جو نہیں جانتے وفا کیا ہے…
پی ڈی ایم ایک ایسے موڑ پر ضرور آئی ہے کہ یہ تحریک اپنی سوچ اور حکمتِ عملی میں تھوڑی تبدیلی لائے۔
بات پی ڈی ایم کی نہیں ! بات ہے جمہوری قوتوں کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس دفعہ ارتقاء کی مسافتیں کچھ تنگ گلی کی نظر ہوئیں اور خان صاحب کو کچھ مہلت ملی،مگر یہ کہنا کہ زرداری صاحب نے بے وفائی کی درست نہیں ۔یہاں معاملہ ہے حکمت عملی کا اوران کا یہ کہنا ہے کہ حد سے گزرنا اچھی بات نہیں۔اس طرح سے یہ دو رائے اور دو پہلو ہیں مگر بنیادی بات یہ ہے کہ
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
زرداری صاحب کو اب تک کوئی نقصان نہیں پہنچا سوائے اس کے کہ ان پر چند نیب کے کیسز چلے۔ ان کی پارٹی بارہ سال سے سندھ پر حکومت کر رہی ہے اور اگلے پانچ سال بھی کرتی رہے گی۔پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹی کا لقب بھی ان کے پاس ہے۔ہاں البتہ ایک اعزاز میں جھول ضرور آیا ہے وہ ہے ان کا جمہوری قوت ہونا۔اپنے استعفیٰ دینا ایک ایڈونچر توہے مگر کیا یہ بات درست ہے کہ اپنے ا تحادیوں سے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔اپنے خاندان سے الگ ہو کر یو ٹرن لینا بھی ٹھیک نہیں کیو نکہ اس سے پارٹی کے خلاف بیانیہ بنے گا اور یہ بیانیہ آگے چل کر پارٹی پر اپنا منفی اثر چھوڑے گا۔
جب زرداری صاحب کی وفاق میں حکومت تھی تو انھوں نے بڑی بے باکی سے طاقتوروں سے ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا تھا اور جب میاں صاحب کی حکومت آئی تو انھوں نے مزید دو قدم آگے بڑھ کر یہی کام کیا۔میاں نواز شریف نے شہباز شریف کی بات نہیں مانی۔جب کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو میاں شہباز شریف کے ہی خیالات کا حامی ہے۔میاں صاحب کے اپنے خیالات نے پارٹی کے اندر توتنگ نہیں کیا مگر پی ڈی ایم ایک طویل سفر کرنے کے بعد اس موڑ پر آکر رک گئی۔
اس ٹکراؤ نے میاں صاحب کو پنجاب کا بہت بڑا لیڈر بنا دیا اور ان کی بیٹی ان کی جانشین ۔کل تک جمہوری قوتوں کی قیادت جو لبرل اور سیکیولر کر رہے تھے، آج اس قیادت کی بھاگ دوڑ دائیں بازو والوں کے ہاتھ میں ہے۔
تاریخ اس تفریق کو ثانوی حیثیت دیتی ہے، اس موڑ پر تاریخ اس ایجنڈا کو حیثیت دیتی ہے کہ پاکستان میں سول حکمرانی کا ہونا یقینی ہو اور اس سول حکمرانی کے درمیان میں ہے بیلٹ باکس؟ایسے انتخابات جس میں آر ٹی ایس سسٹم خراب نہ ہو، ڈسکہ نہ ہو،سینیٹ کے اندر بوتھ میں کیمرہ نصب نہ ہواور نہ ہی ان انتخابات کے پریزائیڈنگ آفیسر مظفر حسین شاہ جیسے ہوں۔اس کے بعد بھی ایک طویل فہرست ہے لکھنے کے لیے۔
جب زرداری صاحب ، میاں صاحب سے مخاطب ہو کر یہ کہہ رہے تھے ان کی وطن واپسی کب ہوگی کہ ساتھ ہی جیل جایا جائے تو مجھے 24-03-1971 کی وہ شام یاد آگئی جب میرے والد داہن منڈی کے گھر میں موجود تھے اور''قاضی صاحب بہتر ہوگا کہ آپ واپس چلے جائیں دوسری صورت میں مجھے آپ کا انتظام کسی دوست کے پاس کرنا ہوگا۔ کل سے یہاں خون خرابہ ہونے والا ہے اور ہم اب ایک ملک کے شہری نہیں رہے'' (شیخ مجیب رحمن) ۔
