سینٹ الیکشن قوم پرست سیاسی جماعتوں میں قربتوں کا ذریعہ بن گئے
رابطوں سے بلوچ قوم پرست جماعتوں بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی ایک دوسرے کے قریب آئی ہیں۔
بلوچستان میں سینیٹ الیکشن کے دوران سیاسی حلقوں میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی تھی کہ ان انتخابات کے بعد بلوچستان میں نئے سیاسی اتحاد تشکیل پا سکتے ہیں کیونکہ ان الیکشن کے دوران پارلیمانی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کے لئے نہ صرف رابطے کئے تھے بلکہ ایسے رابطے مستقبل میں بھی جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
خصوصاً بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی کے درمیان سینیٹ کے ووٹ کے حوالے سے رابطے کئے گئے جس میں بی این پی عوامی نے بی این پی مینگل سے ماضی میں سینیٹ الیکشن میں تعاون پر حالیہ انتخابات کے دوران اپنے امیدوار کے لئے تعاون بھی مانگا تھا، تاہم آگے چل کر سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سیاسی گیم میں اتار چڑھاؤ کے باعث بی این پی عوامی نے اپنے امیدوار کو دستبردار کروا دیا تھا۔ سینیٹ کے انتخابات کے دوران پارلیمانی جماعتوں میں ان رابطوں نے کئی سیاسی و قوم پرست جماعتوں میں جو دوریاں تھیں انہیں کم کرنے میں مدد دی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ان رابطوں سے بلوچ قوم پرست جماعتوں بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی ایک دوسرے کے قریب آئی ہیں یہی وجہ ہے کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں بی این پی مینگل، بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی کے مابین اتحاد کی تجویز کو تقویت ملنا شروع ہوئی ہے۔
بی این پی عوامی کی قیادت نے بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان اتحاد ناگزیر قرار دیتے ہوئے کراچی میں اس حوالے سے بعض بلوچ دانشوروں کی ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں اس اتحاد پر تفصیلاً بحث و مباحثہ کیا گیا جس کے بعد پارٹی کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر میر اسرار اللہ زہری نے میڈیا سے گفتگو کے دوران بی این پی مینگل ، بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی کے درمیان اتحاد کی تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ بی این پی عوامی بلوچ قوم پرست جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لئے روز اول سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ماضی کے تلخ تجربات اور نااتفاقی سے سبق سیکھتے ہوئے بلوچ قوم پرست جماعتوں کو گزرے ہوئے اختلافات اور تلخ حقیقت کو بھول کر زہر کا پیالہ پینے میں کردار ادا کرنا ہوگا جس کے لئے تینوں بلوچ قوم پرست جماعتوں کی قیادت کو اپنا کلیدی اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچ قوم کی شناخت ساحل و وسائل کے دفاع کے لئے ایوان بالا سمیت پارلیمنٹ میں ایک قوت کی حیثیت سے قدم رکھ کر قومی حقوق حاصل کرنے ہوں گے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل و سابق سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی بھی بلوچ قوم پرست جماعتوں کے مابین ایسے اتحاد کے پُر زور حامی ہیں تاہم ان دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان اتحاد خوش آئند عمل ہے لیکن اس اتحاد کے حوالے سے کوئی باضابطہ رابطہ نہیں کیا گیا اگر ایسی کوئی تجویز آئی اور کسی جماعت کی طرف سے باضابطہ رابطہ کیا گیا تو اس اتحاد کے ایجنڈے اور کس بنیاد پر یہ اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے ؟
