آئی ٹی آئی ٹرین پروجیکٹ

پاکستان ،ایران ،ترکی 6500 کلومیٹر ریلوے لائن معاشی ترقی کا ہائی وے جس کی مزید ڈیویلپمنٹ پر توجہ نہیں دی جا رہی۔

پاکستان ،ایران ،ترکی 6500 کلومیٹر ریلوے لائن معاشی ترقی کا ہائی وے جس کی مزید ڈیویلپمنٹ پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ فوٹو: فائل

ہمارے ہاں یعنی آج کے پاکستانی علاقے میں انگریزوں نے 1861 ء میں کراچی سے کو ٹھڑی تک ریلوے لائن بچھا کر ٹرین سروس شروع کی۔

1961 ء میں صدر ایوب خان کے دور حکومت میں ریلوے کا صد سالہ جشن منایا گیا، اُس وقت پاکستان ویسٹرن اینڈ ایسٹرن ریلوے خطے میں تیزرفتاری سے ترقی کر رہے تھے اور لاہور تا خانیوال الیکٹرک ٹرین چلانے کا منصوبہ تکمیل پا رہا تھا ۔ پاکستان میں ریلوے کا نظام مستحکم اور معیاری تھا۔ 1970 ء تک پاکستان ریلوے ایک نفع بخش اور سب سے بڑا سرکاری محکمہ تھا جس پر ستر ہی کی دہا ئی میںزوال آنے لگا اور ریلوے کا محکمہ نفع کی بجائے خسارے میں جانے لگا۔

2011 ء میں پاکستان ریلوے کو ڈیڑھ سوسال ہو گئے تو میں نے ''ڈیڑھ صدی کی ریل'' کے نام سے کتاب لکھی جو اسی سال شائع ہوئی اُس زمانے میں ریلوے کا محکمہ تقریباً 50% تباہ ہو چکا تھا۔ ریلوے انجنوں میں تیل ختم ہو جا نے کی وجہ سے اکثر اوقات ٹرینیںاسٹیشنوں پرآٹھ آٹھ دس دس گھنٹے کھڑی رہتیں تھیں۔

اس دوران سینکڑوں کلومیٹر ریلوے ٹریک بند کر دئیے گئے اور بعض اب تک بند ہیں ، لیکن اسی دوران ترکی اور ایران کی جانب سے اسلام آباد سے استنبول تک 2009 ء کے منصوبے کے تحت ایک ٹرین اگست 2010 ء میں چلی تو فوراً ہی بنگلہ دیش اور بھارت نے پاکستان سے درخواست کی کہ اس ریلوے لائن کے ذریعے اُن کو بھی ایران ، ترکی اور بعد میں توسیع کے بعد سنٹرل ایشیا اور یورپ تک مال لانے لے جانے کی سہولت فراہم کی جائے لیکن اس کے بعد سے 2018 ء تک کی آنے والی حکومتوں نے اس ٹرین کے بعد کوئی ٹرین نہیں چلائی جب کہ اس دوران دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں ریلوے کے سفر کو زیادہ تیز رفتار بنانے کے ساتھ ایک ملک سے دوسرے کے ساتھ منسلک کرنے کے بہت سے منصوبے تکمیل کو پہنچے جن میں چین نے اہم کردار ادا کیا۔

جاپان، امریکہ، اسپین، فرانس اور چین جیسے ملکوں میں پیسنجر ٹرینوں کی حد رفتار 450 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بڑھا دی گئی۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے ہمالیہ کے دامن مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر علاقوں میں ہزاروں فٹ بلندی تک ٹرین سروس شروع کی اور بھارت کے کچھ علاقوں میں مسافر ٹرینوں کی حد رفتار 250 کلومیٹر تک کر دی توساتھ ہی بھارت نے افغانستان ، ایران جیسے ملکوں میں ریلوے ٹریک بچھانے کے بڑے منصوبے شروع کر دیئے۔

چین سنٹرل ایشیا سے ایران تک ریلوے سروس شروع کر چکا ہے ، بھارت امریکہ ،برطانیہ اور اِن کے اتحادی ملکوں کی پشت پناہی سے چین کا مقابلہ کرنے کی کو شش کر رہا ہے مگر ہماری حکومتوں پر نجانے کن کن مغربی ملکوں کا دباؤ تھا کہ ہم نے نہ صرف اپنے ہاں ریلوے کے پورے نظام کو تباہ کیا بلکہ 2009 ء اور2010 ء میں ECO اکنامک کوآپریشن آرگنا ئزیش کے تحت چلنے والی اس واحد ٹرین کے بعد اس منصوبے کو سرد خانے میں ڈال دیا۔

جب کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران سے تعلقات استورکئے اور 2016 ء میں ایران کا سر کاری دورہ کیا اور اس دورے میں ایران ریلوے اور IRCON انڈین ریلوے کنسٹر یکشن لمیٹڈ کے درمیان ریلوے پروجیکٹ کا ایک معاہدہ ہوا ۔گوادر کے قریب ایرانی سیستان و بلوچستان میں ساحل مکران پر بحیرہ عرب اور خلیج فارس پر آبنائے ہرمز کے قریب چا بہار کی ایرانی بندرگاہ ہے، اس معاہدے کے تحت چابہار سے ایرانی سیستان و بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت زاہدان تک ریلوئے ٹریک بچھانا تھا۔

