حسینہ معین اور کنول نصیر
حسینہ معین کے جانے سے قلم اورکنول نصیر کی رحلت سے آواز کی دنیا میں جو خلا پیداہوا ہے وہ اب شائد کبھی پرنہیں ہوسکے گا۔
انسانی زندگی کی بے مائیگی اور موت کی ناقابل فراموش موجودگی کا احساس یوں تو قدم قدم ہم سب کے ساتھ رہتا ہے مگر اس کے باوجود بعض خبریں آپ کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔
اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ چند گھنٹے قبل حسینہ معین اپنے فیس بک پیج پر کنول نصیر کی رحلت کی خبر لگا رہی تھیں اور اس وقت ہزارہا پوسٹوں میں خود اُن کی موت کا ماتم کیا جا رہا ہے۔
ٹی وی چینل کے کسی نمایندے نے جب اُن کے بارے میں میرے تاثرات لینے کے لیے فون کیا تو چند لمحوںکے لیے میری سمجھ میں ہی کچھ نہیں آیا کہ آج تو اُن کے لاہور آنے کی اطلاع تھی اور دو دن قبل ہی فون پر گفتگو کے دوران کراچی آرٹ کونسل کے برادرم ندیم ظفر نے بتایا تھا کہ انھوں نے Covid کا انجکشن لگوا لیا ہے اورآرٹ کونسل کے 23 مارچ کے پروگراموں میں بھی شامل ہوئی ہیں۔
اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ یوں تو گزشتہ تقریباً نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے کہ ہم دونوں پی ٹی وی میں آگے پیچھے ہی داخل ہوئے تھے۔ وہ نہ صرف مجھ سے تین چار برس سینئر تھیں بلکہ ستر کی دہائی میں ٹی وی کے اعتبار سے ایک باقاعدہ ''شخصیت '' کا مقام حاصل کرچکی تھیں جب کہ ہم لوگ ابھی اپنے تعارف کے ابتدائی مرحلوں میں تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے مرزا عظیم بیگ چغتائی کے ایک ناول کی ڈرامائی تشکیل سے انھوں نے اپنے شہرت کے سفر کا آغاز کیا تھا اور پھر واقعی کبھی مڑ کے پیچھے نہیں دیکھا۔
پاکستان کی تاریخ میں آزادی نسواں، Woman Rights اور Faminism کے معیار، مقدار اور اولیت تینوں حوالوں سے وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ جس سلیقے، محبت اور مہارت سے انھوں نے اس کیس کو اپنے ڈراموں کے مختلف کرداروں کی مدد سے آگے بڑھایا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یوں تو ڈرامے کے سبھی پہلوؤں پر اُن کی گرفت بہت مضبوط تھی مگر میرے نزدیک اُن کا سب سے کامیاب اور کارآمد ہتھیار اُن کی مکالمہ نگاری تھی۔
ایسے برجستہ اور بیک وقت دل و دماغ کو چھونے والے رواں دواں مکالمے کہ آج بھی کئی دہائیاں گزرنے کے بعد وہ لوگوں کو اَزبر ہیں۔ ایک دفعہ میں نے ایک بے تکلف محفل میں اُن سے سوال کیا کہ عام زندگی میں وہ نہ صرف بہت کم بولتی ہیں بلکہ اُن کا انداز بھی بہت دھیما ہوتا ہے جب کہ اُن کے ڈراموں کی لڑکیاں چٹڑپٹڑبولتی ہی جاتی ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا اگریہی سوال میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کی نظمیں تو محبت کی مٹھاس اور سرگوشیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں مگر آپ کے ڈراموں میں چوہدری حشمت جیسے کردار اس طرح سر پر چڑھ کر بولتے ہیں کہ اچھا بھلا آدمی سہم جاتا ہے۔
