اُگال دان، وہ برتن جس میں پان کی اُگال ڈال دیتے ہیں۔ اردو میں لفظ ''پِیک'' بمعنی بادبان، پھننگ اور ٹوپی کا چھجا بھی مستعمل ہے۔
(مختصر اردو لغت)۔ اسی لفظ پر اگر زبر لگادیں تو پَیک بن جاتا ہے جو فارسی الاصل ہے، (یہ انگریزی لفظ Pack سے مختلف ہے جو سامان وغیرہ باندھنے اور باندھنے کا عمل کرنے کے معنوں میں اردو میں رائج ہوچکا ہے)۔ اسی لفظ نے سنسکرت سے پہلَوِی اور پھر فارسی تک آتے آتے، نیز اِس کے بعد، دیگر زبانوں میں داخل ہوتے ہوئے مختلف شکلیں اختیار کیں۔ پہلوی میں لفظ 'پیک' یا ' پیگ' کے معانی پیادہ سپاہی اور ہرکارے یا قاصد تھے، جو قدیم فارسی میں 'پادہ' (اور پھر پیادہ) بنا، جبکہ یہ لفظ سنسکرت کے لفظ 'پادیک' سے مشتق یا کم از کم ہم رشتہ ہے جس کا مطلب ہے: راہ گیر، پیدل چلنے والا۔ قدیم آرمینی میں یہ لفظ ''پائک'' اور وَسطی آرمینی میں ''پائیگ'' تھا اور جارجی [Georgian] میں پائکی بنا، {یاد رکھیں کہ یہی زبان گوجری کی اصل بھی سمجھی جاتی ہے جسے اردو کی ماں ہونے کا بھی دعویٰ ہے}، نیز قدیم (اور اَب مُردہ) زبان سُریانی[Syriac] میں فائیگی جس سے عربی لفظ فوج اور فَیج بھی بنے۔
اسم 'پیک' کی جمع 'پیک ہا' اور 'پیکان' ہے۔ یہی لفظ انگریزی اسم Peg (شراب نوشی کا پیمانہ) کا مُفَرس بھی ہے اور اُس صورت میں اس کی جمع محض 'پیک ہا' استعمال ہوتی ہے۔ امانتؔ لکھنوی کا شعر ہے: ہوں وہ دلِ سوختہ، طفلی میں اگر پیک بنا +جل اُٹھی سینۂ سوزاں سے کمر کی بَتّی۔ اہل تَشیُع کے یہاں جو بچے بڑی ارمان سے پیدا ہوتے ہیں، ان کو محرّم کے مہینے میں قاصد کا لباس پہناتے اور اس کو 'پیک بننا' کہتے ہیں' بقول مولوی نورالحسن نیئر، صاحب نوراللغات (تعجب ہے کہ انھوں نے لفظ ارمان کو مؤنث لکھا ہے)۔
اردو شاعری میں اسی پیک سے 'پیکِ اَجَل' یعنی موت کا فرشتہ، 'پیکِ امید' اور 'پیک ِفلک' (دونوں کا مطلب: چاند) جیسی فارسی تراکیب بھی تلاش کرنے پر مل جائیں گی۔ ایک بار پھر ہم دُہراتے چلیں کہ اردو میںلفظ ''پیَکان'' (پے کان) فارسی سے آیا ہے اور اس کے معانی ہیں: تیِر، نیز تِیر یا نیزے یا برَچھی کی نوک، اَنی یا پھال (پھَل)، بانک، تلوار یا چھُری کا اوپری حصہ، پھار، ڈال ]مختصر اردو لغت[، جس کے لیے انگریزی میں Arrowheadاور Spearhead کے الفاظ مستعمل ہیں۔
عیشؔلکھنوی کے دیوان میں موجود اس شعر میں لفظ پیکان کا استعمال دیکھئے: کوئی دَم گَر دیکھنا ہو تُج (تجھ) کو لطفِ زندگی+دل کی جا سینے میں رکھنا، اُوس (اُس) کا پیکاں چاہیے۔ نوراللغات میں پَیکاں کے معانی بھال، تیر کی اَنی، برچھی کی انی، نیزے کی نوک درج کرنے کے بعد، امیرؔ مینائی کا یہ مصرع نقل کیا گیا: ع دل کے بدلے بھی میرے سینے میں پیکاں ہوتا۔ ویسے جدید ایرانی فارسی میں تِیر کے لیے تِیر، خدنگ، پیکان اور سہم مستعمل ہیں۔ (مؤخرالذکر لفظ عربی الاصل ہے)۔ اب وہاں تِیر کی نوک کو نوکِ پیکان، سَرِ تِیر اور خطِ میخی کہا جاتا ہے۔ (بحوالہ فرہنگ انگلیسی۔ فارسی از عباس آریان پورکاشانی و منوچہر آریان پورکاشانی، مطبوعہ تہران، ایران : ۱۹۸۹ء)۔ ''پیکانِ خاراگذار'' ایک فارسی ترکیب ہے جس کا مطلب ہے ''وہ تیر جو سنگ ِخارا کو بھی چھید ڈالے۔'' اسی لفظ سے صفت بنی ''پیکانی'' جس کا مطلب ہے: لعل، یاقوت، الماس کی ایک قسم۔ شعورؔ نامی کسی شاعر کا شعر ہے: لنبے لنبے (لمبے لمبے) جو نکلتے ہیں مِرے آنسو سُرخ+ہنس کے فرماتے ہیں وہ، لعل یہ پیکانی ہے۔
نیز ایک قسم کا نوسادر (نوشادرغلط رائج)۔ ]نوراللغات[۔ مختصر اردو لغت میں پیکانی کے معانی یوں نقل کیے گئے ہیں: نوکیلا، نوک دار ;لال (لعل) اور یاقوت کی ایک قسم،۲۔ قدیم زمانے کی ایک رَوِشِ تحریر جو تیروں کی شکل کی ہوتی تھی جس میں قلم کے سِرے کو مَٹّی پر دَبانے سے میخ یا پیکان کا نشان بنتا تھا، پیکانی خط۔
