جانشین کون
امریکا اور بھارت ہمارے ’’دشمن‘‘ ہیں، ہمیں دونوں کیخلاف جہاد پراکسایا جاتا ہے لیکن دونوں دشمنوں سے کیسے جیت سکتے ہیں؟
ROME:
حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں اسلامی لشکر نے جب بیت المقدس (یروشلم) کا محاصرہ کرلیا تو محصورین شہر نے اس شرط پر ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ شہر کے دروازے کی چابی مسلمانوں کے سربراہ، بادشاہ یا امیر کے حوالے کریں گے۔ یہ تجویز امیرالمومنین حضرت عمرؓ تک پہنچائی گئی تو حضرت عمرؓ نے خون خرابے سے بچنے کی خاطر محصورین شہر کی یہ شرط تسلیم کرلی اور بیت المقدس روانگی کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ اس سفر میں ان کے ہمراہ ایک غلام اور سواری کے لیے صرف ایک اونٹ شامل تھا۔ دوران سفر یہ طے کیا گیا کہ کچھ فاصلے تک حضرت عمرؓ اونٹ پر سوار ہوں گے اور غلام اونٹ کی رسی پکڑ کر پیدل چلے گا اور پھر اتنے ہی فاصلے تک غلام اونٹ پر سواری کرے گا اور امیرالمومنین اونٹ کی رسی تھام کر پیدل اونٹ کے آگے چلیں گے۔ اسی طرح باری باری آقا و غلام اپنی پوزیشن بدلتے ہوئے بیت المقدس کے قریب پہنچ گئے ۔
محصورین شہر بڑی بے چینی کے ساتھ مسلمانوں کے اس بادشاہ کا انتظار کر رہے تھے، جس کی انگلی کے ایک اشارے پر اس وقت کی دنیا زیر و زبر ہورہی تھی، دنیا کا جغرافیہ تیزی سے تبدیل ہورہا تھا اور سپر پاورز پر لرزہ طاری تھا۔ وہ توقع کررہے تھے کہ مسلمانوں کا بادشاہ بہت بڑے پروٹوکول کے ساتھ، بینڈ باجا بجاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے گا۔ اس کے اردگرد خدام اور درباریوں کا ایک جم غفیر موجود ہوگا، ہٹو بچو کے فلک شگاف نعرے بلند ہورہے ہوں گے، کیونکہ وہ بہرحال ایک فاتح قوم کا بادشاہ ہوگا۔ لیکن وہ اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب انھوں نے صرف ایک اونٹ کو اپنی طرف آتے دیکھا اور مسلمانوں کے لشکر میں یہ شور مچا کہ ''امیرالمومنین آگئے''۔ وہ اونٹ پر سوار شخص کی پیشوائی کو دوڑے اور اس وقت انھیں حیرت کا ایک اور شدید جھٹکا لگا، جب انھیں یہ بتایا گیا کہ امیرالمومنین اونٹ پر سوار شخص نہیں ہے بلکہ وہ شخص ہے جو سادہ سا لباس پہنے اونٹ کی رسی تھام کر پیدل چل رہا ہے۔ ہوا دراصل یہ تھا کہ جب شہر کے دروازے تک امیر المومنین پہنچے تو اونٹ پر سوار ہونے کی باری غلام کی تھی۔
محصورین نے امیرالمومنین کو ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کی شخصیت میں موجود رعب و دبدبے کے اس ہالے سے پہچانا جو نظر تو نہیں آتا تھا لیکن بڑی شدت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلاتا تھا۔ اور یہی ہالا کسی بھی کامیاب حکمران کا پروٹوکول ہوا کرتا ہے۔ محصورین شہر نے حیرت اور استعجاب کے عالم میں شہر کی چابی امیرالمومنین کے حوالے کی اور یوں بیت المقدس بغیر کسی خون خرابے کے فتح ہوگیا۔ بعد کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے۔ فی الحال ہمارا موضوع حکمرانوں کو ملنے والا پروٹوکول اور ان کی ''سادگی'' ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ بیت المال یعنی عوام کے پیسے کی حرمت اور اس کی نگہبانی کس طرح کی جاتی ہے؟ حضرت عمرؓ چاہتے تو سواری کے لیے ایک کی جگہ دو عدد اونٹ بھی لے سکتے تھے، بیت المال میں اونٹوں کی کمی نہ تھی لیکن وہ جانتے تھے یہ دوسرا اونٹ اسراف کے زمرے میں شمار ہوگا، کیونکہ جب ایک اونٹ سے کام چل سکتا ہے تو پھر دوسرے اونٹ کا بوجھ سرکاری خزانے پر ڈالنا رعایا کے ساتھ زیادتی ہوگی اور یہ امانت میں خیانت بھی کہلائی جاسکتی ہے۔
یہ تھا سرکاری پروٹوکول اور بیت المال کے بارے میں ہمارے اسلاف کا عملی نقطہ نظر، جس کا عملی مظاہرہ حضرت عمرؓ سے قبل خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد ان کے جانشینوں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے بارہا پیش کیا۔ چار میں سے تین خلفائے راشدین قاتلانہ حملوں میں شہید ہوئے۔ انھیں کہا گیا کہ وہ سیکیورٹی لے لیں، محافظین کے جھرمٹ میں رہا کریں۔ لیکن تینوں خلفاء نے یہ تجویز مسترد کردی اور عام آدمی سے دوری اختیار نہیں کی۔ سیدھی سی بات ہے، جسے جان کا خوف ہو وہ امارت کا یہ بار نہ اٹھائے۔
ہمارے اجداد نے بہترین حکمرانی کی جو مثالیں ہمارے لیے چھوڑی تھیں ان سے آج تک یہود و نصاریٰ اور ''مشرکین'' فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان کی امارت کا علم پوری دنیا پر لہرا رہا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے امارت سنبھالتے ہی اپنا ذاتی کاروبار بند کردیا تھا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی ذاتی فیکٹریاں، ان کے برسراقتدار آتے ہی انڈے بچے دینے لگتی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے بیت المال سے خلیفہ کی تنخواہ صرف اتنی ہی مقرر فرمائی تھی جتنی اس زمانے میں مدینے کے ایک مزدور کی دہاڑی تھی۔ ان سے کہا گیا کہ ''ان پیسوں میں آپ کا گزارا کیسے ہوگا؟'' اس سوال کا آپ نے جو جواب دیا، اس جواب میں پوری اسلامی معیشت کا نچوڑ رچا بسا ہوا تھا ''فرمایا میرا گزارا نہیں ہوا تو میں مزدور کی دہاڑی بڑھا دوں گا، میرا معاوضہ خود بخود بڑھ جائے گا۔''
آج امریکا کے ایک مزدور کی دہاڑی اتنی ہے کہ وہ روٹی، کپڑا، چھت اور تفریح کے مصارف باآسانی برداشت کرسکے۔ صدر بش صدارت کا حلف اٹھاتے ہی اپنے آئل بزنس سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ صدر کلنٹن آٹھ سال کی صدارت کے بعد اپنے ذاتی مکان کے لیے قرض یا لون کی درخواستیں لے کر گھومتا نظر آتا ہے۔ ہمارے اسلاف یہ اصول طے کرگئے کہ تاجر اور فوجی کا حکومتی امور سے کوئی لینا دینا نہ ہوگا، اور فوج پر سول حکومت کو بالادستی حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ عین حالت جنگ میں حضرت عمرؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ کو جو کہ اسلامی افواج کے کمانڈر انچیف تھے معزول کرتے ہیں تو خالد بن ولیدؓ سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ آج اوباما افغانستان میں موجود اپنی فوج کے ایک جنرل کو پالیسی بیان دینے کی پاداش میں واشنگٹن طلب کرکے برطرف کردیتا ہے، لیکن فوج کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا جب کہ نواز شریف کو اکتوبر 99 میں جنرل پرویز مشرف کو معزول کرنے کے جرم میں قید تنہائی کاٹنے کے لیے اٹک قلعے میں پہنچادیا جاتا ہے۔
