ایک مخلص آدمی
جماعت اسلامی ایک روایت کو جنم دے رہی ہے، اپنے ہر جنرل سیکریٹری کو نیا امیر بنانے کی روایت۔۔۔
6 جنوری قاضی حسین احمد کا یوم وفات ہے۔ 2013 کے پہلے مہینے کے ابتدائی دنوں میں وہ اس جہاں سے دوسرے جہاں تشریف لے گئے۔ اس سے صرف دس بارہ روز قبل پروفیسر غفور احمد کا انتقال ہوا تھا۔ دو ہفتوں میں دو اہم شخصیات کا دنیاوی منظر نامے سے ہٹ جانا المیہ تھا۔ یہ صرف جماعت کا نہیں بلکہ پاکستان کا نقصان تھا۔ شاید کہ مخلص شخصیات اپنے حصے کا کام کر گزرتی ہیں تو قدرت کا بلاوا آ جاتا ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ کاش وہ کچھ دیر اور ٹھہر جاتے۔
قاضی حسین احمد ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد کا نام تھا۔ انھوں نے جماعت اسلامی کو عوام کے درمیان رہنے کا درس دیا۔ ان کے اس انداز کو مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی کے علاوہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن نے بھی پسند کیا۔ وہ تمام قاضی صاحب کی صلاحیت اور خلوص کے قائل تھے۔ انھوں نے اپنے سے قبل رہنماؤں کے دھیمے انداز سے ہٹ کر سیاست میں پرجوش انداز اختیار کیا۔ جماعت کے کارکنان نے ان کے اس طریقے کو پسند کیا۔ ''پلٹنا جھپٹنا' جھپٹ کر پلٹنا'' ۔ وہ اشعار اقبال کی عملی تفسیر تھے اور لہو گرم رکھنے کے قائل بھی۔ قاضی حسین رکنے، ٹھہرنے، تھم جانے اور جم جانے کا نام نہیں تھا۔ انھوں نے بیماری کے دنوں میں بھی اپنے آپ کو متحرک رکھا اور دل کے آپریشن کے بعد بھی آرام کو اپنے اوپر حرام قرار دیا۔ آج وہ ہم میں نہیں لیکن ان کی شخصیت، ان کا انداز، ان کی فکر، ان کی صلاحیت، ان کا خلوص اور ان کا درد پاکستان کی سیاست ہمیشہ محسوس کرتی رہے گی۔ جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھی جائے گی، ان میں پارٹیوں کا ذکر ہوگا، ان کے قائدین کا تذکرہ ہوگا تو اس میں قاضی صاحب کا نام سرفہرست ہوگا۔
قاضی حسین احمد نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی جو حیدر آباد دکن کے مولانا مودودی نے قائم کی تھی۔ مشرقی پنجاب میں پیدا ہونے والے میاں طفیل سے انھیں یہ منصب ملا۔ وہ خود چارسدہ کے پختون تھے اور جب گئے تو امارت کی ذمے داریاں ہندوستان سے کراچی میں ہجرت کرنے والے منور حسن کو دے کر گئے۔ یہ سب کچھ ایک انتخابی نظام اور ایک الیکٹرل کالج کے تحت ہوا۔ کسی نے کسی پر احسان نہ کیا بلکہ دستور کی پاسداری نبھائی۔ نہ کہیں وراثت کا داغ نظر آیا اور نہ کہیں عہدے کے حصول کی خواہش کا دھبہ۔ نہ کہیں پروپیگنڈے و پبلسٹی کا نشان دکھائی دیا اور نہ کنوینسنگ کے لیے ہوتی کوئی میٹنگ کہیں نظر آئی۔
87 میں جماعت کے امیر بننے سے قبل قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل تھے۔ اس سے قبل وہ پشاور کے امیر رہے۔ یہ وہ دور تھا جب سوویت روس کی افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے خطہ جنگ زدہ ہوگیا تھا۔ قاضی صاحب پختون ہونے کے سبب افغان مجاہدین سے رابطے کے لیے کسی اور کے رابطے کے محتاج نہ تھے۔ پاکستان کی راہداری، افغانوں کے جذبے، سعودی عرب کے ریال اور امریکی اسلحے نے قابض فوجوں کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ اس سارے عمل میں جماعت پیش پیش تھی۔ اس عشرے میں قاضی صاحب کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آگئیں۔
