عوامی مسائل کب حل ہوں گے
اب تو حزب اختلاف استعفے دینے کے معاملے پر انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔
BAHAWALPUR:
پاکستان ایک زرعی ملک ہے یہاں کی ساٹھ فیصد آبادی زراعت کے پیشے سے تعلق رکھتی ہے۔ خوش قسمتی سے ملک غذائی اجناس کی پیداوار میں مثالی کارکردگی دکھاتا رہا ہے مگرگزشتہ تین سال سے ملک میں گندم اور چینی کی پیداوار میں ریکارڈ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ابھی ان اشیا کی درآمد پرکثیر زر مبادلہ خرچ کرنا پڑ رہا تھا کہ اس سال کپاس کی پیداوار میں پچاس فی صد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔
ملک میں اس سے پہلے اتنی کپاس پیدا ہوتی تھی کہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد بھی یہ بچ جاتی تھی جسے بیرون ملک برآمد کردیا جاتا تھا۔ اس سال کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ملکی ٹیکسٹائل کے شعبے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے درآمد کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ زرعی شعبے کی یہ تنزلی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اسے اس سلسلے میں ضرور غور و فکر کرنا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس شعبے کی خراب کارکردگی کو کیسے درست کیا جاسکتا ہے۔
چند دن قبل وزیراعظم عمران خان نے زیتون کی شجرکاری مہم کے آغاز پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خود ملک کے زرعی شعبے کی تشویشناک حالت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سال سے گندم اور چینی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ گزشتہ سال تیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑی تھی اور رواں سال اب تک چالیس لاکھ ٹن گندم درآمد کی جا چکی ہے اور ابھی آگے مزید گندم درآمد کرنا پڑے گی۔
تجزیہ کار اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ دو سال قبل گندم اور چینی درآمد کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی مگر اب آخر ایسا کیا ہوا کہ حکومت گندم چینی کے علاوہ روئی بھی درآمد کرنے پر مجبور ہوگئی ہے جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ ایک طرف ملک پہلے ہی بھاری قرضوں تلے دب چکا ہے اور لگتا ہے ابھی مزید قرضے لینا ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی سخت شرائط کی وجہ سے غریبوں کی زندگی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ ملک میں پہلے ہی تیس فی صد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے اب پچاس فی صد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا پہنچے ہیں۔
نئی حکومت کے لیے عوام کی یہ حالت زار قابل غور ہی نہیں بلکہ اپنے انتخابی منشور سے سراسر روگردانی کے مترادف ہے۔ ابھی چند دن قبل تک حکومت ٹیکسٹائل کے شعبے کی بہترین کارکردگی کی تعریفیں کر رہی تھی مگر اب روئی کی ملکی پیداوار میں پچاس فی صد تک کمی کی وجہ سے اس شعبے کی ترقی کے ماند پڑنے کا احتمال ہے کیونکہ اب روئی کو بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑے گا جس سے اس صنعت کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے منافع میں کمی واقع ہوگی۔ چونکہ ہمارے صنعت کار زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے عادی ہیں چنانچہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے کارخانوں کو دوبارہ بند کرنا شروع کردیں۔
اس وقت ملک میں مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ روپے کی قدر میں کمی کو قرار دیا جا رہا ہے مگر صرف روپے کی قدر میں کمی کو مہنگائی کا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی وجہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ بھی ہے جسے بڑھنے سے روکنے میں حکومت قطعاً ناکام ہو چکی ہے اور شاید آگے بھی اس کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے اس لیے کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ آئی ایم ایف سے طے پانیوالی شرائط کے تحت ہو رہا ہے۔ ان شرائط کیمطابق ابھی حکومت کو بجلی کے بلوں کی ریکوری کو 90 فیصد سے بڑھا کر 96 فی صد تک کرنا ہے۔
حکومت کی جانب سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے سے متعلق بیانات ضرور دیے جاتے ہیں جن کا مقصد عوامی بے چینی کو دورکرنا ہے۔ حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کے ازالے کے لیے ہی شہروں میں لنگر خانے کھول رہی ہے جہاں عوام کو تین وقت کا کھانا مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح ملک میں فقیروں کی تعداد میں اضافہ تو کیا جاسکتا ہے مگر عوامی پریشانیوں کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی توجہ عوامی مسائل کی جانب مبذول نہ ہونے کی وجہ حزب اختلاف کی جاری ''حکومت گرائو تحریک'' ہے۔
