مارکسزم اور قوم پرستی کی سیاست پہلا حصہ
مارکسزم اور ’’ قوم پرستی‘‘ دو متضاد اور متخالف فکری و عملی رجحانات ہیں۔ قوم پرستی بورژوازی کی آئیڈیالوجی ہے۔۔۔
مارکسزم اور '' قوم پرستی'' دو متضاد اور متخالف فکری و عملی رجحانات ہیں۔ قوم پرستی بورژوازی کی آئیڈیالوجی ہے، جب کہ مارکسزم قومیت کی بجائے بین الاقوامیت کی سیاست پر یقین رکھنے کا نام ہے۔ سوشلزم کے نام پر کی جانے والی ہر جدوجہد کے وسط میں ''کومینسٹ مینی فیسٹو'' میں لکھے گئے یہ فقرے بہت نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور ان کو نظر اندازکیے بغیر محنت کشوں کی جدو جہد کو ترقی پسندانہ خطوط پر استوار نہیں کیا جا سکتا کہ ''دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔'' پہلی ہی نظر میں مارکس اور اینگلز کے ان افکار سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مارکسزم میں قوم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اس فکر میں قوم پرستی کے برعکس بین الاقوامیت کا پہلو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم جب مارکسزم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قوم پرستی کے حوالے سے متضاد عملی و فکری رویے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اٹھارویں اور انیسویں صدیوں میں جب سرمایہ داری نظام، جاگیرداری نظام کو مکمل طور پر تباہ کرتے ہوئے ایک غالب معاشی، سیاسی اور سماجی رجحان کے طور پر ارتقا پذیر تھا تو اس وقت خود مارکس اور اینگلز نے ''قوم پرستی'' کی بنیاد پر روسی زارشاہی اور آسٹریا کی حکومتوں کی محض اس لیے مخالفت کی کہ جہاں ایک طرف یہ پولینڈ اور ہنگری جیسی کمزور اقوام پر ظلم و تشدد، جبر و استبداد اور اور استحصال کی مرتکب ہو رہی تھیں تو دوسری طرف جرمنی اور اٹلی کے اندرونی خلفشار کا باعث بن رہی تھیں۔
مارکس اور اینگلز کی کمزور اقوام کی حمایت غیر مشروط نہیں تھی، بلکہ ان تحریکوں میں مضمر ترقی پسندانہ رجحان پر ان کی گہری نظر تھی، محض آئیڈیولاجیکل بنیادوں پر ان تحریکوں کی حمایت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ان دونوں مفکرین نے 1848ء کے انقلاب کے دوران سربیا اور چیکوسلواکیہ وغیرہ جیسے کئی ممالک کی آزادی کی تحریکوں کی مخالفت بھی کی۔ وجہ اس کی صاف ظاہر ہے کہ ان تحریکوں کی کامیابی کا فائدہ روس اور آسٹریا جیسی جابر اور متشدد اقوام کو ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ اس مختصر پس منظر سے یہ نکتہ بالکل واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے کہ قومی سوال کے نام پر خود مختاری یا آزادی کی ہر تحریک کی غیر مشروط حمایت مارکسزم کی سیاست کا حصہ نہیں ہے، تاوقتیکہ آزادی کی ایسی تحریک میں ''ترقی پسندانہ'' پہلو شامل نہ ہوں یعنی آزادی کی ایسی تحریک بنیادی طور پرایک مختلف نظام کی جانب نہ بڑھ رہی ہو یا پھر ایسی تحریک سے پسے ہوئے استحصال زدہ، مجبور و مقہور طبقات کے لیے انصاف، مساوات اور آزادی جیسی اقدار کا ظہور ہوتا دکھائی نہ دیتا ہو۔ قومیت کے سوال میں بھی حقیقی مسئلہ محض شکلوں کی تبدیلی سے نہیں بلکہ ذرایع پیداوار کے حوالے سے طبقات کی بنیاد پر حل ہوتا ہے ۔ مارکس اور اینگلز کی قوم پرستانہ تحریکوں کی حمایت اور مخالفت سے بورژوا دانشوروں کو یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ مارکسزم ''قومیت کے سوال'' کا کوئی واضح حل پیش نہیں کرتا۔ مارکس اور اینگلز کی تحریروں میں اس حوالے سے تضادات بہرحال موجود ہیں۔ ''مینی فیسٹو'' کا یہ فقرہ جس میں ''دنیا بھر کے محنت کشوں '' کو اکٹھے ہو جانے کا کہا گیا ہے، اس سے تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ انیسویں صدی میں ہی سرمائے کا کردار مقامی سے زیادہ آفاقی شکل اختیار کر چکا تھا، اور محنت کشوں کے لیے معروضی حالات موجود تھے کہ جن کی بنیاد پر کسی ایک ملک کے محنت کش کسی دوسری قوم کے محنت کشوں سے ارتباط میں آ سکتے ہوں۔ اور اگر سرمایہ داری نظام انیسویں صدی میں ایک آفاقی نظام کے طور پر سامنے نہیں آیا تھا تو ''مینی فیسٹو'' کے مصنفین کے ان فقروںکی سچائی پر بھی سوالیہ نشان لگتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر روژا لگزمبرگ نے اپنی تھیوری کی بنیاد رکھی۔
مارکسزم میں معیشت کے عالمگیر کردار کہ جس میں دو واضح طبقات ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوں اور سیاست کے مابین جدلیاتی تعلق کو کیسے قائم کرنا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے مارکسی مفکر ہر عہد میں نبرد آزما رہے ہیں۔ لینن کے سامنے بھی یہی سوال تھا، مگر ''قوموں کے حقِ خود ارادیت'' کے بارے میں لینن کا مؤقف واضح ہے۔ لینن نے اگرچہ ''علیحدگی''' کی تحریکوں کی کبھی ''تبلیغ'' نہیں کی مگراس نے اقوام کے ایک دوسرے سے الحاق یا علیحدگی کے حق کو تسلیم ضرور کیا ہے۔ قوموں کے حقِ خود ارادیت سے متعلق 1903ء میںروسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی جس کے بعد قومی سوال سے متعلق بحث شدت اختیار کر گئی۔ مارکسی نظریہ ساز روژا لگزمبرگ نے سیکشن 3 کو تنقید کا نشانہ بنایا جس میں قوموں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ لگزمبرگ پولینڈ کی رہائشی تھی مگر اس نے پولینڈ کی آزادی کی تحریک کی مخالفت کی۔ اس کا بنیادی مقدمہ یہی تھا کہ سرمائے کے آفاقی کردار اور سامراجی قوتوں کی مضبوطی سے قومی ریاستوں کی گرفت ڈھیلی ہوتی جا رہی ہے۔طاقتور سرمایہ دار ممالک کا کنٹرول اس حد تک مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ کہ اقوام کے حقِ خود ارادیت کے لیے گنجائش نہیں بچتی۔ رنگ، نسل، قومیت کی بنا پر قائم ہوئی شناختیں سرمائے کے ارتقائی کردار سے مانند پڑتی جا رہی ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ''قوموں کے حقِ خود ارادیت '' اور ان کی ''آزادی کا امکان'' محض ایک'' واہمہ'' معلوم ہوتا ہے۔ لگزمبرگ نے لینن کے برعکس ' سرمایہ داری نظام میں'ابلاغ کی آزادی'' میں ترقی پسندانہ کردار دیکھنے کی بجائے اسے سرمایہ دارانہ ریاست کے بنیادی خصائص میں سے ایک قرار دیا۔ اس سے کم از کم یہ نکتہ واضح ہو گیا کہ ترقی پسندانہ رجحان سے مراد محض وہ اقدار نہیں جنھیں سرمایہ داری ریاست تسلیم کرتی ہے۔ ان پر توجہ دینے کا مطلب نہ صرف وقت کا زیاں ہے بلکہ اس سے حقیقی طبقاتی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ بھی پیدا ہوتی ہے۔
لگزمبرگ کے دلائل قبل از وقت تھے، وہ اپنے مقدمے کو کوئی تاریخی اور ''مقرونی'' بنیاد نہ دے سکی مگر سرمائے کی عالمگیریت کے پیش نظر عہد حاضر میںاس کے افکار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لینن نے لگزمبرگ سے بالکل الٹ مؤقف اختیار کیا۔ اس کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ سرمایہ داری نظام کی تشکیل و ارتقا اور بورژوا انقلابات کے دوران ہی قومیت کی تحریکیں نہ صرف جنم لیتی رہی ہیں بلکہ کامیاب بھی ہوتی رہی ہیں۔ مغربی یورپ میں بورژوا جمہوری انقلابات کا عرصہ 1789ء سے 1871ء تک ہے، جب کہ مشرقی یورپ میں بورژوا جمہوری انقلابات کا آغاز ہی 1905ء سے ہوتا ہے اور ان تمام انقلابات میں ''قومیتوں کی آزادی'' اور خود مختاری کا سوال اہم رہا ہے۔ لینن نے اپنے بنیادی مقدمے یعنی ''اقوام کے حق خود ارادیت '' کے سوال کی وضاحت یوں کی کہ تاریخی اور معاشی حوالوں سے اقوام کے حق خود ارادیت کا مفہوم ''سیاسی، ریاستی آزادی اور قومی ریاست کی تشکیل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔'' لینن کے یہ خیالات اس قدر مبہم ہیں کہ اگر ان کے عملی اطلاق کی کوشش کی جائے تو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کارل چاؤ ٹسکی، نکولس بخارین اور لگزمبرگ وغیرہ جیسے نظریہ ساز لینن سے متفق نہ تھے۔ لینن کے افکار میں ہی وہ رجحان موجود ہے کہ اس سے مختلف قسم کی آرا کا وجود میں آنا ناگزیر ہے مثال کے طور پر لینن نے کہا کہ ''مارکسزم کی قوم پرستی سے مصالحت ممکن نہیں ہے خواہ وہ کتنی ہی مبنی بر انصاف، خالص، نفیس اور مہذب کیوں نہ ہو۔ مارکسزم بین الاقوامیت کی جانب بڑھتاہے، تمام اقوام کی بلند سطح پر وحدت قائم کرتا ہے ۔ '' یہاں لینن کے پیشِ نظر جابر و ظالم اور متشدد اقوام کی قوم پرستی ہے تاہم جہاں تک قومی سوال کا تعلق ہے تو اسے قوم پرستی سے الگ کر کے دیکھنا اتناآسان نہیں ہے ۔ قوم پرستی کا جذبہ بیدار کیے بغیر ''آزادی'' یا علیحدگی'' کی تحریک کو چلانا بھی خاصا مشکل کام ہے جب کہ قوم پرستی کی بنیاد پر آزادی یا علیحدگی کی تحریک حقیقت میں بورژوا ریاست کے مفادات کی نگہبان ہوتی ہے۔ جابر و ظالم قوم کے جبر کو اگر طبقاتی جبر کے طور پر نہ دیکھا جائے تو اسے قوم پرستی کے لبادے ہی میں پیش کرنا پڑتا ہے۔ لینن کے لیے ظالم و متشدد اقوام کا ''جبر'' اہم تھا جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے ظالم اقوام اور مظلوم اقوام کے محنت کشوں کے مابین ''قومیت'' کے نام پر نہیں بلکہ طبقاتی بنیادوں پر بین الاقوامیت کا سوال اٹھایا جانا ضروری ہے۔ مارکسزم کی سیاست میں ظالم وجابر اور متشدد اقوام کی قوم پرستی کو مسترد کرنا لازمی ہے لیکن اس کے ساتھ جبر و تشدد کا شکار اقوام کی قوم پرستی کو اس لیے بھی تسلیم کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے کہ مقصد دنیا کو اقوام کی تقسیم سے بچانا ہے۔ اقوام کی تقسیم بین الاقوامیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ نفرتوں کی بنیاد پر خلیج میں اضافہ ہونے سے مظلوم طبقات کے اتحاد پر بھی زد پڑتی ہے۔ مظلوم اقوام کے موقع پرست عناصر کو پہچاننا بھی ضروری ہے جو سامراجیوں کے لیے مؤثر ہتھیار بن جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
مارکس اور اینگلز کی کمزور اقوام کی حمایت غیر مشروط نہیں تھی، بلکہ ان تحریکوں میں مضمر ترقی پسندانہ رجحان پر ان کی گہری نظر تھی، محض آئیڈیولاجیکل بنیادوں پر ان تحریکوں کی حمایت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ان دونوں مفکرین نے 1848ء کے انقلاب کے دوران سربیا اور چیکوسلواکیہ وغیرہ جیسے کئی ممالک کی آزادی کی تحریکوں کی مخالفت بھی کی۔ وجہ اس کی صاف ظاہر ہے کہ ان تحریکوں کی کامیابی کا فائدہ روس اور آسٹریا جیسی جابر اور متشدد اقوام کو ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ اس مختصر پس منظر سے یہ نکتہ بالکل واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے کہ قومی سوال کے نام پر خود مختاری یا آزادی کی ہر تحریک کی غیر مشروط حمایت مارکسزم کی سیاست کا حصہ نہیں ہے، تاوقتیکہ آزادی کی ایسی تحریک میں ''ترقی پسندانہ'' پہلو شامل نہ ہوں یعنی آزادی کی ایسی تحریک بنیادی طور پرایک مختلف نظام کی جانب نہ بڑھ رہی ہو یا پھر ایسی تحریک سے پسے ہوئے استحصال زدہ، مجبور و مقہور طبقات کے لیے انصاف، مساوات اور آزادی جیسی اقدار کا ظہور ہوتا دکھائی نہ دیتا ہو۔ قومیت کے سوال میں بھی حقیقی مسئلہ محض شکلوں کی تبدیلی سے نہیں بلکہ ذرایع پیداوار کے حوالے سے طبقات کی بنیاد پر حل ہوتا ہے ۔ مارکس اور اینگلز کی قوم پرستانہ تحریکوں کی حمایت اور مخالفت سے بورژوا دانشوروں کو یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ مارکسزم ''قومیت کے سوال'' کا کوئی واضح حل پیش نہیں کرتا۔ مارکس اور اینگلز کی تحریروں میں اس حوالے سے تضادات بہرحال موجود ہیں۔ ''مینی فیسٹو'' کا یہ فقرہ جس میں ''دنیا بھر کے محنت کشوں '' کو اکٹھے ہو جانے کا کہا گیا ہے، اس سے تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ انیسویں صدی میں ہی سرمائے کا کردار مقامی سے زیادہ آفاقی شکل اختیار کر چکا تھا، اور محنت کشوں کے لیے معروضی حالات موجود تھے کہ جن کی بنیاد پر کسی ایک ملک کے محنت کش کسی دوسری قوم کے محنت کشوں سے ارتباط میں آ سکتے ہوں۔ اور اگر سرمایہ داری نظام انیسویں صدی میں ایک آفاقی نظام کے طور پر سامنے نہیں آیا تھا تو ''مینی فیسٹو'' کے مصنفین کے ان فقروںکی سچائی پر بھی سوالیہ نشان لگتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر روژا لگزمبرگ نے اپنی تھیوری کی بنیاد رکھی۔
مارکسزم میں معیشت کے عالمگیر کردار کہ جس میں دو واضح طبقات ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوں اور سیاست کے مابین جدلیاتی تعلق کو کیسے قائم کرنا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے مارکسی مفکر ہر عہد میں نبرد آزما رہے ہیں۔ لینن کے سامنے بھی یہی سوال تھا، مگر ''قوموں کے حقِ خود ارادیت'' کے بارے میں لینن کا مؤقف واضح ہے۔ لینن نے اگرچہ ''علیحدگی''' کی تحریکوں کی کبھی ''تبلیغ'' نہیں کی مگراس نے اقوام کے ایک دوسرے سے الحاق یا علیحدگی کے حق کو تسلیم ضرور کیا ہے۔ قوموں کے حقِ خود ارادیت سے متعلق 1903ء میںروسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی جس کے بعد قومی سوال سے متعلق بحث شدت اختیار کر گئی۔ مارکسی نظریہ ساز روژا لگزمبرگ نے سیکشن 3 کو تنقید کا نشانہ بنایا جس میں قوموں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ لگزمبرگ پولینڈ کی رہائشی تھی مگر اس نے پولینڈ کی آزادی کی تحریک کی مخالفت کی۔ اس کا بنیادی مقدمہ یہی تھا کہ سرمائے کے آفاقی کردار اور سامراجی قوتوں کی مضبوطی سے قومی ریاستوں کی گرفت ڈھیلی ہوتی جا رہی ہے۔طاقتور سرمایہ دار ممالک کا کنٹرول اس حد تک مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ کہ اقوام کے حقِ خود ارادیت کے لیے گنجائش نہیں بچتی۔ رنگ، نسل، قومیت کی بنا پر قائم ہوئی شناختیں سرمائے کے ارتقائی کردار سے مانند پڑتی جا رہی ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ''قوموں کے حقِ خود ارادیت '' اور ان کی ''آزادی کا امکان'' محض ایک'' واہمہ'' معلوم ہوتا ہے۔ لگزمبرگ نے لینن کے برعکس ' سرمایہ داری نظام میں'ابلاغ کی آزادی'' میں ترقی پسندانہ کردار دیکھنے کی بجائے اسے سرمایہ دارانہ ریاست کے بنیادی خصائص میں سے ایک قرار دیا۔ اس سے کم از کم یہ نکتہ واضح ہو گیا کہ ترقی پسندانہ رجحان سے مراد محض وہ اقدار نہیں جنھیں سرمایہ داری ریاست تسلیم کرتی ہے۔ ان پر توجہ دینے کا مطلب نہ صرف وقت کا زیاں ہے بلکہ اس سے حقیقی طبقاتی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ بھی پیدا ہوتی ہے۔
