مذاکرات اور لانگ مارچ ساتھ ساتھ
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کپتان خان کی کرشماتی شخصیت کا سحر بھی کمزور پڑتا جا رہا ہے
عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لے کر بازی پلٹ دی تھی جس کے بعد سے حزب اختلاف کا لشکر مسلسل پسپائی کا شکار ہوکر باہم دست و گریبان ہو رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اخلاقی حمایت کے لیے جاتی عمرہ پہنچ رہے ہیں جب کہ شریف خاندان میں پہلی بار اختلافات کی دراڑیں دکھائی دے رہی ہیں۔
اب عید کے بعد لانگ مارچ کرنے اور حکومت کی قربانی کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
عید کے بعد لانگ مارچ کی نئی تاریخ رانا ثناء اﷲ نے دی ہے۔کہتے ہیں کہ عید کے بعد لانگ مارچ کریں گے اور حکومت کو چلتا کریں گے، استعفوں پر اختلاف کو بیٹھ کر حل کریں گے۔لانگ مارچ کا منسوخ کرنا غلط فیصلہ تھا، ہم قربانی کی عید سے پہلے حکومت کی قربانی کردیں گے۔
نیا فارمولا یہ ہوگا کہ پہلے صرف قومی اسمبلی سے استعفے دیے جائیں، اس طرح سندھ اسمبلی اور صوبائی حکومت محفوظ رہیں گی، اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔کیپٹن صفدر بھی تین ماہ بعد لانگ مارچ کا عندیہ دے رہے ہیں،
دوسری طرف محمد علی درانی ایک بار پھر 'فنکشنل' ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے 'استاد' سینیٹر عرفان صدیقی سے دو گھنٹے طویل ملاقات کی ہے جس میں ان کی معاونت ایک اینکر نے کی۔
سیاست کا موجودہ ظالم کھیل قدیم کار حکمرانی کا تسلسل ہے جس میں ٹوپیاں سی کر گزارا کرنے والا، نیک نام اورنگ زیب اپنے باپ کا تختہ الٹ دیتا ہے، سارے بھائیوں کو مروا دیتا ہے، اگر آج حمزہ شہباز اور مریم نواز میں مبینہ اختلافات کی افواہیں پھیل رہی ہیں تو اس میں حیرت کس بات کی۔
مریم اعلان کرتی ہیں کہ جس نے نواز شریف سے بات کرنی ہے، وہ مجھ سے بات کرے'لیکن کچھ حلقے چہ مگوئیاں کر رہے ہیں کہ جناب نواز شریف نے اپنا ووٹ حمزہ کی حکمت عملی کے حق میں دیا ہے۔ یہ افواہ بھی ہے کہ اسی سکائپ اجلاس میں زرداری کی مبینہ کرپشن اور حضرت مولانا کی حکمت عملیوں پر بھی ''کھل'' کر اظہار خیال کیا گیا، یہاں کی مبینہ وڈیو حضرت مولانا اور زرداری تک پہنچ گئی اور پھر جو ہوا سب کے سامنے ہے۔
حضرت مولانا کا استعفوں پر اصرار رائیگاں گیا کہ زرداری کے بعد نون لیگی ارکان بھی پارلیمان سے مستعفی ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ زرداری تو بی بی کی وصیت پر عمل کر رہے ہیں کہ لڑائی پارلیمانی ایوانوں کے اندر رہ کر ہی لڑی جانی چاہیے۔
شریف خاندان کا اندرونی ڈھانچہ روایات میں لپٹا ہوا ہے۔ درویش صفت عباس شریف کی ناگہانی موت سے لے کر نواز شریف تک ہزار داستانِ قصہ ہائے ناگفتہ بیان موجود ہیں، حمزہ اور مریم کے درمیان مبینہ تنازعہ بھی میڈیا میں آیا ہے۔ البتہ مریم نواز نے اپنے اور حمزہ شہباز کے درمیان اختلاف کی تردید کی ہے۔ (ن) لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حمزہ شہبازاور مریم نواز سے متعلق خبریں قطعی بے بنیاد ہیں۔
سابق 'مرد حْر' آصف علی زرداری 'شیر کا شکاری' بن چکے ہیں، وہ پکار رہے ہیں میاں صاحب پاکستان آؤ ، تحریک چلاؤ اور جیل جاؤ جس کے لیے شریف خاندان بالکل تیار نہیں ہے ۔
زرداری حکمت عملی نے لانگ مارچ کا خواب چکنا چور کردیا ہے، اس کے ساتھ پی ڈی ایم کا کفن دفن بھی کر دیا گیاہے۔
آصف زرداری نے نوازشریف کے دل پر گہری چوٹ لگائی ہے۔ وہ ماضی میں جناب زرداری کے حوالے سے کئی تلخ وشیریں مراحل سے گزر چکے ہیں،لیکن ''پاکستان واپس آئیں'' کے طنز کو میاں نوازشریف ہرگز نہیں بھلا پائیں گے۔
