نظریاتی زندگی میں کوئی خوشی نہیں معروف ادیب اور کالم نگار ظہیر اختر بیدری کی کتھا
مزدوروں سے آج بھی غلاموں کی طرح کام لیا جا رہا ہے، ٹریڈ یونین کا خاتمہ بھٹو پر داغ ہے
'تحریک کی قیادت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے، کہ وہ صورت حال اور مشکلات کا اچھی طرح جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرے، کب کیا قدم اٹھانا ہے اور کہاں کس عمل سے بچنا ہے جب کسی فعل کے نتائج بالکل واضح طور پر نقصان کی صورت میں سامنے ہوں، تو پھر اُس راہ پر چلنا تحریک کے لیے خودکُشی کے مترادف ہوتا ہے۔'
مزدوروں کی جدوجہد کے تعلق سے یہ گفتگو معروف ادیب اور کالم نگار ظہیر اختر بیدری کی ہے اور کیوں نہ ہو کہ انہوں نے محنت کشوں کی جدوجہد کے سرد وگرم جو سہے ہیں 1970ءکی دہائی میں مزدوروں اور حکومت کے ٹکراﺅ کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ مزدور تحریک کی قیادت نے یہ نہیں سوچا کہ غیر منظم طریقے سے مضبوط ریاستی مشینری سے تصادم کے نتائج کیا برآمد ہوں گے۔
ظہیر اختر بیدری اُس وقت کے مزدوروں کی حالت زار کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں کہ ملوں میں مزدور ملازم نہیں، بلکہ غلاموں کی طرح تھے، انہیں باقاعدہ نجی جیلوں میں سزائیں دی جاتیں، وہ بول نہیں سکتا تھا۔ جس کا شدید ردعمل ہوا، ہڑتالیں ہوئیں اور پھر عالم یہ تھا کہ مل کا مالک یونین کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ مزدوروں کے اس طرز عمل کو بھی وہ انتہاپسندانہ قرار دیتے ہیں، تاہم اُن کا خیال ہے کہ اگر مذاکرات سے تنخواہوں میں اضافے، ہڑتال کے دنوں کی اُجرت اور مستقل ملازمت جیسے مطالبات تھوڑے بہت بھی مان لیتے، تو ٹکراﺅ کی نوبت نہ آتی۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ مزدوروں کی ہڑتالوں سے لے کر اِن میں مسلح عناصر کی موجودگی تک ظہیر اختر بیدری کو شدید اختلاف تھا، اُن کا نکتہ تھا کہ مزدوروں کی تنظیم نو اور نچلی سطح تک منظم ہونے سے پہلے یہ مراحل نقصان دہ ہوں گے۔ کہتے ہیں ہمارے ساتھی نہ سمجھ سکے اور 1972ءمیں 'سائٹ' کی ولیکا مل میں ہتھیار بند مزدوروں کی موجودگی سے حکومت کو کارروائی کا جواز مل گیا اور وہاں گولیاں بھی چلیں، داﺅد مل (لانڈھی) پر مسلح مزدوروں نے قبضہ کرلیا، جسے واگزار کرانے کے لیے پولیس نے کارروائی کی اور 20,25 مزدور قتل ہوئے، یہ بھی روایت ہے کہ رات میں ہی بہت سی لاشیں ٹرکوں میں لے جا کر دفنا دی گئیں۔
ظہیر اختر بیدری کہتے ہیں کہ لانڈھی کی کارروائی سے ایک دن پہلے رات گئے، وزیر محنت عبدالستار گبول کے گھر پر یہ طے ہوا تھا کہ ہمارے مطالبات پر اگلے دن اسمبلی میں بات ہوگی، یوں صبح وہ اسمبلی پہنچنے کے لیے ٹیکسی میں بیٹھے، تو ڈرائیور سے لانڈھی کے واقعے کا پتا چلا۔ انہیں حیرت ہوئی کہ یہ کیا ہوا، جب رات میں ساری بات طے ہوئی ہے۔
اس سے پہلے انہوں نے دیکھا کہ عبدالستار گبول سے کمشنر کراچی رودائیداد خان نے کہا کہ یہ اب باتوں سے نہیں مانیں گے، ان کے خلاف سخت کارروائی کرنا پڑے گی۔ انہیں یہ بے حد عجیب لگا کہ ایک بیوروکریٹ منتخب وزیر کو رائے دے رہا ہے، اس کے باوجود بھی وہ نہیں سمجھتے کہ بھٹو سائٹ اور لانڈھی کے واقعات سے لاعلم ہوں گے۔ انہوں نے اس کے بعد وفاقی وزیر محنت رانا حنیف کو بھیجا، جہاں مزدور راہ نماﺅں سے مذاکرات ہوئے، ہڑتال کے دن کی اجرتیں اور دیگر مسائل پر گفت وشنید ہوئی۔ ظہیر بیدری کہتے ہیں کہ انہوں نے رانا حنیف سے یوم مئی پر تعطیل کا مطالبہ تو منظور کرالیا، لیکن مزدور کسان راج کی بات کرنے والی حکومت نے اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں کہ پرامن جدوجہد کی بھی گنجائش نہ رہی، انہیں طویل سزائیں سنائی گئیں، جو باہر تھے، وہ بھی سر نہیں اٹھا سکتے تھے، نتیجتاً مزدور تنظیمیں دم توڑ گئی۔ وہ اس امر کو بھٹو حکومت پر ایک بڑا داغ قرار دیتے ہیں۔