کو دیکھ کر فیصلے کئے جائیں گے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کا یہ کہنا تھا کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان اتحاد ان کی جماعت کی دیرینہ خواہش ہے ہم ، ہم خیال سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے قریب بھی لائے لیکن اس اتحاد میں مخصوص رکاوٹیں ڈالی گئیں، ضد اور انا کے باعث یہ بلوچ قوم پرست جماعتیں آج بھی متحد نہیں ہوئیں تو اس کا فائدہ ان سیاسی قوتوں کو ہوگا جنہیں اس صوبے سے کوئی سروکار نہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی سطح پر بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان اتحاد کی ایک اور کاوش ہو رہی ہے اگر یہ کاوش بھی ماضی کی طرح بعض رکاوٹوں کے باعث ناکام ہوئی تو یہ قوم پرست جماعتیں یوں ہی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی میدان میں صف آراء رہیں گی اور ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا کر سیاسی آکسیجن حاصل کرتی رہیں گی ۔ کبھی کوئی حکومت کا حصہ ہوکر اپوزیشن میں بیٹھنے والی جماعت کو تنقید کا نشانہ بنائے گی اور کبھی حکومت سے نکل کر اپوزیشن میں آنے والی جماعت لفاظی جنگ کرتی رہے گی ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق نہ صرف بلوچستان بلکہ صوبوں میں بھی قوم پرست جماعتیں آپس میں اتحاد کے لئے رابطوں میں ہیں اور یہ بات وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ صوبوں کی سطح کے علاوہ ملک میں قوم پرستوںکا وسیع تر اتحاد بھی تشکیل پا سکتا ہے ، جس کے لئے بعض قوم پرست شخصیات اپنے اپنے طور پر سرگرم ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو وفاقی کابینہ میں نمائندگی ملنے کے حوالے سے مختلف خبریں سیاسی حلقوں میں گردش کر رہی ہیں ۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی ایک وزیر مملکت زبیدہ جلال، عمران خان کابینہ میں ہیں جبکہ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ بلوچستان کو ڈیڑھ وزارت مزید عمران خان کابینہ میں دیئے جانے پر غور کیا جا رہا ہے جس کے لئے تین سینیٹرز میر سرفراز بگٹی، انوارالحق کاکڑ، سعید احمد ہاشمی اور ایک رکن قومی اسمبلی اسرار ترین کا نام لیا جا رہا ہے ۔
سیاسی حلقوں کے مطابق سینیٹر سرفراز بگٹی اور رکن قومی اسمبلی اسرار ترین کو وفاقی کابینہ میں نمائندگی کے لئے مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا ہے ۔ بعض سیاسی حلقوں کے مطابق وفاقی کابینہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کو نمائندگی دینے کا فیصلہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے دوران کر لیا گیا تھا ۔
خصوصاً بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی کے درمیان سینیٹ کے ووٹ کے حوالے سے رابطے کئے گئے جس میں بی این پی عوامی نے بی این پی مینگل سے ماضی میں سینیٹ الیکشن میں تعاون پر حالیہ انتخابات کے دوران اپنے امیدوار کے لئے تعاون بھی مانگا تھا، تاہم آگے چل کر سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سیاسی گیم میں اتار چڑھاؤ کے باعث بی این پی عوامی نے اپنے امیدوار کو دستبردار کروا دیا تھا۔ سینیٹ کے انتخابات کے دوران پارلیمانی جماعتوں میں ان رابطوں نے کئی سیاسی و قوم پرست جماعتوں میں جو دوریاں تھیں انہیں کم کرنے میں مدد دی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ان رابطوں سے بلوچ قوم پرست جماعتوں بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی ایک دوسرے کے قریب آئی ہیں یہی وجہ ہے کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں بی این پی مینگل، بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی کے مابین اتحاد کی تجویز کو تقویت ملنا شروع ہوئی ہے۔