آصف زرداری سندھ حکومت کی قربانی دینے کو تیار نہیں تھے۔ وہ نئے انتخابات کا بھاری پتھر بھی نہیں اٹھانا چاہتے۔ وہ حقیقت کی دنیا میں رہتے ہوئے یہ تلخ سچ جانتے ہیں کہ نئے انتخابات میں پی پی پی کا کامیاب ہونا نہر زبیدہ کھودنے جیسا مشکل کام ہوگا۔ اپنے مقدمات کی پیشیاں بھگتنا بھی ان کے لیے کارمحال ہے۔
اس سے جان چھڑانے کی راہ وہی ہے جس پر چل کر ماضی میں 'این آر او' جیسے قانونی معجزے رونما ہوئے تھے۔ نوازشریف سیاسی طور پر ختم ہوجائیں تو آصف علی زرداری کو اس پر بھلا کیا نقصان نظرآتا ہے، ان کے ذہن میں سیاسی فوائد اور امکانات کی کئی شمعیں روشن ہوتی ہوں گی۔ وہ کیوں نہ چاہیں گے کہ عمران خان سے تنگ آکر اگر کسی تیسری قوت کی راہ ہموار ہو تو اقتدار کا ہما قیدی شہبازشریف کے بجائے ان کے ولی عہد بلاول بھٹو کے سر پر کیوں نہ بیٹھے؟
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ساری سرگرمیاں معطل ہو جائیں گی، لانگ مارچ اور دھرنے کیا چلیں گے۔ یوسف رضاگیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کے انتخاب پر جو کچھ کیا گیا، وہ کون سی جمہوریت تھی، اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی تو اب بات بات پر باہم دست و گریباں ہیں۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ ہو یا واوڈا کی خالی کردہ نشست پر مشترکہ امیدوار کا معاملہ ، اختلاف کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ رہی ہے۔ سینیٹ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں مرزا محمد آفریدی کی دس ووٹوں کی اکثریت سے مولانا حیدری پر فتح، حضرت مولانا کو یہ کاری زخم مدتوں رستا رہے گااور ساتھی جماعتوں کی بے وفا ئی کی یاد دلاتا رہے گا۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کپتان خان کی کرشماتی شخصیت کا سحر بھی کمزور پڑتا جا رہا ہے، تازہ واقعہ کراچی میں ضمنی انتخاب میں امیدوار کی نامزدگی پر رکن سندھ اسمبلی کا استعفی ہے۔این اے 249 کے ضمنی انتخابات میں امجد آفریدی کو ٹکٹ دینے پر پی ٹی آئی رکن سندھ اسمبلی ملک شہزاد اعوان نے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص یوسی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار چکا ہے، اس کو کس بنیاد پر ٹکٹ دیا گیا۔
اب عید کے بعد لانگ مارچ کرنے اور حکومت کی قربانی کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
عید کے بعد لانگ مارچ کی نئی تاریخ رانا ثناء اﷲ نے دی ہے۔کہتے ہیں کہ عید کے بعد لانگ مارچ کریں گے اور حکومت کو چلتا کریں گے، استعفوں پر اختلاف کو بیٹھ کر حل کریں گے۔لانگ مارچ کا منسوخ کرنا غلط فیصلہ تھا، ہم قربانی کی عید سے پہلے حکومت کی قربانی کردیں گے۔
نیا فارمولا یہ ہوگا کہ پہلے صرف قومی اسمبلی سے استعفے دیے جائیں، اس طرح سندھ اسمبلی اور صوبائی حکومت محفوظ رہیں گی، اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔کیپٹن صفدر بھی تین ماہ بعد لانگ مارچ کا عندیہ دے رہے ہیں،
دوسری طرف محمد علی درانی ایک بار پھر 'فنکشنل' ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے 'استاد' سینیٹر عرفان صدیقی سے دو گھنٹے طویل ملاقات کی ہے جس میں ان کی معاونت ایک اینکر نے کی۔
سیاست کا موجودہ ظالم کھیل قدیم کار حکمرانی کا تسلسل ہے جس میں ٹوپیاں سی کر گزارا کرنے والا، نیک نام اورنگ زیب اپنے باپ کا تختہ الٹ دیتا ہے، سارے بھائیوں کو مروا دیتا ہے، اگر آج حمزہ شہباز اور مریم نواز میں مبینہ اختلافات کی افواہیں پھیل رہی ہیں تو اس میں حیرت کس بات کی۔
مریم اعلان کرتی ہیں کہ جس نے نواز شریف سے بات کرنی ہے، وہ مجھ سے بات کرے'لیکن کچھ حلقے چہ مگوئیاں کر رہے ہیں کہ جناب نواز شریف نے اپنا ووٹ حمزہ کی حکمت عملی کے حق میں دیا ہے۔ یہ افواہ بھی ہے کہ اسی سکائپ اجلاس میں زرداری کی مبینہ کرپشن اور حضرت مولانا کی حکمت عملیوں پر بھی ''کھل'' کر اظہار خیال کیا گیا، یہاں کی مبینہ وڈیو حضرت مولانا اور زرداری تک پہنچ گئی اور پھر جو ہوا سب کے سامنے ہے۔
