مطالبہ نہیں انتباہ
اگر سیاست کرنی ہے تو صوبے کے مطالبے اور ملک کے مطالبے پر شور شرابہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے باغ مصطفیٰ، لطیف آباد حیدرآباد میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا جو اگلے روز ہی برقی میڈیا پر موضوعِ بحث بن گیا۔ ابھی یہ خطاب جاری تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے سماجی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ پیغام داغا کہ ''مرسوں، مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں'' اور اپنے اس خیال کا اعادہ کیا کہ وہ سندھ کو الگ نہیں ہونے دیں گے۔ اس سے قبل کہ ہم الطاف حسین کے خطاب پر بحث کریں، چند سوالات پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے گوش گزار کرنے کی جسارت کروں گا کہ صرف دعوے کر کے ہم امن، اتحاد اور پر امن بقائے باہمی کے ساتھ نہیں رہ سکتے، تاوقتیکہ ہم سندھ کے وسائل کی تقسیم کے اندر انصاف کو شامل نہ کریں کیونکہ سندھ کے وسائل کی تقسیم نہ صرف نسلی اور لسانی تفریق کی بنیاد پر ہوتی ہے نہ کہ ضروریات کی بنیاد پر۔ تو آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جو اس صوبے کی بلا شرکت غیرے حکمران ہے، آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم اور حقوق کی فراہمی میں انصاف سے کام نہیں لیا جاتا۔ بہرحال اس کا فیصلہ تو رائے دہندگان کریں گے اور آنے والا وقت کرے گا۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے کلیدی خطاب میں جو نکات اٹھائے، وہ زمینی حقیقتوں سے خاصی مطابقت رکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ ضرور کہا کہ اگر اردو بولنے والے سندھی آپ کو پسند نہیں ہیں تو انھیں صوبہ بنا کر دے دیجیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سندھ کی سطح پر ایک نئے عمرانی معاہدے کی بات بھی کی ہے، جس میں برابری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم اور حقوق کی فراہمی شامل ہے۔ اگر چہ یہ بات بھی انھوں نے کہی کہ اگر یہ مطالبہ نہ مانا گیا تو بات صوبے سے بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ یوں انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کے مستقبل کے روڈ میپ کا اعلان کردیا ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ الطاف حسین نے صوبے کا مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ یہ انتباہ جاری کیا ہے کہ اگر حقوق کی فراہمی اور منصفانہ بنیادوں پر وسائل کی تقسیم نہ ہوئی تو یہ معاملات اس راستے سے گزر کر آگے کی طر ف بھی جاسکتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ہمارے پیش نظر رہے کہ ہم مذکورہ بیان کو اس کے درست سیاق و سباق میں سمجھیں، ورنہ عوام کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوگا اور لوگ اپنے جذبات کا اظہار سڑکوں پر بھی کرسکتے ہیں۔
الطاف حسین نے ایک دم ہی صوبے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس کے پیچھے ان کی تین دہائیوں پر محیط سیاسی جدوجہد ہے جس میں انھوں نے ہر لحظہ یہ کوشش کی کہ معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملہ ملازمتوں کا ہو یا ترقیاتی فنڈز کا، اس میںشہری علاقوں کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ شہری انفرااسٹرکچر جو گزشتہ نظامت کے دور میں قائم ہوا تھا، اب وہ بھی جواب دے رہا ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث شاہراہوں اور سڑکوں کی تعمیر، بنیادی ہیلتھ سینٹرز کی توسیع اور ان کو چلانے کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی، امن و امان کا دیرینہ مسئلہ، آپریشنز کی بازگشت، گھروں میں چھاپے، چادر اور چاردیواری کے تقدس کی پامالی، پولیس مقابلوں میں نوجوانوں کا قتل، بغیر مقدمہ چلائے لوگوں کو پابند سلاسل رکھنا، یہ وہ تمام مسائل ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا۔ یہی وہ مسائل ہیں جو تین دہائیوں سے اس شہر کو درپیش ہیں لیکن انتہائی کوششوں کے باوجود بھی اس میں بہتری نہیں آرہی۔
ایم کیو ایم عوام میں اپنا وجود رکھتی ہے اور وہ ووٹ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر حاصل کرتی ہے۔ اس کے رائے دہندگان بھی عوامی نمایندوں سے گلہ کرتے ہیں کہ وہ سندھ میں موجود سندھی اور مہاجر تفریق سے انھیں آگاہ کرتے ہیں جس کی بنیاد پر شہری علاقوں کا استحصال ہورہا ہے۔ اگر کوئی ایسا مقبول عوامی رہنما اپنے عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو وہ حق بجانب ہے۔ اب اسے کوئی تعصب قرار دے یا ملک دشمنی۔ ملک اور ریاست عوام سے ہوتے ہیں، اگر عوام کی فلاح و بہبود کے کام میں رکاوٹ ہو تو ہر راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔ سردست ایم کیو ایم کے قائد نے صوبے کے مطالبے کا عندیہ ضرور دیا ہے لیکن اس مطالبے سے پہلے بھی ایک مطالبہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم جس میں ملازمتیں، انفرااسٹرکچر کی تعمیر و توسیع، تعلیمی اداروں کا قیام، اعلیٰ یونیورسٹیز کا ترجیحی بنیادوں پر قائم کرنا، صحت کے بنیادی مراکز کا قیام، امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے علاقائی پولیس (کمیونٹی پولیس) شامل ہیں۔
