ایک اور صحافی قتل ہوگیا
شان ڈھر کے گھر والوں کو اکیلا اور بے سہارا نہ چھوڑنا اور ان کی مالی اور اخلاقی مدد ضرور کی جائے۔۔۔
لوگ صحافیوں سے لاتعداد امیدیں باندھے ہوئے ہوتے ہیں، اگر ان سے کسی وجہ سے کمی ہوجائے تو اسے ایک دم تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ وہ اپنا فرض ادا کرنے میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ انھیں اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑتا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ اب ہر سال پاکستان میں کئی ورکنگ جرنلسٹوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر رپورٹنگ کی ہے، جس میں سرفہرست کرائم اور Terrorismکی فیلڈ ہے۔ رپورٹنگ کے دوران صحافیوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں اور ان کے فرض میں روڑے اٹکانے کے لیے انھیں مارا پیٹا اور اغوا بھی کیا گیا۔
اس کے باوجود نہ ماننے پر انھیں قتل کیا گیا ہے۔ 2013 میں کچھ صحافی دوست قتل کیے گئے مگر نئے سال کے شروع ہوتے ہی صحافی شان ڈھر کو باڈھ شہر میں گولی مار کر زخمی کردیا گیا۔ زخمی صحافی کو بے نظیر چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی اسپتال میں لایاگیا جہاں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے وہ جاں بحق ہوگئے۔ اس دوران اسپتال کے ایم ایس اور یونیورسٹی کے وی سی کو فون کیے گئے مگر اخباری رپورٹنگ کے مطابق کسی نے بھی فون اٹینڈ نہیں کیا۔ شان ڈھر جو اپنی آبائی شہر باڈھ گئے ہوئے تھے، اس دوران انھیں معلوم ہوا کہ وہاں کے اسپتال میں دواؤں میں خرد برد ہورہی ہے، جس کی انھوں نے فوٹیج لے لیے۔ مرنے سے پہلے مقتول صحافی نے اس بارے میں کچھ دوستوں کو بتایا تھا جس کی وجہ سے ایک شخص کو شک کی بناء پر گرفتار کیا گیا ہے۔
قتل ہونے کے بعد ہمیشہ کی طرح وزیراعلیٰ سے لے کر ہر انتظامیہ کے سربراہ نے انکوائری کروانے کی بات کی ہے اور اس سلسلے میں کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ اس سے کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں اور ہمیشہ کی طرح وقت گزر جائے گا۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ اس خون کو بھول جائیں گے، ملزم کی ضمانت ہوجائے گی اور عدالت میں کیس کی شنوائی کی تاریخ پہ تاریخ ملتی رہے گی، لواحقین اس سے تنگ آکر پیشی پر جانا چھوڑ دیں گے۔ ایک تو ان کا بیٹا قتل ہوگیا، دوسری طرف کیس کے خرچے اور پولیس اسٹیشن کے چکر اور وکیلوں اور عدالت کے چکر۔ صحافی برادری نے ہمیشہ کی طرح آواز اٹھائی ہے، پورے سندھ میں احتجاج کیے ہیں۔ شان ڈھر کے گھر والوں سے سیاست دان اور دیگر اظہار تعزیت کے لیے آئیں گے، وقت گزرتا رہے گا۔ حکومت نے اگر معاوضہ دیا بھی تو وہ اتنے لمبے مراحل سے گزرے گا کہ جب تک مقتول صحافی کے گھر والے دفتروں کے چکر لگاتے رہیں گے اور دفتر کے باہر انتظار کی گھڑیاں گزریںگی ہی نہیں۔
اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے اگر کوئی فنڈز ہیں تو فوراً اتنا کچھ شان ڈھر کے گھر والوں کو دیا جائے تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے اور اس کے بچے مکمل تعلیم حاصل کرسکیں اور انھیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کے علاوہ صحافیوں کی طرف سے اگر کوئی ایسا سلسلہ ہے تو وہ بھی بغیر کسی تاخیر کے شان کے گھر والوں کی مدد کریں۔ حکومت یا پھر صحافی برادری شان کی بیوی اور بچوں کو دفتر کے چکر نہ کٹوائیں بلکہ ان کے گھر جاکر مالی مدد کرکے آئیں۔ اس میں حکومت ایک مستقل وظیفہ صحافی برادری کے لیے رکھے، جیسے فنکاروں کو ہر ماہ امداد ملتی ہے، لیکن یہ امداد صرف غریب صحافیوں کے لیے ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ حکومت مرنے والے صحافیوں کے بچوں، بیوی اور والدین کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرے، ان کے بچوں کی تعلیم کا خرچ برداشت کرے، جن کے پاس گھر نہیں ہے ان کے لیے صحافی کالونیاں بنائیں تاکہ پولیس کی طرح صحافی بھی اگر اپنا فرض نبھاتے جان گنوا بیٹھے تو ان کے گھر والے بے مددگار نہ رہیں اور نہ انھیں بھوکا رہنا پڑے۔
حکومت کو اس بات کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور جن ڈاکٹرز اور انتظامیہ کی لاپرواہی ہے ان کے خلاف سخت کارروائی کرے اور ملزم پر کیس ثابت ہونے پر سخت سزا دی جائے تاکہ قانون کی بالادستی بھی قائم رہے اور انسانوں کی جان کو بھی بچایا جاسکے۔ اگر ایک صحافی کے ساتھ یہ سلوک ہوسکتا ہے تو پھر عام آدمی کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔ کیا لوگ سیاست دانوں کو ووٹ اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کریں۔ جن کی وجہ سے وہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔ اگر آج وہ لاپرواہی کرنے والوں کو معاف کردیں گے تو ایک دن ان کے ساتھ بھی شان ڈھر جیسا واقعہ پیش آسکتا ہے۔ ڈاکٹری کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ انھیں مسیحا کہاجاتا ہے اور ان کا کام جان بچانا ہے نہ کہ جان گنوانا۔
اگر انھیں نیند اور آرام اتنا پیارا ہے تو پھر انھیں اس پیشے سے دور رہنا چاہیے۔ کیونکہ انسان کی زندگی بڑی اہم ہے اور اس میں خاص طورپر وہ لوگ جو غریب اور نادار ہیں جو صرف خدا کی طرف دیکھتے ہیں، صحت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا وقت اپنا نہیں ہوتا، انھیں سب کچھ بیمار اور زخمیوں کے لیے وقف کرنا ہوتا ہے۔شان ڈھر کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس نے اپنی جان اپنے پیشے کے فرض میں قربان کردی اور وہ شہید ہے جسے صحافتی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
ایک ماہ پہلے میری ملاقات شان ڈھر سے ہوٹل مہران لاڑکانہ میں ہوئی تھی، جہاں پر اس کا دفتر تھا، اس کے ساتھ کافی باتیں ہوئی تھیں اور انھوں نے بتایاکہ وہ لاڑکانہ الیکشن کی کوریج کرنے آئے تھے اور اس طرح لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کے بعد وہ واپس کراچی جانے والے تھے۔ شان ایک اچھا شاعر اور اچھا صحافی تھا، جس کے چہرے پر میں نے ہمیشہ پرسکون مسکراہٹ دیکھی تھی اور وہ جہاں بھی کام کرتے تھے اپنے آپ کو مطمئن دیکھتے تھے۔ اس نے صحافتی فیلڈ میں تقریباً 23 سال گزارے تھے۔ ان کا صحافتی سفر ایک سندھی اخبار میں بچوں کا صفحہ سنبھالتے ہوا۔ اس کے بعد کئی اخبارات میں نیوز ایڈیٹر کے طورپر کام کیا۔ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر اسکرپٹ ایڈیٹر کے فرائض بھی انجام دیے اور اب ایک اردو چینلز میں رپورٹنگ کرتے تھے۔ انھوں نے اپنا ادبی سفر 1991 میں سندھی ادبی سنگت سے کیا۔ ان کا اصلی نام ذاکر حسین تھا۔ وہ 15 فروری 1967 میں باڈھ شہر میں پیدا ہوا، باڈھ شہر لاڑکانہ ضلع کا اہم ٹاؤن ہے جہاں پر کافی نامور ادبی لوگوں کا جنم ہوا ہے۔
