اسٹیٹ بینک خود مختاری کی حد کیا ہو
اسٹیٹ بینک گزشتہ دس پندرہ سالوں کے دوران خاصا خود مختار ادارہ بنا دیا گیا ہے۔
یادش بخیر لگ بھگ ایک سال کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف کا ذکر چھڑا ہے۔ حکومت کے بقول آئی ایم ایف کا گزشتہ سال معطل ہوا پروگرام شروع کرنے کی اشد ضرورت آن پڑی ہے۔ پروگرام کی بحالی کے لیے جن اقدامات پر پیشگی عمل شرط ٹھہرا ان میں ایک اسٹیٹ بینک کی مکمل خود مختاری کا بھاری پتھر اٹھانا بھی شامل تھا۔
موجودہ آئی ایم ایف قرض پروگرام پاکستان کا 22 واں پروگرام ہے۔ ان قرض پروگراموں میں سے بیشتر اپنی طبعی عمر سے پہلے ایک یا دوسری وجہ سے ادھورے چھوڑنے پڑے۔ گزشتہ تیس چالیس سالوں سے معیشت ، ملک کی مالیاتی نظامت اور آئی ایم ایف کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ قرض بڑھتا گیا جوں جوں یہ تعلق بڑھتا رہا۔
بدقسمتی ہے کہ گزشتہ چالیس سالوں کے دوران سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں کی گورننس اور مالیاتی ترجیحات کی کوکھ سے مالیاتی عدم استحکام ہی برآمد ہوا۔ آج قرضوں اور ان پر سود کی واپسی بجٹ کا سب سے بڑا آئٹم ہے، حکومت کا تمام ترقیاتی بجٹ مدت سے قرض کا محتاج ہے۔ اس مد کے بعد بقیہ محاصل حکومت کے جاری اخراجات ، پنشن اور دفاعی اخراجات پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ سیاسی اور غیر سیاسی سلطانوں سے کوئی نہ کوئی بھول تو بار بار ہوئی ہے جو عوام کی کمائی یوں بار بار لٹی ہے؛ ساغر صدیقی یاد آئے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
کیا بھول ہوئی ہے؟ اول ، یہ کہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے خود کفیل نہ بنا سکے۔ دوم، وقتی مشکل دور کرنے کے لیے بار بار قرضوں کا آسان راستہ اپنایا مگر خود سے اپنی معیشت کو خوشحال، مضبوط، پہلودار وسعت ( Diversity)، ویلیو ایڈیشن، ہائی ٹیک اور سب کے لیے یکساں قوانین اور معاش دوست ماحول کے لیے مشکل فیصلے کیے نہ وقتی مصلحت سے بالا ترہو کر دوررس اقدامات اٹھائے۔
اس بھول کا نتیجہ وہی نکلا جو تاریخ میں ہمیشہ نکلاجب اندرونی یا بیرونی طالع آزما ساہوکار حکومتوں کو قرضوں کی نکیل ڈال کر زیر کیے رکھتے تھے۔ جب حکومتیں مقامی یا بیرونی ساہوکار تاجروں کی محتاج ہوئیں تو بڑی بڑی سلطنتیں محلاتی سازشوں میں الجھ کر ٹوٹ گئیں۔ پال کینیڈی نے اپنی کتاب عظیم طاقتوں کے عروج و زوال کا اختتام اسی حقیقت پر کیا کہ جو قومیں مالی انحطاط کا شکار ہوئیں، وہ سنبھل نہ سکیں۔
کہاں تو یہ پی ٹی آئی حکومت میں آنے سے قبل آئی ایم ایف کے پاس جانے سے کتراتی رہی، مگر جب مجبوری کا ادراک ہوا تو راتوں رات پوری فنانشل ٹیم ہی بدل دی گئی، وزارت خزانہ کی سربراہی کے لیے نئے مشیر اور اسٹیٹ بینک کے لیے نئے گورنر لائے گئے۔ ایک آئی ایم ایف کے پرانے کنسلٹنٹ تھے اور دوسرے مصر میں حاضر سروس۔ نئی ٹیم نے تین دنوں میں کھٹاک سے معاہدہ فائنل کرکے نوید ِ مسرت بھی سنا دی۔
جن ڈاٹڈ لائنز ( Dotted lines ) پر دستخط کیے تھے ان میں اسٹیٹ بینک کو مکمل خود مختاری کی شرط بھی تھی، قرض بحالی کے لیے یہ شرط پوری کرنے کی مجبوری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عین سینیٹ انتخاب میںالجھی کابینہ کے سامنے نو مارچ کو نہایت عجلت سے اسٹیٹ بینک ترمیم بل منظوری کے لیے پیش ہوا۔ سیکریٹری خزانہ نے اس بل کی فیوض و برکات کی چند منٹ وضاحت کی اور چند منٹوں میں منظوری کا عمل مکمل بھی ہو گیا۔