اَب لفظ 'تُرک' کی بات کرتے ہیں۔ تُرک ایک قوم کا نام ہے۔ نیز اسے معشوق کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ حافظؔ شیرازی کا بہت مشہور واقعہ ہے کہ امیر تِیمُور نے انھیں اس شعر کی توجیہ کے لیے بازپُرس کرنے، اپنے دربار میں طلب کیا تھا : اگرآں تُرکِ شیرازی بَہ دَست آرَد ،دلِ مارَا+بَخالِ ہِندویَش بَخشَم، سمرقند وبخارارا۔ عظیم فاتح نے غریب شاعر سے سوال کیا کہ ہم نے تو سمرقند اور بخار ا کی تزئین کی خاطر ایک جہان اُجاڑ دیا، تم کیسے اپنے محبوب کے ایک سیاہ تِل کے عِوَض یہ دونوں شہر بخشنے کو تیار ہوگئے۔ فارسی غزل کے عظیم سخنور نے برجستہ، تاریخی جواب دیا'''اسی لیے تو اِس حال کو پہنچا ہوں۔'' یہاں ناواقفین کے لیے عرض کردوں کہ ہمارے یہاںولیؔ گجراتی، خواجہ میردردؔ، میرزا مظہرجانِ جاناں ؔ ، ریاضؔ خیرآبادی (شاعر ِخُمریات) اور اصغر ؔ گونڈوی کی شاعری میںعشق کے ساتھ ساتھ جا بجا مذکور مَئے۔یا۔بادہ یعنی شراب حقیقی شراب نہیں۔
تَرک کے معنیٰ ہیں چھوڑ دینا، دست بَردار ہونا ، کنارہ کرلینا ، کنارہ کشی، بھول چوک، سہو، فروگذاشت نیز کاغذ کا وہ ٹکڑا یا مور (پرندے) کا پر جو بطور نشان کتاب کے بیچ رکھا جائے۔ ؎ موت مانگی تھی، خُدائی تو نہیں مانگی تھی+لے، دعا کرچکے، اَب تَرکِ دُعا کرتے ہیں (یاسؔ یگانہؔ چنگیزی) {اس شعر کا مصرع اولیٰ ایک ہندوستانی فلم کے مشہور گانے میں شامل ہے} اور پھر ناصر ؔ کاظمی کا مشہورِِزمانہ شعر: اَے دوست، ہم نے تَرکِ محبت کے باوجود+محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی۔ نہیں کہ وہ حقیقی زندگی میں بھی شرابی تھے، اسی طرح فارسی میں عمرخیام، حافظ اور سعدی ؔکا معاملہ بھی ہے۔
حافظ ؔ شیرازی، عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے نیزحافظ و مُفَسّرِ قرآن اور مستند عالم و صاحب ِکتاب مصنف تھے۔ یہ وضاحت یوں ضروری ہے کہ لوگ اپنی لاعلمی میں کلام کی تشریح کرتے ہوئے شاعر کو مجسم بدی نہ قراردیں۔ لفظ ٹیک اور ٹِیک میں بھی فرق جاننا ضروری ہے۔
اوّل الذکر کا مطلب ہے تھونی، کھمبا، روک، پایہ، ستون، آبرو، استحکام وغیرہ جبکہ ٹِیک ہندی لفظ ہے، یہ گلے کا ایک زیور ہوتا ہے۔ ایک ٹِیک انگریزی میں مشہور ہے[Teak] جو فرنیچر بنانے میں استعمال ہونے والی لکڑی ہے۔ یہ درخت اردو میں ساگوان کہلاتا ہے۔ اب یہ الفاظ یک جا دیکھیں: چین، چَین، چِین، چِیں۔ چین تو انگریزی Chainیعنی زنجیر ہے ، چَین یعنی سکون سے آپ سبھی واقف ہیں، چیِن ہمارا دوست ملک ہے اور چیِن یا چیِں یعنی شکن جیسے ماتھے کی شکن، فارسی سے آیا ہے۔ لفظ من کے کئی معانی ہیں۔ ایک تو ہندی لفظ مَن یعنی دل آج کل بہت مشہور ہے، دوسرا وزن میں مستعمل، مَن جس کی جگہ انگریزی کا لفظ Ton(اٹھائیس مَن کے برابر)، زیادہ مشہور ہے۔ یہ بھی ہندی ہے۔ تیسرا مَنّ (مع تشدید) وہ ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں ''سَلویٰ' ' (بٹیر سے مماثل پرندہ) کے ساتھ آیا ہے اور جو تفاسیر کے بیان کی رُو سے دھنیے سے مماثل کوئی بیج تھا۔
اظہار تشکر: میرے کالم ''اردو کی بہن۔ بنگلہ'' کے لیے بعض اہم مطلوبہ کتب بشمول بنگال میں اردو اور مشرقی بنگال میں اردو کی PDF فائل میرے واٹس ایپ دوست محترم اطہر اقبال (مقیم لاہور) نے فراہم کی تھیں، جس کے لیے میں صمیم قلب سے شکرگزار ہوں۔ اُن کا ذکر دو قسطوں پر مبنی گزشتہ کالم میں شامل نہ ہوسکا تھا، معذرت خواہ ہوں۔