اس پر ہم دونوں ہنس تو دیے مگر یہ سوال اپنی جگہ رہا کہ کس طرح لکھنے و الے اُن کرداروں میں بھی جی لیتے ہیں جو اُن کی طبع سے بالکل موافقت نہیں رکھتے۔ غالباً دوسرے یا تیسرے پی ٹی وی ایوارڈز کی تقریب میں انھیں اور مجھے ایک ساتھ اسٹیج پر بلایا گیا۔ وہاں میں نے اس وقت کی اک تازہ اور بہت مختصر نظم سنائی جو حسینہ کو اس قدر پسند آئی کہ بعد کی اکثر محفلوں میں وہ مجھ سے فرمائش کرکے سنا کرتی تھیں۔ سو مزید بات کرنے سے پہلے میں ایک بار پھر اُن کو وہ نظم سنانا چاہتا ہوں:
تم جس خواب میں آنکھیں کھولو اُس کا رُوپ اَمر
تم جس رنگ کا کپڑا پہنو وہ موسم کا رنگ
تم جس پھول کو ہنس کر دیکھو کبھی نہ وہ مرجھائے
تم جس حرف پر انگلی رکھ دو وہ روشن ہو جائے
انھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ میں باوجود اتنی دوستی اور بے تکلفی کے کبھی اُن سے اس موضوع پر بات نہیں کرسکا کہ میرے نزدیک دوستوں کے ذاتی فیصلے اُن کی امانت ہوتے ہیں اور اُن میں خوامخواہ کی دخل اندازی کے بجائے اُن کا احترام کر نا ہی بہتر ہے۔ وہ گزشتہ بیس پچیس برس سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھیں اور اگرچہ بہت بہادری سے اس کا مقابلہ کر رہی تھیں لیکن اُن کا نرم ونازک اور پہلے سے کمزور وجود اَب واضح طور پر اس سے متاثر نظر آتا تھا، اس کے باوجود سیر اور سفر کا شوق انھیں جگہ جگہ لیے پھرتا تھا۔
کراچی آرٹ کونسل کی وہ بے حد فعال ممبر تھیں اور بقول احمد شاہ ان کی شمولیت کے بعد سے وہ ادب اور ڈرامہ کے پروگراموں سے متعلق ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوگئے تھے کہ اب یہ مورچہ حسینہ معین نے سنبھال لیا تھا۔ اُن سے لاہور کی ایک تقریب میں ہونے والی آخری ملاقات میں شہناز شیخ سے بھی برسوں بعد ملنا ہوا اور ہم تینوں نے اس کے گھر ایک کافی پارٹی کا پروگرام بھی بنایا تھا جو اب کبھی نہ ہوسکے گی کہ زندگی کے اس اسٹیج پر کب کسی کردار کا رول ختم ہو جائے اس کا پتہ اس کے ساتھی کرداروں کو بھی نہیں ہوتا۔
حسینہ نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم کے لیے زندگی بھر لکھا اور ایسا خوب لکھا کہ آج ہم اگر کوئی اُن کا متبادل یا ثانی ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو دُور دُور تک صرف انھی کا نام چمکتا اور دَمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ رب کریم ان کی روح کو اپنی امان میں رکھے۔
کنول نصیر بھی جو حسینہ معین سے چند گھنٹے قبل ہی ''رفتگاں'' کی صف میں شامل ہوئی ہیں، فنون لطیفہ کے میدان کے ساتھ ساتھ میرے ذاتی حلقہ احباب کا ایک روشن اور سینئر ترین نام تھیں۔ اُن کی والدہ موہنی حمید ریڈیو کی دنیا اور تاریخ کا ایک عظیم نام تو تھیں ہی مگر خود کنول نے بھی صداکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری، اینکرنگ اور کسی حد تک تحریر کے شعبوں میں بھی جس طرح سے اپنے آپ کو منوایا ہے، وہ اپنی جگہ پر اَب ایک تاریخ ہے۔
اگرچہ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کے چہرے کی مسکراہٹ کبھی ماند نہیں پڑتی مگر اس فہرست میں بھی کنول نصیر کا ایک اپنا مقام ہے کہ اُس کی مسکراہٹ صرف اس کے ہونٹوں تک ہی محدود نہیں رہتی تھی، اُس میں اس کی آنکھوں سمیت پورا وجود شامل ہوتا تھا جس پر مستزاد اُس کی خوبصورت آواز تھی کہ وہ بھی ایک طرح سے اسی مسکراہٹ کا حصہ ہوتی تھی۔
