خرد افروز معاشرے کا قیام
اسلام کا اصلی مقصود فلاح انسانیت اور صعود و ارتقا کے فطری جوہر کی تربیت و سمت نمائی ہے۔
ISLAMABAD:
مادی حالات زندگی یعنی وہ وسیلے اور طریقے، وہ آلات اور ذرائع پیداوار اور رسل و رسائل جنہیں استعمال کرکے انسانوں کے گروہ اپنے کھانے پینے اور رہنے سہنے کے وسائل حاصل کرتے ہیں، انسانی معاشرے کی شکل و صورت متعین کرتے ہیں۔ انسانی معاشرہ یا سماج کیا ہے؟ مختلف طبقے اور ان کے باہمی رشتے، لیکن یہ طبقے اور رشتے خود مادی حالات زندگی سے پیدا ہوتے ہیں اور مٹتے، بنتے اور بدلتے رہتے ہیں۔
خیالات، نظریات، فلسفیانہ تصورات، عقائد انسان کے ذہن میں اس کے مادی حالات زندگی اور اس کی بنیاد پر پیدا ہونے والے اجتما عی رشتوں اور مختلف قسم کے اجتماعی عمل، سما جی عمل اور ان سے پیدا ہونے والی زندگی کے عکس ہیں۔ ان خیالات اور نظریات سے مدد لے کر انسان پھر اپنی معاشرت کو سمجھتے ہیں، اس کا علم حاصل کرتے ہیں، اسے استوار کرتے ہیں، اسے حسین یا قابل برداشت بناتے ہیں۔ جیسے کسی سماج یا معاشرے کی شکل و صورت ہوگی ویسے ہی اس کے خیالات، نظریے اور عقائد ہوں گے، جیسا رہن سہن ہوگا ویسی ہی سوچ ہوگی۔
اسلام کی رو سے ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے جس کی تکمیل کے لیے عمر کی کوئی قید اور تحصیل کی کوئی حد نہیں ۔ آپﷺ نے حکمت کو مومن کی متاع گم گشتہ قرار دے کر اسے کہیں سے بھی حاصل کرنے کا حکم دیا اور حصول علم کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ ان ارشادات میں دینی و غیر دینی علوم کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ اسلام نے ''لااکر ہ فی الدین'' کا اصول دے کر مذہبی آزادی کو ایک روشن قدر کی حیثیت دی۔
مدینہ کے یہودیوں کے آبائی عقائد کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاہدہ کیا اور فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر سے کام لے کر رواداری اور بلندی اخلاق کی بے مثال روایت قائم کردی۔ اسلام نے ماضی کے مقابلے میں انسانی زندگی کو بہتربنانے، آگے بڑھانے، انسانیت کی بہترین اقدار کو تقویت پہنچانے اور نئی قدریں تشکیل کرنے میں بھرپور تاریخی کردار ادا کیا۔ مغرب میں جدید جمہوری قدروں کے فروغ کے بعد عہد جدید نے انسانی غلامی کے ادارے کو مکروہ اور قابل تنسیخ ٹھہرایا تو دراصل پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مقصود و منشا ہی کی تکمیل کی۔
اسلام کا اصلی مقصود فلاح انسانیت اور صعود و ارتقا کے فطری جوہر کی تربیت و سمت نمائی ہے۔ معروف مسلمان مفکر و مو رخ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ ''دنیا کے حالات اور اقوام کی عادات ہمیشہ ایک حالت پر باقی نہیں رہتیں ۔ دنیا تغیرات زمانہ اور انقلاب احوال کا نام ہے اور جس طرح یہ تبدیلیاں افراد، ساعت اور شہروں میں ہوتی ہیں اسی طرح دنیا کے تمام گوشوں، تمام زمانوں اور تمام حکومتوں میں واقع ہوتی ہیں، خدا کا یہ ہی طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں ہمیشہ سے جاری ہے''۔
خرد پسندی اور روشن خیالی کی مشرقی، مسلم روایت کو نظر انداز کردینے سے بہت نقصان پہنچا اور جس طرح یورپ کئی صدیوں تک مذہبی و سیاسی استبدادیت کے باعث عہد ظلمت میں محبوس رہا اسی طرح مذہبی و فقہی تشدد اور ملوکیت نے مل کر مسلم معاشروں کی داخلی توانائی کو سلب کیے رکھا۔