جماعت اسلامی ایک روایت کو جنم دے رہی ہے، اپنے ہر جنرل سیکریٹری کو نیا امیر بنانے کی روایت۔ میاں طفیل اور قاضی حسین کے بعد منور حسن بھی اس عہدے کے بعد منتخب کیے گئے۔ قاضی حسین احمد اسی روایت کے تحت سیکریٹری سے امیر منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی میں ایم کیو ایم ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ کراچی و حیدرآباد میں اس کے میئرز بلا مقابلہ منتخب ہوچکے تھے۔ شہر قائد کی قتل و غارت گری اور قوم پرستی دیکھ کر قاضی حسین نے ''کاروان امن و محبت'' ترتیب دیا۔ جب فرقہ واریت کا سیلاب دکھائی دیا تو ''ملی یکجہتی کونسل'' تشکیل دی۔ علاقائیت اور تنگ نظری کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جب بھی ذکر ہوگا، مورخ قاضی حسین احمد کے ان دو کاموں کے اخلاص کو سرفہرست رکھے گا۔ جب بھی پاکستان میں یکجہتی کی بات ہوگی تو قاضی صاحب کے کارواں اور کونسل سب کو یاد آئیں گے۔
اسلامی جمہوری اتحاد کا تذکرہ کیے بغیر ہم قاضی حسین احمد کی زندگی کا تذکرہ مکمل نہیں کرسکتے۔ 88 کے انتخابات میں مرکز میں پیپلز پارٹی نے تو پنجاب میں آئی جے آئی نے حکومتیں تشکیل دیں۔ نوے کے الیکشن میں اس اتحاد نے دو تہائی اکثریت سے حکومت تشکیل دی۔ بعد کے مرحلوں میں ولی خان اور الطاف حسین کو حکومت میں شامل کرنے پر قاضی حسین اور نواز شریف میں اختلاف پیدا ہوا۔ 93 کے انتخابات تک راستے جدا ہوچکے تھے۔ ''پاکستان اسلامک فرنٹ'' کو جماعت کا سیاسی ونگ بناکر انتخابی میدان میں اتارا گیا۔ اسی طرح کا انداز بعد میں مصر کی ''اخوان المسلمون'' نے بھی اختیار کیا۔ اس رنگ و نور کے عوامی انداز کو جماعت کی ایک تعداد نے ناپسند کیا تو قاضی حسین نے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اراکین کی اکثریت نے اپنے اس قائد پر ایک بار پھر اعتماد کا اظہار کیا۔
متحدہ مجلس عمل کا دور قاضی صاحب کی سیاسی کامیابیوں کا عروج تھا۔ سرحد و بلوچستان میں حکومتیں اور ساٹھ سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی کا ایم ایم اے کے نشان پر منتخب ہونا، جماعت کے پانچ درجن سے زیادہ اراکین کا قومی و صوبائی اسمبلیوں و سینیٹ میں موجود ہونا جماعت کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کا 17 ویں ترمیم کے وعدے وفا نہ کرنے کے بعد دوبارہ صدر کے انتخابات پر قاضی حسین اور مولانا فضل الرحمن میں اختلاف ہوگیا۔ بائیس سال امیر جماعت رہنے کے بعد قاضی صاحب نے 2009 میں آیندہ ذمے داریوں سے معذرت چاہی۔ اب منور حسن جماعت کے امیر تھے۔ ان کی اور فضل الرحمن کی کیمسٹری نہ ملنے کے سبب مجلس عمل کی بحالی اور ''بے حالی'' پر بحث ہوتی رہی۔ قاضی حسین احمد مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے علمبردار تھے کہ اس سبب فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہتی ہے۔ تمام خواہشیں کس کی بر آتی ہیں۔ سب کو اس دنیا سے اپنے ادھورے خواب چھوڑ کر جانا ہوتا ہے۔ قاضی حسین بھی چلے گئے کہ سب کو چلے جانا ہے۔ کالم نگار عیسوی سال کے پہلے ہفتے میں قاضی حسین کو یاد رکھیں گے جب کہ مورخ طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی انھیں پاکستانی سیاست کے ایک دردمند انسان کے طور پر یاد رکھے گا۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ 2013 کے پہلے ہفتے میں ہم سے رخصت ہوا تھا ایک مخلص آدمی۔