کنول نے 1964ء میں پی ٹی وی کے آغاز کے موقع پر طارق عزیز مرحوم کے ساتھ مل کر پہلی اناؤنسر ہونے کا شرف تو حاصل کیا ہی تھا مگر بعد کے 57برسوں میں بھی وہ کبھی غیرحاضر نہیں ہوئی۔ پی ٹی وی کی کوئی تقریب اس کی شمولیت کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ وہ اُس دور کی آخری یادگاروں میں سے تھیں جب صحیح زبان کو صحیح تر انداز میں بولنا ایک ذمے داری سمجھا جاتا تھا اور ریڈیو اس کی سب سے بڑی تربیت گاہ تھی۔
صداکاری کنول نصیر کے خون میں بھی شامل تھی مگر جس محنت، محبت اور لگن سے اُس نے اس فن لطیف کی خوبصورتیوں اور پیچیدگیوں پر دسترس حاصل کی، اس کی اب شائد ایک ہی مثال محترمہ یاسمین طاہر کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ میں نے ہر ملاقات میں اُن کو متبسم اور ہر اسٹیج پر ماسٹر آف دی شو کے روپ میں دیکھا ہے۔ اپنے فن اور کام سے ایسی محبت رکھنے و الے لوگ اب بہت کم رہ گئے ہیں کہ محنت کی جگہ چالاکیوں نے لے لی ہے۔ ایسے میں کنول نصیر جیسے بے مثال لوگوں کی ریکارڈنگز یقینا نئے آنے والے فن کاروں کے لیے ایک اسکول کا درجہ رکھتی ہیں کہ جہاں سے انھیں آواز اور آواز سے متعلقہ کمالات کا پتہ چل سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حسینہ معین کے جانے سے قلم اور کنول نصیر کی رحلت سے آواز کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ اب شائد کبھی پرنہیں ہو سکے گا کہ باقی چیزوں کی طرح فنون لطیفہ کی دنیا بھی بہت تیزی سے بدل رہی ہے مگر جہاں تک اس کی تاریخ کا تعلق ہے اس میں یہ دونوں نام بلا شبہ ہمیشہ روشن اور جگمگاتے رہیں گے۔
اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ چند گھنٹے قبل حسینہ معین اپنے فیس بک پیج پر کنول نصیر کی رحلت کی خبر لگا رہی تھیں اور اس وقت ہزارہا پوسٹوں میں خود اُن کی موت کا ماتم کیا جا رہا ہے۔
ٹی وی چینل کے کسی نمایندے نے جب اُن کے بارے میں میرے تاثرات لینے کے لیے فون کیا تو چند لمحوںکے لیے میری سمجھ میں ہی کچھ نہیں آیا کہ آج تو اُن کے لاہور آنے کی اطلاع تھی اور دو دن قبل ہی فون پر گفتگو کے دوران کراچی آرٹ کونسل کے برادرم ندیم ظفر نے بتایا تھا کہ انھوں نے Covid کا انجکشن لگوا لیا ہے اورآرٹ کونسل کے 23 مارچ کے پروگراموں میں بھی شامل ہوئی ہیں۔
اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ یوں تو گزشتہ تقریباً نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے کہ ہم دونوں پی ٹی وی میں آگے پیچھے ہی داخل ہوئے تھے۔ وہ نہ صرف مجھ سے تین چار برس سینئر تھیں بلکہ ستر کی دہائی میں ٹی وی کے اعتبار سے ایک باقاعدہ ''شخصیت '' کا مقام حاصل کرچکی تھیں جب کہ ہم لوگ ابھی اپنے تعارف کے ابتدائی مرحلوں میں تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے مرزا عظیم بیگ چغتائی کے ایک ناول کی ڈرامائی تشکیل سے انھوں نے اپنے شہرت کے سفر کا آغاز کیا تھا اور پھر واقعی کبھی مڑ کے پیچھے نہیں دیکھا۔
