کوچۂ سخن
غزل
میں عام آدمی ہوں مِرے عام عام دکھ
لیکن مجھے عزیز ہیں میرے تمام دکھ
اب ڈالنا پڑے گا مجھے دل میں اک شگاف
کرنا تو ہے فرار تِرا بے لگام دکھ
کل رات میرے خواب کا منظر عجیب تھا
جھولی میں بھر کے لے گیا ماہِ تمام دکھ
رکھا ہوا ہے شام کے ماتھے پہ ایک چاند
زیرِ نگاہ درد ہے، بالائے بام دکھ
دنیا سے اختلاف مِرا اس لیے رہا
میرا مزاج تلخ ہے، میرا کلام دکھ
(نذر حسین ناز۔ چکوال)
۔۔۔
غزل
دل ہی جب سامنے ہروقت پڑا ہوتا ہے
پھر کہاں غم کا کوئی تیر خطا ہوتا ہے
اس لیے کی یہاں ہر شخص کی آواز حنوط
کہ رہے سامنے جو جس نے کہا ہوتا ہے
سب ثمر کو ہی یہاں صرف ثمر بولتے ہیں
ورنہ ہر شاخ پہ سایہ تو لگا ہوتا ہے
درد جتنے ہیں اٹھا لاؤ، کہ دیکھوں تو ذرا
ضبط میرا بھلا کس کس سے بڑا ہوتا ہے
گھر میں آسیب تو غم دل میں چلے آتے ہیں
سو جو خالی نظر آتا ہے بھرا ہوتا ہے
ہجر میں اور بھی کچھ عزمی نکھرتا ہے سخن
یہ عجب پیڑ ہے پت جھڑ میں ہرا ہوتا ہے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
مسلسل ایک ڈر ہے اور میں ہوں
بہت مشکل سفر ہے اور میں ہوں
محبت کی عطا ہے شاعری سب
یہی میرا ہنر ہے اور میں ہوں
تمھاری اک جھلک پانے کو ہمدم
مرا دل منتظر ہے اور میں ہوں
اندھیرا راہ میں کیوں کر ٹکے گا
میرے آگے سحر ہے اور مَیں ہوں
سبھی کردار منزل تک ہیں لانے
فسانہ مختصر ہے اور میں ہوں
خدا آصف کی کشتی کو بچانا
کہ رستہ پر خطر ہے اور میں ہوں
(آصف صمیمؔ ،صحبت پور۔ بلوچستان)
۔۔۔
غزل
خاک میری ہے نم کسی کا ہے
مجھ سے ربط ِ بہم کسی کا ہے
بات یہ بھی سمجھ نہیں آتی
دل کسی کا ہے غم کسی کا ہے
عجز سے جان چھوٹتی ہی نہیں
مجھ میں کچھ ایسا خم کسی کا ہے
میرے ذمے تو دیکھ بھال ہے بس
ورنہ دل کا حرم کسی کا ہے
تھک گئی ہوں سنبھالتے خود کو
مجھ پہ اتنا بھرم کسی کا ہے
سنسناتی ہے چاپ رگ رگ میں
دل پہ چلتا قدم کسی کا ہے
میری آنکھوں میں خواب اس کے ہیں
جاناں وہ جو صنم کسی کا ہے
( جاناں ملک۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
ہم لوگ کیا بتائیں کیسے بڑے ہوئے ہیں
آنکھوں میں رتجگے اور آنسو لیے ہوئے ہیں
نفرت، حسد، عداوت، آزُردگی، ملامت
کتنے برے رویوں پر ہم جمے ہوئے ہیں
جنگل سے اب پرندوں کو گھر میں لانا ہوگا
کچھ لوگ گھونسلوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں
اک شعر ہم بھی لکھ دیں آخر اویس قرنی
را ہِ خیال پر ہم کب سے کھڑے ہوئے ہیں
(اویس قرنی۔بنوں،خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
وجودِ خاک ہوں لیکن نظر میں آسماں رکھتا
سفر میں ساتھ گر اپنے مجھے تُو جانِ جاں رکھتا
ہزاروں دشت ہوتے بھی سفر اپنا رواں رکھتا
میں تیرے نقش ِ پا کو اپنی منزل کا نشاں رکھتا
