زرداری صاحب نے کیا پھر گھاٹے کا سودا کیا ہے
لگتا ہے کہ پرانی تنخواہ اور مقدمات پر ریلیف پر ہی سودا ہو گیا ہے۔
اسلام آباد:
پی ڈی ایم وقتی طور پر ٹوٹنے کا باقاعدہ اعلان ہو گیا ہے۔ ماحول کو گرمانے اور علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی شروع ہوئی ہے۔ علیحدگی کا یقین دلانا دونوں فریقین کی مجبوری ہے۔ پیپلزپارٹی بھی بتانا چاہتی ہے کہ اس نے پی ڈی ایم کو چھوڑ دیا ہے اور ن لیگ بھی ۔
اس علیحدگی کے بعد کون فائدہ میں رہے گا اور کس کو نقصان ہوگا۔ آصف زرداری نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے۔ انھوں نے ن لیگ اور جے یو آئی (ف) کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ انھوں نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ہو۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی انھوں نے ایسا ہی فیصلہ کیا تھا۔ تب اس کے ثمرات بھی انھیں ملے۔
وہ خود جنرل مشرف کو ہٹا کر صدر پاکستان بن گئے۔ پارٹی کو اقتدار مل گیا۔ آصف زرداری نے ہمیشہ کوشش کی کہ ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے تعلقات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہ جائیں۔ لوگ ان کی مشہور تقریر کا بہت حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس تقریر کے بعد وہ خاموش ہو گئے تھے ۔ ملک سے چلے گئے اور تب تک نہ آئے جب تک صلح نہ ہوگئی۔ وہ غصہ میں ایک غیر ارادی عمل تھا۔ کوئی باقاعدہ اعلان جنگ نہیں تھا۔ آصف زرداری نے تو میمو گیٹ کے موقع پر بھی لڑائی نہیں کی بلکہ مفاہمت سے راستے نکالے۔
پاناما میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ہم نے آصف زرداری اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ایک نئی اننگ دیکھی۔ آصف زرداری نواز شریف کی بلوچستان حکومت گرانے میں نہ صرف پیش پیش تھے بلکہ اس کو اپنا بہت بڑا کریڈٹ بھی قرار دے رہے تھے۔
نواز شریف پیپلزپارٹی کے رضا ربانی کو دوباہ چیئرمین سینیٹ بنانے کے لیے تیار تھے لیکن آصف زرداری تحریک انصاف کے ساتھ جانے کے لیے بے تاب تھے۔ سینیٹ میں چیئرمین شپ کو قربان کرتے ہوئے تحریک انصاف سے اتحاد کے لیے صادق سنجرانی کو گلے لگا لیا۔ جواب میں عمران خان نے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کوووٹ دے دیا۔تب عام رائے یہی تھی کہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی شراکت اقتدارآگے چلے گی۔
عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو اپنی اسی دوست پالیسی کی وجہ سے سندھ کا اقتدار دوبارہ مل گیا۔ حالانکہ پنجاب میں ن لیگ اور کے پی میں مولانا کا راستہ روکا گیا۔ آصف زرداری کو امید تھی ان کی دوست پالیسی اور سینیٹ میں اتحاد کی روشنی میں انتخابات کے بعد ان کا مرکز میں بھی تحریک انصاف سے اتحاد پکا ہے۔ وہ شریک اقتدار ہونگے۔ لیکن عمران خان نے بیان دے دیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر پیپلزپارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار نہیں کریں گے۔ حالانکہ عمران خان سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات پیپلزپارٹی کے ساتھ ملکر لڑ چکے تھے۔
قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں آصف زرداری عمران خان سے ہاتھ ملانے کے لیے ان کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ اور پھر عمران خان نے رسمی طور پر آصف زرداری سے ہاتھ بھی ملایا۔ لیکن شراکت اقتدار ممکن نہیں ہو سکا۔ کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری کے خیال میں سندھ کی حکومت اور اسٹبلشمنٹ سے دوستی بلاول کے لیے مستقبل میں نئی راہیں کھولے گی۔
وہ بلاول کی سیاست میں فری ہینڈ پر بھی مطمئن تھے۔ پیپلزپارٹی نے وزیر اعظم کے انتخاب میں شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا تا کہ عمران خان آسانی سے جیت سکیں۔صدر پاکستان کے انتخاب میں تحریک انصاف کو فری ہینڈ اور آسان جیت دینے کے لیے پیپلزپارٹی نے جانتے ہوئے کہ اپوزیشن اور بالخصوص ن لیگ کے لیے اعتزاز احسن کو ووٹ دینا ممکن نہیں، انھیں یک طرفہ طور پر کھڑا کر دیا۔ اور صدر پاکستان کا جو انتخاب اپوزیشن متحد ہوکر جیت سکتی تھی۔آصف زرداری نے وہ عمران خان کو تحفہ میں دے دیا۔
آصف زرداری بھی نیب میں گرفتار ہو گئے۔ ان کی بہن فریال تالپوربھی گرفتار ہو گئیں۔بلاول کو بھی نیب کے نوٹس ملنا شروع ہو گئے ۔ کیس بھی کراچی کے بجائے راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی بھی نیب میں پیشیاں شروع ہو گئیں۔ اسپیکر سندھ اسمبلی بھی گرفتار ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب آصف زرداری کو لگا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوگیا۔ تب آصف زرداری نے دوبارہ ن لیگ اور فضل الرحمٰن کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے گھر میں اے پی سی کی اور اپوزیشن کا دوبارہ اتحادبنایا۔ پرانی غلطیوں کی بند کمروں میں معافیاں مانگیں۔ پی ڈی ایم بنائی اور اس کو چلانے میں کردار بھی ادا کیا۔
لیکن اب پھر آصف زرداری نے دوبارہ اسٹبلشمنٹ سے صلح اور ن لیگ سے راہیں جدا کر لی ہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ اس دھوکے کی کچھ قیمت تو ملنی چاہیے۔ کیا صرف مقدمات میں ریلیف ہی قیمت ہے یا اس سے زیادہ بھی کچھ ملے گا۔ کیا عمران خان زرداری صاحب کی جانب سے انھیں اتنی بڑی لائف لائن گفٹ کرنے کے بعد ان کے ساتھ شراکت اقتدار کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
کیاپنجاب میں وزارتیں مل جائیں گی۔ اگر پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا ہے تو زرداری صاحب نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ بلاول کے لیے کونسی نئی راہیں کھولی جائیں گی۔ کیا بلاول کو وزیر اعظم بنانے کا خواب پورے ہونے کا کوئی امکان ہے۔ ابھی تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا۔ لیکن اس سے کم پر پی ڈی ایم کو توڑنا قابل فہم نہیں ہے۔ کیا زرداری صاحب دوبارہ دھوکا کھا جائیں گے۔
پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کا عمران خان اور ان کے دوستوں کو صرف پارلیمانی فائدہ ہے لیکن پارلیمنٹ تو غیر فعال ہے۔ کیا پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر عمران خان کوئی قانون سازی اور آئینی ترامیم کر سکتے ہیں۔ بظاہر یہ ممکن نہیں۔ کیونکہ اس کے لیے پیپلزپارٹی کو اپنے ساتھ حکومتی بنچوں پر بٹھانا ہوگا۔
لگتا ہے کہ پرانی تنخواہ اور مقدمات پر ریلیف پر ہی سودا ہو گیا ہے۔ لیکن یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ اس لیے زرداری صاحب پہلے بھی استعمال ہوئے تھے۔ لگتا ہے اب پھر استعمال ہو گئے ہیں۔ وہ بار بار گھاٹے کے سودے کر رہے ہیں۔ اگر سوال ریلیف کا ہے تو وہ تو ن لیگ اور مولانا کو بھی مل رہا ہے لیکن دونوں زرداری صاحب کی طرح استعمال نہیں ہو رہے۔ ان کی حکمت عملی میں فرق ہے۔
