جب بنیاد ہی غلط ہو
ہم منافقت کے بلند منارے پر جا بیٹھے ہیں۔
صوابی میں کالو خان پولیس اسٹیشن کی حدود میں مبینہ عسکریت پسندوں نے 6 ستمبر کی رات لڑکیوں کا ایک سرکاری اسکول بموں سے اڑانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اسکول کی عمارت کو سخت نقصان پہنچا، چوکیدار خوش نصیب تھا کہ جان بچ گئی لیکن وہ 200 لڑکیاں گھر بیٹھ گئیں جو اس پرائمری اسکول میں پڑھتی تھیں۔
اس علاقے میں اس سے پہلے لڑکیوں کے 21 اسکول دن اور رات کے حملوں میں اڑائے جا چکے ہیں۔ ان میں پڑھنے والیاں گھروں میں بیٹھی ہیں۔ وہ جو زیادہ باہمت ہیں میلوں پیدل چل کر دور دراز اسکولوں میں جاتی ہیں اور منت سماجت کر کے ان اسکولوں میں پڑھنے کی کوشش کرتی ہیں جو پہلے سے ہی جگہ اور اساتذہ کی کمی اور سرکار کی بے اعتنائی کا شکار ہیں۔
علاقے کے عسکریت پسندوں کی طرف سے پاکستانی لڑکیوں اور سرکار کو یہ 8 ستمبر کا پیشگی تحفہ تھا۔ 8 ستمبر جو دنیا بھر میں خواندگی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں اس روز رنگا رنگ تقریبات منائی گئیں اور اس بات کا عزم کیا گیا کہ بھوک، غربت، بیروزگاری اور ناانصافی سے نجات دلانے کے لیے ہر ملک اپنے لوگوں کی بنیادی تعلیم میں بھرپور دلچسپی لے گا اور اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ اس کام پر صرف کرے گا۔ اس دن کو اقوام متحدہ کے مختلف اداروں بہ طور خاص یونیسکو کی سرپرستی حاصل ہے۔
ہمارے یہاں کے اخبارات میں بھی ہر صوبے کے ڈائریکٹریٹ خواندگی اور غیر رسمی بنیادی تعلیم کی جانب سے بڑے بڑے اشتہارات شایع ہوئے۔ کراچی کے حوالے سے بتایا گیا کہ 8 ستمبر کو سینئر صوبائی وزیر پیر مظہر الحق سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں مرکزی تقریب کا افتتاح کریں گے اور لوگوںکو تعلیم کے لیے عوامی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کریں گے۔ اشتہارات میں یہ بھی بتایا گیا کہ تعلیم ہی قوموں کی ترقی کی ضامن ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ سندھ کے تمام پڑھے لکھے لوگ تعلیم یافتہ اور روشن سندھ کے لیے ہمارے ہاتھ مضبوط کریں۔
پرانا زمانہ ہوتا تو اونٹوں اور بیل گاڑیوں میں بڑے بڑے نقارے رکھے جاتے اور منادی کرنے والے ان نقاروں پر چوب مارتے اور اعلان کرتے کہ 'زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا' اس بادشاہ کے سائے میں رہنے والے لوگوں کو آگاہ کیا جاتاہے کہ وہ پڑھنا لکھنا سیکھ لیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں نہ اقوام متحدہ تھی، نہ یونیسیف، نہ یونیسکو یا دوسرے ادارے جنھیں اس بات کا درد ہو کہ صرف ان کے شہری ہی نہیں، دنیا کے دور دراز گوشوں کے شہری بھی لکھنا پڑھنا سیکھ لیں کہ اسی میں ان کی اور ساری دنیا کی بھلائی ہے۔
نیا زمانہ ہے اس لیے حکومت نقارہ پٹوانے کی سعادت حاصل نہ کر سکی لیکن اسے یہ جاننا چاہیے کہ وہ اس نوعیت کے اشتہار چھپوا کر اور نیم دلی سے اس نوعیت کی تقریبات منعقد کر کے ڈونر ایجنسیوں کو خوش کرنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کرے لیکن دنیاکو تاثر یہی ملتا ہے کہ حکومت کو اس شعبے سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
بات 8 ستمبر اور خواندگی کے عالمی دن اور اس سے پہلے لڑکیوں کے اسکولوں کو بارود سے اڑا دینے کی المناک خبر سے شروع ہوئی تھی۔ یہ محض ایک خبر نہیں گزشتہ چند برسوں میں تباہ کیے جانے والے اسکولوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہزاروں 'بھوت اسکول' بھی موجود ہیں جہاں بچے بچیاں نہیں جاتے لیکن خزانے سے رقم ہر ماہ ادا کی جاتی ہے۔