اب جو تفصیلات اس مجوزہ بل کی سامنے آئی ہیں تو ماہرین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک حکومت کو قرض نہیں دے گا (حکومت کے کہنے پر نوٹ پرنٹنگ کا پابند نہیں ہوگا) ، گارنٹی جاری نہیں کرے گا، اس کے بنیادی مقاصد میں تبدیلی کر دی گئی ہے؛ نئے مقاصد کے مطابق اندرون ملک کرنسی کی قیمت کے استحکام و افراطِ زر یعنی Price Stability اولین مقصد ٹھہرا، دوم مالیاتی استحکام کا کردار، قبل ازیں جو بنیادی مقصد تھا وہ اب تیسرے درجے پر دھکیل دیا گیا یعنی ترقیاتی معاشی پالیسیوں میں حکومت کی معاونت۔ بل میں بظاہر چند بے ضرر اقدامات بھی تجویز ہیں مگر اصل مدعا یہی ہے کہ اسٹیٹ بینک اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ ہوگی، اس کا گورنر اور بورڈ اور اس کے افسران کے خلاف کوئی ادارہ شکایت پر تفتیش نہیں کر سکے گا، بلکہ یہ شق ماضی کے اقدامات اور اسٹاف کو بھی تحفظ دے گی۔
اسٹیٹ بینک پر پارلیمان کی کوئی نگرانی یعنی oversight نہیں ہو گی، البتہ اسٹیٹ بینک سال بعد اپنی سالانہ رپورٹ پارلیمان کو پیش کر دیا کرے گا۔آئی ایم ایف کا تجویز کردہ یہ بل اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ اس کی بھنک بھی اس وقت پڑی جب خاموشی سے کابینہ نے منظور کر لیا۔
اسٹیٹ بینک گزشتہ دس پندرہ سالوں کے دوران خاصا خود مختار ادارہ بنا دیا گیا ہے، حکومت کے ساتھ اس کی ورکنگ ریلیشن آفیسر اور ماتحت والی ہر گز نہیں،بلکہ معیشت کے دیگر شعبے اور نجی سیکٹر اسٹیٹ بینک کے موجودہ کردار سے بہت حد تک مطمئن ہیں۔
جنوبی ایشیاء اور لاطینی امریکا میں بھی مجوزہ خود مختاری کسی بھی مرکزی بینک کو حاصل نہیں۔ مرکزی بینک ایک قومی اور آئینی ادارہ ہے اور اس کا دائرہ کار اسی نظام کے ایک اہم کردار کا ہے ، اسے ایک عالمی مالیاتی ادارے کی یک طرفہ شرائط پر ایک خود سر، احتساب و نگرانی سے مبرا اور محدود مقاصد کا ادارہ بنانے میں کم از کم ملک کا تو فائدہ نہیں۔ جلد بازی میں ایسے فیصلے جو آنے والوں کے لیے بھی مجبوریوں کی بیڑیاں بن جائیں، ایسے فیصلوں سے قبل ان پر وسیع البنیاد مشاورت اور عواقب پر غور و خوص ضروری ہے۔ حکومت کی جلد بازی ناقابل فہم ہے۔
موجودہ آئی ایم ایف قرض پروگرام پاکستان کا 22 واں پروگرام ہے۔ ان قرض پروگراموں میں سے بیشتر اپنی طبعی عمر سے پہلے ایک یا دوسری وجہ سے ادھورے چھوڑنے پڑے۔ گزشتہ تیس چالیس سالوں سے معیشت ، ملک کی مالیاتی نظامت اور آئی ایم ایف کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ قرض بڑھتا گیا جوں جوں یہ تعلق بڑھتا رہا۔
بدقسمتی ہے کہ گزشتہ چالیس سالوں کے دوران سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں کی گورننس اور مالیاتی ترجیحات کی کوکھ سے مالیاتی عدم استحکام ہی برآمد ہوا۔ آج قرضوں اور ان پر سود کی واپسی بجٹ کا سب سے بڑا آئٹم ہے، حکومت کا تمام ترقیاتی بجٹ مدت سے قرض کا محتاج ہے۔ اس مد کے بعد بقیہ محاصل حکومت کے جاری اخراجات ، پنشن اور دفاعی اخراجات پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ سیاسی اور غیر سیاسی سلطانوں سے کوئی نہ کوئی بھول تو بار بار ہوئی ہے جو عوام کی کمائی یوں بار بار لٹی ہے؛ ساغر صدیقی یاد آئے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
کیا بھول ہوئی ہے؟ اول ، یہ کہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے خود کفیل نہ بنا سکے۔ دوم، وقتی مشکل دور کرنے کے لیے بار بار قرضوں کا آسان راستہ اپنایا مگر خود سے اپنی معیشت کو خوشحال، مضبوط، پہلودار وسعت ( Diversity)، ویلیو ایڈیشن، ہائی ٹیک اور سب کے لیے یکساں قوانین اور معاش دوست ماحول کے لیے مشکل فیصلے کیے نہ وقتی مصلحت سے بالا ترہو کر دوررس اقدامات اٹھائے۔