پاکستان کی تاریخ میں آزادی نسواں، Woman Rights اور Faminism کے معیار، مقدار اور اولیت تینوں حوالوں سے وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ جس سلیقے، محبت اور مہارت سے انھوں نے اس کیس کو اپنے ڈراموں کے مختلف کرداروں کی مدد سے آگے بڑھایا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یوں تو ڈرامے کے سبھی پہلوؤں پر اُن کی گرفت بہت مضبوط تھی مگر میرے نزدیک اُن کا سب سے کامیاب اور کارآمد ہتھیار اُن کی مکالمہ نگاری تھی۔
ایسے برجستہ اور بیک وقت دل و دماغ کو چھونے والے رواں دواں مکالمے کہ آج بھی کئی دہائیاں گزرنے کے بعد وہ لوگوں کو اَزبر ہیں۔ ایک دفعہ میں نے ایک بے تکلف محفل میں اُن سے سوال کیا کہ عام زندگی میں وہ نہ صرف بہت کم بولتی ہیں بلکہ اُن کا انداز بھی بہت دھیما ہوتا ہے جب کہ اُن کے ڈراموں کی لڑکیاں چٹڑپٹڑبولتی ہی جاتی ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا اگریہی سوال میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کی نظمیں تو محبت کی مٹھاس اور سرگوشیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں مگر آپ کے ڈراموں میں چوہدری حشمت جیسے کردار اس طرح سر پر چڑھ کر بولتے ہیں کہ اچھا بھلا آدمی سہم جاتا ہے۔
اس پر ہم دونوں ہنس تو دیے مگر یہ سوال اپنی جگہ رہا کہ کس طرح لکھنے و الے اُن کرداروں میں بھی جی لیتے ہیں جو اُن کی طبع سے بالکل موافقت نہیں رکھتے۔ غالباً دوسرے یا تیسرے پی ٹی وی ایوارڈز کی تقریب میں انھیں اور مجھے ایک ساتھ اسٹیج پر بلایا گیا۔ وہاں میں نے اس وقت کی اک تازہ اور بہت مختصر نظم سنائی جو حسینہ کو اس قدر پسند آئی کہ بعد کی اکثر محفلوں میں وہ مجھ سے فرمائش کرکے سنا کرتی تھیں۔ سو مزید بات کرنے سے پہلے میں ایک بار پھر اُن کو وہ نظم سنانا چاہتا ہوں:
تم جس خواب میں آنکھیں کھولو اُس کا رُوپ اَمر
تم جس رنگ کا کپڑا پہنو وہ موسم کا رنگ
تم جس پھول کو ہنس کر دیکھو کبھی نہ وہ مرجھائے
تم جس حرف پر انگلی رکھ دو وہ روشن ہو جائے
انھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ میں باوجود اتنی دوستی اور بے تکلفی کے کبھی اُن سے اس موضوع پر بات نہیں کرسکا کہ میرے نزدیک دوستوں کے ذاتی فیصلے اُن کی امانت ہوتے ہیں اور اُن میں خوامخواہ کی دخل اندازی کے بجائے اُن کا احترام کر نا ہی بہتر ہے۔ وہ گزشتہ بیس پچیس برس سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھیں اور اگرچہ بہت بہادری سے اس کا مقابلہ کر رہی تھیں لیکن اُن کا نرم ونازک اور پہلے سے کمزور وجود اَب واضح طور پر اس سے متاثر نظر آتا تھا، اس کے باوجود سیر اور سفر کا شوق انھیں جگہ جگہ لیے پھرتا تھا۔
کراچی آرٹ کونسل کی وہ بے حد فعال ممبر تھیں اور بقول احمد شاہ ان کی شمولیت کے بعد سے وہ ادب اور ڈرامہ کے پروگراموں سے متعلق ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوگئے تھے کہ اب یہ مورچہ حسینہ معین نے سنبھال لیا تھا۔ اُن سے لاہور کی ایک تقریب میں ہونے والی آخری ملاقات میں شہناز شیخ سے بھی برسوں بعد ملنا ہوا اور ہم تینوں نے اس کے گھر ایک کافی پارٹی کا پروگرام بھی بنایا تھا جو اب کبھی نہ ہوسکے گی کہ زندگی کے اس اسٹیج پر کب کسی کردار کا رول ختم ہو جائے اس کا پتہ اس کے ساتھی کرداروں کو بھی نہیں ہوتا۔