یعنی تحریک طاقت کے بل پر کچل دی گئی ملوں میں چوکی داروں کو با اختیار کر دیا گیا، جو ملازموں کو خوف زدہ کرتے اور ڈرا دھمکا کر رکھتے، مل ایریا میں جلسوں کی ممانعت ہوگئی۔ وہاں ہمہ وقت پولیس موجود رہتی، جس کے بعد ریڑھی گوٹھ وغیرہ میں جلسے کیے، لیکن اب مزدور تحریک میں خلا پیدا ہو گیا۔ طویل قید سے رہائی پانے کے بعد بھی مزدوروں کو منظم کرنے کی کوئی سبیل نہ ہو سکی۔
'کیا تحریک بچانے کے لیے مزاحمت نہ کرنے پر مزدور قائدین کو دوش نہیں؟'
مزدور قیادت کی غلطیوں کے ناقد ہونے کے باوجود وہ زیادہ ذمہ دار حالات کو قرار دیتے ہیں کہ ریاستی جبر اتنا شدید ہوتا ہے کہ سہا نہیں جا سکتا، ہر مل سے سرکردہ کارکن اٹھا لیے گئے تھے، پھر ضیاالحق کے زمانے میں ملتان میں بھی کارروائی ہوئی، یوں رہ جانے والے مزدور بے سہارا ہوگئے۔ ایسے میں یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ مزدوروں کے خلاف کارروائی تو صرف کراچی میں ہوئی، تو باقی ملک میں پھر مزدور تنظیمیں کیوں نہ رہیں؟ اس کے جواب میں ظہیر بیدری نے کہا کہ ایسا اس لیے ہوا کہ کراچی ملک کا ایک بڑا تجارتی مرکز ہے، اس لیے ان واقعات کے گہرے اثرات ملک گیر تھے۔
کوچہ صحافت کی سیّاحی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یحییٰ خان کے دور میں مارشل لا عدالت کی سزا بھگت کر رہا ہوئے، تو صدر میں محمد حسین عطا کے 'پام گرو ہوٹل' میں بیٹھک رہتی تھی، جہاں فیض احمد فیض کے ساتھ پنڈی سازش کیس میں گرفتار ہونے والے جنرل اکبر وغیرہ بھی اکثر آتے۔ محمد حسین عطا نے فیض احمد فیض سے اُن کی بے روزگاری کا تذکرہ کیا، تو فیض نے ہفت روزہ لیل ونہار بلالیا، یوں حسن عابدی ودیگر کے ساتھ وہاں کام کا موقع ملا، پھر 1972ءتا 1974ءابراہیم جلیس کے ہفت روزہ 'عوامی عدالت' سے منسلک رہے۔ کالم نگاری کا سلسلہ تو 1965ءمیں پی آئی اے کے پرچے 'منشور' سے شروع کر دیا تھا، 1970ءکی دہائی میں 'حریت' میں کالم لکھنا شروع کیا، اُس وقت کالم نگاری میں مزاح نگاری کا رجحان زیادہ تھا، لیکن انہوں نے ہمیشہ سیاسی کالم لکھے، 1982ءمیں 'جنگ' کے صفحہ نمبر دو پر اُن کا کالم بہ عنوان 'زبان خلق' شایع ہونے لگا، دس، گیارہ برس جنگ سے وابستگی رہی، مختلف رسائل میں بھی لکھتے رہے۔ 1992ءمیں ماہ نامہ 'فردا' نکالا، جس کا نام شکیل عادل زادہ نے تجویز کیا، یہ دس برس جاری رہا۔ گزشتہ 14 برس سے ایکسپریس میں 'اگر اجازت ہو' کے عنوان سے ہفتے میں چار کالم لکھتے ہیں۔
کالم نگاری کے حوالے سے ظہیر بیدری کا کہنا ہے کہ متوازن انداز میں کھلے دل سے سب کی خوبیاں خامیاں بیان کرنی چاہئیں۔ انہیں ایوب خان کے زمانے میں کالم پر اسپیشل پولیس کے اہلکار تنبیہ کرتے تھے، ایوب دور کے بعد ایسی کوئی براہ راست دھمکی نہیں آئی، البتہ ادارہ ضرور احتیاط کا کہتا ہے۔
ظہیر اختر بیدری کی جنم بھومی حیدر آباد (دکن) کا علاقہ بیدر ہے، 1938ءمیں آنکھ کھولی، وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی، تعلیم کے بہ جائے کھیل کود اور شرارتوں میں زیادہ دل چسپی تھی ہم عمروں میں لیڈر بننے کا شوق تھا، آئے روز اسکول کی ناغہ کرتے، والد نے یہ صورت حال دیکھی، تو کم عمری میں ہی اپنے کاروبار میں لگا دیا، وہاں اُن کی راشن کی دو دکانیں، ایک ہوٹل اور ایک جنرل اسٹور تھا۔
الحاق کے زمانے میں بڑے بھائی الیاس سلیم، حیدرآباد ریاست کی مسلح رضا کار تنظیم سے جڑ گئے، ہندوستان نے پولیس کارروائی کے بعد ریاست پر قبضہ کیا، تو بھائی روپوش ہو کر کراچی آگئے، اُن کے بیوی بچے وہیں رہ گئے تھے، 1953ءمیں منقسم خاندان نے بھی ہجرت کا مرحلہ طے کیا۔ حیدرآباد کے وزیراعظم میر لائق علی نے کراچی میں مہاجرین کے روزگار کے لیے ایک صنعت قائم کی، کراچی آکر وہاں ملازم ہوگئے۔