''میرے والد صاحب نے ان سے کچھ دوستوں کے بارے میں پو چھا کہ وہ کہاں ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ بارڈر کراس کر کے جا چکے ہیں ۔میرے والد نے ان سے یہ پوچھا کہ '' تم یہاں کیا کر رہے ہو ،تم کیوں نہیں گئے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم یہاں مارے جاؤ'' تو شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ ''میں کیسے جا سکتا ہوں کہ میں تو لیڈر ہوں اور مجھے گرفتاری پیش کرنا ہوگی''۔ 24-03-1971 کی وہ افسردہ شام میرے والد صاحب نے اپنی سوانح عمری میں اس طرح قلمبند کی کہ اس کو پڑھ کر میری آنکھیں نم ہو گئیں۔
بات یہ ہے کہ خود میاں صاحب نہ سہی مگر ان کی جانشین ، ان کی بیٹی تو یہیںموجود ہیں اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پوچھتے ہو ئے زرداری صاحب کا لب و لہجہ بھی ذرا تلخ تھا۔بھٹو صاحب کی طرح میاں صاحب بھی اپنے وقتوں میں آمریتوں کے ساتھ رہے مگر اب بھٹو نہ سہی، بے نظیر نہ سہی مگر آج اس عہد کی جمہوری قوتوں کے بڑے لیڈر تو ہیں۔ میاں صاحب سول حکومت کی طرف سے امین تھے جب جنرل مشرف نے کارگل کا ایڈونچر کیا۔بڑی سزائیں کاٹیں جیل سے لے کر جلا وطنی تک اور پھر اقامہ کا معاملہ ان کو لے ڈوبا۔
اس وقت زرداری صاحب نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو معزول کرایا اور سنجرانی صاحب کو عمران خان کے ساتھ ملا کر جتوا رہے تھے۔لیکن جب خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ اپنی ہی جگہ رہے تویہ سب پی ڈی ایم میں یکجا ہو گئے۔لگ بھگ چالیس کے بعد ایسا ہوا کہ ایک بہت بڑی جمہوری تحریک ابھری جس کی بنیادی وجہ بنی حکومت کی نالائقیاں اور پھر منہ زور مہنگائی۔یہ تحریک MRD کی تحریک کی طرح صرف سندھ تک محدود نہ رہی بلکہ اس تحریک کا محور پنجاب تھا۔
یہ پی ڈی ایم کا اختتام نہیں، مجھے نہیں لگتا۔ ہاں مگر پی ڈی ایم ایک ایسے موڑ پر ضرور آئی ہے کہ یہ تحریک اپنی سوچ اور حکمتِ عملی میں تھوڑی تبدیلی لائے لیکن اس تحریک کو اسی مزاج پر چلائے ۔اس تحریک کے اندر موجود قوتوں کو آزمائش میں نہ ڈالے۔اس وقت بھی زرداری صاحب کی یہ سیاسی فہم و فراست تھی جو کام آئی و گر نہ بائیکاٹ کے داؤ سے زیادہ نتائج نہیں نکلتے۔
آصف زرداری صاحب بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور اب سول بالادستی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ارتقاء کی بہت سی مسافتیں طے کر آئے ہیں۔ ان مسافتوں میں پیپلز پارٹی کی بے دریغ قربانیاں ہیں، یہ گڑھی خدابخش کی قبروں کے وارث ہیں، نہ یہ اپنے آپ کو جمہوریت سے جدا کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھوں نے کیا ہے۔اب معاملہ پی ڈی ایم کا نہیں بلکہ معاملہ اس موڑ کا ہے جہاں سے ان کو بہت مضبوطی سے اور محتاط ہو کر آگے چلنا ہوگا۔ایڈونچرز کر کے آئین کی بالادستی کی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔
زرداری صاحب کا موقف تو درست ہو سکتا ہے مگر اندازِبیاں ضرور تلخ تھا اور جس کی معافی و تلافی تو ہو سکتی ہے۔ یہ آخر کس کا بیانیہ تھا جو ہمیںاب سننا پڑا۔یہ وہ ہی تو تھا جس کی سزا میاں نواز شریف کو ملی۔ دیر آید درست آید۔اب وقت ہے کہ ہم سب مفاہمت کی طرف قدم اٹھائیں ۔آئین کی بالادستی اور اسی نظامِ حکومت کو اپنائیں جو اس وقت بنگلہ دیش اور ہندوستان میں رائج ہے۔وہ نظام ہے سول بالادستی کا۔
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
زرداری صاحب کو اب تک کوئی نقصان نہیں پہنچا سوائے اس کے کہ ان پر چند نیب کے کیسز چلے۔ ان کی پارٹی بارہ سال سے سندھ پر حکومت کر رہی ہے اور اگلے پانچ سال بھی کرتی رہے گی۔پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹی کا لقب بھی ان کے پاس ہے۔ہاں البتہ ایک اعزاز میں جھول ضرور آیا ہے وہ ہے ان کا جمہوری قوت ہونا۔اپنے استعفیٰ دینا ایک ایڈونچر توہے مگر کیا یہ بات درست ہے کہ اپنے ا تحادیوں سے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔اپنے خاندان سے الگ ہو کر یو ٹرن لینا بھی ٹھیک نہیں کیو نکہ اس سے پارٹی کے خلاف بیانیہ بنے گا اور یہ بیانیہ آگے چل کر پارٹی پر اپنا منفی اثر چھوڑے گا۔
جب زرداری صاحب کی وفاق میں حکومت تھی تو انھوں نے بڑی بے باکی سے طاقتوروں سے ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا تھا اور جب میاں صاحب کی حکومت آئی تو انھوں نے مزید دو قدم آگے بڑھ کر یہی کام کیا۔میاں نواز شریف نے شہباز شریف کی بات نہیں مانی۔جب کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو میاں شہباز شریف کے ہی خیالات کا حامی ہے۔میاں صاحب کے اپنے خیالات نے پارٹی کے اندر توتنگ نہیں کیا مگر پی ڈی ایم ایک طویل سفر کرنے کے بعد اس موڑ پر آکر رک گئی۔
اس ٹکراؤ نے میاں صاحب کو پنجاب کا بہت بڑا لیڈر بنا دیا اور ان کی بیٹی ان کی جانشین ۔کل تک جمہوری قوتوں کی قیادت جو لبرل اور سیکیولر کر رہے تھے، آج اس قیادت کی بھاگ دوڑ دائیں بازو والوں کے ہاتھ میں ہے۔
تاریخ اس تفریق کو ثانوی حیثیت دیتی ہے، اس موڑ پر تاریخ اس ایجنڈا کو حیثیت دیتی ہے کہ پاکستان میں سول حکمرانی کا ہونا یقینی ہو اور اس سول حکمرانی کے درمیان میں ہے بیلٹ باکس؟ایسے انتخابات جس میں آر ٹی ایس سسٹم خراب نہ ہو، ڈسکہ نہ ہو،سینیٹ کے اندر بوتھ میں کیمرہ نصب نہ ہواور نہ ہی ان انتخابات کے پریزائیڈنگ آفیسر مظفر حسین شاہ جیسے ہوں۔اس کے بعد بھی ایک طویل فہرست ہے لکھنے کے لیے۔
جب زرداری صاحب ، میاں صاحب سے مخاطب ہو کر یہ کہہ رہے تھے ان کی وطن واپسی کب ہوگی کہ ساتھ ہی جیل جایا جائے تو مجھے 24-03-1971 کی وہ شام یاد آگئی جب میرے والد داہن منڈی کے گھر میں موجود تھے اور''قاضی صاحب بہتر ہوگا کہ آپ واپس چلے جائیں دوسری صورت میں مجھے آپ کا انتظام کسی دوست کے پاس کرنا ہوگا۔ کل سے یہاں خون خرابہ ہونے والا ہے اور ہم اب ایک ملک کے شہری نہیں رہے'' (شیخ مجیب رحمن) ۔
''میرے والد صاحب نے ان سے کچھ دوستوں کے بارے میں پو چھا کہ وہ کہاں ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ بارڈر کراس کر کے جا چکے ہیں ۔میرے والد نے ان سے یہ پوچھا کہ '' تم یہاں کیا کر رہے ہو ،تم کیوں نہیں گئے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم یہاں مارے جاؤ'' تو شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ ''میں کیسے جا سکتا ہوں کہ میں تو لیڈر ہوں اور مجھے گرفتاری پیش کرنا ہوگی''۔ 24-03-1971 کی وہ افسردہ شام میرے والد صاحب نے اپنی سوانح عمری میں اس طرح قلمبند کی کہ اس کو پڑھ کر میری آنکھیں نم ہو گئیں۔
بات یہ ہے کہ خود میاں صاحب نہ سہی مگر ان کی جانشین ، ان کی بیٹی تو یہیںموجود ہیں اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پوچھتے ہو ئے زرداری صاحب کا لب و لہجہ بھی ذرا تلخ تھا۔بھٹو صاحب کی طرح میاں صاحب بھی اپنے وقتوں میں آمریتوں کے ساتھ رہے مگر اب بھٹو نہ سہی، بے نظیر نہ سہی مگر آج اس عہد کی جمہوری قوتوں کے بڑے لیڈر تو ہیں۔ میاں صاحب سول حکومت کی طرف سے امین تھے جب جنرل مشرف نے کارگل کا ایڈونچر کیا۔بڑی سزائیں کاٹیں جیل سے لے کر جلا وطنی تک اور پھر اقامہ کا معاملہ ان کو لے ڈوبا۔
اس وقت زرداری صاحب نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو معزول کرایا اور سنجرانی صاحب کو عمران خان کے ساتھ ملا کر جتوا رہے تھے۔لیکن جب خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ اپنی ہی جگہ رہے تویہ سب پی ڈی ایم میں یکجا ہو گئے۔لگ بھگ چالیس کے بعد ایسا ہوا کہ ایک بہت بڑی جمہوری تحریک ابھری جس کی بنیادی وجہ بنی حکومت کی نالائقیاں اور پھر منہ زور مہنگائی۔یہ تحریک MRD کی تحریک کی طرح صرف سندھ تک محدود نہ رہی بلکہ اس تحریک کا محور پنجاب تھا۔
یہ پی ڈی ایم کا اختتام نہیں، مجھے نہیں لگتا۔ ہاں مگر پی ڈی ایم ایک ایسے موڑ پر ضرور آئی ہے کہ یہ تحریک اپنی سوچ اور حکمتِ عملی میں تھوڑی تبدیلی لائے لیکن اس تحریک کو اسی مزاج پر چلائے ۔اس تحریک کے اندر موجود قوتوں کو آزمائش میں نہ ڈالے۔اس وقت بھی زرداری صاحب کی یہ سیاسی فہم و فراست تھی جو کام آئی و گر نہ بائیکاٹ کے داؤ سے زیادہ نتائج نہیں نکلتے۔
آصف زرداری صاحب بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور اب سول بالادستی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ارتقاء کی بہت سی مسافتیں طے کر آئے ہیں۔ ان مسافتوں میں پیپلز پارٹی کی بے دریغ قربانیاں ہیں، یہ گڑھی خدابخش کی قبروں کے وارث ہیں، نہ یہ اپنے آپ کو جمہوریت سے جدا کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھوں نے کیا ہے۔اب معاملہ پی ڈی ایم کا نہیں بلکہ معاملہ اس موڑ کا ہے جہاں سے ان کو بہت مضبوطی سے اور محتاط ہو کر آگے چلنا ہوگا۔ایڈونچرز کر کے آئین کی بالادستی کی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔
زرداری صاحب کا موقف تو درست ہو سکتا ہے مگر اندازِبیاں ضرور تلخ تھا اور جس کی معافی و تلافی تو ہو سکتی ہے۔ یہ آخر کس کا بیانیہ تھا جو ہمیںاب سننا پڑا۔یہ وہ ہی تو تھا جس کی سزا میاں نواز شریف کو ملی۔ دیر آید درست آید۔اب وقت ہے کہ ہم سب مفاہمت کی طرف قدم اٹھائیں ۔آئین کی بالادستی اور اسی نظامِ حکومت کو اپنائیں جو اس وقت بنگلہ دیش اور ہندوستان میں رائج ہے۔وہ نظام ہے سول بالادستی کا۔