23 مارچ تجدید عہد وفا سے آگے
اس 23 مارچ کو رسمی تجدید عہد وفا، روایتی پیغامات، رسمی تقاریب، فوٹو سیشن، سیمنارز اور بریکنگ نیوز سے آگے بڑھ کر منائیے
احسان صاحب نے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ گرتے پڑتے جیسے تیسے کرکے وہ ایک پنسار کی دکان کے مالک بن گئے۔ ان کا عزم تھا کہ ان کی آنے والی نسلیں وہ دکھ نہ دیکھیں جس کرب و آلام سے وہ گزرے۔ اس لیے انہوں نے اپنے آرام و سکون کی پرواہ کیے بغیر دن رات محنت کی۔ ان کی محنت رنگ لائی، جب وہ دنیا سے گئے تو ان کے دونوں بیٹے فضل اور علی کے پاس اپنا الگ گھر، دکانیں اور وہ سب کچھ تھا جس کی ایک عام آدمی کو چاہت ہوتی ہے۔
احسان صاحب کے دنیا سے جانے کے بعد فضل نے وراثت میں ملنے والی نعمتوں کی قدر نہ کی اور باپ کے مال کو ''مال مفت، دل بے رحم'' کی طرح استعمال کیا۔ جب کہ علی نے انتہائی احتیاط کے ساتھ زندگی گزاری۔ آج صورتحال یہ ہے کہ فضل اور اس کی اولاد ڈیفالٹر ہوکر منہ چھپاتی پھر رہی ہے جبکہ علی نہ صرف یہ کہ خود ایک اچھی زندگی گزار رہا ہے بلکہ اس کے دونوں بیٹے بھی خوشحال ہیں۔
یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ اگر ہم بزرگوں کی قربانیوں کی قدر کریں تو ہم اور ہماری نسلیں سکون اور آرام کی زندگی گزارتی ہیں اور اگر معاملہ الٹ ہو تو ایک نسل تو بزرگوں کی قربانیوں کا پھل کھا لیتی ہے لیکن ہماری کوتاہیاں آنے والی نسلوں کے سر سے چھت تک چھین لیتی ہیں۔ یہ صورتحال انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہے۔
آج سے کم و بیش 80 برس قبل ہمارے بڑوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا کہ ہندوؤں کے ساتھ ہمارا گزارا ناممکن ہے۔ اگر ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کےلیے ایک آزاد اور خودمختار ملک حاصل نہ کیا تو ہماری نسلیں ہندوؤں کی غلام بن کر زندگی گزاریں گی۔ انہیں اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ انہیں اپنا آج آنے والی نسلوں کے کل کےلیے قربان کرنا ہوگا، بصورت دیگر آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ اس لیے انہوں نے اپنا تن، من، دھن ہماری خاطر قربان کردیا۔ انہوں نے ہماری خاطر وقتی سکون برباد کرکے آنے والی نسلوں کی ابدی راحت کی فکر کی اور ہمیں ایک غائبانہ پیغام دیا کہ وقتی فائدے، وقتی آرام کی خاطر نسلوں کا مستقبل تباہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے بارے میں سوچیں گے تو آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔
اگر ہمارے بڑے صرف وقتی فائدے کو مدنظر رکھتے تو ہمارا کیا حال ہوتا، اس کےلیے زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ آج کے ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی حالت زار کو بغور دیکھ لیجئے۔ آج کا مسلمان انڈیا میں جس قدر مشکلات کا شکار ہے، وہ حالت چیخ چیخ کر ہم سے اس پاک دھرتی کی قدر کا تقاضا کررہی ہے۔ مجھے گزشتہ برس میرےایک ہندوستانی مسلم ساتھی نے گزارش کی تھی کہ میں انہیں بھی اپنے ساتھ عید کی قربانی میں شامل کرلوں، کیونکہ ان کےلیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہندوستان میں قربانی کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم 23 مارچ کو رسمی تجدید عہد وفا، روایتی پیغامات، رسمی تقاریب، فوٹو سیشن، سیمنارز، بریکنگ نیوز سے آگے بڑھ کر منائیں۔ ہم ہر سال 23 مارچ کے موقع پر اپنا محاسبہ کریں۔ اور یہ عہد کیجئے کہ کوئی اس دھرتی سے وفا کرے یا نہ کرے، میں کروں گا۔ میں اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کی قدر کروں گا۔ میں اپنی آنے والے نسلوں کے بارے میں سوچوں گا۔ میں جس حال میں ہوں، حتیٰ کہ کلرک ہی کیوں نہ ہوں، میں پاکستان کی خاطر، آنے والی نسلوں کی خاطر، اپنے آباؤاجداد سے وفا کرنے کی خاطر، صرف اور صرف اس لیے کہ کل روزمحشر جب میرا سامنا ان لوگوں سے ہو جنہوں نے اس دھرتی کو اپنے خون سے سینچا تو میرا بھی سر فخر سے بلند نہ ہو تو جھکے بھی نہیں۔ مجھے شرمندگی نہ ہو۔ میں اس دھرتی کی آبیاری کروں گا، اور ایک سچے پاکستانی کے طور پر زندگی گزاروں گا۔