ملک میں گزشتہ دنوں منعقد ہونیوالے تمام ضمنی انتخابات میں حزب اختلاف نے حکومتی امیدواروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ ڈسکہ میں منعقد ہونیوالے ضمنی انتخابات نے حکومتی پوزیشن کو کافی مجروح کردیا ہے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے حکومتی امیدوار کا جیتنا ممکن نہیں تھا مگر حکومتی وزرا نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا چنانچہ یہاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے وہ کچھ کیا گیا جو تحریک انصاف جیسی پارٹی کو زیب نہیں دیتا تھا۔ حزب اختلاف نے اس حلقے میں ہونے والی دھاندلی اور بدانتظامی کا ذمے دار حکومت کو قرار دیا جس کی تصدیق الیکشن کمیشن نے بھی کی اور یہاں دوبارہ الیکشن کرانے کا اعلان کردیا۔
حکومت کو الیکشن کمیشن کی یہ ادا پسند نہیں آئی اور اس نے اس ادارے کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس کے بعد حزب اختلاف نے سینیٹ کے الیکشن میں حکومتی امیدواروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا گوکہ پی ٹی آئی اس معرکے میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر اس کے خاص امیدوار حفیظ شیخ ہار گئے حکومت نے اس کا بدلہ سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں لے لیا اس کے امیدوار صادق سنجرانی جیت گئے اور یوسف رضا گیلانی حزب اختلاف کے سینیٹرزکی عددی برتری کے باوجود بھی ہارگئے۔
اپوزیشن اس الیکشن سے قبل وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کے اس بیان کو زیادہ اچھال رہی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''حکومت ہر حال میں یہ الیکشن جیتنے کی کوشش کرے گی خواہ اسے کوئی بھی حربہ استعمال کرنا پڑے۔'' یہ بیان پی ٹی آئی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ کیونکہ عمران خان نے ہمیشہ جائز طریقے سے حکومت کرنے اور تمام معاملات کو سلجھانے کی بات کی ہے۔ دراصل ان کے کرپشن کے خلاف جہاد کے نعرے نے ہی عوام کو ان کی جانب مائل کیا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت کی عوامی مسائل سے عدم توجہی کی وجہ حزب اختلاف کی تحریک کو قرار دیا جا رہا تھا اب تو حزب اختلاف استعفے دینے کے معاملے پر انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ اس طرح حکومت کے لیے اب حزب اختلاف کا چیلنج ختم ہو چکا ہے اب تو اسے اپنی بھرپور توانائیاں عوامی مسائل کو حل کرنے پر صرف کرنا چاہیے اور عوام کی مایوسی کو دور کرنا چاہیے۔
گوکہ مہنگائی اس وقت سب سے اہم مسئلہ ہے مگر صرف یہی عوامی بے چینی کی وجہ نہیں ہے کئی شہروں کی بلدیات کو عوامی بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے فنڈز درکار ہیں۔ خاص طور پر کراچی کے عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت دو مرتبہ ترقیاتی پیکیجز کا اعلان کر چکی ہے مگر اب تک فنڈز فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ اب اسے اس جانب بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے یہاں کی ساٹھ فیصد آبادی زراعت کے پیشے سے تعلق رکھتی ہے۔ خوش قسمتی سے ملک غذائی اجناس کی پیداوار میں مثالی کارکردگی دکھاتا رہا ہے مگرگزشتہ تین سال سے ملک میں گندم اور چینی کی پیداوار میں ریکارڈ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ابھی ان اشیا کی درآمد پرکثیر زر مبادلہ خرچ کرنا پڑ رہا تھا کہ اس سال کپاس کی پیداوار میں پچاس فی صد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔
ملک میں اس سے پہلے اتنی کپاس پیدا ہوتی تھی کہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد بھی یہ بچ جاتی تھی جسے بیرون ملک برآمد کردیا جاتا تھا۔ اس سال کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ملکی ٹیکسٹائل کے شعبے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے درآمد کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ زرعی شعبے کی یہ تنزلی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اسے اس سلسلے میں ضرور غور و فکر کرنا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس شعبے کی خراب کارکردگی کو کیسے درست کیا جاسکتا ہے۔
چند دن قبل وزیراعظم عمران خان نے زیتون کی شجرکاری مہم کے آغاز پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خود ملک کے زرعی شعبے کی تشویشناک حالت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سال سے گندم اور چینی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ گزشتہ سال تیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑی تھی اور رواں سال اب تک چالیس لاکھ ٹن گندم درآمد کی جا چکی ہے اور ابھی آگے مزید گندم درآمد کرنا پڑے گی۔
تجزیہ کار اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ دو سال قبل گندم اور چینی درآمد کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی مگر اب آخر ایسا کیا ہوا کہ حکومت گندم چینی کے علاوہ روئی بھی درآمد کرنے پر مجبور ہوگئی ہے جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ ایک طرف ملک پہلے ہی بھاری قرضوں تلے دب چکا ہے اور لگتا ہے ابھی مزید قرضے لینا ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی سخت شرائط کی وجہ سے غریبوں کی زندگی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ ملک میں پہلے ہی تیس فی صد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے اب پچاس فی صد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا پہنچے ہیں۔
