دکھی عوام پررحم کیجیے

اخبار کی ایک خبر کے مطابق غوروخوض کی شروعات ہوگئی ہے۔

nasim.anjum27@gmail.com

ISLAMABAD:
پاکستان اور خصوصاً کراچی میں شاید ہی کوئی ایسا ادارہ بچا ہو جو کرپشن سے پاک ہو، ہر ادارہ لوٹ کھسوٹ اور عوام کو اذیت پہنچانے میں سرفہرست رہنا چاہتا ہے، اس کے لیے وہ ایسے اقدامات کرتا ہے جن کی رو سے ادارے کے افسرانِ بالا کو مالی فوائد حاصل ہوں اور عوام کو ذہنی اذیت اور جسمانی تکلیف پہنچائی جائے، اہم ترین اداروں میں واٹر بورڈ کے ادارے کی بھی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے۔

ظاہر ہے پانی ہے تو زندگی ہے، پانی نہیں تو زندگی تکلیف دہ مراحل کی نذر ہوجاتی ہے لیکن اس بنیادی ضرورت کا احساس واٹر بورڈ کے اراکینِ خاص کو بالکل نہیں ہے۔ کراچی کے بہت سے علاقوں میں پانی سرے سے غائب ہے لیکن یہ بات بے حد حیرت کی ہے کہ کراچی میں پانی کی قلت بتائی جاتی ہے لیکن ٹینکروں کے ذریعے جو پانی شہریوں کو سپلائی کیا جاتا ہے وہ پانی واٹر بورڈ والوں کا ہی ہے گویا شہریوں کو مشکلات میں مبتلا کرکے دہرا منافع کمایا جارہا ہے۔

اس کا مطلب کیا ہوا؟ کہ اہمیت ہے تو صرف پیسے کی، یعنی دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار جاری ہے اور جن علاقوں میں پانی آتا تھا وہاں بھی واٹر بورڈ نے پانی کی قلت اس طرح پیدا کی کہ لائنوں سے پانی ان لوگوں کو فروخت کردیا جہاں پانی ناپید تھا یا کم آتا تھا۔ علاقہ مکینوں نے واٹر بورڈ کے ایم ڈی سے بارہا شکایت کیں، درخواستیں دیں، اپنی پریشانی اور پانی سے محرومی کا ذکر کیا۔ انھوں نے وعدہ بھی کیا اور بروقت اپنے ماتحتوں کو آرڈر بھی دیے لیکن ماتحت بھی ایسے کہ ان حضرات نے تسلی و تشفی کے سوا کوئی ٹھوس کام نہیں کیا اور اس طرح کئی ماہ یوں ہی گزر گئے، البتہ ٹینکرز پابندی کے ساتھ پانی کی سپلائی پر مامور رہے۔ یہ ذکر ہے گلستانِ جوہر بلاک 13 اور بلاک 15 کی کئی گلیوں کا۔

اورنگی ٹائون، کورنگی، سرجانی ٹائون، قیوم آباد ان علاقوں سے بھی پانی کافی عرصے سے غائب ہے، رہی ڈیفنس کی بات تو ڈیفنس کے رہائشیوں نے صبر و شکر کرلیا ہے۔ سالہا سال سے ڈیفنس کے گھروں کے نلکے واٹر بورڈ کے جائز پانی سے محروم ہیں۔ وہ بے چارے بھی ٹینکر ڈلوانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ واٹر بورڈ والوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ کہاں سے کمائی زیادہ ہوگی اور رزق میں بے تحاشا اضافہ ہوگا۔

یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیّاں ہے کہ ٹینکر مافیا اور واٹر بورڈ کی یہ ملی بھگت ہے، اعلیٰ افسران اور واٹر بورڈ کے خاص ملازمین یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان میں معاشی بحران ایک خطرناک وبا کی صورت اختیار کرگیا ہے لوگوں کے پاس ماہانہ خرچ نہیں ہے، اس کی وجہ سے بے شمار لوگ ملازمت حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ اگر وہ بے چارے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرلیں تو بھی ان کے لیے مشکل ہے۔ ایک طرف شہر کے حالات، ٹارگٹ کلنگ تو دوسری طرف بھتہ مافیا۔

چھوٹی دکانوں اور تجارت کے لیے چھوٹے بھتہ خور بھتہ لینے آتے ہیں اور بڑے بزنس مینوں کے لیے اسلحے سے لیس بھتہ خور نہ صرف بھتہ وصول کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی تاجر انکار کرے تو اغوا و قتل کرنے میں دیر نہیں کرتے ہیں، ان حالات میں غربت کے مارے، پریشانیوں اور دکھوں میں مبتلا لوگ کس طرح واٹر بورڈ کا بل بھی دیں اور پریشانی بھی اٹھائیں۔ ساتھ میں پانی کے ٹینکر ڈلوا کر اپنے ماہانہ بجٹ کو نقصان پہنچائیں۔ کہاں سے لائیں اضافی رقم؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر واٹر بورڈ کے ایم ڈی کو سنجیدگی اور ہمدردی سے غور کرنا چاہیے۔