بی این پی عوامی کی قیادت نے بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان اتحاد ناگزیر قرار دیتے ہوئے کراچی میں اس حوالے سے بعض بلوچ دانشوروں کی ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں اس اتحاد پر تفصیلاً بحث و مباحثہ کیا گیا جس کے بعد پارٹی کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر میر اسرار اللہ زہری نے میڈیا سے گفتگو کے دوران بی این پی مینگل ، بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی کے درمیان اتحاد کی تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ بی این پی عوامی بلوچ قوم پرست جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لئے روز اول سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ماضی کے تلخ تجربات اور نااتفاقی سے سبق سیکھتے ہوئے بلوچ قوم پرست جماعتوں کو گزرے ہوئے اختلافات اور تلخ حقیقت کو بھول کر زہر کا پیالہ پینے میں کردار ادا کرنا ہوگا جس کے لئے تینوں بلوچ قوم پرست جماعتوں کی قیادت کو اپنا کلیدی اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچ قوم کی شناخت ساحل و وسائل کے دفاع کے لئے ایوان بالا سمیت پارلیمنٹ میں ایک قوت کی حیثیت سے قدم رکھ کر قومی حقوق حاصل کرنے ہوں گے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل و سابق سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی بھی بلوچ قوم پرست جماعتوں کے مابین ایسے اتحاد کے پُر زور حامی ہیں تاہم ان دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان اتحاد خوش آئند عمل ہے لیکن اس اتحاد کے حوالے سے کوئی باضابطہ رابطہ نہیں کیا گیا اگر ایسی کوئی تجویز آئی اور کسی جماعت کی طرف سے باضابطہ رابطہ کیا گیا تو اس اتحاد کے ایجنڈے اور کس بنیاد پر یہ اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے ؟
کو دیکھ کر فیصلے کئے جائیں گے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کا یہ کہنا تھا کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان اتحاد ان کی جماعت کی دیرینہ خواہش ہے ہم ، ہم خیال سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے قریب بھی لائے لیکن اس اتحاد میں مخصوص رکاوٹیں ڈالی گئیں، ضد اور انا کے باعث یہ بلوچ قوم پرست جماعتیں آج بھی متحد نہیں ہوئیں تو اس کا فائدہ ان سیاسی قوتوں کو ہوگا جنہیں اس صوبے سے کوئی سروکار نہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی سطح پر بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان اتحاد کی ایک اور کاوش ہو رہی ہے اگر یہ کاوش بھی ماضی کی طرح بعض رکاوٹوں کے باعث ناکام ہوئی تو یہ قوم پرست جماعتیں یوں ہی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی میدان میں صف آراء رہیں گی اور ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا کر سیاسی آکسیجن حاصل کرتی رہیں گی ۔ کبھی کوئی حکومت کا حصہ ہوکر اپوزیشن میں بیٹھنے والی جماعت کو تنقید کا نشانہ بنائے گی اور کبھی حکومت سے نکل کر اپوزیشن میں آنے والی جماعت لفاظی جنگ کرتی رہے گی ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق نہ صرف بلوچستان بلکہ صوبوں میں بھی قوم پرست جماعتیں آپس میں اتحاد کے لئے رابطوں میں ہیں اور یہ بات وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ صوبوں کی سطح کے علاوہ ملک میں قوم پرستوںکا وسیع تر اتحاد بھی تشکیل پا سکتا ہے ، جس کے لئے بعض قوم پرست شخصیات اپنے اپنے طور پر سرگرم ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو وفاقی کابینہ میں نمائندگی ملنے کے حوالے سے مختلف خبریں سیاسی حلقوں میں گردش کر رہی ہیں ۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی ایک وزیر مملکت زبیدہ جلال، عمران خان کابینہ میں ہیں جبکہ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ بلوچستان کو ڈیڑھ وزارت مزید عمران خان کابینہ میں دیئے جانے پر غور کیا جا رہا ہے جس کے لئے تین سینیٹرز میر سرفراز بگٹی، انوارالحق کاکڑ، سعید احمد ہاشمی اور ایک رکن قومی اسمبلی اسرار ترین کا نام لیا جا رہا ہے ۔
سیاسی حلقوں کے مطابق سینیٹر سرفراز بگٹی اور رکن قومی اسمبلی اسرار ترین کو وفاقی کابینہ میں نمائندگی کے لئے مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا ہے ۔ بعض سیاسی حلقوں کے مطابق وفاقی کابینہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کو نمائندگی دینے کا فیصلہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے دوران کر لیا گیا تھا ۔