1.6 ارب ڈالر کی لاگت سے 628 کلومیٹر ریلوے لائن بچھانے کے لئے اس پروجیکٹ پر 2016 میںہی دستخط ہوئے اور معاہد ے میں اس منصوبے کی تکمیل کی مدت 15 جولائی 2022 ء طے کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ زاہدان پاک ایران سرحد پر ہمارے آخری سرحدی شہر تفتان کے بعد ایران کا دوسرا شہر ہے ، تفتان کے بعد ایرانی علاقہ شروع ہو جاتا ہے اور پہلا شہر میر جاوا ہے جو ساٹھ کی دہا ئی میں سرحدی تعین کے بعد پا کستان نے ایران کو دے دیا تھا اور انگریزوں کے دور میں جب بلوچستان میں روہڑی ، سبی، کوئٹہ پھر کوئٹہ سے افغان سرحد پر چمن تک ، سبی ہرنائی سیکشن، بوستان تاژوب سیکشن ریلوے لائنوں کے بچھانے کا کام کیا تھا ، 1914 ء میں دوسری جنگِ عظیم شروع ہو رہی تھی تو انگریزوں نے ہنگامی طور پر علاقے کی اسٹریٹجک پوزیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئٹہ سے ایران ریلوے لائن بچھانی شروع کی۔

کوئٹہ سے32 کلومیٹر دور سپیذنڈ سے مغرب میںیہ ریلوے لا ئن ایران کے شہر زہدان تک بچھائی گئی ، اُس وقت کوئٹہ سے زاہدا ن تک اِس کی لمبائی 700 کلومیٹر تھی، اب تفتان تک اس کی لمبائی 612 کلو میٹر سے کچھ زیادہ ہے، اس ریلوے لائن کو جنگ عظیم اوّل کی مناسبت سے وار لائن کا نام دیا گیا۔ اس ٹریک پر ٹرینوں کی آمد و رفت 1922 ء سے شروع ہو گئی۔ قیام ِ پاکستان کے بعد سے1985 ء تک زاہدان ریلوے اسٹیشن تک پاکستان ریلوے کا ہی عملہ کام کرتا تھا اور یہاں ہفتے کو ایک پیسنجر ٹرین کوئٹہ سے جاتی اور بدھ کو واپس آتی تھی جب کہ گڈز ٹرینیں تقریباً روزانہ ہی چلتی تھیں ۔ اب اس ٹریک پر کبھی کبھارکوئی ٹرین چلتی ہے۔ یہاںانڈیا نے چابہار سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانی تھی۔

ڈسٹرکٹ چاغی میں مغرب کی جانب زاہدان ہے اور اس کے شمال مغرب میں ایران کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور یہاں سے افغانستان کے علاقے زارانج تک فاصلہ 950 کلومیٹر ہے جبکہ اس کا کل فاصلہ ترکمانستان تک 1827 کلومیٹر ہے یعنی یہاں افغانستان سے درمیانی حصہ کا رقبہ کم ہے جس کے بعد ترکمانستان ،ازبکستان ، تاجکستان شروع ہو جاتا ہے جب کہ چابہار سے دوبئی کا سمندری فاصلہ 353 ناٹیکل میل اورکراچی تک 456 ناٹیکل میل اور چابہار اور ممبئی کا درمیانی فاصلہ 845 ناٹیکل میل ہے۔

پاکستان میں گوادر کی بندر گاہ بھی ساحل مکران اور بحیرہ عرب پر اہم ہے۔ یہاں سمندر چابہار کے مقابلے میں زیادہ گہرا ہے لیکن ایران کی پرانی اور مصروف بندر گاہ بندر عباس کے مقابلے میں بحیرہ عرب پر چابہار کی بندر گاہ زیادہ گہری ہے۔ اب ایران کا مسئلہ یہ ہے کہ اُس کی 90 فیصد آبادی مغربی حصے میں آباد ہے اور مشرقی جس پر چابہار ہے یہ علاقہ کم ترقیافتہ اور کم آباد ہے۔ ایران اپنی آبادی کی گنجانیت یعنی رقبے کے اعتبار سے اس عدم توازن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے، اِ س وقت ایران کی 85% تجارت بندر عباس کی بندر گاہ سے ہوتی ہے پھر بندر عباس کی بندر گاہ کم گہری اور گنجان ہے۔

یہاں 250000 ٹن وزنی جہاز لنگر انداز نہیں ہو سکتے۔ اِیسے جہازوں کو یا تو متحدہ عرب امارات جانا پڑتا ہے یا بیچ سمندر گہرے پانی میں لنگر انداز کرکے 100000 ٹن وزنی بحری جہازوں کے ذریعے مال بندر عباس لیا جاتا ہے۔ ایران چابہار سے متحدہ امارات کی محتاجی سے نجات کے علاوہ ایک جانب روس اور سنٹر ل ایشیا تک رسائی چاہتا ہے پھر چابہار کو گوادر کے مقابلے میں فری ٹرید زون بنا کر اپنی آبادی اور خصوصاً بندر عباس کے بو جھ کو کم کرنا چاہتا ہے ۔ ایران اس کو گولڈن گیٹ کا نام بھی دے رہا ہے، جب کہ بھارت کا پروگرام یہ تھا کہ ممبئی کی بندرگاہ سے گواردر کے بہت قریب چابہار جو بحیرہ عرب پر ایران کی واحد بندر گاہ ہے رسائی حاصل کرتے ہوئے افغانستان اور پھر سنٹرل ایشیا تک پہنچے گا اور اس ریلوے لائن کو بعد میں مزید توسیع دی جائے گی ۔