نئی حکومت کے لیے عوام کی یہ حالت زار قابل غور ہی نہیں بلکہ اپنے انتخابی منشور سے سراسر روگردانی کے مترادف ہے۔ ابھی چند دن قبل تک حکومت ٹیکسٹائل کے شعبے کی بہترین کارکردگی کی تعریفیں کر رہی تھی مگر اب روئی کی ملکی پیداوار میں پچاس فی صد تک کمی کی وجہ سے اس شعبے کی ترقی کے ماند پڑنے کا احتمال ہے کیونکہ اب روئی کو بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑے گا جس سے اس صنعت کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے منافع میں کمی واقع ہوگی۔ چونکہ ہمارے صنعت کار زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے عادی ہیں چنانچہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے کارخانوں کو دوبارہ بند کرنا شروع کردیں۔
اس وقت ملک میں مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ روپے کی قدر میں کمی کو قرار دیا جا رہا ہے مگر صرف روپے کی قدر میں کمی کو مہنگائی کا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی وجہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ بھی ہے جسے بڑھنے سے روکنے میں حکومت قطعاً ناکام ہو چکی ہے اور شاید آگے بھی اس کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے اس لیے کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ آئی ایم ایف سے طے پانیوالی شرائط کے تحت ہو رہا ہے۔ ان شرائط کیمطابق ابھی حکومت کو بجلی کے بلوں کی ریکوری کو 90 فیصد سے بڑھا کر 96 فی صد تک کرنا ہے۔
حکومت کی جانب سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے سے متعلق بیانات ضرور دیے جاتے ہیں جن کا مقصد عوامی بے چینی کو دورکرنا ہے۔ حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کے ازالے کے لیے ہی شہروں میں لنگر خانے کھول رہی ہے جہاں عوام کو تین وقت کا کھانا مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح ملک میں فقیروں کی تعداد میں اضافہ تو کیا جاسکتا ہے مگر عوامی پریشانیوں کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی توجہ عوامی مسائل کی جانب مبذول نہ ہونے کی وجہ حزب اختلاف کی جاری ''حکومت گرائو تحریک'' ہے۔
ملک میں گزشتہ دنوں منعقد ہونیوالے تمام ضمنی انتخابات میں حزب اختلاف نے حکومتی امیدواروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ ڈسکہ میں منعقد ہونیوالے ضمنی انتخابات نے حکومتی پوزیشن کو کافی مجروح کردیا ہے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے حکومتی امیدوار کا جیتنا ممکن نہیں تھا مگر حکومتی وزرا نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا چنانچہ یہاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے وہ کچھ کیا گیا جو تحریک انصاف جیسی پارٹی کو زیب نہیں دیتا تھا۔ حزب اختلاف نے اس حلقے میں ہونے والی دھاندلی اور بدانتظامی کا ذمے دار حکومت کو قرار دیا جس کی تصدیق الیکشن کمیشن نے بھی کی اور یہاں دوبارہ الیکشن کرانے کا اعلان کردیا۔
حکومت کو الیکشن کمیشن کی یہ ادا پسند نہیں آئی اور اس نے اس ادارے کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس کے بعد حزب اختلاف نے سینیٹ کے الیکشن میں حکومتی امیدواروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا گوکہ پی ٹی آئی اس معرکے میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر اس کے خاص امیدوار حفیظ شیخ ہار گئے حکومت نے اس کا بدلہ سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں لے لیا اس کے امیدوار صادق سنجرانی جیت گئے اور یوسف رضا گیلانی حزب اختلاف کے سینیٹرزکی عددی برتری کے باوجود بھی ہارگئے۔
اپوزیشن اس الیکشن سے قبل وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کے اس بیان کو زیادہ اچھال رہی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''حکومت ہر حال میں یہ الیکشن جیتنے کی کوشش کرے گی خواہ اسے کوئی بھی حربہ استعمال کرنا پڑے۔'' یہ بیان پی ٹی آئی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ کیونکہ عمران خان نے ہمیشہ جائز طریقے سے حکومت کرنے اور تمام معاملات کو سلجھانے کی بات کی ہے۔ دراصل ان کے کرپشن کے خلاف جہاد کے نعرے نے ہی عوام کو ان کی جانب مائل کیا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت کی عوامی مسائل سے عدم توجہی کی وجہ حزب اختلاف کی تحریک کو قرار دیا جا رہا تھا اب تو حزب اختلاف استعفے دینے کے معاملے پر انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ اس طرح حکومت کے لیے اب حزب اختلاف کا چیلنج ختم ہو چکا ہے اب تو اسے اپنی بھرپور توانائیاں عوامی مسائل کو حل کرنے پر صرف کرنا چاہیے اور عوام کی مایوسی کو دور کرنا چاہیے۔
گوکہ مہنگائی اس وقت سب سے اہم مسئلہ ہے مگر صرف یہی عوامی بے چینی کی وجہ نہیں ہے کئی شہروں کی بلدیات کو عوامی بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے فنڈز درکار ہیں۔ خاص طور پر کراچی کے عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت دو مرتبہ ترقیاتی پیکیجز کا اعلان کر چکی ہے مگر اب تک فنڈز فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ اب اسے اس جانب بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