دنیا کا عقل پسند، انسان نواز، استحصال دشمن مذہب اپنے نام لیوائوں کی تنگ نظری، نسلی عصبیت اور مذہبی و سیاسی اقتدار پرستوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوکر فکر ی و ذہنی، سیاسی و معاشی استحصال کا ذریعہ بنا دیا گیا اور یہ ہی صورت حال مغرب میں بھی پیدا ہوئی جس کے باعث مذہب کو ''عوام کے لیے افیون'' قرار دے دیا گیا اس کے باوجود مسلم فلاسفر اور تخلیقی مفکروں نے مذہبی منافرت کا سامنا کرتے ہوئے روشن فکری کی حتی الامکان آبیاری کی اور علم و فن کے بیش قیمت اثاثوں کو آیندہ نسلوں تک پہنچایا۔ جارج سارٹن کے نزدیک ''ہمیں نہ صرف نئے حقائق دریافت کرنے والوں کا بلکہ ان سب افراد کا احسان ماننا چاہیے جن کی استقامت اور دلیری کے طفیل عہد قدیم کا خزانہ بالآخر ہمیں دستیاب ہوا، جس کی بدولت ایسا بن جانے میں جیسے ہم آج بن گئے ہیں مدد ملی''۔
مسلم دنیا میں فکری گھٹن اور سیاسی جبر المتوکل اور المنصور کی تخت نشینی کے بعد پیدا ہوا، دونوں حکمرانوں نے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے کٹر مذہب پرستی اور تنگ نظری کے جوشیلے سپاہیوں کا سہارا لے کر مسلم خرد افروزی اور روشن خیالی کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے بعد سے مذہبی انتہاپسندی اور جنونیت آج تک جاری ہے۔ انتہاپسندی اور جنونیت ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے، ایک طرز فکر و عمل ہے جو عقلی دلیلوں سے نہیں بلکہ ڈرا دھمکا کر اپنے عقائد دوسروں سے منوانے کی کوشش کرتی ہے، وہ سادہ لوحوں کے دلوں میں خوف کا زہر گھولتی ہے، وہ لوگوں کو زہریلا بناتی ہے۔
یورپ، امریکا، روس، چین کی عوامی طاقتوں نے ظلم، مذہبی انتہا پسندی اور فسطائیت کے خلاف جنگ لڑ کر کامیابی حاصل کی اور اس جنگ کی کامیابی نے باقی دنیا کے عوام کو بیدار کردیا اور اپنے آپ کو تعصب اور تمام قید و بند سے آزادی، مکمل آزادی کی راہیں کھول دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے عوام نے اپنے جسم و ذہن پر جکڑی زنجیریں توڑ ڈالیں۔ دوسری طرف ہمارا فرسودہ، تعصب زدہ نظام بھی اس قدر بوڑھا ہوگیا کہ اس میں اپنے طور پر سانس لینے کی سکت باقی نہیں رہی ہے۔
بنیاد پرستی و رجعت پرستی جس کی موت لازمی اور یقینی ہے اپنی زندگی کی مدت بڑھانے کے لیے دیوانہ وار ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ ہمیں فرسودہ، نفرت اور روایتی انداز کے بجائے نئے شعور اور آگہی سے کام لینا ہوگا۔ زمانے کے تغیر اور ارتقا کے مراحل اور ہر گھڑی بدلتی زندگی کے تقاضوں کو نظر میں رکھنا ہوگا، ہمارے معاشرے کے ڈھا نچے میں انقلا بی تبدیلی آنی چاہیے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ ہم بونوں کے دور میں جی رہے ہیں، ہمارے قد گھٹ گئے ہیں۔ بقول ایلیٹ ''جب سماج میں تبدیلیاں اچھی طرح جم جاتی ہے تو پھر ایک نئے راستے کی ضرورت پڑنے لگتی ہے''۔ ریاست کسی فرد یا طبقے کا نام نہیں ہے، ریاست کا وجود عوام سے عبارت ہے اور ہمارے عوام تعصب اور نفر ت سے پاک ہیں اور روشن خیال اورخرد پسند معاشرے کا قیام چاہتے ہیں جو تمام تر استحصال سے پاک ہو، جہاں مساوات ہو جہاں عقیدے کی بنیاد پر کسی کو قتل نہ کیا جاتا ہو، جہاں رواداری ہو، جہاں انصاف ہو اور اس کے لیے ہمیں مل کر جنگ لڑنی ہوگی ۔
میکسم گورکی کہتا ہے کہ میرے نزدیک انسانیت سے آگے خیالات کا کوئی وجود نہیں، میرے نزدیک انسان اور صرف انسان ہی تمام چیزوں اور تمام خیالات کا خالق ہے، اس کے ہاتھوں میں جادو ہے، میں انسان کے سامنے سر جھکاتا ہوں کیونکہ انسان کی فکر اور تخیل کی زندہ اور مجسم تصویروںکے سوا دنیا میں مجھے کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے عوام کے ہاتھوں میں جادو ہے اور وہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔
مادی حالات زندگی یعنی وہ وسیلے اور طریقے، وہ آلات اور ذرائع پیداوار اور رسل و رسائل جنہیں استعمال کرکے انسانوں کے گروہ اپنے کھانے پینے اور رہنے سہنے کے وسائل حاصل کرتے ہیں، انسانی معاشرے کی شکل و صورت متعین کرتے ہیں۔ انسانی معاشرہ یا سماج کیا ہے؟ مختلف طبقے اور ان کے باہمی رشتے، لیکن یہ طبقے اور رشتے خود مادی حالات زندگی سے پیدا ہوتے ہیں اور مٹتے، بنتے اور بدلتے رہتے ہیں۔
خیالات، نظریات، فلسفیانہ تصورات، عقائد انسان کے ذہن میں اس کے مادی حالات زندگی اور اس کی بنیاد پر پیدا ہونے والے اجتما عی رشتوں اور مختلف قسم کے اجتماعی عمل، سما جی عمل اور ان سے پیدا ہونے والی زندگی کے عکس ہیں۔ ان خیالات اور نظریات سے مدد لے کر انسان پھر اپنی معاشرت کو سمجھتے ہیں، اس کا علم حاصل کرتے ہیں، اسے استوار کرتے ہیں، اسے حسین یا قابل برداشت بناتے ہیں۔ جیسے کسی سماج یا معاشرے کی شکل و صورت ہوگی ویسے ہی اس کے خیالات، نظریے اور عقائد ہوں گے، جیسا رہن سہن ہوگا ویسی ہی سوچ ہوگی۔
اسلام کی رو سے ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے جس کی تکمیل کے لیے عمر کی کوئی قید اور تحصیل کی کوئی حد نہیں ۔ آپﷺ نے حکمت کو مومن کی متاع گم گشتہ قرار دے کر اسے کہیں سے بھی حاصل کرنے کا حکم دیا اور حصول علم کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ ان ارشادات میں دینی و غیر دینی علوم کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ اسلام نے ''لااکر ہ فی الدین'' کا اصول دے کر مذہبی آزادی کو ایک روشن قدر کی حیثیت دی۔
مدینہ کے یہودیوں کے آبائی عقائد کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاہدہ کیا اور فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر سے کام لے کر رواداری اور بلندی اخلاق کی بے مثال روایت قائم کردی۔ اسلام نے ماضی کے مقابلے میں انسانی زندگی کو بہتربنانے، آگے بڑھانے، انسانیت کی بہترین اقدار کو تقویت پہنچانے اور نئی قدریں تشکیل کرنے میں بھرپور تاریخی کردار ادا کیا۔ مغرب میں جدید جمہوری قدروں کے فروغ کے بعد عہد جدید نے انسانی غلامی کے ادارے کو مکروہ اور قابل تنسیخ ٹھہرایا تو دراصل پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مقصود و منشا ہی کی تکمیل کی۔
اسلام کا اصلی مقصود فلاح انسانیت اور صعود و ارتقا کے فطری جوہر کی تربیت و سمت نمائی ہے۔ معروف مسلمان مفکر و مو رخ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ ''دنیا کے حالات اور اقوام کی عادات ہمیشہ ایک حالت پر باقی نہیں رہتیں ۔ دنیا تغیرات زمانہ اور انقلاب احوال کا نام ہے اور جس طرح یہ تبدیلیاں افراد، ساعت اور شہروں میں ہوتی ہیں اسی طرح دنیا کے تمام گوشوں، تمام زمانوں اور تمام حکومتوں میں واقع ہوتی ہیں، خدا کا یہ ہی طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں ہمیشہ سے جاری ہے''۔
خرد پسندی اور روشن خیالی کی مشرقی، مسلم روایت کو نظر انداز کردینے سے بہت نقصان پہنچا اور جس طرح یورپ کئی صدیوں تک مذہبی و سیاسی استبدادیت کے باعث عہد ظلمت میں محبوس رہا اسی طرح مذہبی و فقہی تشدد اور ملوکیت نے مل کر مسلم معاشروں کی داخلی توانائی کو سلب کیے رکھا۔
دنیا کا عقل پسند، انسان نواز، استحصال دشمن مذہب اپنے نام لیوائوں کی تنگ نظری، نسلی عصبیت اور مذہبی و سیاسی اقتدار پرستوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوکر فکر ی و ذہنی، سیاسی و معاشی استحصال کا ذریعہ بنا دیا گیا اور یہ ہی صورت حال مغرب میں بھی پیدا ہوئی جس کے باعث مذہب کو ''عوام کے لیے افیون'' قرار دے دیا گیا اس کے باوجود مسلم فلاسفر اور تخلیقی مفکروں نے مذہبی منافرت کا سامنا کرتے ہوئے روشن فکری کی حتی الامکان آبیاری کی اور علم و فن کے بیش قیمت اثاثوں کو آیندہ نسلوں تک پہنچایا۔ جارج سارٹن کے نزدیک ''ہمیں نہ صرف نئے حقائق دریافت کرنے والوں کا بلکہ ان سب افراد کا احسان ماننا چاہیے جن کی استقامت اور دلیری کے طفیل عہد قدیم کا خزانہ بالآخر ہمیں دستیاب ہوا، جس کی بدولت ایسا بن جانے میں جیسے ہم آج بن گئے ہیں مدد ملی''۔
مسلم دنیا میں فکری گھٹن اور سیاسی جبر المتوکل اور المنصور کی تخت نشینی کے بعد پیدا ہوا، دونوں حکمرانوں نے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے کٹر مذہب پرستی اور تنگ نظری کے جوشیلے سپاہیوں کا سہارا لے کر مسلم خرد افروزی اور روشن خیالی کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے بعد سے مذہبی انتہاپسندی اور جنونیت آج تک جاری ہے۔ انتہاپسندی اور جنونیت ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے، ایک طرز فکر و عمل ہے جو عقلی دلیلوں سے نہیں بلکہ ڈرا دھمکا کر اپنے عقائد دوسروں سے منوانے کی کوشش کرتی ہے، وہ سادہ لوحوں کے دلوں میں خوف کا زہر گھولتی ہے، وہ لوگوں کو زہریلا بناتی ہے۔
یورپ، امریکا، روس، چین کی عوامی طاقتوں نے ظلم، مذہبی انتہا پسندی اور فسطائیت کے خلاف جنگ لڑ کر کامیابی حاصل کی اور اس جنگ کی کامیابی نے باقی دنیا کے عوام کو بیدار کردیا اور اپنے آپ کو تعصب اور تمام قید و بند سے آزادی، مکمل آزادی کی راہیں کھول دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے عوام نے اپنے جسم و ذہن پر جکڑی زنجیریں توڑ ڈالیں۔ دوسری طرف ہمارا فرسودہ، تعصب زدہ نظام بھی اس قدر بوڑھا ہوگیا کہ اس میں اپنے طور پر سانس لینے کی سکت باقی نہیں رہی ہے۔
بنیاد پرستی و رجعت پرستی جس کی موت لازمی اور یقینی ہے اپنی زندگی کی مدت بڑھانے کے لیے دیوانہ وار ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ ہمیں فرسودہ، نفرت اور روایتی انداز کے بجائے نئے شعور اور آگہی سے کام لینا ہوگا۔ زمانے کے تغیر اور ارتقا کے مراحل اور ہر گھڑی بدلتی زندگی کے تقاضوں کو نظر میں رکھنا ہوگا، ہمارے معاشرے کے ڈھا نچے میں انقلا بی تبدیلی آنی چاہیے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ ہم بونوں کے دور میں جی رہے ہیں، ہمارے قد گھٹ گئے ہیں۔ بقول ایلیٹ ''جب سماج میں تبدیلیاں اچھی طرح جم جاتی ہے تو پھر ایک نئے راستے کی ضرورت پڑنے لگتی ہے''۔ ریاست کسی فرد یا طبقے کا نام نہیں ہے، ریاست کا وجود عوام سے عبارت ہے اور ہمارے عوام تعصب اور نفر ت سے پاک ہیں اور روشن خیال اورخرد پسند معاشرے کا قیام چاہتے ہیں جو تمام تر استحصال سے پاک ہو، جہاں مساوات ہو جہاں عقیدے کی بنیاد پر کسی کو قتل نہ کیا جاتا ہو، جہاں رواداری ہو، جہاں انصاف ہو اور اس کے لیے ہمیں مل کر جنگ لڑنی ہوگی ۔
میکسم گورکی کہتا ہے کہ میرے نزدیک انسانیت سے آگے خیالات کا کوئی وجود نہیں، میرے نزدیک انسان اور صرف انسان ہی تمام چیزوں اور تمام خیالات کا خالق ہے، اس کے ہاتھوں میں جادو ہے، میں انسان کے سامنے سر جھکاتا ہوں کیونکہ انسان کی فکر اور تخیل کی زندہ اور مجسم تصویروںکے سوا دنیا میں مجھے کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے عوام کے ہاتھوں میں جادو ہے اور وہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