دوسری جانب فروری 2016 ہی کو چین سے ٹرین قازقستان ، ازبکستان،ترکمنستان ہوتی 10399 کلومیٹر کا فاصلہ اور ہزاروں فٹ تک کی بلندی طے کرتی 14 دن کی مسافت کے بعد ایران کے دارالحکومت تہران پہنچی اور اب یہاں چین اور ایران کے درمیان پندرہ روزہ ٹرین سروس شروع ہے۔

یہ قدیم شاہراہ ریشم ہی کا راستہ ہے ، جہاں تک تعلق بھارت ایران ریلوے لائن کا تھا تو اسی زمانے میں جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو ایران کے خلاف اُن کی پالیسیاں سخت ہو گئیں اور صدر ٹرمپ نے JCPOA معاہدہ جو صدر اوبامہ نے یورپی یونین ، جرمنی اور سیکورٹی کونسل کے ویٹو پاورز کے ہمراہ ایران سے کیا تھا، منسوخ کر دیا تو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی ایران سے بے رخی برتنی شروع کی اور اس پروجیکٹ پر کام شروع نہیں کیا بھارت کا خیال تھا کہ ایران اس تاخیر پر کوئی ایکشن نہیں لے سکے گا کیونکہ ایران عالمی سطح پر سفارتی، اقتصادی اعتبار سے کمز ور تعلقات رکھتا ہے مگر 15 جولائی 2020 ء کو ایرانی وزیر ِٹرانسپورٹ اربن ڈیویلپمنٹ محمد اسلامی نے اس پروجیکٹ کو منسوخ کردیا۔

بھارت کواسٹرٹیجی کے اعتبارسے ایران کے اس فیصلے سے دھکچا لگا ہے اور اُس کا اجارہ دارانہ انداز سے ایران ، افغانستان اور سنٹرل ایشیا میں پہنچنے کا خواب ٹوٹ گیا جو بھارت چابہار منصوبے کے ذریعے چین اور پاکستان کے مقابلے میں یہاں ترتیب دے رہا تھا۔ ایران کی جانب سے بھارت سے چابہار تک زاہدان ریلوے پروجیکٹ کے واپس لینے کی ایک اور وجہ چین کی جانب سے ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا 25 سالہ معاہدہ بھی ہے۔ اب اس تناظر میں دوبارہ مارچ 2021 ء سے آئی ٹی آئی ٹرین یعنی استنبول، تہران ، اسلام آباد ٹرین کا باقاعدہ پروگرام بھی شروع ہو گیا ہے۔

جہاں تک تعلق پا کستان ایران کا ہے تو ایران میں ریلوے نیٹ ورک پوری طرح بہت بعد میں خصوصاً 1979 ء میں انقلاب کے بعد تشکیل پایا جب کہ پاکستانی علاقے سے آزادی سے قبل 1922 ء ہی سے کو ئٹہ سے مسافر ٹرین اور مال گاڑیاں ایران کے شہر زاہدان تک آتی جاتی تھیں اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ساٹھ کی دہا ئی تک ایران پاکستان کے مقابلے میں غریب اور پسماند ہ ملک تھا۔

بھارت کے سابق سوویت یونین سے تعلقا ت بہت بہتر تھے اور 1962 ء تک تو چین سے بھی تعلقات بہت مضبوط اور مثالی تھے جب کہ بھارت غیرجانبداری کا ڈھونگ رچا کر سیکولر جمہوریہ بھارت کا چہرہ امریکہ اور یورپ کو دکھاتا رہا۔ اس دور میں بھارت نے پاکستان کے خلاف دشمنی جاری رکھی اور پاکستان کو مجبوراً امریکی بلاک میں شامل ہونا پڑا۔ یوں پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں پاکستان ، ایران اور ترکی سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں میں امریکہ ، برطانیہ اور مغربی اتحادیوں کے ساتھ تھے ۔ ترکی ، ایران اور پاکستان کے درمیان RCD ریجنل کوآپریشن ڈیویلپمنٹ علاقائی تعاون برائے ترقی کا معاہدہ جولائی 1964 ء میں ہوا تھا ، اُس وقت سے کو ئٹہ ،تفتان شاہراہ آر سی ڈی شاہراہ کہلاتی ہے۔

1979 ء تک علاقے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ ایران سے بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ پاکستان میں فوجی حکومت بر سراقتدار آگئی اور افغانستان میں سابق سوویت یونین نے فوجیں داخل کر دیں۔ یوں 1985 ء تک آر سی ڈی غیر فعال تنظیم بن گئی۔ 1985 ء میں اس آر سی ڈی تنظیم کا نام تبدیل کر دیا گیا اور اسے ECO-Economic Coopration Organization یعنی اقتصادی تعاون تنظیم کا نام دیا گیا اور اس میں پاکستان ، ایران اور ترکی کے علاوہ1990 کے بعد جب سابق سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا تو افغانستان کے ساتھ ساتھ سنٹرل ایشیا کے نو آزاد ملک آذر بائیجان، قازقستان،تاجکستان،ترکمانستان، ازبکستان اورکرغیزستان بھی شامل ہو گئے۔ ایکو کے اِن دس ملکوں کا مجموعی رقبہ 7937197 مربع کلومیٹر آبادی 520000000 ہے۔