آئیے ہم عہد کریں کہ اس 23 مارچ کو ایک نئے انداز میں گزاریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
احسان صاحب کے دنیا سے جانے کے بعد فضل نے وراثت میں ملنے والی نعمتوں کی قدر نہ کی اور باپ کے مال کو ''مال مفت، دل بے رحم'' کی طرح استعمال کیا۔ جب کہ علی نے انتہائی احتیاط کے ساتھ زندگی گزاری۔ آج صورتحال یہ ہے کہ فضل اور اس کی اولاد ڈیفالٹر ہوکر منہ چھپاتی پھر رہی ہے جبکہ علی نہ صرف یہ کہ خود ایک اچھی زندگی گزار رہا ہے بلکہ اس کے دونوں بیٹے بھی خوشحال ہیں۔
یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ اگر ہم بزرگوں کی قربانیوں کی قدر کریں تو ہم اور ہماری نسلیں سکون اور آرام کی زندگی گزارتی ہیں اور اگر معاملہ الٹ ہو تو ایک نسل تو بزرگوں کی قربانیوں کا پھل کھا لیتی ہے لیکن ہماری کوتاہیاں آنے والی نسلوں کے سر سے چھت تک چھین لیتی ہیں۔ یہ صورتحال انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہے۔
آج سے کم و بیش 80 برس قبل ہمارے بڑوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا کہ ہندوؤں کے ساتھ ہمارا گزارا ناممکن ہے۔ اگر ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کےلیے ایک آزاد اور خودمختار ملک حاصل نہ کیا تو ہماری نسلیں ہندوؤں کی غلام بن کر زندگی گزاریں گی۔ انہیں اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ انہیں اپنا آج آنے والی نسلوں کے کل کےلیے قربان کرنا ہوگا، بصورت دیگر آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ اس لیے انہوں نے اپنا تن، من، دھن ہماری خاطر قربان کردیا۔ انہوں نے ہماری خاطر وقتی سکون برباد کرکے آنے والی نسلوں کی ابدی راحت کی فکر کی اور ہمیں ایک غائبانہ پیغام دیا کہ وقتی فائدے، وقتی آرام کی خاطر نسلوں کا مستقبل تباہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے بارے میں سوچیں گے تو آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔
اگر ہمارے بڑے صرف وقتی فائدے کو مدنظر رکھتے تو ہمارا کیا حال ہوتا، اس کےلیے زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ آج کے ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی حالت زار کو بغور دیکھ لیجئے۔ آج کا مسلمان انڈیا میں جس قدر مشکلات کا شکار ہے، وہ حالت چیخ چیخ کر ہم سے اس پاک دھرتی کی قدر کا تقاضا کررہی ہے۔ مجھے گزشتہ برس میرےایک ہندوستانی مسلم ساتھی نے گزارش کی تھی کہ میں انہیں بھی اپنے ساتھ عید کی قربانی میں شامل کرلوں، کیونکہ ان کےلیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہندوستان میں قربانی کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم 23 مارچ کو رسمی تجدید عہد وفا، روایتی پیغامات، رسمی تقاریب، فوٹو سیشن، سیمنارز، بریکنگ نیوز سے آگے بڑھ کر منائیں۔ ہم ہر سال 23 مارچ کے موقع پر اپنا محاسبہ کریں۔ اور یہ عہد کیجئے کہ کوئی اس دھرتی سے وفا کرے یا نہ کرے، میں کروں گا۔ میں اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کی قدر کروں گا۔ میں اپنی آنے والے نسلوں کے بارے میں سوچوں گا۔ میں جس حال میں ہوں، حتیٰ کہ کلرک ہی کیوں نہ ہوں، میں پاکستان کی خاطر، آنے والی نسلوں کی خاطر، اپنے آباؤاجداد سے وفا کرنے کی خاطر، صرف اور صرف اس لیے کہ کل روزمحشر جب میرا سامنا ان لوگوں سے ہو جنہوں نے اس دھرتی کو اپنے خون سے سینچا تو میرا بھی سر فخر سے بلند نہ ہو تو جھکے بھی نہیں۔ مجھے شرمندگی نہ ہو۔ میں اس دھرتی کی آبیاری کروں گا، اور ایک سچے پاکستانی کے طور پر زندگی گزاروں گا۔
آئیے ہم عہد کریں کہ اس 23 مارچ کو ایک نئے انداز میں گزاریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