آخر میں ایک بار پھر حکومت، صحافی برادری اور سوشل شخصیتوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ شان ڈھر کے گھر والوں کو اکیلا اور بے سہارا نہ چھوڑنا اور ان کی مالی اور اخلاقی مدد ضرور کی جائے۔ صحافیوں کو اپنے آپ کو مضبوط رکھنے کے لیے ایسے مالی پروگرام بنانے چاہئیں جن سے صحافیوں کی فیملی کسی حادثے کی صورت میں مستفید ہوسکے۔
اس کے باوجود نہ ماننے پر انھیں قتل کیا گیا ہے۔ 2013 میں کچھ صحافی دوست قتل کیے گئے مگر نئے سال کے شروع ہوتے ہی صحافی شان ڈھر کو باڈھ شہر میں گولی مار کر زخمی کردیا گیا۔ زخمی صحافی کو بے نظیر چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی اسپتال میں لایاگیا جہاں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے وہ جاں بحق ہوگئے۔ اس دوران اسپتال کے ایم ایس اور یونیورسٹی کے وی سی کو فون کیے گئے مگر اخباری رپورٹنگ کے مطابق کسی نے بھی فون اٹینڈ نہیں کیا۔ شان ڈھر جو اپنی آبائی شہر باڈھ گئے ہوئے تھے، اس دوران انھیں معلوم ہوا کہ وہاں کے اسپتال میں دواؤں میں خرد برد ہورہی ہے، جس کی انھوں نے فوٹیج لے لیے۔ مرنے سے پہلے مقتول صحافی نے اس بارے میں کچھ دوستوں کو بتایا تھا جس کی وجہ سے ایک شخص کو شک کی بناء پر گرفتار کیا گیا ہے۔
قتل ہونے کے بعد ہمیشہ کی طرح وزیراعلیٰ سے لے کر ہر انتظامیہ کے سربراہ نے انکوائری کروانے کی بات کی ہے اور اس سلسلے میں کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ اس سے کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں اور ہمیشہ کی طرح وقت گزر جائے گا۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ اس خون کو بھول جائیں گے، ملزم کی ضمانت ہوجائے گی اور عدالت میں کیس کی شنوائی کی تاریخ پہ تاریخ ملتی رہے گی، لواحقین اس سے تنگ آکر پیشی پر جانا چھوڑ دیں گے۔ ایک تو ان کا بیٹا قتل ہوگیا، دوسری طرف کیس کے خرچے اور پولیس اسٹیشن کے چکر اور وکیلوں اور عدالت کے چکر۔ صحافی برادری نے ہمیشہ کی طرح آواز اٹھائی ہے، پورے سندھ میں احتجاج کیے ہیں۔ شان ڈھر کے گھر والوں سے سیاست دان اور دیگر اظہار تعزیت کے لیے آئیں گے، وقت گزرتا رہے گا۔ حکومت نے اگر معاوضہ دیا بھی تو وہ اتنے لمبے مراحل سے گزرے گا کہ جب تک مقتول صحافی کے گھر والے دفتروں کے چکر لگاتے رہیں گے اور دفتر کے باہر انتظار کی گھڑیاں گزریںگی ہی نہیں۔
اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے اگر کوئی فنڈز ہیں تو فوراً اتنا کچھ شان ڈھر کے گھر والوں کو دیا جائے تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے اور اس کے بچے مکمل تعلیم حاصل کرسکیں اور انھیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کے علاوہ صحافیوں کی طرف سے اگر کوئی ایسا سلسلہ ہے تو وہ بھی بغیر کسی تاخیر کے شان کے گھر والوں کی مدد کریں۔ حکومت یا پھر صحافی برادری شان کی بیوی اور بچوں کو دفتر کے چکر نہ کٹوائیں بلکہ ان کے گھر جاکر مالی مدد کرکے آئیں۔ اس میں حکومت ایک مستقل وظیفہ صحافی برادری کے لیے رکھے، جیسے فنکاروں کو ہر ماہ امداد ملتی ہے، لیکن یہ امداد صرف غریب صحافیوں کے لیے ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ حکومت مرنے والے صحافیوں کے بچوں، بیوی اور والدین کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرے، ان کے بچوں کی تعلیم کا خرچ برداشت کرے، جن کے پاس گھر نہیں ہے ان کے لیے صحافی کالونیاں بنائیں تاکہ پولیس کی طرح صحافی بھی اگر اپنا فرض نبھاتے جان گنوا بیٹھے تو ان کے گھر والے بے مددگار نہ رہیں اور نہ انھیں بھوکا رہنا پڑے۔