اور اب ایک نئی ''افتاد'' ہمارے حکمرانوں پر آپڑی ہے اور وہ ہے ہمارے پڑوس کے ''مشرکین'' میں ایک نئی پارٹی کا ابھرنا جس کا نام ''عام آدمی پارٹی'' ہے، جس نے دہلی میں برسراقتدار آنے کے دوسر ے ہی دن چار سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے عوام کے لیے بجلی کی قیمت آدھی کردی ہے اور پانی مفت کردیا ہے۔ آج اس کے وزیراعلیٰ نے سرکاری رہائش گاہ لینے سے انکار کردیا ہے۔ باہر نکلنے سے قبل ہی عام آدمی کے لیے سڑکیں بند کردینے والے حکمران سن لیں کہ عام آدمی پارٹی کے اثرات یہاں کے عام آدمی تک لازمی پہنچیں گے اور یہ لہر رکنے والی نہیں ہے۔ میڈیا ایک ایک لمحہ کی خبر دیتا ہے اور دے رہا ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں ہمارے ''دشمن'' ہیں، ہمیں دونوں کے خلاف جہاد پر اکسایا جاتا ہے، لیکن ہم ان دونوں دشمنوں سے کیسے جیت سکتے ہیں؟ جب کہ انھوں نے ہمارے اجداد کی طرز حکمرانی اپنا رکھی ہو؟ اسی طرز حکمرانی اور داخلی مضبوطی کے باعث ہمارے اجداد دنیا پر حکمرانی کرگئے اور ناقابل شکست ٹھہرے تو ہمارے یہ دو بڑے ''دشمن'' ہمارے اجداد کی پیروی کر کے ہم سے کس طرح شکست کھا سکتے ہیں؟ ذرا سوچیے۔
حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں اسلامی لشکر نے جب بیت المقدس (یروشلم) کا محاصرہ کرلیا تو محصورین شہر نے اس شرط پر ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ شہر کے دروازے کی چابی مسلمانوں کے سربراہ، بادشاہ یا امیر کے حوالے کریں گے۔ یہ تجویز امیرالمومنین حضرت عمرؓ تک پہنچائی گئی تو حضرت عمرؓ نے خون خرابے سے بچنے کی خاطر محصورین شہر کی یہ شرط تسلیم کرلی اور بیت المقدس روانگی کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ اس سفر میں ان کے ہمراہ ایک غلام اور سواری کے لیے صرف ایک اونٹ شامل تھا۔ دوران سفر یہ طے کیا گیا کہ کچھ فاصلے تک حضرت عمرؓ اونٹ پر سوار ہوں گے اور غلام اونٹ کی رسی پکڑ کر پیدل چلے گا اور پھر اتنے ہی فاصلے تک غلام اونٹ پر سواری کرے گا اور امیرالمومنین اونٹ کی رسی تھام کر پیدل اونٹ کے آگے چلیں گے۔ اسی طرح باری باری آقا و غلام اپنی پوزیشن بدلتے ہوئے بیت المقدس کے قریب پہنچ گئے ۔
