برآمد رکنے کے باعث پاکستان کے ساحلوں پر جیلی فش کی بھرمار

پاکستانی ساحلی مقامات پر آنے والی جیلی فش رزوسٹوما پلمونسل کی ہیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف

جیلی فش کی برآمدات نہ ہونے کے باعث ساحلوں ُر اس کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے(فوٹو، ایکسپریس)

سندھ وبلوچستان کی ساحلی پٹی پر ہزاروں کی تعداد میں جیلی فش پہنچ گئیں۔

کورونا کے باعث بیرون ملک ایکسپورٹ بند ہونے کے سبب جیلی فش رپورٹ ہورہی ہے،جیلی فش کی دیگراقسام کے مقابلے میں زہریلی نہیں ہیں تاہم چھونے والے فردکوہاتھوں اورآنکھوں میں جلن ہوسکتی ہے۔ سندھ وبلوچستان کے ساحلی مقام گڈانی،سومیانی،سینڈزپٹ اورکیوآئی لینڈ جبکہ شہر کے مختلف جزائرپر جیلی فش کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہے۔


ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ڈائریکٹرمعظم خان کے مطابق پاکستانی ساحلی مقامات پر آنے والی جیلی فش رزوسٹوما پلمونسل کی ہیں،جس کو مقامی زبان میں جنگلی فش کہا جاتا ہے،اس نسل کی جیلی کی لگ بھگ 50اقسام پائی جاتی ہیں۔ "ریزوسٹوما پلمو" نسل کی جیلی فش کو نمک اور پھٹکری لگا کر چائنا ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ کورونا کی وجہ سے اس کی ایکسپورٹ بند ہے،ماہی گیراس نسل کی جیلی فش کا شکارنہیں کررہے۔

معظم خان کے مطابق ساحلی مقامات پر ان دنوں رپورٹ ہونے والی یہ قسم روایتی جیلی فش کی طرح زہریلی نہیں ہے البتہ اسے پکڑنے سے ہاتھوں اور آنکھوں میں شدید جلن ہوسکتی ہے۔
Load Next Story