ہجرت کے بعد تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور میٹرک، انٹر اور بی اے کے بعد جامعہ کراچی سے سیاسیات اور صحافت میں ایم اے کیے۔ اس کے بعد نیشنل عوامی پارٹی میں آگئے، جہاں غوث بخش بزنجو، مولانا عبدالحمید بھاشانی اور ولی خان جیسے قدآور سیاست دانوں کی صحبت میسر آئی۔ متحدہ مزدور فیڈریشن میں متحرک ہوئے اور مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے ان کی بستیوں میں بھی رہے۔
ظہیر اختر کا ماضی مزدوروں کے اتحاد کی سنہری یادوں سے مزین ہے کہتے ہیں کہ صرف ایک فون کال پر محنت کشوں کی ہڑتال ہو جاتی تھی، کوئی سیاسی، مذہبی یا لسانی تفریق نہ تھی۔ 1968ءمیں مولانا عبدالحمید بھاشانی کی خواہش پر چند گھنٹوں میں جلسہ کرانے کی یادیں بازیافت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے صبح سات بجے کنیز فاطمہ، عبدلوحید خان اور علاﺅالدین عباسی کے ساتھ داﺅد مل پہنچ کر اعلان کیا کہ آج بھاشانی صاحب آرہے ہیں۔ اُس وقت ایک شفٹ آرہی تھی اور ایک جا رہی تھی، دونوں وہیں ٹھیر گئے اور ملیں بند کر کے ہمارے ساتھ ہولیے۔ اس کے بعد لانڈھی 89 میں 50 ہزار افراد کا ایک بڑا جلسہ ہوا، جس میں جون ایلیا اور سعید رضا سعید وغیرہ بھی شریک ہوئے۔
ظہیر اختر بیدری نے 1970ءکی دہائی تک موجود 'آنہ لائبریری' سے خوب استفادہ کیا۔ کہتے ہیں ادب سے دوری نے سماجی برائیوں سے دوچار کیا، تب لوگ بے خوف ہوکر گھروں کے کواڑ کھلے رکھتے تھے، آج بند دروازوں کے باوجود سہمے ہوئے ہیں۔ آج ادب بینی کے احیا کی ضرورت ہے۔ 500 کی تعداد میں چھپنے والی کتاب بھی بانٹنی پڑتی ہے، حکومت ترجمے کرائے اور کتابوں کی سستی اشاعت کے لیے اقدام کرے۔
اُن کا خیال ہے کہ 1960ءکے زمانے میں اشتراکیت کی مقبولیت سے سرمایہ دار گھبرا گئے کہ اُن کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ اس لیے انہوں نے وار کیا۔ تاہم سوشلسٹ بلاک نے بھی غلطیاں کیں، نتیجتاً اب روس اور چین مکمل سمجھوتا کر چکے۔ کہتے ہیں کہ کوئی نظام کتنا ہی اچھا ہو، اگر زمانے کے لحاظ سے تبدیلیاں نہ لائی جائیں، تو وہ نہیں چل سکتا۔ سرمایہ داری نظام میں ساری عدالت اور انصاف ریاستوں کا باج گزار ہوتا ہے، وہ آزادانہ کام کر ہی نہیں سکتے، کہیں کہیں خودمختار ہیں، لیکن جزوی۔ کہنے کو آج جمہوریت ہے، لیکن کسی جماعت میں چناﺅ نہیں ہوتا، ہو بھی تو وہی عہدے دار "منتخب" ہوتے ہیں۔ دیہاتوں میں لوگ جاگیرداروں سے دبے ہوئے ہیں، جب تک اربوں روپے نہ ہوں انتخابات نہیں لڑ سکتے، دس، بیس کروڑ تو انتخابی مہم کی نذر ہو جاتے ہیں۔
ظہیر اختر بیدری دعوے سے کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بدعنوانی نہیں روکی جا سکتی۔ یہ صرف نجی ملکیت کی ممانعت سے ہی ممکن ہے۔ ادارے قومیانے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہاں سوشلسٹ ممالک کی نقل کی گئی، مگر یہ نہیں دیکھا وہاں ادارے ٹریڈ یونین کے حوالے کیے گئے، یہاں کی طرح بیوروکریسی کے نہیں۔ وہ مساوات مطلق کے نظریے کو غلط سمجھتے ہیں، کہتے ہیں کہ محنتانہ مساوی نہیں، بلکہ سب کی اہلیت کے مطابق ملنا چاہیے۔ محنت کش کو بنیادی سہولیات نہ ملنا ظلم ہے۔
ظہیر اختر بیدری آج کے مزدوروں کی حالت کو 1886ءکے شکاگو کے محنت کشوں سے بدتر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے ساڑھے چار کروڑ مزدور دور غلاموں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج بھی 16, 16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے، ظالمانہ ٹھیکے داری نظام میں تقرری اور برطرفی سے لے کر اجرت تک، سب ٹھیکے داروں کے حوالے ہے۔ شکاگو میں بھی ایسا نہیں تھا، جیسے یہاں آج ٹھیکے دار بے روزگاروں کو لا کر مالکان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان کا ملازمتی کارڈ یا تقرر نامہ نہیں دیا جاتا، جب چاہیں کام لیں، جب چاہیں نکال دیں۔ اس ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں ہے۔ جمہوری حکومت کم سے کم مزدوروں کو ٹریڈ یونین کا آئینی اور قانونی حق ہی دلوا دے۔