جی ڈی پی سالانہ 6.3 کھرب ڈالر ہے اور اس میں شامل تمام دس کے دس ملکوں میں آبادی کی اکثریت مسلمان ہے ۔ یہ ممالک تیل گیس اور دیگر وسائل سے مالامال ہیں اور مشرقِ وسطیٰ اور عرب ملکوںکے مقابلے میں یہاں بادشاہتوں کی بجائے جمہوریت ہے اور شرح خواندگی بھی زیادہ اور اِن ملکوں کے عوام کے ایک دوسرے سے مذہبی، تاریخی، ثقافتتی، تہذیبی رشتے گہرے اور پرانے ہیں ۔

ایران ، پاکستان اور ترکی ایسے ملک ہیں ، جن کے پاس اہم سمندری راستے اور بندرگاہیں جو افغانستان ، آذربائیجان، قازقستان ،تاجکستان ،ترکمانستان،ازبکستان ،کرغیزستان کو سمندری راستوں سے دنیا کے دیگر ملکوں سے تجارت کی سہولتیں فراہم کر سکتے ہیں ۔

واضح رہے کہ پاکستان نے ہمسایہ ملک افغانستان کو کراچی کی بندر گاہ سے یہ سہولت دے رکھی ہے پھر جہاں تک عرب و عجم کے رشتوں کا تعلق ہے تو اِن ہی تین ملکوں سے افغانستان سمیت سنٹرل ایشیا کے عوام سعودی عرب سمیت دیگر عرب ملکوں اور افریقی ملکوں تک جا سکتے ہیں جب کہ ترکی ایسا ملک ہے جو ا یشیا اور یورپ دونوں بر اعظموںمیں واقع ہے یو ں استنبول تہران اسلام آباد ٹرین سے خشکی کے ذریعے ترکی سے آگے یورپ میں بذریعہ ٹرین داخلہ اور خصوصاًتجارت اب آسان ہو جائے گی۔

اسی طرح 'سی پیک 'ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں پا کستان کی پوزیشن ایک چوراہے کی ہے کہ ایک جانب پاک، چین سرحد خنجرآب سے ریلوے ٹریک ،حولیاں ، ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتا ژوب ، بوستا ن، کوئٹہ سے منسلک ہو کر پھر ITI آئی ٹی آئی یعنی استنبول ،تہران ،ترکی سے ریلوے نیٹ سے منسلک ہو جائے گا۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں بوستان ، ژوب نیروگیج ریلوے ٹریک کو 1985 ء میں بند کر دیا گیا تھا پھر جب اویس غنی گورنر بلوچستان ہوئے تو انہوں نے اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کو یہاں براڈ گیج ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے سے آگاہ کیا تھا اُس وقت اس 285 کلومیٹر ٹریک پر پی سی ون کے مطابق ایک کروڑ روپے فی کلو میٹر لاگت آرہی تھی اور یہ کام صرف ایک سال کی مد ت میں پورا ہو سکتا تھا اُس وقت صرف بلوچستان میں ایک سو کے قریب لوگ ایسے تھے جو 2 ارب 85 کروڑ روپے سے زیادہ سرمایہ رکھتے تھے اور اگر اُن میں سے کسی ایک سے آٹھ دس سال ٹھیکے کی بنیاد پر یعنی اس مد تک اس ٹریک چلنے والی ٹرینوں کی آمدنی حاصل کرنے کی بنیاد پر بھی بات کی جاتی تو یہ ٹریک بن جاتا۔

اب مارچ 2021 ء میں حکومت نے جو آئی ٹی آئی ٹرین ترکی اور ایران کے تعاون سے شروع کی ہے اس ریلوے لائن میں سے ترکی کی ریلوئے لائن کی لمبائی 1990 کلومیٹر ایران میں ٹریک کی لمبائی 2600 کلومیٹر اور پاکستان میں ریلوے لائن کی کل لمبائی 1950 کلومیٹر ہے۔

یہ ریلوے لائن اسلام آباد ، لاہور ، روہڑی ، جیکب آبادکے راستے بلوچستان میں داخل ہو گی ۔ اسلام آباد سے روہڑی تک ریلوے ٹریک کو معیاری کہا جا سکتا ہے اس لیے کے یہ ٹریک کوئٹہ تک بھی روزانہ ٹرینوں کی آمد ورفت کی بنیاد پر آزمایا ہوا ہے ، البتہ یہاں اس کی رفتا ر دھیمی ہو جاتی ہے، مگر سپیذنڈ سے تفتان تک یہ ریلوے لائن بہت خستہ ہے۔ یہ پورا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں اور صحرا پر مشتمل ہے۔ سپزنڈ سے زاہدان تک یہ ریلوے لائن انگریزوں نے 1914 ء میں بچھانی شروع کی تھی اور یہاں سے ٹرین سروس 1922 ء میں شروع ہوئی یعنی تقریباً ایک سو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اُس وقت اس ریلوے لائن پر لاگت چار کروڑ روپے آئی تھی۔