محصورین شہر بڑی بے چینی کے ساتھ مسلمانوں کے اس بادشاہ کا انتظار کر رہے تھے، جس کی انگلی کے ایک اشارے پر اس وقت کی دنیا زیر و زبر ہورہی تھی، دنیا کا جغرافیہ تیزی سے تبدیل ہورہا تھا اور سپر پاورز پر لرزہ طاری تھا۔ وہ توقع کررہے تھے کہ مسلمانوں کا بادشاہ بہت بڑے پروٹوکول کے ساتھ، بینڈ باجا بجاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے گا۔ اس کے اردگرد خدام اور درباریوں کا ایک جم غفیر موجود ہوگا، ہٹو بچو کے فلک شگاف نعرے بلند ہورہے ہوں گے، کیونکہ وہ بہرحال ایک فاتح قوم کا بادشاہ ہوگا۔ لیکن وہ اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب انھوں نے صرف ایک اونٹ کو اپنی طرف آتے دیکھا اور مسلمانوں کے لشکر میں یہ شور مچا کہ ''امیرالمومنین آگئے''۔ وہ اونٹ پر سوار شخص کی پیشوائی کو دوڑے اور اس وقت انھیں حیرت کا ایک اور شدید جھٹکا لگا، جب انھیں یہ بتایا گیا کہ امیرالمومنین اونٹ پر سوار شخص نہیں ہے بلکہ وہ شخص ہے جو سادہ سا لباس پہنے اونٹ کی رسی تھام کر پیدل چل رہا ہے۔ ہوا دراصل یہ تھا کہ جب شہر کے دروازے تک امیر المومنین پہنچے تو اونٹ پر سوار ہونے کی باری غلام کی تھی۔
محصورین نے امیرالمومنین کو ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کی شخصیت میں موجود رعب و دبدبے کے اس ہالے سے پہچانا جو نظر تو نہیں آتا تھا لیکن بڑی شدت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلاتا تھا۔ اور یہی ہالا کسی بھی کامیاب حکمران کا پروٹوکول ہوا کرتا ہے۔ محصورین شہر نے حیرت اور استعجاب کے عالم میں شہر کی چابی امیرالمومنین کے حوالے کی اور یوں بیت المقدس بغیر کسی خون خرابے کے فتح ہوگیا۔ بعد کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے۔ فی الحال ہمارا موضوع حکمرانوں کو ملنے والا پروٹوکول اور ان کی ''سادگی'' ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ بیت المال یعنی عوام کے پیسے کی حرمت اور اس کی نگہبانی کس طرح کی جاتی ہے؟ حضرت عمرؓ چاہتے تو سواری کے لیے ایک کی جگہ دو عدد اونٹ بھی لے سکتے تھے، بیت المال میں اونٹوں کی کمی نہ تھی لیکن وہ جانتے تھے یہ دوسرا اونٹ اسراف کے زمرے میں شمار ہوگا، کیونکہ جب ایک اونٹ سے کام چل سکتا ہے تو پھر دوسرے اونٹ کا بوجھ سرکاری خزانے پر ڈالنا رعایا کے ساتھ زیادتی ہوگی اور یہ امانت میں خیانت بھی کہلائی جاسکتی ہے۔
یہ تھا سرکاری پروٹوکول اور بیت المال کے بارے میں ہمارے اسلاف کا عملی نقطہ نظر، جس کا عملی مظاہرہ حضرت عمرؓ سے قبل خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد ان کے جانشینوں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے بارہا پیش کیا۔ چار میں سے تین خلفائے راشدین قاتلانہ حملوں میں شہید ہوئے۔ انھیں کہا گیا کہ وہ سیکیورٹی لے لیں، محافظین کے جھرمٹ میں رہا کریں۔ لیکن تینوں خلفاء نے یہ تجویز مسترد کردی اور عام آدمی سے دوری اختیار نہیں کی۔ سیدھی سی بات ہے، جسے جان کا خوف ہو وہ امارت کا یہ بار نہ اٹھائے۔