آج کوئی ٹریڈ یونین کا نام لے، تو ملازمت سے نکال دیتے ہیں۔ مزدوروں کے لیے کوئی سیاسی جماعت نہیں بولتی، ان کے 'لیبر ونگ' بھی اپنی سیاست کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ آج محنت کشوں کے نام لیوا اے سی کمروں میں بیٹھے ہوتے ہیں، مالکان سے رابطے رکھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ آج خوف زدہ مزدور ظلم سہہ رہا ہے، لیکن اس کے اندر پکنے والا لاوا کسی دن ضرور پھٹے گا، یہ فطری بات ہے، ظلم بڑھتا ہے، تو ردعمل تو ہوتا ہے، لیکن اس کی شکل کیا ہوگی، یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ظہیر بیدری پانچ بھائی اور دو بہنیں تھیں، جس میں تین بھائی فوت ہوگئے۔ والد ہندوستان میں پولیس میں اکاونٹنٹ تھے، وہیں ریٹائر ہوئے۔ 1975ءمیں شادی ہوئی، چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ شریک حیات اسکول کی ہیڈ مسٹریس رہیں، اب ریٹائر ہو چکیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے کے علاوہ سب کی شادی ہوگئی۔ بڑا پوتا 12 سال کا، جب کہ بڑے نواسے کی عمر 22 برس ہے۔ کہتے ہیں نظریاتی زندگی میں کوئی خوش کُن لمحہ نہیں آیا۔ دنیا بھر میں قتل وغارت ہو رہی ہے، روزانہ اتنے لوگ مارے جاتے ہیں، اور ہم خبر پڑھ کر آگے چلے جاتے ہیں۔ انسانی جان کی اہمیت نہیں رہی، یہ بے حد کر ب کی بات ہے۔ حیدرآباد میں ایک قتل کا بھی برسوں تذکرہ رہتا تھا۔ زندگی میں وہ بہت سے مشکل لمحات سے نبرد آزما رہے، 1986ءمیں والدہ کی رحلت اُن میں سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے، جسے وہ قتل قرار دیتے ہیں، جب اسٹیڈیم روڈ کے نجی اسپتال میں تشخیص نہ ہو سکی، اور اُن کا اپنڈکس پھٹ گیا!
افسانہ نگاروں میں کرشن چندر ، بیدی اور منٹو کو پسند کرتے ہیں۔ ناولوں میں 'خدا کی بستی' (شوکت صدیقی) نے متاثر کیا۔ شاعری میں حبیب جالب پسند ہیں، فراز اور فیض کا کلام بھی بھاتا ہے۔ پرانی فلموں میں ہندوستان کی 'پاکیزہ' اور 'سلسلہ' پسند آئی۔ سنیجو کمار اور ونود کھنہ کی کلا نے دل میں گھر کیا۔ مہدی حسن کی گائیکی نے دل دادہ کیا۔ جب صحت اچھی تھی تو حیدر آبادی بریانی کے شوقین رہے، اب معدے کے السر کے سبب کھانے پینے میں بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔
ظہیر اختر بیدری کہتے ہیں کہ جب انسانوں میں نفرت مٹ جائے گی، تو وہی مسرت کا دن ہوگا۔ ہم جس رنگ ونسل کے ہیں، اس میں ہمارا کوئی دوش نہیں ہے، تو پھر اس بنیاد پر نفرت کا کیا جواز؟ یہی ماجرا مذہبی عقائد کا ہے، بیش تر لوگ جو ماحول دیکھتے ہیں، اسی میں ڈھل جاتے ہیں۔ مختلف مذاہب کے لوگ جب خدا کی بات کرتے ہیں، تو اوپر ہی اشارہ کرتے ہیں۔ عقائد مختلف سہی، لیکن سب آدم کی اولاد ہیں۔ ایسا راستہ ہونا چاہیے کہ سب مذاہب کے لوگ محبت سے رہیں۔ آخری سانس تک اُن کی یہی جدوجہد ہے۔
٭جب اہل خانہ نے طبع زاد تحاریر جلا دیں!
1960ءمیں پورٹ ٹرسٹ میں ملازم تھے، جہاں کی فرصت لکھنے لکھانے کی صورت کارآمد کی اور ایک ناول 'کالا سورج' اور 'سنگ ریزے ' کے عنوان سے 14 افسانے لکھے، جو شایع نہیں ہوئے۔ کچھ عرصے بعد بائیں بازو کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی، تو اُن کے بھی وارنٹ نکلے جس کے سبب وہ روپوش تھے۔ گھر کے باہر پولیس کی گاڑی کا پہرا ہوتا، گھر کی تلاش میں آتے رہتے۔ اہل خانہ نے اُن کے کاغذوں کے پلندے ایک بوری میں بند کر کے رکھے تھے۔ ایک دن سرکاری کارندوں کی پوچھ گچھ کے ڈر سے گھر والوں نے اُس بورے کو نذرآتش کر دیا، جس میں ان کی شایع ہونے والی تحریروں کے ریکارڈ کے ساتھ طبع زاد ناول 'کالا سورج' اور افسانوں کا مجموعہ 'سنگ ریزے' آگ کی نذر ہوگیا۔ جسے دوبارہ نہ لکھ سکے۔
٭قصہ جنگی جہازوں کے 'نشانہ' لینے کا!