انگریز کے عہد میں انڈین روپے کی قیمت امریکی ڈالر کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ ریکارڈ کے مطابق 1922 ء میں سونے کی قیمت22.67 امریکی ڈالر فی اونس تھی ایک اونس میں 28.34 گرام ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک تولہ11.7 گرام کا ہوتا ہے اور آج پاکستان میں سونے کی قیمت ایک لاکھ چار ہزار روپے فی تولہ ہے۔ اُس وقت انگریز کو خطر ہ تھا کہ جنگ عظیم اوّل میں خلافت عثمانیہ اور جرمنی کہیں یہاں سے حملہ آور نہ ہو جائیں یہی صورت دوسری جنگ عظیم میں تھی جب دوبارہ اس ریلوے لائن پر بھر پور توجہ دی گئی ۔

واضح رہے کہ انگریزوں نے پورے بلوچستان میں بھاری خسارے کی بنیاد پر اور شدید موسمی حالات میں ریلوے لائن بچھائی تھی اور جب تک انگریزی اقتدار رہا یہاں بلکہ پورے بلوچستان میں ریلوے مسلسل خسارے میں رہی اور اس کا خسارہ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں کام کر نے والی ریلوے کی کمپنیوں کے منافع کی ایک خاص شرح کی کٹوتی سے پورا کیا جاتا تھا۔ اب تو وہ صورت بھی نہیں ہے اور چاہے بوستان تا ژوب سیکشن ہو یا پھر سپیذنڈ تا تفتان اگر ریلوے کی سروس معیاری ہو تو یہ ریلوے لائنیں نفع بخش ہیں ۔

پاکستان اس وقت ریلوے پر تو جہ نہیں دے رہا ہے حالانکہ اِس وقت پوری دنیا میں دوبارہ ریلوے کا عروج ہے کیونکہ آئندہ چند برسوں میں معدنی ایدھن کا استعمال دنیا بھر میں ترک کر دیا جائے گا ، یوں ابھی صورت یہ ہے کہ دنیا بھر میں الیکڑک سے چلنے والی گاڑیاں موٹر کاریں سڑکوں پر آرہی ہیں یہ بیٹری سے چلتی ہیں اور بیٹری کو چارج کیا جاتا ہے۔

الیکڑ ک سے چارج ہونے والی بیٹریوں سے چلنے والے ٹرک یا ٹرالر بھی ابھی حال ہی میں جرمنی اور کچھ دوسرے یورپی ملکوں میں متعارف ہوئے ہیں مگر اِن موٹرکاروں گاڑیوں اور ٹرکوں کی رفتار پیٹرول، ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں، ٹرکوں کے مقا بلے کم ہے جب کہ گذشتہ نصف صدی سے امریکہ ، یورپ ، کینیڈا، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں ٹرینیں الیکٹرک سے چلتی ہیں اور چونکہ یہ ٹرینیں اپنے ٹریک پر چلتی ہیں۔

اس لیے اِن کو براہ راست تارکے ذریعے متواتر بجلی ملتی رہتی ہے جس کی طاقت الیکٹرک سے چارج ہو نے والی بیٹریوں سے کہیں زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اب ترقی یافتہ ملکوں میں ٹرینوں کی رفتار 450 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو چکی ہے جو ہوائی جہاز کی رفتار سے نصف ہے پھر روڈ ٹریفک کے مقابلے میں ٹرین کا سفر زیادہ محفوظ ہے اس لیے اب دوبارہ دنیا میں ریلوے کی جانب زیادہ توجہ کی جا رہی ہے جو اب کم خرچ ماحول دوست اور تیزرفتار ہو چکی ہے

ہم اگر گذشتہ بیس برسوں میں دنیا بھر کے ملکوں ریلوے کی ترقی کا جائزہ لیں تو صرف ہمارے ہمسایہ ملک ایران، افغانستان ، بھارت ، چین نے ہزراوں کلومیٹر نئی ریلوے لائنیں تعمیر کی ہیں اور ایسے بلند اور دشوار ترین مقامات پر یہ ریلوے لائنیں بچھا ئی گئی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ 1914 ء میں جنگ عظیم اوّل سے لیکر اب تک خصوصاً ماڈرن اسلامک ہسٹر ی میں ریلوے کی خاص اہمیت ہے۔ 1825 ء میں برطانیہ میں جارج اسٹیفن نے اپنے ایجاد کردہ اسٹیم انجن کے ساتھ ٹرین چلانے کا عملی اور کامیاب مظاہر ہ کیا تھا ۔

1830 ء میں برطانیہ میں لیور پول اور مانچسٹر کے درمیان دنیا کی پہلی ٹرین سروس شروع ہوئی تھی اور 31 برس بعد ہمارے ہاں بھی ٹرین متعارف ہو گئی تھی ، پہلی جنگ عظیم کے وقت جرمنی اور اس کے اتحادی سلطنت عثمانیہ نے یہ طے کر لیا تھا کہ برطانیہ کو سمندری راستوں اور بندرگاہوں پر اُس کی طاقتور نیوی کی وجہ سے ہراناآسان نہیں تھا، اس لیے ا نہوں نے کو شش کی ریلوے کے نظام کو مربوط اور فعال کیا جا ئے اور ریلوے لائن کے ذریعے شا م کے شہر دمشق سے مدینے تک 1320 کلومیٹر لمبی ریلوے لائن بچھائی جائے۔