ہمارے اجداد نے بہترین حکمرانی کی جو مثالیں ہمارے لیے چھوڑی تھیں ان سے آج تک یہود و نصاریٰ اور ''مشرکین'' فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان کی امارت کا علم پوری دنیا پر لہرا رہا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے امارت سنبھالتے ہی اپنا ذاتی کاروبار بند کردیا تھا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی ذاتی فیکٹریاں، ان کے برسراقتدار آتے ہی انڈے بچے دینے لگتی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے بیت المال سے خلیفہ کی تنخواہ صرف اتنی ہی مقرر فرمائی تھی جتنی اس زمانے میں مدینے کے ایک مزدور کی دہاڑی تھی۔ ان سے کہا گیا کہ ''ان پیسوں میں آپ کا گزارا کیسے ہوگا؟'' اس سوال کا آپ نے جو جواب دیا، اس جواب میں پوری اسلامی معیشت کا نچوڑ رچا بسا ہوا تھا ''فرمایا میرا گزارا نہیں ہوا تو میں مزدور کی دہاڑی بڑھا دوں گا، میرا معاوضہ خود بخود بڑھ جائے گا۔''
آج امریکا کے ایک مزدور کی دہاڑی اتنی ہے کہ وہ روٹی، کپڑا، چھت اور تفریح کے مصارف باآسانی برداشت کرسکے۔ صدر بش صدارت کا حلف اٹھاتے ہی اپنے آئل بزنس سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ صدر کلنٹن آٹھ سال کی صدارت کے بعد اپنے ذاتی مکان کے لیے قرض یا لون کی درخواستیں لے کر گھومتا نظر آتا ہے۔ ہمارے اسلاف یہ اصول طے کرگئے کہ تاجر اور فوجی کا حکومتی امور سے کوئی لینا دینا نہ ہوگا، اور فوج پر سول حکومت کو بالادستی حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ عین حالت جنگ میں حضرت عمرؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ کو جو کہ اسلامی افواج کے کمانڈر انچیف تھے معزول کرتے ہیں تو خالد بن ولیدؓ سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ آج اوباما افغانستان میں موجود اپنی فوج کے ایک جنرل کو پالیسی بیان دینے کی پاداش میں واشنگٹن طلب کرکے برطرف کردیتا ہے، لیکن فوج کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا جب کہ نواز شریف کو اکتوبر 99 میں جنرل پرویز مشرف کو معزول کرنے کے جرم میں قید تنہائی کاٹنے کے لیے اٹک قلعے میں پہنچادیا جاتا ہے۔
اور اب ایک نئی ''افتاد'' ہمارے حکمرانوں پر آپڑی ہے اور وہ ہے ہمارے پڑوس کے ''مشرکین'' میں ایک نئی پارٹی کا ابھرنا جس کا نام ''عام آدمی پارٹی'' ہے، جس نے دہلی میں برسراقتدار آنے کے دوسر ے ہی دن چار سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے عوام کے لیے بجلی کی قیمت آدھی کردی ہے اور پانی مفت کردیا ہے۔ آج اس کے وزیراعلیٰ نے سرکاری رہائش گاہ لینے سے انکار کردیا ہے۔ باہر نکلنے سے قبل ہی عام آدمی کے لیے سڑکیں بند کردینے والے حکمران سن لیں کہ عام آدمی پارٹی کے اثرات یہاں کے عام آدمی تک لازمی پہنچیں گے اور یہ لہر رکنے والی نہیں ہے۔ میڈیا ایک ایک لمحہ کی خبر دیتا ہے اور دے رہا ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں ہمارے ''دشمن'' ہیں، ہمیں دونوں کے خلاف جہاد پر اکسایا جاتا ہے، لیکن ہم ان دونوں دشمنوں سے کیسے جیت سکتے ہیں؟ جب کہ انھوں نے ہمارے اجداد کی طرز حکمرانی اپنا رکھی ہو؟ اسی طرز حکمرانی اور داخلی مضبوطی کے باعث ہمارے اجداد دنیا پر حکمرانی کرگئے اور ناقابل شکست ٹھہرے تو ہمارے یہ دو بڑے ''دشمن'' ہمارے اجداد کی پیروی کر کے ہم سے کس طرح شکست کھا سکتے ہیں؟ ذرا سوچیے۔