قاضی حسین احمد ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد کا نام تھا۔ انھوں نے جماعت اسلامی کو عوام کے درمیان رہنے کا درس دیا۔ ان کے اس انداز کو مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی کے علاوہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن نے بھی پسند کیا۔ وہ تمام قاضی صاحب کی صلاحیت اور خلوص کے قائل تھے۔ انھوں نے اپنے سے قبل رہنماؤں کے دھیمے انداز سے ہٹ کر سیاست میں پرجوش انداز اختیار کیا۔ جماعت کے کارکنان نے ان کے اس طریقے کو پسند کیا۔ ''پلٹنا جھپٹنا' جھپٹ کر پلٹنا'' ۔ وہ اشعار اقبال کی عملی تفسیر تھے اور لہو گرم رکھنے کے قائل بھی۔ قاضی حسین رکنے، ٹھہرنے، تھم جانے اور جم جانے کا نام نہیں تھا۔ انھوں نے بیماری کے دنوں میں بھی اپنے آپ کو متحرک رکھا اور دل کے آپریشن کے بعد بھی آرام کو اپنے اوپر حرام قرار دیا۔ آج وہ ہم میں نہیں لیکن ان کی شخصیت، ان کا انداز، ان کی فکر، ان کی صلاحیت، ان کا خلوص اور ان کا درد پاکستان کی سیاست ہمیشہ محسوس کرتی رہے گی۔ جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھی جائے گی، ان میں پارٹیوں کا ذکر ہوگا، ان کے قائدین کا تذکرہ ہوگا تو اس میں قاضی صاحب کا نام سرفہرست ہوگا۔
قاضی حسین احمد نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی جو حیدر آباد دکن کے مولانا مودودی نے قائم کی تھی۔ مشرقی پنجاب میں پیدا ہونے والے میاں طفیل سے انھیں یہ منصب ملا۔ وہ خود چارسدہ کے پختون تھے اور جب گئے تو امارت کی ذمے داریاں ہندوستان سے کراچی میں ہجرت کرنے والے منور حسن کو دے کر گئے۔ یہ سب کچھ ایک انتخابی نظام اور ایک الیکٹرل کالج کے تحت ہوا۔ کسی نے کسی پر احسان نہ کیا بلکہ دستور کی پاسداری نبھائی۔ نہ کہیں وراثت کا داغ نظر آیا اور نہ کہیں عہدے کے حصول کی خواہش کا دھبہ۔ نہ کہیں پروپیگنڈے و پبلسٹی کا نشان دکھائی دیا اور نہ کنوینسنگ کے لیے ہوتی کوئی میٹنگ کہیں نظر آئی۔
87 میں جماعت کے امیر بننے سے قبل قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل تھے۔ اس سے قبل وہ پشاور کے امیر رہے۔ یہ وہ دور تھا جب سوویت روس کی افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے خطہ جنگ زدہ ہوگیا تھا۔ قاضی صاحب پختون ہونے کے سبب افغان مجاہدین سے رابطے کے لیے کسی اور کے رابطے کے محتاج نہ تھے۔ پاکستان کی راہداری، افغانوں کے جذبے، سعودی عرب کے ریال اور امریکی اسلحے نے قابض فوجوں کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ اس سارے عمل میں جماعت پیش پیش تھی۔ اس عشرے میں قاضی صاحب کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آگئیں۔