تری محفل میں زخمِ دل چھپا لیتا ہوں میں اکثر
سوال اٹھتے کئی تجھ پر اگر اس کو نہاں رکھتا
یہ ضبط ِ دل ہے جو اس نے اٹھا رکھا ہے بارِ غم
وگرنہ بزمِ دنیا میں اسے جا کر کہاں رکھتا
عجب پائی ہے شہرت کہ جہاں بھر کا ہوں آوارہ
بھٹکتا در بدر کیوں کر اگر میں بھی مکاں رکھتا
تجھے دائم خدا نے وہ بلند پرواز بخشی ہے
اٹھاتا جو قدم یاں سے تو جا کر لا مکاں رکھتا
(ندیم دائم۔ہری پور)
۔۔۔
غزل
غم ہیں اب قہقہوں پہ چھائے ہوئے
جو بھی اپنے تھے سب پرائے ہوئے
جن کا میں منتظر تھا مدت سے
اب وہ پلٹے ہیں زخم کھائے ہوئے
یوں بلاتے ہیں میرے یار مجھے
بات سن! ہجر کے ستائے ہوئے
کام کا ایک بھی نہیں ان میں
یار میں نے ہیں آزمائے ہوئے
اور کچھ دیر بیٹھیے صاحب
دیر ہی کب ہوئی ہے آئے ہوئے
اب وہ جائیں تو کس جگہ محسنؔ
اس کی محفل سے اُٹھ کے آئے ہوئے
(محسنؔ اکبر ۔حجرہ شاہ مقیم)
۔۔۔
غزل
تو بتا ہجر کا یہ پہلا سفرکیسا رہا
اجنبی شہر میں تھا تیرا بسرکیسا رہا
اس قدر جس پہ تو اتراتا رہا دوست مرے
تیری بیباک محبت کا ثمر کیسا رہا
ایک سورج کو تو کہتا رہا خوابوں کا قمر
چل دیا تجھ کو جلا کر تو قمر کیسا رہا
ایک دن تجھ کو بچھڑنا ہے یہ سوچا نہیں کیوں
وادیٔ مرگ میں جانے تُو نڈر کیسا رہا
(حمید راہی۔سرگودھا)
۔۔۔
غزل
لرزتا رہتا ہوں کردے نہ پاش پاش مجھے
تراشتا ہے عجب طَور بُت تراش مجھے
کسی کے حُسن نے بخشی ہے مجھ کو بینائی
کسی کے لمس نے بخشا ہے ارتعاش مجھے
اگر میں ہار چکا ہوں مجھے یقین دلا
شکست ہی نہیں لگتی شکستِ فاش مجھے
کوئی تمنّا تڑپتی ہے میرے سینے میں
سنائی دیتی ہے آوازِ دلخراش مجھے
میں اپنے آپ میں ہر روز قتل ہوتا ہوں
مرے مکان سے ملتی ہے روز لاش مجھے
(امتیازانجم۔اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
مجھ پہ کوئی بھی نہیں ہے مہرباں
کس کو اپنی میں سناؤں داستاں
گِر پڑا ہوں عرش سے میں فرش پر
اب زمیں تھامے نہ تھامے آسماں
مشکلوں کا حل نہیں ہے خود کُشی
مشکلوں سے جنگ کیجو جانِ جاں
دل کی محرم راز تھیں آنکھیں مری
بہتے آنسو بھی کبھی تھے رازداں
پھول پر شبنم گوارا کیوں کروں؟
تیسرا کوئی بھی ہو کیوں درمیاں
ڈھونڈتی ہیں تجھ کو آنکھیں آ بھی جا
کچھ بتا اعظم کہ تُو اب ہے کہاں؟
(اعظم بلوچ احمد پوری، احمد پور شرقیہ)
۔۔۔
غزل
اک اُداسی لیے مغرور پڑا رہتا ہوں
مسکراہٹ سے کہیں دور پڑا رہتا ہوں
آنکھ کھلتے ہی پڑا ہوتا ہوں غمگین وہیں
میں جو سپنوں میں ہی مسرور پڑا رہتا ہوں
وہ بدلتے چلے جاتے ہیں زمانے کے ساتھ
میں محبت میں بدستور پڑا رہتا ہوں
کب ضرورت ہے کسی اور نشے کی مجھ کو
میں تری یاد میں مخمور پڑا رہتا ہوں
(کاشف صہیم۔ لیہ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی