کورونا سے بیروزگاری میں اضافہ گھریلوخواتین نے ہوم کچن سروس کا آغازکردیا

لاک ڈاؤن لگا تودونوں بیٹے بیروزگار ہو گئے، گھرکابجٹ آؤٹ ہوا اور ہم شدید مالی پریشانی کا شکا رہوگئے،شہنازخان

بیٹے کو دال چاول بناکردیے جو گھرکے باہرفروخت کیے،اس کے بعدآرڈرپرکھانے کی سروس شروع کردی

کورونا کے سبب خراب معاشی حالات نے جہاں بڑی تعداد میں مختلف افراد کو بے روزگار کرکے مالی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے خراب معاشی حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے بڑی تعداد میں گھریلو خواتین نے ہوم کچن سروس کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔

اس سروس کے ذریعے وہ اپنے علاقوں میں موجود کاروباری حضرات اور دیگرافرادکو مختلف ذرائع سے کھانوں کی ترسیل کر رہی ہیں، ان خواتین کے ذریعے سیکڑوں افرادکو روزگار بھی حاصل ہوا ہے اوریہ خواتین خراب معاشی صورت حال میں اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے کے ہنر کے ذریعے مالی معاون بن گئی ہیں گھریلوکچن سروس کاکام کرنے والی خاتون شہناز خان نے بتایاکہ کورونا وائرس کے سبب ہزاروں افراد سے ان کا روزگارچھین گیا،کورونا وبا کے سبب خراب معاشی صورت حال میں اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے ایسی گھریلو خواتین آگے آئیں جو خواتین بہترین کھانا پکانا جانتی تھیں۔

انھوں نے اپنے اس کام کو ہنر میں تبدیل کیااور اپنے گھروں میں ''ہوم سروس کچن ''کا آغاز کیا، یہ کام زیادہ تر متوسط علاقوں کی گھریلوخواتین نے شروع کیااورآج گھر بیٹھے 20 ہزار سے 50 ہزار روپے تک ماہانہ کمارہی ہیں، انھوں نے بتایا کہ کوروناکے سبب جب مارچ 2020 میں لاک ڈائون لگا تو اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے میرے دونوں بیٹے بے روزگار ہو گئے شوہر معمولی سرکاری ملازم ہیں جن کی تنخواہ بہت قلیل ہے، بیٹوں کی بیروزگاری کے باعث ہمارے گھر کا بجٹ آؤٹ ہو گیا جس کی وجہ سے ہم شدید مالی پریشانی کا شکا رہوگئے۔

شہنازخان نے بتایاکہ ان حالات میں میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ میںاپنے گھر میں مختلف اقسام کے کھانے پکا کرانھیں سپلائی کرنا شروع کر دوںاوراسی خیال کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے میں نے محدود پیمانے پر دن کے اوقات میں سب سے پہلے دا ل چاول بنائے اورانھیں میرے بیٹے نے گھر کے باہر رکھ کر فروخت کرنا شروع کردیا کچھ دنوں کے بعد اس کام سے آمدنی شروع ہو گئی تو اس کام کے دائرہ کار کو میں نے بڑھایا اور پھر آرڈر پر اپنے محلے اور علاقائی سطح پر کھانے کی سروس شروع کردی ،شہناز خان نے بتایاکہ آج میں ایسی کامیاب خواتین میں شامل ہوں جوگھر بیٹھے اپنے پورے خاندان کی کفالت کر رہی ہیں ۔

خواتین کاروبارکی تشہیر کے لیے مختلف ایپس کااستعمال کرتی ہیں
شہنازخان نے بتایا کہ ہوم کچن سروس کے کام سے وابستہ خواتین اپنے کاروبار کو اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کی مختلف ایپس کا استعمال کرتی ہیں یا موبائل نمبر پر سماجی رابطے کی ایپ کے اسٹیٹس پر کھانو ں کا مینولگادیتی ہیں یاگروپس بنالیتی ہیں تاکہ ان کے کام کی تشہیر ہو سکے، اس کے علاوہ پمفلٹ ، بینرز اور تشہیر کے دیگر ذرائع بھی استعمال کرتی ہیں۔

ہوم کچن سروس کا کام بہت محنت طلب ہوتا ہے

ہوم کچن سروس سے وابستہ خواتین کا کام بہت محنت طلب ہوتا ہے،شہناز خان نے بتایا کہ ہم صبح فجر کی نماز کے وقت اٹھ جاتے ہیں اور جو کھانے تیار کرنا ہوتے ہیں ان کی تیاری کا کام ناشتے کے بعد شروع کر دیا جاتا ہے، اس حوالے سے ایک دن قبل ہی مطلوبہ کھانوں کی تیاری کے لیے اشیاخریدلی جاتی ہیں اور پھر دوپہر 11 بجے تک ان کھانوں کی تیاری کی جاتی ہے اور پھر انھیں مطلوبہ آرڈر دینے والے افراد تک پہنچایا جاتا ہے، انھوں نے بتایاکہ گوشت اور سبزیوں کو صاف کرنا ، ان کی کٹائی اور پھر انھیں پکانا ایک مشکل مرحلہ ہے جن گھروں میں بچیاں یا دیگر خواتین ہوتی ہیں انھیں توآسانی ہو جاتی ہے تاہم جن گھروں میں خواتین نہیں ہیں وہ ایسی خواتین کی خدمات حاصل کرتی ہیں جو ماہانہ تنخواہ پر ان کی معاون کے طور پر کام میں مددکر سکیں۔

کھانوں کی قیمتیں 70 سے 150 روپے تک کے درمیان ہوتی ہیں


شہناز خان نے بتایا کہ جن خواتین کے ہوم کچن اچھے انداز میں چل رہے ہیں اور انھیں آمدنی ہو رہی ہے وہ ہفتہ وار راشن خرید لیتی ہیں جن میں دالیں ، مصالحہ جات ، تیل اور دیگر اشیاشامل ہیں تاہم گوشت اور سبزی روزانہ کی بنیاد پر خریدی جاتی ہے، انھوں نے بتایا کہ ہوم کچن سروس کا کام کرنے والی خواتین کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا ہے، دالوں ، گوشت ، سبزی ، آٹا ، تیل اور دیگر کھانے پینے کی اشیامہنگی ہو رہی ہیں ، اسی لیے پکوانوں کی تیاری کے بعد ان کی فروخت میں منافع کی شرح کم ہو رہی ہے،ہوم سروس کچن میں کھانے زیادہ مہنگے نہیں ہوتے ، مختلف کھانوں کی قیمتیں 70 روپے سے 150 روپے تک کے درمیان ہوتی ہیں تاہم کئی پکوانوں کی قیمتیں مہنگائی کی مناسبت سے زیادہ اور کم ہوتی رہتی ہیں تاہم ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم مناسب قیمت پر کھانا فراہم کریں،زیادہ تر ہوم کچن سروس دن کے اوقات کے کھانے کے لیے فراہم کی جاتی ہے تاہم رات کا کھانا کسی گھریلو دعوت کے لیے تیارکیاجاتاہے۔

فی چپاتی پکانے کا2 سے 3 روپے معاوضہ ملتاہے
ہوم کچن سروس میں پکوانوں کے علاوہ گھریلو چپاتی بھی تیار کی جاتی ہے، شہناز خان کے مطابق یہ چپاتی کھانوں کی طلب کے مطابق تیار کی جاتی ہے، بعض ہوم کچن سروس کا کام کرنے والی خواتین نے روٹی پکانے کے لیے مختلف گھریلو خواتین کو ٹھیکہ دیا ہوتا ہے، فی چپاتی انھیں 2 سے 3 روپے پکانے کا معاوضہ دیا جاتاہے ۔

خواتین اوربچیاں مختلف اقسام کے کھانے بنانے کیلیے فنی اداروں میں داخلہ لینے لگیں
شہناز خان نے بتایا کہ ہوم کچن سروس کا کام شروع کرنے کے لیے مختلف گھریلو خواتین اور بچیاں کھانے بنانے کی مختلف اقسام سیکھنے کے لیے مختلف فنی اداروں میں داخلہ لے رہی ہیں اور ان تربیتی اداروں میں مختلف دورانیے کے کوکنگ کورسز کر رہی ہیں، ان خواتین اور بچیوں کے سیکھنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہوم کچن سروس شروع کرکے محدود پیمانے پر کاروبارکر سکیں تاکہ وہ اپنے اہلخانہ کی کفالت میں ہاتھ بٹا سکیں اور معاشی طور پر خود کفیل ہو سکیں۔

گھریلوپکوان کئی ہوٹلزوالے آرڈرزپربھی تیارکراتے ہیں

ہوم کچن سروس میں پکائے جانے والے گھریلو پکوانوں کو کئی ہوٹلز والے آرڈرز پر بھی تیار کرواتے ہیں، شہناز خان کا کہنا ہے کہ بیشتر ہوٹلز پر گاہکوں کی یہ فرمائش ہوتی ہے کہ کھانا گھریلو ہونا چاہیے، اسی لیے کئی متوسط اور مضافاتی علاقوں میں واقع چھوٹے ہوٹلز والے ان ہوم کچن سروس سے رابطہ کرتے ہیں اوراپنی طلب کے مطابق پکوان تیار کرواتے ہیں، اس حوالے سے پکوانوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی تمام اشیا وہ خود فراہم کرتے ہیں صرف ہوم کچن سروس کا کام کرنے والی خواتین ان پکوانوںکو تیار کرکے انھیں فراہم کرتی ہیں اور اس حوالے سے ہر پکوان پر ایک معقول معاوضہ انھیں ملتا ہے۔

گھریلوکچن سروس کے کام میں بھی ادھار چلتا ہے

شہناز خان نے بتایا کہ گھریلو کچن سروس کے کام میں بھی ادھارچلتاہے بعض افراد روزانہ یا ہفتہ وار یا ماہانہ بنیادوں پر کھانے کے پیسوں کی ادائیگی کرتے ہیں، اس لیے ہمیں روزانہ کی بنیاد پر مینو کے مطابق اپنے بجٹ کو متوازن رکھنا پڑتا ہے، خواتین کو کاروبار بڑھانے کے لیے بلا سود قرضے دیے جائیں تاکہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں ،شہناز خان نے بتایا کہ ہوم کچن سروس کا کام کرنے والی خواتین کو سب سے اہم مسئلہ گیس کی عدم فراہمی کا ہوتا ہے، اکثر علاقوں میں رات کے اوقات میں گیس نہیں ہوتی یا گیس کا پریشر کم ہوتا ہے اسی لیے وہ اپنا کام جاری رکھنے کے لیے ایل پی جی گیس کا استعمال کرتی ہیں جو انھیں مہنگی پڑتی ہے۔

کھارادر، میٹھادر ، بولٹن مارکیٹ جامع کلاتھ اور دیگر مارکیٹوں و بازاروں میں کھانا سپلائی کیا جاتا ہے
شہناز خان نے بتایا کہ کراچی میں گھریلو کچن کے ذریعے کھانے کی سپلائی ضلع جنوبی کے قدیم علاقوں سے کی جاتی ہے، ان علاقوں میں کھارادر ، میٹھا در ، بولٹن مارکیٹ ، صدر ، ڈینسو ہال ، بوہرا پیر ، جامع کلاتھ اور دیگر مارکیٹیں اور بازار شامل ہیں، ان علاقوں میں کئی برسوں سے ٹفن کے ذریعے گھریلو کھانا کو فراہم کیا جاتا ہے۔
Load Next Story