جماعت اسلامی ایک روایت کو جنم دے رہی ہے، اپنے ہر جنرل سیکریٹری کو نیا امیر بنانے کی روایت۔ میاں طفیل اور قاضی حسین کے بعد منور حسن بھی اس عہدے کے بعد منتخب کیے گئے۔ قاضی حسین احمد اسی روایت کے تحت سیکریٹری سے امیر منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی میں ایم کیو ایم ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ کراچی و حیدرآباد میں اس کے میئرز بلا مقابلہ منتخب ہوچکے تھے۔ شہر قائد کی قتل و غارت گری اور قوم پرستی دیکھ کر قاضی حسین نے ''کاروان امن و محبت'' ترتیب دیا۔ جب فرقہ واریت کا سیلاب دکھائی دیا تو ''ملی یکجہتی کونسل'' تشکیل دی۔ علاقائیت اور تنگ نظری کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جب بھی ذکر ہوگا، مورخ قاضی حسین احمد کے ان دو کاموں کے اخلاص کو سرفہرست رکھے گا۔ جب بھی پاکستان میں یکجہتی کی بات ہوگی تو قاضی صاحب کے کارواں اور کونسل سب کو یاد آئیں گے۔
اسلامی جمہوری اتحاد کا تذکرہ کیے بغیر ہم قاضی حسین احمد کی زندگی کا تذکرہ مکمل نہیں کرسکتے۔ 88 کے انتخابات میں مرکز میں پیپلز پارٹی نے تو پنجاب میں آئی جے آئی نے حکومتیں تشکیل دیں۔ نوے کے الیکشن میں اس اتحاد نے دو تہائی اکثریت سے حکومت تشکیل دی۔ بعد کے مرحلوں میں ولی خان اور الطاف حسین کو حکومت میں شامل کرنے پر قاضی حسین اور نواز شریف میں اختلاف پیدا ہوا۔ 93 کے انتخابات تک راستے جدا ہوچکے تھے۔ ''پاکستان اسلامک فرنٹ'' کو جماعت کا سیاسی ونگ بناکر انتخابی میدان میں اتارا گیا۔ اسی طرح کا انداز بعد میں مصر کی ''اخوان المسلمون'' نے بھی اختیار کیا۔ اس رنگ و نور کے عوامی انداز کو جماعت کی ایک تعداد نے ناپسند کیا تو قاضی حسین نے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اراکین کی اکثریت نے اپنے اس قائد پر ایک بار پھر اعتماد کا اظہار کیا۔
متحدہ مجلس عمل کا دور قاضی صاحب کی سیاسی کامیابیوں کا عروج تھا۔ سرحد و بلوچستان میں حکومتیں اور ساٹھ سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی کا ایم ایم اے کے نشان پر منتخب ہونا، جماعت کے پانچ درجن سے زیادہ اراکین کا قومی و صوبائی اسمبلیوں و سینیٹ میں موجود ہونا جماعت کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کا 17 ویں ترمیم کے وعدے وفا نہ کرنے کے بعد دوبارہ صدر کے انتخابات پر قاضی حسین اور مولانا فضل الرحمن میں اختلاف ہوگیا۔ بائیس سال امیر جماعت رہنے کے بعد قاضی صاحب نے 2009 میں آیندہ ذمے داریوں سے معذرت چاہی۔ اب منور حسن جماعت کے امیر تھے۔ ان کی اور فضل الرحمن کی کیمسٹری نہ ملنے کے سبب مجلس عمل کی بحالی اور ''بے حالی'' پر بحث ہوتی رہی۔ قاضی حسین احمد مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے علمبردار تھے کہ اس سبب فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہتی ہے۔ تمام خواہشیں کس کی بر آتی ہیں۔ سب کو اس دنیا سے اپنے ادھورے خواب چھوڑ کر جانا ہوتا ہے۔ قاضی حسین بھی چلے گئے کہ سب کو چلے جانا ہے۔ کالم نگار عیسوی سال کے پہلے ہفتے میں قاضی حسین کو یاد رکھیں گے جب کہ مورخ طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی انھیں پاکستانی سیاست کے ایک دردمند انسان کے طور پر یاد رکھے گا۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ 2013 کے پہلے ہفتے میں ہم سے رخصت ہوا تھا ایک مخلص آدمی۔