پی ڈی ایم وقتی طور پر ٹوٹنے کا باقاعدہ اعلان ہو گیا ہے۔ ماحول کو گرمانے اور علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی شروع ہوئی ہے۔ علیحدگی کا یقین دلانا دونوں فریقین کی مجبوری ہے۔ پیپلزپارٹی بھی بتانا چاہتی ہے کہ اس نے پی ڈی ایم کو چھوڑ دیا ہے اور ن لیگ بھی ۔
اس علیحدگی کے بعد کون فائدہ میں رہے گا اور کس کو نقصان ہوگا۔ آصف زرداری نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے۔ انھوں نے ن لیگ اور جے یو آئی (ف) کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ انھوں نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ہو۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی انھوں نے ایسا ہی فیصلہ کیا تھا۔ تب اس کے ثمرات بھی انھیں ملے۔
وہ خود جنرل مشرف کو ہٹا کر صدر پاکستان بن گئے۔ پارٹی کو اقتدار مل گیا۔ آصف زرداری نے ہمیشہ کوشش کی کہ ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے تعلقات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہ جائیں۔ لوگ ان کی مشہور تقریر کا بہت حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس تقریر کے بعد وہ خاموش ہو گئے تھے ۔ ملک سے چلے گئے اور تب تک نہ آئے جب تک صلح نہ ہوگئی۔ وہ غصہ میں ایک غیر ارادی عمل تھا۔ کوئی باقاعدہ اعلان جنگ نہیں تھا۔ آصف زرداری نے تو میمو گیٹ کے موقع پر بھی لڑائی نہیں کی بلکہ مفاہمت سے راستے نکالے۔
پاناما میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ہم نے آصف زرداری اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ایک نئی اننگ دیکھی۔ آصف زرداری نواز شریف کی بلوچستان حکومت گرانے میں نہ صرف پیش پیش تھے بلکہ اس کو اپنا بہت بڑا کریڈٹ بھی قرار دے رہے تھے۔
نواز شریف پیپلزپارٹی کے رضا ربانی کو دوباہ چیئرمین سینیٹ بنانے کے لیے تیار تھے لیکن آصف زرداری تحریک انصاف کے ساتھ جانے کے لیے بے تاب تھے۔ سینیٹ میں چیئرمین شپ کو قربان کرتے ہوئے تحریک انصاف سے اتحاد کے لیے صادق سنجرانی کو گلے لگا لیا۔ جواب میں عمران خان نے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کوووٹ دے دیا۔تب عام رائے یہی تھی کہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی شراکت اقتدارآگے چلے گی۔
عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو اپنی اسی دوست پالیسی کی وجہ سے سندھ کا اقتدار دوبارہ مل گیا۔ حالانکہ پنجاب میں ن لیگ اور کے پی میں مولانا کا راستہ روکا گیا۔ آصف زرداری کو امید تھی ان کی دوست پالیسی اور سینیٹ میں اتحاد کی روشنی میں انتخابات کے بعد ان کا مرکز میں بھی تحریک انصاف سے اتحاد پکا ہے۔ وہ شریک اقتدار ہونگے۔ لیکن عمران خان نے بیان دے دیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر پیپلزپارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار نہیں کریں گے۔ حالانکہ عمران خان سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات پیپلزپارٹی کے ساتھ ملکر لڑ چکے تھے۔
قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں آصف زرداری عمران خان سے ہاتھ ملانے کے لیے ان کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ اور پھر عمران خان نے رسمی طور پر آصف زرداری سے ہاتھ بھی ملایا۔ لیکن شراکت اقتدار ممکن نہیں ہو سکا۔ کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری کے خیال میں سندھ کی حکومت اور اسٹبلشمنٹ سے دوستی بلاول کے لیے مستقبل میں نئی راہیں کھولے گی۔