حضرت مولانا کا استعفوں پر اصرار رائیگاں گیا کہ زرداری کے بعد نون لیگی ارکان بھی پارلیمان سے مستعفی ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ زرداری تو بی بی کی وصیت پر عمل کر رہے ہیں کہ لڑائی پارلیمانی ایوانوں کے اندر رہ کر ہی لڑی جانی چاہیے۔
شریف خاندان کا اندرونی ڈھانچہ روایات میں لپٹا ہوا ہے۔ درویش صفت عباس شریف کی ناگہانی موت سے لے کر نواز شریف تک ہزار داستانِ قصہ ہائے ناگفتہ بیان موجود ہیں، حمزہ اور مریم کے درمیان مبینہ تنازعہ بھی میڈیا میں آیا ہے۔ البتہ مریم نواز نے اپنے اور حمزہ شہباز کے درمیان اختلاف کی تردید کی ہے۔ (ن) لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حمزہ شہبازاور مریم نواز سے متعلق خبریں قطعی بے بنیاد ہیں۔
سابق 'مرد حْر' آصف علی زرداری 'شیر کا شکاری' بن چکے ہیں، وہ پکار رہے ہیں میاں صاحب پاکستان آؤ ، تحریک چلاؤ اور جیل جاؤ جس کے لیے شریف خاندان بالکل تیار نہیں ہے ۔
زرداری حکمت عملی نے لانگ مارچ کا خواب چکنا چور کردیا ہے، اس کے ساتھ پی ڈی ایم کا کفن دفن بھی کر دیا گیاہے۔
آصف زرداری نے نوازشریف کے دل پر گہری چوٹ لگائی ہے۔ وہ ماضی میں جناب زرداری کے حوالے سے کئی تلخ وشیریں مراحل سے گزر چکے ہیں،لیکن ''پاکستان واپس آئیں'' کے طنز کو میاں نوازشریف ہرگز نہیں بھلا پائیں گے۔
آصف زرداری سندھ حکومت کی قربانی دینے کو تیار نہیں تھے۔ وہ نئے انتخابات کا بھاری پتھر بھی نہیں اٹھانا چاہتے۔ وہ حقیقت کی دنیا میں رہتے ہوئے یہ تلخ سچ جانتے ہیں کہ نئے انتخابات میں پی پی پی کا کامیاب ہونا نہر زبیدہ کھودنے جیسا مشکل کام ہوگا۔ اپنے مقدمات کی پیشیاں بھگتنا بھی ان کے لیے کارمحال ہے۔
اس سے جان چھڑانے کی راہ وہی ہے جس پر چل کر ماضی میں 'این آر او' جیسے قانونی معجزے رونما ہوئے تھے۔ نوازشریف سیاسی طور پر ختم ہوجائیں تو آصف علی زرداری کو اس پر بھلا کیا نقصان نظرآتا ہے، ان کے ذہن میں سیاسی فوائد اور امکانات کی کئی شمعیں روشن ہوتی ہوں گی۔ وہ کیوں نہ چاہیں گے کہ عمران خان سے تنگ آکر اگر کسی تیسری قوت کی راہ ہموار ہو تو اقتدار کا ہما قیدی شہبازشریف کے بجائے ان کے ولی عہد بلاول بھٹو کے سر پر کیوں نہ بیٹھے؟
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ساری سرگرمیاں معطل ہو جائیں گی، لانگ مارچ اور دھرنے کیا چلیں گے۔ یوسف رضاگیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کے انتخاب پر جو کچھ کیا گیا، وہ کون سی جمہوریت تھی، اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی تو اب بات بات پر باہم دست و گریباں ہیں۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ ہو یا واوڈا کی خالی کردہ نشست پر مشترکہ امیدوار کا معاملہ ، اختلاف کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ رہی ہے۔ سینیٹ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں مرزا محمد آفریدی کی دس ووٹوں کی اکثریت سے مولانا حیدری پر فتح، حضرت مولانا کو یہ کاری زخم مدتوں رستا رہے گااور ساتھی جماعتوں کی بے وفا ئی کی یاد دلاتا رہے گا۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کپتان خان کی کرشماتی شخصیت کا سحر بھی کمزور پڑتا جا رہا ہے، تازہ واقعہ کراچی میں ضمنی انتخاب میں امیدوار کی نامزدگی پر رکن سندھ اسمبلی کا استعفی ہے۔این اے 249 کے ضمنی انتخابات میں امجد آفریدی کو ٹکٹ دینے پر پی ٹی آئی رکن سندھ اسمبلی ملک شہزاد اعوان نے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص یوسی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار چکا ہے، اس کو کس بنیاد پر ٹکٹ دیا گیا۔