ماحولیاتی تبدیلیوں کے عالمی ثبوت
2001 سے مسلسل گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور 2016 تاریخ کا گرم ترین سال ثابت ہوا۔
دنیا میں سمندرکی سطح گزشتہ صدی میں تقریباً 8 انچ بڑھ گئی ہے ، یہ شرح گزشتہ دو دہائیوں میں دگنی ہوئی ہے۔ انیسویں صدی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا ہے۔
2001 سے مسلسل گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور 2016 تاریخ کا گرم ترین سال ثابت ہوا،گزشتہ کئی دہائیوں سے سمندری برف میں افقی اور عمودی لحاظ سے کمی واقع ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں گلیشیئرز کا زیادہ مقدار میں پگھلنا جھیلوں اور دریاؤں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
دنیا میں انتہائی خراب موسمی حالات کی وجہ سے سونامی ، طوفان ، زلزلے ، سیلاب اور سمندری طوفان میں اضافہ ہوا ہے۔ موسمی تبدیلیوں سے مختلف قسموں کی انسانی اور زرعی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر مچھر اور طفیلی کیڑوں سے پھیلنے والی بیماریاں۔
بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور انتہائی خراب موسمی حالات جیسا کہ خشک سالی اور سیلاب سے زراعت کو شدید خطرات کا سامنا ہے ، جس کی وجہ سے خوراک کی پیداوار میں کمی ہوتی ہے نیز فصلوں کی بوائی اور کٹائی کا وقت تبدیل ہو جائے گا۔ گرمی کی شدت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے جانور خطرناک بیماریوں کا آسانی سے شکار بن سکتے ہیں اور ان کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت اور دودھ کی پیداوار میں کمی آتی ہے۔ کم فصل اور خشک سالی کی وجہ سے مویشیوں کے چارہ میں کمی ہونے لگتی ہے۔ جس سے جانوروں کی فاقہ کشی میں اضافہ ہوتا ہے۔
پانی کے درجہ حرارت میں اضافہ اور آبی آلودگی کی وجہ سے پہلے ہی دنیا بھر میں ماہی گیری کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آبی مخلوق کی پیداوار، صحت اور زندگی پر کافی برا اثر پڑ رہا ہے۔ جس سے مچھلیوں کی کئی اقسام ناپید ہو رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا اثر آبی چکر میں تبدیلی ہے۔
جس سے کچھ علاقوں میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اور کچھ علاقے محروم رہتے ہیں۔ طویل مدت کے بعد بارشوں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے خشک سالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا آب و ہوا پر اثرات کے علاوہ صحت اور سماجی سرگرمیوں پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، خاص طور پر کشیدگی ، تشویش ، دباؤ، غم اور نقصان کا احساس ، الرجی ، سماجی تعلقات پر کشیدگی، بڑھتی ہوئی باہمی جارحیت ، تشدد اور جرم میں اضافہ ، سماجی عدم استحکام میں اضافہ شامل ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے مقابلہ : پہلی حکمت عملی ماحول میں گرمی کو قید کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کی سطح کو کم اور مستحکم کرکے موسمی تبدیلی کے اثرات کو محدود کرنا جیسا کہ جدید ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی کا استعمال، پرانی مشینری کو موثر بنا کرکم توانائی پر چلانا۔ فوسل فیول ، تیل گیس اور کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرکے اس کی جگہ قابل تجدید اورکم کاربن والے توانائی کے ذرایع کا استعمال ، جنگلات لگا کر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کافی حد تک کم کرنا ، عمارات کی موصلیت کو بہتر بنانا ، پلاسٹک کی عمارت سازی اور تعمیرات کو فروغ دینا۔