وہ بلاول کی سیاست میں فری ہینڈ پر بھی مطمئن تھے۔ پیپلزپارٹی نے وزیر اعظم کے انتخاب میں شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا تا کہ عمران خان آسانی سے جیت سکیں۔صدر پاکستان کے انتخاب میں تحریک انصاف کو فری ہینڈ اور آسان جیت دینے کے لیے پیپلزپارٹی نے جانتے ہوئے کہ اپوزیشن اور بالخصوص ن لیگ کے لیے اعتزاز احسن کو ووٹ دینا ممکن نہیں، انھیں یک طرفہ طور پر کھڑا کر دیا۔ اور صدر پاکستان کا جو انتخاب اپوزیشن متحد ہوکر جیت سکتی تھی۔آصف زرداری نے وہ عمران خان کو تحفہ میں دے دیا۔
آصف زرداری بھی نیب میں گرفتار ہو گئے۔ ان کی بہن فریال تالپوربھی گرفتار ہو گئیں۔بلاول کو بھی نیب کے نوٹس ملنا شروع ہو گئے ۔ کیس بھی کراچی کے بجائے راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی بھی نیب میں پیشیاں شروع ہو گئیں۔ اسپیکر سندھ اسمبلی بھی گرفتار ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب آصف زرداری کو لگا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوگیا۔ تب آصف زرداری نے دوبارہ ن لیگ اور فضل الرحمٰن کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے گھر میں اے پی سی کی اور اپوزیشن کا دوبارہ اتحادبنایا۔ پرانی غلطیوں کی بند کمروں میں معافیاں مانگیں۔ پی ڈی ایم بنائی اور اس کو چلانے میں کردار بھی ادا کیا۔
لیکن اب پھر آصف زرداری نے دوبارہ اسٹبلشمنٹ سے صلح اور ن لیگ سے راہیں جدا کر لی ہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ اس دھوکے کی کچھ قیمت تو ملنی چاہیے۔ کیا صرف مقدمات میں ریلیف ہی قیمت ہے یا اس سے زیادہ بھی کچھ ملے گا۔ کیا عمران خان زرداری صاحب کی جانب سے انھیں اتنی بڑی لائف لائن گفٹ کرنے کے بعد ان کے ساتھ شراکت اقتدار کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
کیاپنجاب میں وزارتیں مل جائیں گی۔ اگر پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا ہے تو زرداری صاحب نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ بلاول کے لیے کونسی نئی راہیں کھولی جائیں گی۔ کیا بلاول کو وزیر اعظم بنانے کا خواب پورے ہونے کا کوئی امکان ہے۔ ابھی تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا۔ لیکن اس سے کم پر پی ڈی ایم کو توڑنا قابل فہم نہیں ہے۔ کیا زرداری صاحب دوبارہ دھوکا کھا جائیں گے۔
پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کا عمران خان اور ان کے دوستوں کو صرف پارلیمانی فائدہ ہے لیکن پارلیمنٹ تو غیر فعال ہے۔ کیا پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر عمران خان کوئی قانون سازی اور آئینی ترامیم کر سکتے ہیں۔ بظاہر یہ ممکن نہیں۔ کیونکہ اس کے لیے پیپلزپارٹی کو اپنے ساتھ حکومتی بنچوں پر بٹھانا ہوگا۔
لگتا ہے کہ پرانی تنخواہ اور مقدمات پر ریلیف پر ہی سودا ہو گیا ہے۔ لیکن یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ اس لیے زرداری صاحب پہلے بھی استعمال ہوئے تھے۔ لگتا ہے اب پھر استعمال ہو گئے ہیں۔ وہ بار بار گھاٹے کے سودے کر رہے ہیں۔ اگر سوال ریلیف کا ہے تو وہ تو ن لیگ اور مولانا کو بھی مل رہا ہے لیکن دونوں زرداری صاحب کی طرح استعمال نہیں ہو رہے۔ ان کی حکمت عملی میں فرق ہے۔