حسینہ نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم کے لیے زندگی بھر لکھا اور ایسا خوب لکھا کہ آج ہم اگر کوئی اُن کا متبادل یا ثانی ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو دُور دُور تک صرف انھی کا نام چمکتا اور دَمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ رب کریم ان کی روح کو اپنی امان میں رکھے۔
کنول نصیر بھی جو حسینہ معین سے چند گھنٹے قبل ہی ''رفتگاں'' کی صف میں شامل ہوئی ہیں، فنون لطیفہ کے میدان کے ساتھ ساتھ میرے ذاتی حلقہ احباب کا ایک روشن اور سینئر ترین نام تھیں۔ اُن کی والدہ موہنی حمید ریڈیو کی دنیا اور تاریخ کا ایک عظیم نام تو تھیں ہی مگر خود کنول نے بھی صداکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری، اینکرنگ اور کسی حد تک تحریر کے شعبوں میں بھی جس طرح سے اپنے آپ کو منوایا ہے، وہ اپنی جگہ پر اَب ایک تاریخ ہے۔
اگرچہ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کے چہرے کی مسکراہٹ کبھی ماند نہیں پڑتی مگر اس فہرست میں بھی کنول نصیر کا ایک اپنا مقام ہے کہ اُس کی مسکراہٹ صرف اس کے ہونٹوں تک ہی محدود نہیں رہتی تھی، اُس میں اس کی آنکھوں سمیت پورا وجود شامل ہوتا تھا جس پر مستزاد اُس کی خوبصورت آواز تھی کہ وہ بھی ایک طرح سے اسی مسکراہٹ کا حصہ ہوتی تھی۔
کنول نے 1964ء میں پی ٹی وی کے آغاز کے موقع پر طارق عزیز مرحوم کے ساتھ مل کر پہلی اناؤنسر ہونے کا شرف تو حاصل کیا ہی تھا مگر بعد کے 57برسوں میں بھی وہ کبھی غیرحاضر نہیں ہوئی۔ پی ٹی وی کی کوئی تقریب اس کی شمولیت کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ وہ اُس دور کی آخری یادگاروں میں سے تھیں جب صحیح زبان کو صحیح تر انداز میں بولنا ایک ذمے داری سمجھا جاتا تھا اور ریڈیو اس کی سب سے بڑی تربیت گاہ تھی۔
صداکاری کنول نصیر کے خون میں بھی شامل تھی مگر جس محنت، محبت اور لگن سے اُس نے اس فن لطیف کی خوبصورتیوں اور پیچیدگیوں پر دسترس حاصل کی، اس کی اب شائد ایک ہی مثال محترمہ یاسمین طاہر کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ میں نے ہر ملاقات میں اُن کو متبسم اور ہر اسٹیج پر ماسٹر آف دی شو کے روپ میں دیکھا ہے۔ اپنے فن اور کام سے ایسی محبت رکھنے و الے لوگ اب بہت کم رہ گئے ہیں کہ محنت کی جگہ چالاکیوں نے لے لی ہے۔ ایسے میں کنول نصیر جیسے بے مثال لوگوں کی ریکارڈنگز یقینا نئے آنے والے فن کاروں کے لیے ایک اسکول کا درجہ رکھتی ہیں کہ جہاں سے انھیں آواز اور آواز سے متعلقہ کمالات کا پتہ چل سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حسینہ معین کے جانے سے قلم اور کنول نصیر کی رحلت سے آواز کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ اب شائد کبھی پرنہیں ہو سکے گا کہ باقی چیزوں کی طرح فنون لطیفہ کی دنیا بھی بہت تیزی سے بدل رہی ہے مگر جہاں تک اس کی تاریخ کا تعلق ہے اس میں یہ دونوں نام بلا شبہ ہمیشہ روشن اور جگمگاتے رہیں گے۔