اس بھول کا نتیجہ وہی نکلا جو تاریخ میں ہمیشہ نکلاجب اندرونی یا بیرونی طالع آزما ساہوکار حکومتوں کو قرضوں کی نکیل ڈال کر زیر کیے رکھتے تھے۔ جب حکومتیں مقامی یا بیرونی ساہوکار تاجروں کی محتاج ہوئیں تو بڑی بڑی سلطنتیں محلاتی سازشوں میں الجھ کر ٹوٹ گئیں۔ پال کینیڈی نے اپنی کتاب عظیم طاقتوں کے عروج و زوال کا اختتام اسی حقیقت پر کیا کہ جو قومیں مالی انحطاط کا شکار ہوئیں، وہ سنبھل نہ سکیں۔
کہاں تو یہ پی ٹی آئی حکومت میں آنے سے قبل آئی ایم ایف کے پاس جانے سے کتراتی رہی، مگر جب مجبوری کا ادراک ہوا تو راتوں رات پوری فنانشل ٹیم ہی بدل دی گئی، وزارت خزانہ کی سربراہی کے لیے نئے مشیر اور اسٹیٹ بینک کے لیے نئے گورنر لائے گئے۔ ایک آئی ایم ایف کے پرانے کنسلٹنٹ تھے اور دوسرے مصر میں حاضر سروس۔ نئی ٹیم نے تین دنوں میں کھٹاک سے معاہدہ فائنل کرکے نوید ِ مسرت بھی سنا دی۔
جن ڈاٹڈ لائنز ( Dotted lines ) پر دستخط کیے تھے ان میں اسٹیٹ بینک کو مکمل خود مختاری کی شرط بھی تھی، قرض بحالی کے لیے یہ شرط پوری کرنے کی مجبوری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عین سینیٹ انتخاب میںالجھی کابینہ کے سامنے نو مارچ کو نہایت عجلت سے اسٹیٹ بینک ترمیم بل منظوری کے لیے پیش ہوا۔ سیکریٹری خزانہ نے اس بل کی فیوض و برکات کی چند منٹ وضاحت کی اور چند منٹوں میں منظوری کا عمل مکمل بھی ہو گیا۔
اب جو تفصیلات اس مجوزہ بل کی سامنے آئی ہیں تو ماہرین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک حکومت کو قرض نہیں دے گا (حکومت کے کہنے پر نوٹ پرنٹنگ کا پابند نہیں ہوگا) ، گارنٹی جاری نہیں کرے گا، اس کے بنیادی مقاصد میں تبدیلی کر دی گئی ہے؛ نئے مقاصد کے مطابق اندرون ملک کرنسی کی قیمت کے استحکام و افراطِ زر یعنی Price Stability اولین مقصد ٹھہرا، دوم مالیاتی استحکام کا کردار، قبل ازیں جو بنیادی مقصد تھا وہ اب تیسرے درجے پر دھکیل دیا گیا یعنی ترقیاتی معاشی پالیسیوں میں حکومت کی معاونت۔ بل میں بظاہر چند بے ضرر اقدامات بھی تجویز ہیں مگر اصل مدعا یہی ہے کہ اسٹیٹ بینک اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ ہوگی، اس کا گورنر اور بورڈ اور اس کے افسران کے خلاف کوئی ادارہ شکایت پر تفتیش نہیں کر سکے گا، بلکہ یہ شق ماضی کے اقدامات اور اسٹاف کو بھی تحفظ دے گی۔
اسٹیٹ بینک پر پارلیمان کی کوئی نگرانی یعنی oversight نہیں ہو گی، البتہ اسٹیٹ بینک سال بعد اپنی سالانہ رپورٹ پارلیمان کو پیش کر دیا کرے گا۔آئی ایم ایف کا تجویز کردہ یہ بل اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ اس کی بھنک بھی اس وقت پڑی جب خاموشی سے کابینہ نے منظور کر لیا۔
اسٹیٹ بینک گزشتہ دس پندرہ سالوں کے دوران خاصا خود مختار ادارہ بنا دیا گیا ہے، حکومت کے ساتھ اس کی ورکنگ ریلیشن آفیسر اور ماتحت والی ہر گز نہیں،بلکہ معیشت کے دیگر شعبے اور نجی سیکٹر اسٹیٹ بینک کے موجودہ کردار سے بہت حد تک مطمئن ہیں۔
جنوبی ایشیاء اور لاطینی امریکا میں بھی مجوزہ خود مختاری کسی بھی مرکزی بینک کو حاصل نہیں۔ مرکزی بینک ایک قومی اور آئینی ادارہ ہے اور اس کا دائرہ کار اسی نظام کے ایک اہم کردار کا ہے ، اسے ایک عالمی مالیاتی ادارے کی یک طرفہ شرائط پر ایک خود سر، احتساب و نگرانی سے مبرا اور محدود مقاصد کا ادارہ بنانے میں کم از کم ملک کا تو فائدہ نہیں۔ جلد بازی میں ایسے فیصلے جو آنے والوں کے لیے بھی مجبوریوں کی بیڑیاں بن جائیں، ایسے فیصلوں سے قبل ان پر وسیع البنیاد مشاورت اور عواقب پر غور و خوص ضروری ہے۔ حکومت کی جلد بازی ناقابل فہم ہے۔