دوسری حکمت عملی: موافقیت کا مقصد ماحولیاتی خطرات کو قومی منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے۔ سمندر سے بچاؤ کی دیواریں یا اونچے ، بلند پلیٹ فارم بنائے جاسکتے ہیں۔ بارش کے پانی سے کھیتی باڑی کرنا ، استعمال شدہ پانی دوبارہ استعمال کرنے کا منصوبہ بنانا ، سمندری پانی سے نمکیات ختم کرکے قابل استعمال بنانا، زرعی پانی کا ذخیرہ کرنا اور اس کو بچانا ، فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے وقت کا تعین کرنا ، فصل کی اقسام اور بیج کے انتخاب میں تبدیلیاں ، درخت لگا کر زمین کی حفاظت کرنا اور فصلوں کے لیے زمین تبدیل کرتے رہنا۔
ساحلی علاقوں پر طوفان سے بچنے کے لیے حفاظتی دیواروں کی تعمیر ، موجودہ قدرتی رکاوٹوں کی حفاظت ، شعور اجاگرکرنا اور صلاحیت کو بڑھانا ، صحت کے لیے منصوبہ بندی کرنا ، ہنگامی صورتحال میں طبی سہولیات مہیا کرنا ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ، موسمیاتی حساس بیماریوں کو بہتر طریقے سے قابو کرنا ، بہتر نکاسی آب کو یقینی بنانا۔
موسمیاتی تبدیلی اور میڈیا کا کردار: موسمی تبدیلی پر کام کرنے والے تمام حصول اداروں کے لیے خبروں اور معلومات کی درست اور بروقت فراہمی کرنا تاکہ عوام ، پالیسی ساز اور نجی شعبے موثر اور باخبر فیصلے کرسکیں۔ غیر محفوظ آبادی تک پہنچ اور قومی موافقت کے منصوبوں کی کلیدی معلومات فراہم کرنا ، زیادہ باخبر عوام موسمی خطرات سے بہتر اور موثر طریقے سے نمٹتے ہیں۔
کمزور ، اقلیت اور غیر محفوظ لوگوں کی آواز بننا اور ان کے مسئلے اور تجویز کردہ حل موثر طریقے سے حکام بالا تک پہنچانا ، اس بات کی نگرانی اور رپورٹنگ کرنا کہ حکومت پاکستان اور سماجی تحریکیں موسمی تبدیلی اور موافقی اقدام پرکام کرنے کے لیے ملنے والے فنڈزکا درست اور موثر استعمال کر رہی ہیں۔
میڈیا کیا کرے، کیا نہ کرے:کیا کرے، عام فہم لوگوں کو مختلف روزمرہ کے اعداد و شمار کے ذریعے بتائیں کہ وہ کس طرح متاثر ہو رہے ہیں، جیساکہ ایک سیلاب کی بحالی پر 10 ارب روپے خرچ ہو جاتے ہیں تو سوچیں اس رقم سے کتنے اسکول اور اسپتال چلائے جاسکتے تھے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ موضوع کے بارے میں مکمل آگاہ ہیں۔
اس سلسلے میں آپ کسی ماہر سے مشورہ کرسکتے ہیں یا خود مطالعہ کرکے معلومات حاصل کرسکتے ہیں، دیگر صحافیوں کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک پیچیدہ کہانی ہے جس کے لیے آپ کو مختلف شعبوں اور ملحقہ علاقوں کے ماہرین کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اپنی کہانیوں کی بنیاد زمینی حقائق پر رکھیں۔ لوگوں پر بات کا اثر تب ہوتا ہے جب وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ مسائل ان کی صحت، دولت اور بچوں کے مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں۔
کیا نہ کریں، اپنے ناظرین و قارئین کو کبھی بھی کم تر نہ سمجھیں۔ صحافیوں کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک یہ ہے کہ سامعین اتنے سمجھ دار نہیں ہیں۔ اپنی کہانی میں زیادہ تفصیلات میں جا کر خود کو اپنے اصل مقصد سے مت ہٹائیں۔ کبھی بھی مشکل اور پیچیدہ الفاظ اور اصطلاحات کا ضرورت سے زیادہ بے جا استعمال نہ کریں جس سے آپ کے قارئین الجھن کا شکار بن سکتے ہیں۔ ہر وہ بات جو آپ سنتے ہیں اس پر اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک آپ کو لوگوں کی طرف سے ٹھوس ثبوت نہ ملیں۔