یہ تعلیمی دہشت گردی ہے۔ پاکستان ایسا غریب ملک جس کے پاس وسائل بہت کم ہیں اور مسائل بہت زیادہ، جہاں تعلیم کا شعبہ پسماندگی اور بدحالی کا شکار ہے، وہاں اتنے بہت سے اسکولوں کی تباہی ہمارے لیے ایک نقصان عظیم ہے۔ ہمارے یہاں خواندگی کے حوالے سے سرکاری دعوے خواہ کچھ بھی ہوں حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح دنیا کی بدترین شرحوں میں سے ہے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ تعلیمی اعتبار سے ہم صرف افغانستان اور چند بدحال افریقی ملکوں سے بڑھی ہوئی شرح رکھتے ہیں۔
اگر یہ خوش ہونے کی بات ہے تو پھر اس پر جشن منائیے اور اس بات پر غور کیجیے کہ ایک غریب، خستہ حال اور 21 برس تک کی بدترین خانہ جنگی کا شکار ملک سری لنکا اپنی شرح خواندگی کو 90 سے 95 فیصد پر کیسے بحال رکھ سکا۔ وہاں صرف انگریزی میں دستخط کرنے والے ہی خواندہ نہیں گنے جاتے۔ ان کا معیار تعلیم بلند ہے اور وہ تاریخ کے نام پر جھوٹ نہیں پڑھاتے۔
ہمارے سرکاری اسکولوں کے تعلیمی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک تعلیمی سروے کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ 6 سے 16 برس کے بچے حساب کے معمولی سوال حل نہیں کرسکتے اور 41 فیصد بچے انگریزی تو دور کی بات ہے اردو یا کسی دوسری زبان میں لکھاجانے والا کوئی ایک فقرہ نہیںپڑھ سکتے۔ لگ بھگ دو کروڑ بچوں نے کبھی کسی اسکول کی چار دیواری میں قدم نہیں رکھا۔ غریب خاندانوں میں بھی اس کا احساس موجود ہے کہ ان کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے لیکن سرکاری اسکول میں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانا ان کے لیے محض ایک خواب ہے۔
ایسے میں سب نہیں بلکہ بعض مخصوص مقاصد رکھنے والے افراد دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں کے والدین سے رابطہ کرکے ان بچوں کو تعلیم دینے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہ اپنے بچے ان کے ساتھ کردیتے ہیں۔ انھیں یقین دلایاجاتا ہے کہ ان کے بچے مذہبی تعلیم حاصل کریں گے اور قیامت کے روز ان کی شفاعت کا سبب بنیں گے ۔ والدین کو اس بات کا بھی سکون ہوتا ہے کہ بچوں کے سرپر مدرسے کی پکی چھت ہوگی اور تین وقت کی روٹی میسر آئے گی۔ وہ بچے کس حال میں رہتے ہیں، ان پر کتنا جسمانی تشدد ہوتا ہے یا بعض حالات میں وہ مبینہ طور پر دہشت گردی کی کن کاروائیوں میں استعمال ہوتے ہیں، ان معاملات سے ماں باپ قطعاً آگاہ نہیں ہوتے۔ وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ان کابچہ روز محشر ان کی بخشش کا سبب بنے گا۔
حکومت نے اس طرف بھی توجہ نہیں دی کہ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بعض گروہوں کا اثرو نفوذ کس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلباء مسلکی اورفقہی بنیادوں پر تقسیم ہوگئے اور کفر و اسلام کی جنگ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں شروع ہوگئی۔ وہ اساتذہ جو تعلیمی اداروں کو ان مسائل سے پاک رکھنا چاہتے ہیں، ان میں سے کچھ کو قتل کیا گیا، کچھ کو زدو کوب کیا گیا۔ فلسفہ ایک ایسا مضمون سمجھا گیا جو کفر و الحاد کی تعلیم دیتا ہے چنانچہ ایک مذہبی تنظیم سے وابستہ طلبہ آتشیں اسلحے کی نمائش کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل میں گھسے، شعبہ فلسفہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو زدوکوب کرکے زخمی کیا، ایک طالب علم کو پہلی منزل سے نیچے پھینک دیا گیا۔