اُس وقت خلافت عثانیہ کے خلیفہ عبدالحمید دوئم نے یہ منصوبہ بنایا یہ تھا کہ اس ریلوے لائن کو مدینہ سے آگے مکہ تک پہنچایا جا ئے تاکہ حجاج کے لیے سفر آسان ہو جائے اُس وقت حاجیوں کا سفر قافلوں کی صورت ہوتا تھا اور اس دوران 20% حاجی دوران سفر شہید ہو جایا کرتے تھے اُس زمانے میں اس پروجیکٹ پر لا گت کا تخمینہ 40 لاکھ ترک لیر ا لگایا گیا، اتنی رقم کی فراہمی اُس وقت خلافت عثمانیہ کے لیے ممکن نہیں تھی کیونکہ اس طرح بجٹ کا بہت بڑا حصہ اس پروجیکٹ پر خرچ ہو جاتا۔

دوسری صورت یہ تھی کہ اس پروجیکٹ پر مغربی ممالک کی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے تیار تھیں مگر خلیفہ عبدالحمید دوئم نے اس تجویز اور پیشکش کو ماننے سے انکار کر دیا کہ اس ریلوے لائن نے حجاز مقدس تک جانا تھا اس ریلوے لائن کو ماڈرن اسلامک ہسٹری میں حجاز ریلوے کہا جاتا ہے اور بعض جگہ اسے جدہ ریلوے کا نام بھی دیا گیا ہے۔

اس کا ٹریک یعنی راستہ یوں تھا دمشق،بصرا، افولا، حائفہ، نابلس، امان، یازا، قائرانا، ماآن،کادیرارہاوہ،یائن الاگل،موداواوارا، تبروک، مادا، مدینہ منورہ میں اس منصوبے پر 1806 ء سے کام شروع ہوا ۔ خلیفہ عبدالحمید دوئم نے اس منصوبے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں سے عطیات کی درخواست کی اور اس نیک مقصد میں عطیہ دہندگان کے لیے سلطنتِ عثمانیہ کی جانب سے تمغے دینے کا اعلان بھی کیا گیا، اُس زمانے میںہمارے ہاں ایک صاحب حیثیت پنجابی اخبار کے مدیر محمد انشاالہ نے بھی ایک بڑی رقم عطیے کے طور پر خلافت ِ عثمانیہ کو دی تھی۔

1900 ء میں ایک لاکھ لیرا کا ابتدائی قرض زیارت بینک سے جو ایک ریاستی بنک تھا اُس نے فراہم کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ریلوے لائن کا پہلا آئیڈیا عثمانیوں کے ایک فوجی افسر کرنل احمد رشید پاشا نے 1871 ء سے1873 ء کے درمیان یمن اور حجازِ مقدس کے درمیان تعیناتی کے بعد خلیفہ کو دیا تھا کہ اگر عرب علاقے میں سلامتی کو بر قرار رکھنا ہے توعثمانیہ فوجیوں اور ساز وسامان کی نقل و عمل کے لیے علاقے میں ریلو ے کا نظام ضروری ہے۔

اِ ن کے بعد نوری پاشا جیسے فوجی افسران نے بھی حجاز ریلوے کی تجویز دی ۔ بد قسمتی یہ تھی کہ اس دور میں جنگ ِ عظیم اوّل کے آثار نمودار ہونے لگے تھے کیونکہ نوآبادیاتی نظام اپنی جابرانہ قوت کے ساتھ انتہا کو پہنچ رہا تھا اس دور میں ترک خلافت بھی کمزور ہو چکی تھی تو دوسری جانب عرب امیر وں، شیوخ اور سرداروں نے عرب نیشنل ازم کے تحت عربوں میں اس رجحان کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا کہ عرب ہی اسلام کے اصل وارث ہیں اور کسی عجمی کو یہ حق نہیںکہ وہ عرب سر زمین اور عربوں پر حکومت کرے ۔

اُس زمانے میں اہل عجم یعنی غیر عرب ممالک میںسے بیشتر ممالک نوآبادیاتی غلامانہ دور سے گزر رہے تھے اس لئے اِن کی اکثریت میں اسلام کی بنیاد پر عالم اسلام کے اتحاد کا جذبہ تھا اور عرب دنیا میں بھی بہت سے اسلام کی نشاط ثانیہ کے لیے جد وجہد کر رہے تھے۔ یوں اگر چہ حجاز ریلوے کی ضرورت عثمانیہ خلافت کی عسکری ،دفاعی اور اقتصادی ضرورت بھی تھی مگر خلیفہ عبدالحمید دوئم نے اس منصوبے کو اسلام کی مقدس ترین عبادت حج اور حاجیوں کو سہولت کی فراہمی سے منسوب کیا اور اس کے لیے کسی بھی بیرونی امداد کو مسترد کر دیا۔

واضح رہے کہ اُس وقت غیر تقسیم شدہ ہندوستان میںکروڑوں مسلمان ترکی کی خلافت کو اسلام کی مرکزیت تسلیم کرتے۔ حیدر آباد دکن کے نوابی خاندان کی اِن ترک شاہی خاندان سے رشتہ داری تھی۔ ہندوستان میں دنیا کی امیر ترین ریاست حیدر آباد دکن کے شاہی خاندان کے آخری نواب عثمان علی خان نے اپنے دوسرے بیٹے معظم جاہ کی شادی ترکی کے خلیفہ کے خاندان میں مہمد صلاح الدین بیے کی بیٹی شہزادی نیلو فر 'فرحت بیگمِ' سے کی تھی ۔