2001 سے مسلسل گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور 2016 تاریخ کا گرم ترین سال ثابت ہوا،گزشتہ کئی دہائیوں سے سمندری برف میں افقی اور عمودی لحاظ سے کمی واقع ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں گلیشیئرز کا زیادہ مقدار میں پگھلنا جھیلوں اور دریاؤں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
دنیا میں انتہائی خراب موسمی حالات کی وجہ سے سونامی ، طوفان ، زلزلے ، سیلاب اور سمندری طوفان میں اضافہ ہوا ہے۔ موسمی تبدیلیوں سے مختلف قسموں کی انسانی اور زرعی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر مچھر اور طفیلی کیڑوں سے پھیلنے والی بیماریاں۔
بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور انتہائی خراب موسمی حالات جیسا کہ خشک سالی اور سیلاب سے زراعت کو شدید خطرات کا سامنا ہے ، جس کی وجہ سے خوراک کی پیداوار میں کمی ہوتی ہے نیز فصلوں کی بوائی اور کٹائی کا وقت تبدیل ہو جائے گا۔ گرمی کی شدت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے جانور خطرناک بیماریوں کا آسانی سے شکار بن سکتے ہیں اور ان کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت اور دودھ کی پیداوار میں کمی آتی ہے۔ کم فصل اور خشک سالی کی وجہ سے مویشیوں کے چارہ میں کمی ہونے لگتی ہے۔ جس سے جانوروں کی فاقہ کشی میں اضافہ ہوتا ہے۔
پانی کے درجہ حرارت میں اضافہ اور آبی آلودگی کی وجہ سے پہلے ہی دنیا بھر میں ماہی گیری کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آبی مخلوق کی پیداوار، صحت اور زندگی پر کافی برا اثر پڑ رہا ہے۔ جس سے مچھلیوں کی کئی اقسام ناپید ہو رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا اثر آبی چکر میں تبدیلی ہے۔
جس سے کچھ علاقوں میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اور کچھ علاقے محروم رہتے ہیں۔ طویل مدت کے بعد بارشوں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے خشک سالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا آب و ہوا پر اثرات کے علاوہ صحت اور سماجی سرگرمیوں پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، خاص طور پر کشیدگی ، تشویش ، دباؤ، غم اور نقصان کا احساس ، الرجی ، سماجی تعلقات پر کشیدگی، بڑھتی ہوئی باہمی جارحیت ، تشدد اور جرم میں اضافہ ، سماجی عدم استحکام میں اضافہ شامل ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے مقابلہ : پہلی حکمت عملی ماحول میں گرمی کو قید کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کی سطح کو کم اور مستحکم کرکے موسمی تبدیلی کے اثرات کو محدود کرنا جیسا کہ جدید ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی کا استعمال، پرانی مشینری کو موثر بنا کرکم توانائی پر چلانا۔ فوسل فیول ، تیل گیس اور کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرکے اس کی جگہ قابل تجدید اورکم کاربن والے توانائی کے ذرایع کا استعمال ، جنگلات لگا کر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کافی حد تک کم کرنا ، عمارات کی موصلیت کو بہتر بنانا ، پلاسٹک کی عمارت سازی اور تعمیرات کو فروغ دینا۔