اس غنڈہ گردی کو روکنے کی کوشش کرنے والے گارڈز کی بھی ''خاطر تواضع'' کی گئی اور اپنی دہشت کی دھاک دلوں میں بٹھا کر ایک مذہبی تنظیم کا طلبہ گروپ اپنا اسلحہ چمکاتا ہوااپنے گھروں کو گیا اور اس کے سرپرست اپنے دھرنوں اور تقریروں میں چادر اور چار دیواری کے تقدس اور علم وتعلیم کے احترام پر اصرار کرتے رہے۔
ہم منافقت کے بلند منارے پر جا بیٹھے ہیں۔وہ لوگ جو بڑے سیاستدان ہیں ان سے شکایتیں اپنی جگہ لیکن مذہب کا نام لے کر تشدد اور عدم رواداری کا درس دینے والوں سے شکایت کے لیے اب لفظ بھی ختم ہوچکے ہیں۔ وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں سب سے زیادہ اصرار علم کے حصول پر کیا گیا ہے۔ زباں سے وہ یہی کہتے ہیں لیکن کبھی اس بات پر دکھ کا اظہار نہیں کرتے کہ فاٹا ڈسٹرکٹ مینجمنٹ اتھارٹی اور فاٹا ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کے مطابق پچھلے برس لڑکوں کے 542 پرائمری اسکول اور لڑکیوں کے 108 پرائمری اسکول بند رہے کیونکہ عسکریت پسندوں کی دھمکیوں نے ان اسکولوں میں طلبہ و اساتذہ کی آمد اور تعلیم کا ناممکن بنادیا تھا۔
پاکستان دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی جس دلدل میں دھنس گیا ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ حکومت اور شہری دونوں ہی اس حقیقت کو سمجھیں کہ امن اور ترقی کا راستہ خواندگی کی منزل سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا کے ان دس ملکوں میں سے ایک ہے جہاں رہنے والوں کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ جن بچوں کو تعلیم مل رہی ہے وہ ناقص اورقدیم ہے، اس کا آج کی ضرورتوں اور زمینی حقائق سے دُور دُور کا تعلق نہیں۔ ہم 8 ستمبر کا دن خواندگی کے عالمی دن کے طور پر منا بھی لیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ تعلیم اور تحقیق کا فروغ ترقی کی اصل بنیاد ہے۔ جب بنیاد ہی غلط ہوتوہم اس پر عظیم الشان عمارت کیسے کھڑی کریں گے؟
اس علاقے میں اس سے پہلے لڑکیوں کے 21 اسکول دن اور رات کے حملوں میں اڑائے جا چکے ہیں۔ ان میں پڑھنے والیاں گھروں میں بیٹھی ہیں۔ وہ جو زیادہ باہمت ہیں میلوں پیدل چل کر دور دراز اسکولوں میں جاتی ہیں اور منت سماجت کر کے ان اسکولوں میں پڑھنے کی کوشش کرتی ہیں جو پہلے سے ہی جگہ اور اساتذہ کی کمی اور سرکار کی بے اعتنائی کا شکار ہیں۔
علاقے کے عسکریت پسندوں کی طرف سے پاکستانی لڑکیوں اور سرکار کو یہ 8 ستمبر کا پیشگی تحفہ تھا۔ 8 ستمبر جو دنیا بھر میں خواندگی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں اس روز رنگا رنگ تقریبات منائی گئیں اور اس بات کا عزم کیا گیا کہ بھوک، غربت، بیروزگاری اور ناانصافی سے نجات دلانے کے لیے ہر ملک اپنے لوگوں کی بنیادی تعلیم میں بھرپور دلچسپی لے گا اور اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ اس کام پر صرف کرے گا۔ اس دن کو اقوام متحدہ کے مختلف اداروں بہ طور خاص یونیسکو کی سرپرستی حاصل ہے۔
ہمارے یہاں کے اخبارات میں بھی ہر صوبے کے ڈائریکٹریٹ خواندگی اور غیر رسمی بنیادی تعلیم کی جانب سے بڑے بڑے اشتہارات شایع ہوئے۔ کراچی کے حوالے سے بتایا گیا کہ 8 ستمبر کو سینئر صوبائی وزیر پیر مظہر الحق سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں مرکزی تقریب کا افتتاح کریں گے اور لوگوںکو تعلیم کے لیے عوامی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کریں گے۔ اشتہارات میں یہ بھی بتایا گیا کہ تعلیم ہی قوموں کی ترقی کی ضامن ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ سندھ کے تمام پڑھے لکھے لوگ تعلیم یافتہ اور روشن سندھ کے لیے ہمارے ہاتھ مضبوط کریں۔