لگزمبرگ کے دلائل قبل از وقت تھے، وہ اپنے مقدمے کو کوئی تاریخی اور ''مقرونی'' بنیاد نہ دے سکی مگر سرمائے کی عالمگیریت کے پیش نظر عہد حاضر میںاس کے افکار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لینن نے لگزمبرگ سے بالکل الٹ مؤقف اختیار کیا۔ اس کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ سرمایہ داری نظام کی تشکیل و ارتقا اور بورژوا انقلابات کے دوران ہی قومیت کی تحریکیں نہ صرف جنم لیتی رہی ہیں بلکہ کامیاب بھی ہوتی رہی ہیں۔ مغربی یورپ میں بورژوا جمہوری انقلابات کا عرصہ 1789ء سے 1871ء تک ہے، جب کہ مشرقی یورپ میں بورژوا جمہوری انقلابات کا آغاز ہی 1905ء سے ہوتا ہے اور ان تمام انقلابات میں ''قومیتوں کی آزادی'' اور خود مختاری کا سوال اہم رہا ہے۔ لینن نے اپنے بنیادی مقدمے یعنی ''اقوام کے حق خود ارادیت '' کے سوال کی وضاحت یوں کی کہ تاریخی اور معاشی حوالوں سے اقوام کے حق خود ارادیت کا مفہوم ''سیاسی، ریاستی آزادی اور قومی ریاست کی تشکیل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔'' لینن کے یہ خیالات اس قدر مبہم ہیں کہ اگر ان کے عملی اطلاق کی کوشش کی جائے تو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کارل چاؤ ٹسکی، نکولس بخارین اور لگزمبرگ وغیرہ جیسے نظریہ ساز لینن سے متفق نہ تھے۔ لینن کے افکار میں ہی وہ رجحان موجود ہے کہ اس سے مختلف قسم کی آرا کا وجود میں آنا ناگزیر ہے مثال کے طور پر لینن نے کہا کہ ''مارکسزم کی قوم پرستی سے مصالحت ممکن نہیں ہے خواہ وہ کتنی ہی مبنی بر انصاف، خالص، نفیس اور مہذب کیوں نہ ہو۔ مارکسزم بین الاقوامیت کی جانب بڑھتاہے، تمام اقوام کی بلند سطح پر وحدت قائم کرتا ہے ۔ '' یہاں لینن کے پیشِ نظر جابر و ظالم اور متشدد اقوام کی قوم پرستی ہے تاہم جہاں تک قومی سوال کا تعلق ہے تو اسے قوم پرستی سے الگ کر کے دیکھنا اتناآسان نہیں ہے ۔ قوم پرستی کا جذبہ بیدار کیے بغیر ''آزادی'' یا علیحدگی'' کی تحریک کو چلانا بھی خاصا مشکل کام ہے جب کہ قوم پرستی کی بنیاد پر آزادی یا علیحدگی کی تحریک حقیقت میں بورژوا ریاست کے مفادات کی نگہبان ہوتی ہے۔ جابر و ظالم قوم کے جبر کو اگر طبقاتی جبر کے طور پر نہ دیکھا جائے تو اسے قوم پرستی کے لبادے ہی میں پیش کرنا پڑتا ہے۔ لینن کے لیے ظالم و متشدد اقوام کا ''جبر'' اہم تھا جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے ظالم اقوام اور مظلوم اقوام کے محنت کشوں کے مابین ''قومیت'' کے نام پر نہیں بلکہ طبقاتی بنیادوں پر بین الاقوامیت کا سوال اٹھایا جانا ضروری ہے۔ مارکسزم کی سیاست میں ظالم وجابر اور متشدد اقوام کی قوم پرستی کو مسترد کرنا لازمی ہے لیکن اس کے ساتھ جبر و تشدد کا شکار اقوام کی قوم پرستی کو اس لیے بھی تسلیم کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے کہ مقصد دنیا کو اقوام کی تقسیم سے بچانا ہے۔ اقوام کی تقسیم بین الاقوامیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ نفرتوں کی بنیاد پر خلیج میں اضافہ ہونے سے مظلوم طبقات کے اتحاد پر بھی زد پڑتی ہے۔ مظلوم اقوام کے موقع پرست عناصر کو پہچاننا بھی ضروری ہے جو سامراجیوں کے لیے مؤثر ہتھیار بن جاتے ہیں۔
(جاری ہے)