1948ءمیں ریاست حیدرآباد (دکن) کے ہندوستان سے الحاق کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ظہیر اختر بیدری کہتے ہیں کہ نمازِجمعہ کے اجتماع پر ہندوستانی طیارے شیلنگ کرتے تھے، اور بچے نشانے والی بندوق لے کر درختوں پر چڑھ جاتے اور حملہ آور طیاروں پر "نشانہ" باندھتے۔ اُن کے بچپن میں یہ من پسند مشغلہ ہوتا تھا۔ ضلع بیدر میں مسلمان آبادی 12 فی صد تھی، جب کہ ہندو 88 فی صد تھے۔ مسلمان حاکم تھے، اس لیے نفسیاتی طور پر حاوی رہتے، لیکن کوئی جھگڑا بھی نہیں تھا، والد کے کاروباری شراکت دار ہندو تھے۔ وہ ہمارے ساتھ بریانی کھاتے، ہم ان کے باورچی خانے میں بیٹھ کر کھاتے۔ ہمارے ہاں وہ بڑے کا گوشت بھی کھا لیتے، عموماً گائے ذبح کی جاتی۔ اُس زمانے میں بکرے کا گوشت بیمار کھاتے۔ انہوں نے وہاں آخری قربانی 1952ءمیں کی، جس کے لیے گائے 13 روپے کی ملی۔ آج بھی بہت سے رشتے دار وہاں رہتے ہیں۔ 1980ءمیں ہندوستان گئے، کہتے ہیں کہ وہاں کی اکثریت اعتدال پسند ہے۔ لوگ مل جل کر رہنا سیکھ گئے، یا مجبور ہو گئے۔ حکام نے بھی تعاون کیا، بیدر کا ویزہ نہ ہونے کے باوجود وہاں گئے۔
٭رشحات قلم کا ذکر
ظہیر اختر بیدری کے افسانوں کے مرکزی خیال امن پسندی اور مساوات پر استوار ہیں۔ 1992ءمیں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ 'ستائے ہوئے لوگ' شایع ہوا، اس کے بعد 'آسمان سے آگے'، 'ریت کے بگولے'، 'صدیوں کے سراب'، 'آخر شب'، 'داغ داغ اجالا' اور 'ریگزار' سمیت افسانوں کی نو کتابیں آچکیں۔ دو کالموں کے مجموعے 'زبان خلق' اور 'صدابصحر' شایع ہوئے، جب کہ کالموں کا ایک اور مجموعہ اشاعت کے مراحل میں ہے۔
مزدوروں کی جدوجہد کے تعلق سے یہ گفتگو معروف ادیب اور کالم نگار ظہیر اختر بیدری کی ہے اور کیوں نہ ہو کہ انہوں نے محنت کشوں کی جدوجہد کے سرد وگرم جو سہے ہیں 1970ءکی دہائی میں مزدوروں اور حکومت کے ٹکراﺅ کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ مزدور تحریک کی قیادت نے یہ نہیں سوچا کہ غیر منظم طریقے سے مضبوط ریاستی مشینری سے تصادم کے نتائج کیا برآمد ہوں گے۔
ظہیر اختر بیدری اُس وقت کے مزدوروں کی حالت زار کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں کہ ملوں میں مزدور ملازم نہیں، بلکہ غلاموں کی طرح تھے، انہیں باقاعدہ نجی جیلوں میں سزائیں دی جاتیں، وہ بول نہیں سکتا تھا۔ جس کا شدید ردعمل ہوا، ہڑتالیں ہوئیں اور پھر عالم یہ تھا کہ مل کا مالک یونین کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ مزدوروں کے اس طرز عمل کو بھی وہ انتہاپسندانہ قرار دیتے ہیں، تاہم اُن کا خیال ہے کہ اگر مذاکرات سے تنخواہوں میں اضافے، ہڑتال کے دنوں کی اُجرت اور مستقل ملازمت جیسے مطالبات تھوڑے بہت بھی مان لیتے، تو ٹکراﺅ کی نوبت نہ آتی۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ مزدوروں کی ہڑتالوں سے لے کر اِن میں مسلح عناصر کی موجودگی تک ظہیر اختر بیدری کو شدید اختلاف تھا، اُن کا نکتہ تھا کہ مزدوروں کی تنظیم نو اور نچلی سطح تک منظم ہونے سے پہلے یہ مراحل نقصان دہ ہوں گے۔ کہتے ہیں ہمارے ساتھی نہ سمجھ سکے اور 1972ءمیں 'سائٹ' کی ولیکا مل میں ہتھیار بند مزدوروں کی موجودگی سے حکومت کو کارروائی کا جواز مل گیا اور وہاں گولیاں بھی چلیں، داﺅد مل (لانڈھی) پر مسلح مزدوروں نے قبضہ کرلیا، جسے واگزار کرانے کے لیے پولیس نے کارروائی کی اور 20,25 مزدور قتل ہوئے، یہ بھی روایت ہے کہ رات میں ہی بہت سی لاشیں ٹرکوں میں لے جا کر دفنا دی گئیں۔
ظہیر اختر بیدری کہتے ہیں کہ لانڈھی کی کارروائی سے ایک دن پہلے رات گئے، وزیر محنت عبدالستار گبول کے گھر پر یہ طے ہوا تھا کہ ہمارے مطالبات پر اگلے دن اسمبلی میں بات ہوگی، یوں صبح وہ اسمبلی پہنچنے کے لیے ٹیکسی میں بیٹھے، تو ڈرائیور سے لانڈھی کے واقعے کا پتا چلا۔ انہیں حیرت ہوئی کہ یہ کیا ہوا، جب رات میں ساری بات طے ہوئی ہے۔
اس سے پہلے انہوں نے دیکھا کہ عبدالستار گبول سے کمشنر کراچی رودائیداد خان نے کہا کہ یہ اب باتوں سے نہیں مانیں گے، ان کے خلاف سخت کارروائی کرنا پڑے گی۔ انہیں یہ بے حد عجیب لگا کہ ایک بیوروکریٹ منتخب وزیر کو رائے دے رہا ہے، اس کے باوجود بھی وہ نہیں سمجھتے کہ بھٹو سائٹ اور لانڈھی کے واقعات سے لاعلم ہوں گے۔ انہوں نے اس کے بعد وفاقی وزیر محنت رانا حنیف کو بھیجا، جہاں مزدور راہ نماﺅں سے مذاکرات ہوئے، ہڑتال کے دن کی اجرتیں اور دیگر مسائل پر گفت وشنید ہوئی۔ ظہیر بیدری کہتے ہیں کہ انہوں نے رانا حنیف سے یوم مئی پر تعطیل کا مطالبہ تو منظور کرالیا، لیکن مزدور کسان راج کی بات کرنے والی حکومت نے اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں کہ پرامن جدوجہد کی بھی گنجائش نہ رہی، انہیں طویل سزائیں سنائی گئیں، جو باہر تھے، وہ بھی سر نہیں اٹھا سکتے تھے، نتیجتاً مزدور تنظیمیں دم توڑ گئی۔ وہ اس امر کو بھٹو حکومت پر ایک بڑا داغ قرار دیتے ہیں۔
یعنی تحریک طاقت کے بل پر کچل دی گئی ملوں میں چوکی داروں کو با اختیار کر دیا گیا، جو ملازموں کو خوف زدہ کرتے اور ڈرا دھمکا کر رکھتے، مل ایریا میں جلسوں کی ممانعت ہوگئی۔ وہاں ہمہ وقت پولیس موجود رہتی، جس کے بعد ریڑھی گوٹھ وغیرہ میں جلسے کیے، لیکن اب مزدور تحریک میں خلا پیدا ہو گیا۔ طویل قید سے رہائی پانے کے بعد بھی مزدوروں کو منظم کرنے کی کوئی سبیل نہ ہو سکی۔
'کیا تحریک بچانے کے لیے مزاحمت نہ کرنے پر مزدور قائدین کو دوش نہیں؟'
مزدور قیادت کی غلطیوں کے ناقد ہونے کے باوجود وہ زیادہ ذمہ دار حالات کو قرار دیتے ہیں کہ ریاستی جبر اتنا شدید ہوتا ہے کہ سہا نہیں جا سکتا، ہر مل سے سرکردہ کارکن اٹھا لیے گئے تھے، پھر ضیاالحق کے زمانے میں ملتان میں بھی کارروائی ہوئی، یوں رہ جانے والے مزدور بے سہارا ہوگئے۔ ایسے میں یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ مزدوروں کے خلاف کارروائی تو صرف کراچی میں ہوئی، تو باقی ملک میں پھر مزدور تنظیمیں کیوں نہ رہیں؟ اس کے جواب میں ظہیر بیدری نے کہا کہ ایسا اس لیے ہوا کہ کراچی ملک کا ایک بڑا تجارتی مرکز ہے، اس لیے ان واقعات کے گہرے اثرات ملک گیر تھے۔
کوچہ صحافت کی سیّاحی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یحییٰ خان کے دور میں مارشل لا عدالت کی سزا بھگت کر رہا ہوئے، تو صدر میں محمد حسین عطا کے 'پام گرو ہوٹل' میں بیٹھک رہتی تھی، جہاں فیض احمد فیض کے ساتھ پنڈی سازش کیس میں گرفتار ہونے والے جنرل اکبر وغیرہ بھی اکثر آتے۔ محمد حسین عطا نے فیض احمد فیض سے اُن کی بے روزگاری کا تذکرہ کیا، تو فیض نے ہفت روزہ لیل ونہار بلالیا، یوں حسن عابدی ودیگر کے ساتھ وہاں کام کا موقع ملا، پھر 1972ءتا 1974ءابراہیم جلیس کے ہفت روزہ 'عوامی عدالت' سے منسلک رہے۔ کالم نگاری کا سلسلہ تو 1965ءمیں پی آئی اے کے پرچے 'منشور' سے شروع کر دیا تھا، 1970ءکی دہائی میں 'حریت' میں کالم لکھنا شروع کیا، اُس وقت کالم نگاری میں مزاح نگاری کا رجحان زیادہ تھا، لیکن انہوں نے ہمیشہ سیاسی کالم لکھے، 1982ءمیں 'جنگ' کے صفحہ نمبر دو پر اُن کا کالم بہ عنوان 'زبان خلق' شایع ہونے لگا، دس، گیارہ برس جنگ سے وابستگی رہی، مختلف رسائل میں بھی لکھتے رہے۔ 1992ءمیں ماہ نامہ 'فردا' نکالا، جس کا نام شکیل عادل زادہ نے تجویز کیا، یہ دس برس جاری رہا۔ گزشتہ 14 برس سے ایکسپریس میں 'اگر اجازت ہو' کے عنوان سے ہفتے میں چار کالم لکھتے ہیں۔