پرانا زمانہ ہوتا تو اونٹوں اور بیل گاڑیوں میں بڑے بڑے نقارے رکھے جاتے اور منادی کرنے والے ان نقاروں پر چوب مارتے اور اعلان کرتے کہ 'زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا' اس بادشاہ کے سائے میں رہنے والے لوگوں کو آگاہ کیا جاتاہے کہ وہ پڑھنا لکھنا سیکھ لیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں نہ اقوام متحدہ تھی، نہ یونیسیف، نہ یونیسکو یا دوسرے ادارے جنھیں اس بات کا درد ہو کہ صرف ان کے شہری ہی نہیں، دنیا کے دور دراز گوشوں کے شہری بھی لکھنا پڑھنا سیکھ لیں کہ اسی میں ان کی اور ساری دنیا کی بھلائی ہے۔
نیا زمانہ ہے اس لیے حکومت نقارہ پٹوانے کی سعادت حاصل نہ کر سکی لیکن اسے یہ جاننا چاہیے کہ وہ اس نوعیت کے اشتہار چھپوا کر اور نیم دلی سے اس نوعیت کی تقریبات منعقد کر کے ڈونر ایجنسیوں کو خوش کرنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کرے لیکن دنیاکو تاثر یہی ملتا ہے کہ حکومت کو اس شعبے سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
بات 8 ستمبر اور خواندگی کے عالمی دن اور اس سے پہلے لڑکیوں کے اسکولوں کو بارود سے اڑا دینے کی المناک خبر سے شروع ہوئی تھی۔ یہ محض ایک خبر نہیں گزشتہ چند برسوں میں تباہ کیے جانے والے اسکولوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہزاروں 'بھوت اسکول' بھی موجود ہیں جہاں بچے بچیاں نہیں جاتے لیکن خزانے سے رقم ہر ماہ ادا کی جاتی ہے۔
یہ تعلیمی دہشت گردی ہے۔ پاکستان ایسا غریب ملک جس کے پاس وسائل بہت کم ہیں اور مسائل بہت زیادہ، جہاں تعلیم کا شعبہ پسماندگی اور بدحالی کا شکار ہے، وہاں اتنے بہت سے اسکولوں کی تباہی ہمارے لیے ایک نقصان عظیم ہے۔ ہمارے یہاں خواندگی کے حوالے سے سرکاری دعوے خواہ کچھ بھی ہوں حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح دنیا کی بدترین شرحوں میں سے ہے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ تعلیمی اعتبار سے ہم صرف افغانستان اور چند بدحال افریقی ملکوں سے بڑھی ہوئی شرح رکھتے ہیں۔
اگر یہ خوش ہونے کی بات ہے تو پھر اس پر جشن منائیے اور اس بات پر غور کیجیے کہ ایک غریب، خستہ حال اور 21 برس تک کی بدترین خانہ جنگی کا شکار ملک سری لنکا اپنی شرح خواندگی کو 90 سے 95 فیصد پر کیسے بحال رکھ سکا۔ وہاں صرف انگریزی میں دستخط کرنے والے ہی خواندہ نہیں گنے جاتے۔ ان کا معیار تعلیم بلند ہے اور وہ تاریخ کے نام پر جھوٹ نہیں پڑھاتے۔
ہمارے سرکاری اسکولوں کے تعلیمی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک تعلیمی سروے کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ 6 سے 16 برس کے بچے حساب کے معمولی سوال حل نہیں کرسکتے اور 41 فیصد بچے انگریزی تو دور کی بات ہے اردو یا کسی دوسری زبان میں لکھاجانے والا کوئی ایک فقرہ نہیںپڑھ سکتے۔ لگ بھگ دو کروڑ بچوں نے کبھی کسی اسکول کی چار دیواری میں قدم نہیں رکھا۔ غریب خاندانوں میں بھی اس کا احساس موجود ہے کہ ان کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے لیکن سرکاری اسکول میں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانا ان کے لیے محض ایک خواب ہے۔
