گیند بھارت کے کورٹ میں ہے

سوال وہی ہے کہ کیا بھارت پاکستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات میں سنجیدہ ہے؟

پاکستان اور بھارت خطے کے دو اہم ایٹمی ممالک ہیں۔ خطے میں امن کے حوالے سے دونوں پر ذمے داریاں بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ بڑا ملک ہونے کے ناتے بھارت پر لازم ہے کہ وہ علاقے کے دیگر ملکوں بالخصوص پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے میں اپنا فعال کردار ادا کرے۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشمیرکا حل بنیادی تنازعہ ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں وہاں کے عوام کی مرضی و منشا کے مطابق رائے شماری کرا کے پاکستان یا بھارت جس کے ساتھ بھی کشمیری عوام الحاق کرنا چاہیں انھیں یہ حق دے دیا جائے۔

یاد رہے کہ تقسیم ہند کے بعد بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو ہی کشمیرکا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے کرگئے اور وہاں یہ وعدہ کرکے آئے تھے کہ بھارت واپس جا کر اقوام متحدہ میں منظور کی گئی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کے لیے کشمیر میں رائے شماری کرائیں گے۔ بدقسمتی کہ نہرو اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے اور ان کے بعد آنے والے تمام بھارتی حکمرانوں نے کشمیر میں استصواب رائے سے گریزکیا۔ نتیجتاً کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے آزادی کی تحریک چلانے پر مجبور ہوئے۔

گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران اس تحریک میں شدت آتی گئی۔ ہزاروں کشمیری نوجوان ، بچے ، بوڑھے اور مائیں بہنیں اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ اس کے باوجود نہ تو عالمی امن کے ٹھیکہ داروں کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ ہی بھارت کے کسی حکمران نے مظلوم کشمیری کی آواز سنی الٹا کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جو کٹر ہندو ذہنیت رکھنے والا حاکم ہے اور مسلمانوں سے ازلی دشمنی اس کے خون میں شامل ہو چکی ہے نے دو سال قبل 5 اگست 2019 کو آئینی اقدام کے ذریعے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کردی جس سے مقبوضہ وادی میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ مودی سرکار کشمیر کو بھارت میں ضم کرکے اسے اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانا چاہتی ہے جس پرکشمیری سراپا احتجاج ہیں اور طویل کرفیو، خون ریز تشدد اور بھارتی فوجیوں کی بربریت کے باوجود اپنے حق سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

پاکستان روز اول سے کشمیریوں کی آوازکے ساتھ آواز ملاتے ہوئے سیاسی سفارتی اور اخلاقی سطح پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے لیے مطالبہ کررہا ہے۔ تنازعہ کشمیر کے پرامن اور قابل قبول حل کے لیے صدر و وزیر اعظم سے لے کر خارجہ سیکریٹریوں تک کئی مرتبہ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا لیکن ہر مرتبہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور ضدکے باعث مذاکرات کی تار ٹوٹتی رہی۔


نتیجتاً پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کشمیر پر پیدا ہونے والی کشیدگی نے چار مرتبہ جنگوں کی شکل اختیارکی لیکن کشمیرکا مسئلہ آج تک تصفیہ طلب چلا آ رہا ہے۔ اس ضمن میں عالمی برادری کی بے حسی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

گزشتہ ہفتے ''اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ'' کی تقریب کے افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں میں وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے علاقائی و عالمی امن اور خطے کے حالات کے تناظر میں پرمغز باتیں کیں۔ وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں بھارت کو پیغام دیا کہ 5 اگست 2019 کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے جو غیر قانونی اعلانات و اقدامات کیے ان کے پس منظر میں جب تک بھارت خود پہل نہ کرے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوگا۔

بعینہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ ماضی کو دفن کرکے مستقبل کی طرف بڑھیں، مستحکم پاک بھارت تعلقات مشرقی و مغربی ایشیا کو قریب لا سکتے ہیں انھوں نے اس امرکی اہمیت کو اجاگرکیا کہ عالمی طاقتوں کو جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

ادھر امریکی میڈیا کے مطابق جوبائیڈن انتظامیہ کی خصوصی دلچسپی اور دیگر مسلم ممالک کی درپردہ کاوشوں کے باعث پاک بھارت تعلقات کی بحالی ، تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حل اور دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کی امید نظر آرہی ہے۔ اس ضمن میں کشمیرکی کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر 2003 کے سیز فائر معاہدے کے مطابق حالت جنگ ختم کرنے کا اقدام اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ پاک بھارت آبی تنازعات پر دونوں ملکوں کے وفود کی سطح پر ہونے والے حالیہ مذاکرات کو بھی اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔

یوم پاکستان کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے وزیر اعظم عمران کے نام لکھے گئے خط میں ان کی جانب سے یوم پاکستان پر عمران خان اور پوری قوم کو مبارک باد دینا اور پاکستان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش کے اظہار کو قومی و عالمی سطح پر نیک شگون قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ آیندہ چند مہینوں میں پاک بھارت مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی اور کشمیر سمیت دیگر تنازعات دو طرفہ بات چیت سے حل ہونے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔

سوال وہی ہے کہ کیا بھارت پاکستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات میں سنجیدہ ہے؟ کیاکشمیر جیسے بنیادی مسئلے کے حل کے ضمن میں وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے پر آمادہ ہے؟ کیا مودی سرکار 5 اگست کا یکطرفہ اقدام واپس لینے پر راضی ہے؟ گیند بھارت کے کورٹ میں ہے، اسی کو پہل کرنا ہوگی۔
Load Next Story