یہ مطالبات کسی طرح بھی نہ تو صوبے کے خلاف ہیں اور نہ ہی ملک کے خلاف ہیں۔ اگر کوئی نیا معاہدہ عمرانی اس طرح ترتیب پا جائے جو سندھ کی تمام نسلی و لسانی اکائیوں کومطمئن کرسکے تو معاہدہ نہ صرف صوبے کی مضبوطی بلکہ استحکام پاکستان کی ضمانت بن سکے گا۔ اگر سیاست کرنی ہے تو صوبے کے مطالبے اور ملک کے مطالبے پر شور شرابہ کیا جاسکتا ہے اور اگر نیتیں صاف ہیں تو ایک نئے معاہدہ عمرانی کے لیے ایک میز پر بیٹھا جاسکتا ہے۔ سردست انھوں نے برابری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کی بات کی ہے لیکن مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو قائل کرکے ایک قابل قبول معاہدہ ترتیب دیا جاسکتا ہے جو دیرپا بھی ہو اور آج اکیسویں صدی میں ملک و قوم کی ترقی کا سبب بن سکے۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے کلیدی خطاب میں جو نکات اٹھائے، وہ زمینی حقیقتوں سے خاصی مطابقت رکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ ضرور کہا کہ اگر اردو بولنے والے سندھی آپ کو پسند نہیں ہیں تو انھیں صوبہ بنا کر دے دیجیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سندھ کی سطح پر ایک نئے عمرانی معاہدے کی بات بھی کی ہے، جس میں برابری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم اور حقوق کی فراہمی شامل ہے۔ اگر چہ یہ بات بھی انھوں نے کہی کہ اگر یہ مطالبہ نہ مانا گیا تو بات صوبے سے بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ یوں انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کے مستقبل کے روڈ میپ کا اعلان کردیا ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ الطاف حسین نے صوبے کا مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ یہ انتباہ جاری کیا ہے کہ اگر حقوق کی فراہمی اور منصفانہ بنیادوں پر وسائل کی تقسیم نہ ہوئی تو یہ معاملات اس راستے سے گزر کر آگے کی طر ف بھی جاسکتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ہمارے پیش نظر رہے کہ ہم مذکورہ بیان کو اس کے درست سیاق و سباق میں سمجھیں، ورنہ عوام کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوگا اور لوگ اپنے جذبات کا اظہار سڑکوں پر بھی کرسکتے ہیں۔
الطاف حسین نے ایک دم ہی صوبے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس کے پیچھے ان کی تین دہائیوں پر محیط سیاسی جدوجہد ہے جس میں انھوں نے ہر لحظہ یہ کوشش کی کہ معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملہ ملازمتوں کا ہو یا ترقیاتی فنڈز کا، اس میںشہری علاقوں کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ شہری انفرااسٹرکچر جو گزشتہ نظامت کے دور میں قائم ہوا تھا، اب وہ بھی جواب دے رہا ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث شاہراہوں اور سڑکوں کی تعمیر، بنیادی ہیلتھ سینٹرز کی توسیع اور ان کو چلانے کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی، امن و امان کا دیرینہ مسئلہ، آپریشنز کی بازگشت، گھروں میں چھاپے، چادر اور چاردیواری کے تقدس کی پامالی، پولیس مقابلوں میں نوجوانوں کا قتل، بغیر مقدمہ چلائے لوگوں کو پابند سلاسل رکھنا، یہ وہ تمام مسائل ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا۔ یہی وہ مسائل ہیں جو تین دہائیوں سے اس شہر کو درپیش ہیں لیکن انتہائی کوششوں کے باوجود بھی اس میں بہتری نہیں آرہی۔
ایم کیو ایم عوام میں اپنا وجود رکھتی ہے اور وہ ووٹ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر حاصل کرتی ہے۔ اس کے رائے دہندگان بھی عوامی نمایندوں سے گلہ کرتے ہیں کہ وہ سندھ میں موجود سندھی اور مہاجر تفریق سے انھیں آگاہ کرتے ہیں جس کی بنیاد پر شہری علاقوں کا استحصال ہورہا ہے۔ اگر کوئی ایسا مقبول عوامی رہنما اپنے عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو وہ حق بجانب ہے۔ اب اسے کوئی تعصب قرار دے یا ملک دشمنی۔ ملک اور ریاست عوام سے ہوتے ہیں، اگر عوام کی فلاح و بہبود کے کام میں رکاوٹ ہو تو ہر راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔ سردست ایم کیو ایم کے قائد نے صوبے کے مطالبے کا عندیہ ضرور دیا ہے لیکن اس مطالبے سے پہلے بھی ایک مطالبہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم جس میں ملازمتیں، انفرااسٹرکچر کی تعمیر و توسیع، تعلیمی اداروں کا قیام، اعلیٰ یونیورسٹیز کا ترجیحی بنیادوں پر قائم کرنا، صحت کے بنیادی مراکز کا قیام، امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے علاقائی پولیس (کمیونٹی پولیس) شامل ہیں۔
یہ مطالبات کسی طرح بھی نہ تو صوبے کے خلاف ہیں اور نہ ہی ملک کے خلاف ہیں۔ اگر کوئی نیا معاہدہ عمرانی اس طرح ترتیب پا جائے جو سندھ کی تمام نسلی و لسانی اکائیوں کومطمئن کرسکے تو معاہدہ نہ صرف صوبے کی مضبوطی بلکہ استحکام پاکستان کی ضمانت بن سکے گا۔ اگر سیاست کرنی ہے تو صوبے کے مطالبے اور ملک کے مطالبے پر شور شرابہ کیا جاسکتا ہے اور اگر نیتیں صاف ہیں تو ایک نئے معاہدہ عمرانی کے لیے ایک میز پر بیٹھا جاسکتا ہے۔ سردست انھوں نے برابری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کی بات کی ہے لیکن مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو قائل کرکے ایک قابل قبول معاہدہ ترتیب دیا جاسکتا ہے جو دیرپا بھی ہو اور آج اکیسویں صدی میں ملک و قوم کی ترقی کا سبب بن سکے۔