کالم نگاری کے حوالے سے ظہیر بیدری کا کہنا ہے کہ متوازن انداز میں کھلے دل سے سب کی خوبیاں خامیاں بیان کرنی چاہئیں۔ انہیں ایوب خان کے زمانے میں کالم پر اسپیشل پولیس کے اہلکار تنبیہ کرتے تھے، ایوب دور کے بعد ایسی کوئی براہ راست دھمکی نہیں آئی، البتہ ادارہ ضرور احتیاط کا کہتا ہے۔
ظہیر اختر بیدری کی جنم بھومی حیدر آباد (دکن) کا علاقہ بیدر ہے، 1938ءمیں آنکھ کھولی، وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی، تعلیم کے بہ جائے کھیل کود اور شرارتوں میں زیادہ دل چسپی تھی ہم عمروں میں لیڈر بننے کا شوق تھا، آئے روز اسکول کی ناغہ کرتے، والد نے یہ صورت حال دیکھی، تو کم عمری میں ہی اپنے کاروبار میں لگا دیا، وہاں اُن کی راشن کی دو دکانیں، ایک ہوٹل اور ایک جنرل اسٹور تھا۔
الحاق کے زمانے میں بڑے بھائی الیاس سلیم، حیدرآباد ریاست کی مسلح رضا کار تنظیم سے جڑ گئے، ہندوستان نے پولیس کارروائی کے بعد ریاست پر قبضہ کیا، تو بھائی روپوش ہو کر کراچی آگئے، اُن کے بیوی بچے وہیں رہ گئے تھے، 1953ءمیں منقسم خاندان نے بھی ہجرت کا مرحلہ طے کیا۔ حیدرآباد کے وزیراعظم میر لائق علی نے کراچی میں مہاجرین کے روزگار کے لیے ایک صنعت قائم کی، کراچی آکر وہاں ملازم ہوگئے۔
ہجرت کے بعد تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور میٹرک، انٹر اور بی اے کے بعد جامعہ کراچی سے سیاسیات اور صحافت میں ایم اے کیے۔ اس کے بعد نیشنل عوامی پارٹی میں آگئے، جہاں غوث بخش بزنجو، مولانا عبدالحمید بھاشانی اور ولی خان جیسے قدآور سیاست دانوں کی صحبت میسر آئی۔ متحدہ مزدور فیڈریشن میں متحرک ہوئے اور مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے ان کی بستیوں میں بھی رہے۔
ظہیر اختر کا ماضی مزدوروں کے اتحاد کی سنہری یادوں سے مزین ہے کہتے ہیں کہ صرف ایک فون کال پر محنت کشوں کی ہڑتال ہو جاتی تھی، کوئی سیاسی، مذہبی یا لسانی تفریق نہ تھی۔ 1968ءمیں مولانا عبدالحمید بھاشانی کی خواہش پر چند گھنٹوں میں جلسہ کرانے کی یادیں بازیافت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے صبح سات بجے کنیز فاطمہ، عبدلوحید خان اور علاﺅالدین عباسی کے ساتھ داﺅد مل پہنچ کر اعلان کیا کہ آج بھاشانی صاحب آرہے ہیں۔ اُس وقت ایک شفٹ آرہی تھی اور ایک جا رہی تھی، دونوں وہیں ٹھیر گئے اور ملیں بند کر کے ہمارے ساتھ ہولیے۔ اس کے بعد لانڈھی 89 میں 50 ہزار افراد کا ایک بڑا جلسہ ہوا، جس میں جون ایلیا اور سعید رضا سعید وغیرہ بھی شریک ہوئے۔
ظہیر اختر بیدری نے 1970ءکی دہائی تک موجود 'آنہ لائبریری' سے خوب استفادہ کیا۔ کہتے ہیں ادب سے دوری نے سماجی برائیوں سے دوچار کیا، تب لوگ بے خوف ہوکر گھروں کے کواڑ کھلے رکھتے تھے، آج بند دروازوں کے باوجود سہمے ہوئے ہیں۔ آج ادب بینی کے احیا کی ضرورت ہے۔ 500 کی تعداد میں چھپنے والی کتاب بھی بانٹنی پڑتی ہے، حکومت ترجمے کرائے اور کتابوں کی سستی اشاعت کے لیے اقدام کرے۔
اُن کا خیال ہے کہ 1960ءکے زمانے میں اشتراکیت کی مقبولیت سے سرمایہ دار گھبرا گئے کہ اُن کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ اس لیے انہوں نے وار کیا۔ تاہم سوشلسٹ بلاک نے بھی غلطیاں کیں، نتیجتاً اب روس اور چین مکمل سمجھوتا کر چکے۔ کہتے ہیں کہ کوئی نظام کتنا ہی اچھا ہو، اگر زمانے کے لحاظ سے تبدیلیاں نہ لائی جائیں، تو وہ نہیں چل سکتا۔ سرمایہ داری نظام میں ساری عدالت اور انصاف ریاستوں کا باج گزار ہوتا ہے، وہ آزادانہ کام کر ہی نہیں سکتے، کہیں کہیں خودمختار ہیں، لیکن جزوی۔ کہنے کو آج جمہوریت ہے، لیکن کسی جماعت میں چناﺅ نہیں ہوتا، ہو بھی تو وہی عہدے دار "منتخب" ہوتے ہیں۔ دیہاتوں میں لوگ جاگیرداروں سے دبے ہوئے ہیں، جب تک اربوں روپے نہ ہوں انتخابات نہیں لڑ سکتے، دس، بیس کروڑ تو انتخابی مہم کی نذر ہو جاتے ہیں۔