حکومت کو اس بات کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور جن ڈاکٹرز اور انتظامیہ کی لاپرواہی ہے ان کے خلاف سخت کارروائی کرے اور ملزم پر کیس ثابت ہونے پر سخت سزا دی جائے تاکہ قانون کی بالادستی بھی قائم رہے اور انسانوں کی جان کو بھی بچایا جاسکے۔ اگر ایک صحافی کے ساتھ یہ سلوک ہوسکتا ہے تو پھر عام آدمی کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔ کیا لوگ سیاست دانوں کو ووٹ اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کریں۔ جن کی وجہ سے وہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔ اگر آج وہ لاپرواہی کرنے والوں کو معاف کردیں گے تو ایک دن ان کے ساتھ بھی شان ڈھر جیسا واقعہ پیش آسکتا ہے۔ ڈاکٹری کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ انھیں مسیحا کہاجاتا ہے اور ان کا کام جان بچانا ہے نہ کہ جان گنوانا۔
اگر انھیں نیند اور آرام اتنا پیارا ہے تو پھر انھیں اس پیشے سے دور رہنا چاہیے۔ کیونکہ انسان کی زندگی بڑی اہم ہے اور اس میں خاص طورپر وہ لوگ جو غریب اور نادار ہیں جو صرف خدا کی طرف دیکھتے ہیں، صحت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا وقت اپنا نہیں ہوتا، انھیں سب کچھ بیمار اور زخمیوں کے لیے وقف کرنا ہوتا ہے۔شان ڈھر کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس نے اپنی جان اپنے پیشے کے فرض میں قربان کردی اور وہ شہید ہے جسے صحافتی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
ایک ماہ پہلے میری ملاقات شان ڈھر سے ہوٹل مہران لاڑکانہ میں ہوئی تھی، جہاں پر اس کا دفتر تھا، اس کے ساتھ کافی باتیں ہوئی تھیں اور انھوں نے بتایاکہ وہ لاڑکانہ الیکشن کی کوریج کرنے آئے تھے اور اس طرح لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کے بعد وہ واپس کراچی جانے والے تھے۔ شان ایک اچھا شاعر اور اچھا صحافی تھا، جس کے چہرے پر میں نے ہمیشہ پرسکون مسکراہٹ دیکھی تھی اور وہ جہاں بھی کام کرتے تھے اپنے آپ کو مطمئن دیکھتے تھے۔ اس نے صحافتی فیلڈ میں تقریباً 23 سال گزارے تھے۔ ان کا صحافتی سفر ایک سندھی اخبار میں بچوں کا صفحہ سنبھالتے ہوا۔ اس کے بعد کئی اخبارات میں نیوز ایڈیٹر کے طورپر کام کیا۔ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر اسکرپٹ ایڈیٹر کے فرائض بھی انجام دیے اور اب ایک اردو چینلز میں رپورٹنگ کرتے تھے۔ انھوں نے اپنا ادبی سفر 1991 میں سندھی ادبی سنگت سے کیا۔ ان کا اصلی نام ذاکر حسین تھا۔ وہ 15 فروری 1967 میں باڈھ شہر میں پیدا ہوا، باڈھ شہر لاڑکانہ ضلع کا اہم ٹاؤن ہے جہاں پر کافی نامور ادبی لوگوں کا جنم ہوا ہے۔
آخر میں ایک بار پھر حکومت، صحافی برادری اور سوشل شخصیتوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ شان ڈھر کے گھر والوں کو اکیلا اور بے سہارا نہ چھوڑنا اور ان کی مالی اور اخلاقی مدد ضرور کی جائے۔ صحافیوں کو اپنے آپ کو مضبوط رکھنے کے لیے ایسے مالی پروگرام بنانے چاہئیں جن سے صحافیوں کی فیملی کسی حادثے کی صورت میں مستفید ہوسکے۔