یوں خلیفہ کی حکمت ِ عملی حجاز ریلوے کے اعتبار سے بہت ہی عمدہ تھی، اُنہوں نے اس ریلوے کا نام بھی حجاز مقدس کی مناسبت سے رکھا تھا اور اس کے لیے پوری دنیا کے مسلمانوں سے عطیات وصول کئے تھے، مگر دوسری جانب شریف ِ مکہ حسین بن علی نے حجاز ریلوے کی شدید مخالفت شروع کر دی اور ریلوے کو عربوں کے اُوپر قبضہ تصور کیا، اُن کا خیال تھا کہ تھا کہ یہ حجازریلوے عسیر اور یمن میں ترک عثمانیوں کی فوجی چوکیوں تک نقل و عمل کو آسان اور مستحکم بنانے کے لیے شروع کی جا رہی ہے اور یوں حجاز ریلوے کی تعمیر کے آغاز ہی پر شریف مکہ حسین بن علی کی مخالفت کی وجہ سے عرب قبائل نے یہاں ریلوے لائن پچھانے اور اسٹیشنوں کی تعمیر کرنے والوں پر حملے شروع کر دئیے لیکن ترک افواج نے تھوڑے عرصے بعد ہی اس ریلوے لائن کے دونوں اطراف میں ایک ایک میل فاصلے تک پورے علاقے میں اس مزاحمت پر قابو پا لیا۔

1907 ء میں العلا کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے والی ٹرین کے لیے سرکاری طور پر ایک بڑا جشن منایا جا رہا تھا کہ عرب السحری قبیلے نے بغاوت کر دی اور یہاں پر حملہ کر دیا۔ اِن باغی عربوں کو یہ خوف تھا کہ ریلوے کی آمد کے بعد اُن کے اوُنٹوں کے تحت ہونے والی نقل وحمل کو نقصان پہنچے گا۔

اُس وقت تک مصر، شام ، عراق، اردن، فلسطین، معیار زندگی اور سماجی شعور و تعلیم کے اعتبار سے یمن اور آج کے سعودی عرب جسے اُس زمانے میںجزیرہ نمائے عرب یا حجاز مقدس کہتے تھے ، بہتر تھے۔ 1914 ء میں پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے برطانیہ ، فرانس ، روس اور دیگر اتحادیوں نے جرمنی اور سلطنت ِعثمانیہ کے خلاف جو حکمت عملی اپنائی تھی اُس میں برطانیہ نے مشاہدے کے تحت یہ جان لیا تھا کہ عرب امیر و شیوخ اور سردار عرب قوم پرستی کی بنیاد پر اسلامی قوت کی بجائے عرب قوم پرستی کی وجہ سے ترکی عثمانیہ خلافت کے خلاف ہیں اس بنیاد پر برطانیہ عربوں کو ترک خلافت کے خلاف منظم کر نے کے لیے ایک نہایت شاطر اور ذہین ایجنٹ تھامس لارنس جسے بعد میں کرنل لارڈ لا رنس کہا گیا اور اُس پر ہالی وڈ نے ساٹھ کی دہائی میں ساڑھے چار گھنٹے کی فلم ''لارنس آف عریبیہ'' کے نام سے بنائی۔

اُس نے جنگِ عظیم اوّل کے دوران جب یہ حجاز ریلوے لائن تعمیر ہو چکی تھی اور اس سے ہزاروں حاجی سہولت کے ساتھ فریضہء حج ادا کر رہے تھے، عرب باغیوں کو منظم کیا۔ اُن کے سرداروں ، امیر اور شیوخ کو ہزاروں کلو سونا دے کر خلافت ِ عثمانیہ کی ٖفوجوں کے خلاف لڑایا اور خصوصی طور پر حجاز ریلوے کو نا قابل تلا فی نقصان پہنچایا ، اُس نے عرب قبائل کی بغاوت کو منظم کیا اور اُن کو جدید رائفلیں، پستولیں، دستی بم اور سب سے اہم ڈائنامیٹ فراہم کئے جس سے حجاز ریلوے اور ترک فوج کو متواتر نقصان پہنچایا گیا۔

جنگِ عظیم دوئم جو 1918 ء میں ختم ہو گئی تھی تو1917 ء تک باغی عرب قبائل نے حجاز ریلوے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ لارنس آف عریبیہ کی کمانڈ میں عرب باغی قبائل کے آخری حملوں میں برطانیہ کی فوج اور فضائیہ نے بھی بھرپور حصہ لیا تھا، مارچ 1917 ء میں لارنس نے ''اباال'' نام کے ریلوے اسٹیشن پر حملہ کر کے ترکوں کو قتل کر دیا اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا ، مئی 1917 ء میں برطانیہ کی فضائیہ کے طیاروں نے العلا ریلوے اسٹیشن پر ہولناک بمباری کی۔