دوسری حکمت عملی: موافقیت کا مقصد ماحولیاتی خطرات کو قومی منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے۔ سمندر سے بچاؤ کی دیواریں یا اونچے ، بلند پلیٹ فارم بنائے جاسکتے ہیں۔ بارش کے پانی سے کھیتی باڑی کرنا ، استعمال شدہ پانی دوبارہ استعمال کرنے کا منصوبہ بنانا ، سمندری پانی سے نمکیات ختم کرکے قابل استعمال بنانا، زرعی پانی کا ذخیرہ کرنا اور اس کو بچانا ، فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے وقت کا تعین کرنا ، فصل کی اقسام اور بیج کے انتخاب میں تبدیلیاں ، درخت لگا کر زمین کی حفاظت کرنا اور فصلوں کے لیے زمین تبدیل کرتے رہنا۔
ساحلی علاقوں پر طوفان سے بچنے کے لیے حفاظتی دیواروں کی تعمیر ، موجودہ قدرتی رکاوٹوں کی حفاظت ، شعور اجاگرکرنا اور صلاحیت کو بڑھانا ، صحت کے لیے منصوبہ بندی کرنا ، ہنگامی صورتحال میں طبی سہولیات مہیا کرنا ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ، موسمیاتی حساس بیماریوں کو بہتر طریقے سے قابو کرنا ، بہتر نکاسی آب کو یقینی بنانا۔
موسمیاتی تبدیلی اور میڈیا کا کردار: موسمی تبدیلی پر کام کرنے والے تمام حصول اداروں کے لیے خبروں اور معلومات کی درست اور بروقت فراہمی کرنا تاکہ عوام ، پالیسی ساز اور نجی شعبے موثر اور باخبر فیصلے کرسکیں۔ غیر محفوظ آبادی تک پہنچ اور قومی موافقت کے منصوبوں کی کلیدی معلومات فراہم کرنا ، زیادہ باخبر عوام موسمی خطرات سے بہتر اور موثر طریقے سے نمٹتے ہیں۔
کمزور ، اقلیت اور غیر محفوظ لوگوں کی آواز بننا اور ان کے مسئلے اور تجویز کردہ حل موثر طریقے سے حکام بالا تک پہنچانا ، اس بات کی نگرانی اور رپورٹنگ کرنا کہ حکومت پاکستان اور سماجی تحریکیں موسمی تبدیلی اور موافقی اقدام پرکام کرنے کے لیے ملنے والے فنڈزکا درست اور موثر استعمال کر رہی ہیں۔
میڈیا کیا کرے، کیا نہ کرے:کیا کرے، عام فہم لوگوں کو مختلف روزمرہ کے اعداد و شمار کے ذریعے بتائیں کہ وہ کس طرح متاثر ہو رہے ہیں، جیساکہ ایک سیلاب کی بحالی پر 10 ارب روپے خرچ ہو جاتے ہیں تو سوچیں اس رقم سے کتنے اسکول اور اسپتال چلائے جاسکتے تھے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ موضوع کے بارے میں مکمل آگاہ ہیں۔
اس سلسلے میں آپ کسی ماہر سے مشورہ کرسکتے ہیں یا خود مطالعہ کرکے معلومات حاصل کرسکتے ہیں، دیگر صحافیوں کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک پیچیدہ کہانی ہے جس کے لیے آپ کو مختلف شعبوں اور ملحقہ علاقوں کے ماہرین کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اپنی کہانیوں کی بنیاد زمینی حقائق پر رکھیں۔ لوگوں پر بات کا اثر تب ہوتا ہے جب وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ مسائل ان کی صحت، دولت اور بچوں کے مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں۔
کیا نہ کریں، اپنے ناظرین و قارئین کو کبھی بھی کم تر نہ سمجھیں۔ صحافیوں کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک یہ ہے کہ سامعین اتنے سمجھ دار نہیں ہیں۔ اپنی کہانی میں زیادہ تفصیلات میں جا کر خود کو اپنے اصل مقصد سے مت ہٹائیں۔ کبھی بھی مشکل اور پیچیدہ الفاظ اور اصطلاحات کا ضرورت سے زیادہ بے جا استعمال نہ کریں جس سے آپ کے قارئین الجھن کا شکار بن سکتے ہیں۔ ہر وہ بات جو آپ سنتے ہیں اس پر اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک آپ کو لوگوں کی طرف سے ٹھوس ثبوت نہ ملیں۔