ایسے میں سب نہیں بلکہ بعض مخصوص مقاصد رکھنے والے افراد دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں کے والدین سے رابطہ کرکے ان بچوں کو تعلیم دینے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہ اپنے بچے ان کے ساتھ کردیتے ہیں۔ انھیں یقین دلایاجاتا ہے کہ ان کے بچے مذہبی تعلیم حاصل کریں گے اور قیامت کے روز ان کی شفاعت کا سبب بنیں گے ۔ والدین کو اس بات کا بھی سکون ہوتا ہے کہ بچوں کے سرپر مدرسے کی پکی چھت ہوگی اور تین وقت کی روٹی میسر آئے گی۔ وہ بچے کس حال میں رہتے ہیں، ان پر کتنا جسمانی تشدد ہوتا ہے یا بعض حالات میں وہ مبینہ طور پر دہشت گردی کی کن کاروائیوں میں استعمال ہوتے ہیں، ان معاملات سے ماں باپ قطعاً آگاہ نہیں ہوتے۔ وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ان کابچہ روز محشر ان کی بخشش کا سبب بنے گا۔
حکومت نے اس طرف بھی توجہ نہیں دی کہ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بعض گروہوں کا اثرو نفوذ کس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلباء مسلکی اورفقہی بنیادوں پر تقسیم ہوگئے اور کفر و اسلام کی جنگ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں شروع ہوگئی۔ وہ اساتذہ جو تعلیمی اداروں کو ان مسائل سے پاک رکھنا چاہتے ہیں، ان میں سے کچھ کو قتل کیا گیا، کچھ کو زدو کوب کیا گیا۔ فلسفہ ایک ایسا مضمون سمجھا گیا جو کفر و الحاد کی تعلیم دیتا ہے چنانچہ ایک مذہبی تنظیم سے وابستہ طلبہ آتشیں اسلحے کی نمائش کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل میں گھسے، شعبہ فلسفہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو زدوکوب کرکے زخمی کیا، ایک طالب علم کو پہلی منزل سے نیچے پھینک دیا گیا۔
اس غنڈہ گردی کو روکنے کی کوشش کرنے والے گارڈز کی بھی ''خاطر تواضع'' کی گئی اور اپنی دہشت کی دھاک دلوں میں بٹھا کر ایک مذہبی تنظیم کا طلبہ گروپ اپنا اسلحہ چمکاتا ہوااپنے گھروں کو گیا اور اس کے سرپرست اپنے دھرنوں اور تقریروں میں چادر اور چار دیواری کے تقدس اور علم وتعلیم کے احترام پر اصرار کرتے رہے۔
ہم منافقت کے بلند منارے پر جا بیٹھے ہیں۔وہ لوگ جو بڑے سیاستدان ہیں ان سے شکایتیں اپنی جگہ لیکن مذہب کا نام لے کر تشدد اور عدم رواداری کا درس دینے والوں سے شکایت کے لیے اب لفظ بھی ختم ہوچکے ہیں۔ وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں سب سے زیادہ اصرار علم کے حصول پر کیا گیا ہے۔ زباں سے وہ یہی کہتے ہیں لیکن کبھی اس بات پر دکھ کا اظہار نہیں کرتے کہ فاٹا ڈسٹرکٹ مینجمنٹ اتھارٹی اور فاٹا ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کے مطابق پچھلے برس لڑکوں کے 542 پرائمری اسکول اور لڑکیوں کے 108 پرائمری اسکول بند رہے کیونکہ عسکریت پسندوں کی دھمکیوں نے ان اسکولوں میں طلبہ و اساتذہ کی آمد اور تعلیم کا ناممکن بنادیا تھا۔
پاکستان دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی جس دلدل میں دھنس گیا ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ حکومت اور شہری دونوں ہی اس حقیقت کو سمجھیں کہ امن اور ترقی کا راستہ خواندگی کی منزل سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا کے ان دس ملکوں میں سے ایک ہے جہاں رہنے والوں کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ جن بچوں کو تعلیم مل رہی ہے وہ ناقص اورقدیم ہے، اس کا آج کی ضرورتوں اور زمینی حقائق سے دُور دُور کا تعلق نہیں۔ ہم 8 ستمبر کا دن خواندگی کے عالمی دن کے طور پر منا بھی لیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ تعلیم اور تحقیق کا فروغ ترقی کی اصل بنیاد ہے۔ جب بنیاد ہی غلط ہوتوہم اس پر عظیم الشان عمارت کیسے کھڑی کریں گے؟