اخبار کی ایک خبر کے مطابق غوروخوض کی شروعات ہوگئی ہے۔ خبر یہ ہے کہ واٹر بورڈ نے تمام ہائیڈرینٹس بند کرنے کا اعلان کردیا ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی انتظامیہ نے اعلیٰ سطح سے ملنے والی ہدایات کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے، لیکن ساتھ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلم آباد ہائیڈرینٹس کے قیام کے لیے جاری کردہ ٹینڈر کی منسوخی سے اجتناب برتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ بھی شہریوں کی سمجھ میں باآسانی آسکتی ہے۔ شہریوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ واٹر ٹینکروں کے ذریعے ہونے والی اربوں روپوں کی لوٹ کھسوٹ کی نیب سے تحقیقات کرائی جائے۔

واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر مصباح الدین فرید نے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے غیر قانونی ہائیڈرینٹس سے متعلق سخت باز پرس کی، انھوں نے کرائم برانچ کے ایس پی کو ہدایت کی کہ وہ آج ہی تمام ہائیڈرینٹس کو بند کرکے رپورٹ آئی جی سندھ کو پیش کریں۔ انھوں نے آئی جی سندھ سے درخواست کی ہے کہ وہ تمام ایس ایچ اوز کو غیر قانونی ہائیڈرینٹس بند کرنے کے لیے پابند کریں۔ ایک طرف ایم ڈی کا یہ مثبت اقدام ہے تو دوسری طرف لوگوں کو حیرت اور شک میں مبتلا کردیا گیا ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے علاقہ مکینوں کی شکایت اور عدالت کے حکم پر بند ہونے والے مسلم آباد ہائیڈرینٹس کے دوبارہ قیام کے لیے جاری کردہ ٹینڈر منسوخ نہیں کیے ہیں۔

ایک سینئر افسر نے کہا کہ اگر مسلم آباد ہائیڈرینٹس کھل گیا تو پورے شہر کے لیے وبال بن جائے گا۔ واٹر بورڈ کی انتظامیہ اگر واقعی سنجیدہ ہے تو فوری طور پر مسلم آباد ہائیڈرینٹس کے ٹینڈرنگ کے عمل کی منسوخی کا بھی حکم نامہ جاری کرے، چونکہ واٹر بورڈ کی انتظامیہ اور افسران عوام سے مخلص نہیں ہیں، اسی وجہ سے شہریوں نے واٹر بورڈ کی طرف سے ہائیڈرینٹس کی بندش پر نیب اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ اربوں روپے کی لوٹ مار میں ملوث ٹینکر مافیا اور غیر قانونی ہائیڈرینٹس کے معاملات کا نوٹس لیں اور ذمے دار افسران کے خلاف کارروائی کریں۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ کی موجودہ انتظامیہ نے عیدالفطر کے موقعے پر پورے شہر کا پانی بند کرکے شہر میں منہ مانگے داموں پر ٹینکر فروخت کرائے ہیں، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا رویہ کبھی بھی شہریوں کے ساتھ اچھا نہیں رہا، سیوریج کا نظام بھی بے شمار علاقوں میں ناقص ہے، اکثر یہ ہوتا ہے جب سیوریج کی نئی لائنیں پڑ رہی ہوتی ہیں یا ان کی مرمت کی جاتی ہے تو عملہ آنکھیں بند کرکے اپنے فرائض انجام دیتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پانی کے کنکشن میں بھی مٹی، پتھر اور تارکول اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔ اس طرح جن گھروں اور محلوں میں پانی آتا ہے، وہ بھی بند ہوجاتا ہے۔ اب ان سے لاکھ شکایت کریں وہ کان نہیں دھرتے ہیں۔ اس طرح پانی کے مسائل میں شب و روز اضافہ ہوتا ہے۔

بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں نالے کھلے ہوئے ہیں۔ گٹر کے ڈھکنے غائب ہیں۔ ان حالات میں بارش کے موقع پر حادثات اور ہلاکتیں ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور ان دنوں بات رم جھم سے آگے بڑھ چکی ہے اور بارش اپنی بہار دکھا رہی ہے اور اﷲ کرے بارش کا حسن قائم رہے اور کراچی اور دوسرے شہروں میں کوئی حادثہ نہ ہوسکے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر ادارہ اپنی ذمے داریوں کو خلوص دل اور انسانی ہمدردی کے ساتھ پورا کرے۔ اگر ایک طرف واٹر بورڈ کی طرف سے ناانصافی ہورہی ہے تو KESC کا ادارہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔

بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں بجلی کے تار کمزور ہیں یا ٹوٹ کر گر چکے ہیں، ساتھ میں گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے لیکن کے ای ایس سی کا ادارہ بل پابندی سے بھیجتا ہے اور زیادہ سے زیادہ رقم وصول کرنے کے لیے بے حسی کے ساتھ ان گھروں میں بھی زیادہ رقم کا بل بھیجتا ہے جہاں سارا دن تالے لگے رہتے ہیں اور گھر کے مکین حصولِ ملازمت کے لیے اپنے گھروں سے غائب ہوتے ہیں۔ بجلی کی تمام مشینری زیادہ وقت کے لیے بند رہتی ہیں۔ ان گھروں میں بھی بل توقع سے کہیں زیادہ آتا ہے جہاں صرف ایک یا دو پنکھے اور انرجی سیور جلتے ہیں جب کہ AC کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا ہے۔

یہ کہنا حکومت اچھی نہیں ہے، غلط ہے۔ وہ لوگ بھی اچھے نہیں جو اگر چاہیں تو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملک میں خوشیاں بانٹ سکتے ہیں، کسی نے ان کے ہاتھ نہیں باندھے ہیں، کچھ اختیارات ان کے پاس بھی ہیں۔
Load Next Story