اکتوبر1917 ء میں تبوک جو عثمانی ترکوں کا گڑھ تھا اس پر عرب باغیوں نے قبضہ کر لیا۔ نومبر1917 ء کو شریف عبداللہ اور قبیلہ حرب نے ''البویر ریلوے اسٹیشن'' پر حملہ کر کے عمارت، ریلوے انجن اور بوگیوں کو تباہ کر دیا، دسمبر1917ء میں ابن غصیب کی سربراہی میں باغیوں نے تبوک تک کے تمام علاقے میں حجاز ریلوے کی پوری پٹری تباہ کردی اور یوں حجاز ریلوے ماڈرن اسلامک ہسٹری میں ایک یا دگار تعمیراتی منصوبے کے طور پر محفوظ رہ گئی جسے عربوں نے اپنے ہاتھوں سے خود تباہ کر دیا ۔

1918 ء میں یہ جنگ ختم ہو گئی۔ 1919 ء میں پیرس کے واسائی محل میں معاہد ہ ہوا تو ہندوستان میں تحر یک خلافت کا زور رہا مگر 1920 ء میں عرب کا یہ پورا علاقہ برطانیہ اور فرانس کے درمیان تقسیم ہو گیا۔ 1924 ء میں ابن سعود نے جزیزہ نما عرب حجاز مقدس کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور ملک کا نام سعودی عرب رکھ دیا گیا مگر ابن سعود نے حجاز ریلوے کے منصبوے کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا، تقریباً سو سال بعد سعودی عرب میں 2018 ء سے مدینہ اور مکہ کے درمیان 453 کلو میٹر ریلوے لائن پر اب حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کو نہا یت اعلیٰ درجے کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے ۔

عرفات کے میدان سے منا تک بھی اب حاجیوں کو ٹرین کی سہو لت حاصل ہے۔ مدینہ اور مکہ کے درمیان ٹرین منصوبہ 2009 ء میں9.4 ارب ڈالر کی لاگت سے شروع کیا گیا تھا ۔ یہاں استنبول ، تہران اور اسلام آباد ٹرین سروس کے منصوبے کے حوالے سے حجاز ریلوے کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ آج بھی اتفاق سے سوسال بعد ترکی سے براستہ ایران پاکستان تک ٹرین کی اُتنی ہی اہمیت ہے جتنی اہمیت ترکی کی خلافت کے وقت تھی بلکہ آج کے تناظر میں آئی ٹی آئی ٹرین سروس کی اہمیت روس ، چین سنٹرل ایشیا ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو آپس میں ملا نے اور اقتصادی ، صنعتی اورتجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہے ، پھر آج کے دور میں اِن ملکوں میں سے بیشتر کے ہاں اپنا اپنا ریلوے کا نظام موجود ہے جس کو سرحدوں تک لا کر ایک دوسرے ملک کے ریلوے کے نظام سے منسلک کرنا ہے۔

پاکستان کی ریلوے لائنیں بھارت اور ایران سے منسلک ہیں اور آئندہ اس کا قوی امکان ہے کہ جلد ہی چین اور افغانستان سے بھی پا کستان ریلوے کی لائنیں منسلک ہو جائیں پھر جہاں تک تعلق استنبول، تہران ،اسلام آباد ٹرین سروس کا ہے تو یہ بنیادی طور پر ایکو ممالک کا منصوبہ ہے جس میں افغانستان سمیت سنٹرل ایشیا کے ممالک بھی جلد شامل ہو جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ مستقبل قریب میں آئی ٹی آئی کا منصوبہ چین کے ون بلٹ ون روڈ ،،سی پیک منصوبے کے تحت چین سے اور سنٹرل ایشیا میں روسی دولت مشترکہ کے تحت روس میں دنیا کی سب سے طویل ریلوے لائن سے بھی منسلک ہو جا ئے گا جب کہ ترکی سے مغربی یورپ اور روس سے مشرقی یورپ تک ریلوے نیٹ ورک تحت رسائی ممکن ہو جا ئے گی۔

اس وقت دنیا میں اب بھی اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے پہلی پوزیشن امریکہ کی ہے مگر چین اقتصادی لحاظ سے اب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور بعض ماہرین کے مطابق اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو 2025 ء میں چین دنیا کی پہلی اقتصادی قوت ہو گا، اس وقت دفاعی اور فوجی لحاظ سے روس دوسرے نمبر پر اور چین تیسرے نمبر پر ہے۔

جنگِ عظیم اوّل کے 103 سال بعد دوسری جنگ عظیم کے75 سال بعد اور1990 ء میں ختم ہو نے والی سرد جنگ کے 22 سال بعد دنیا کے ممالک میں دو گروپوں کے لحاظ سے صف بندی کافی حد تک مکمل ہو چکی ہے مگر 2020 ء جو اس اعتبار سے عالمی سطح کا شدید بحرانی سال تھا جس میں تیسری جنگِ عظیم کی باتیں بھی ہو رہی تھیں، یہ تقریباً طے پا گیا ہے کہ یہ جنگ سرحدوں پر نہیں بلکہ پروکسی وار کے تحت اب مستقبل میں بھی ملکوں کی سرحدوں کے اندرہی لڑی جائے گی اس لیے اندیشہ ہے کہ جس طرح حجاز ریلوے کو جنگِ عظیم اوّل کے دوران نقصان پہنچایا گیا تھا اسی طرح آئی ٹی آئی ٹرین منصو بے کو نقصان پہنچانے کی کو شش کی جا ئے گی۔
Load Next Story