ظہیر اختر بیدری دعوے سے کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بدعنوانی نہیں روکی جا سکتی۔ یہ صرف نجی ملکیت کی ممانعت سے ہی ممکن ہے۔ ادارے قومیانے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہاں سوشلسٹ ممالک کی نقل کی گئی، مگر یہ نہیں دیکھا وہاں ادارے ٹریڈ یونین کے حوالے کیے گئے، یہاں کی طرح بیوروکریسی کے نہیں۔ وہ مساوات مطلق کے نظریے کو غلط سمجھتے ہیں، کہتے ہیں کہ محنتانہ مساوی نہیں، بلکہ سب کی اہلیت کے مطابق ملنا چاہیے۔ محنت کش کو بنیادی سہولیات نہ ملنا ظلم ہے۔
ظہیر اختر بیدری آج کے مزدوروں کی حالت کو 1886ءکے شکاگو کے محنت کشوں سے بدتر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے ساڑھے چار کروڑ مزدور دور غلاموں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج بھی 16, 16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے، ظالمانہ ٹھیکے داری نظام میں تقرری اور برطرفی سے لے کر اجرت تک، سب ٹھیکے داروں کے حوالے ہے۔ شکاگو میں بھی ایسا نہیں تھا، جیسے یہاں آج ٹھیکے دار بے روزگاروں کو لا کر مالکان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان کا ملازمتی کارڈ یا تقرر نامہ نہیں دیا جاتا، جب چاہیں کام لیں، جب چاہیں نکال دیں۔ اس ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں ہے۔ جمہوری حکومت کم سے کم مزدوروں کو ٹریڈ یونین کا آئینی اور قانونی حق ہی دلوا دے۔
آج کوئی ٹریڈ یونین کا نام لے، تو ملازمت سے نکال دیتے ہیں۔ مزدوروں کے لیے کوئی سیاسی جماعت نہیں بولتی، ان کے 'لیبر ونگ' بھی اپنی سیاست کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ آج محنت کشوں کے نام لیوا اے سی کمروں میں بیٹھے ہوتے ہیں، مالکان سے رابطے رکھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ آج خوف زدہ مزدور ظلم سہہ رہا ہے، لیکن اس کے اندر پکنے والا لاوا کسی دن ضرور پھٹے گا، یہ فطری بات ہے، ظلم بڑھتا ہے، تو ردعمل تو ہوتا ہے، لیکن اس کی شکل کیا ہوگی، یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ظہیر بیدری پانچ بھائی اور دو بہنیں تھیں، جس میں تین بھائی فوت ہوگئے۔ والد ہندوستان میں پولیس میں اکاونٹنٹ تھے، وہیں ریٹائر ہوئے۔ 1975ءمیں شادی ہوئی، چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ شریک حیات اسکول کی ہیڈ مسٹریس رہیں، اب ریٹائر ہو چکیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے کے علاوہ سب کی شادی ہوگئی۔ بڑا پوتا 12 سال کا، جب کہ بڑے نواسے کی عمر 22 برس ہے۔ کہتے ہیں نظریاتی زندگی میں کوئی خوش کُن لمحہ نہیں آیا۔ دنیا بھر میں قتل وغارت ہو رہی ہے، روزانہ اتنے لوگ مارے جاتے ہیں، اور ہم خبر پڑھ کر آگے چلے جاتے ہیں۔ انسانی جان کی اہمیت نہیں رہی، یہ بے حد کر ب کی بات ہے۔ حیدرآباد میں ایک قتل کا بھی برسوں تذکرہ رہتا تھا۔ زندگی میں وہ بہت سے مشکل لمحات سے نبرد آزما رہے، 1986ءمیں والدہ کی رحلت اُن میں سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے، جسے وہ قتل قرار دیتے ہیں، جب اسٹیڈیم روڈ کے نجی اسپتال میں تشخیص نہ ہو سکی، اور اُن کا اپنڈکس پھٹ گیا!
افسانہ نگاروں میں کرشن چندر ، بیدی اور منٹو کو پسند کرتے ہیں۔ ناولوں میں 'خدا کی بستی' (شوکت صدیقی) نے متاثر کیا۔ شاعری میں حبیب جالب پسند ہیں، فراز اور فیض کا کلام بھی بھاتا ہے۔ پرانی فلموں میں ہندوستان کی 'پاکیزہ' اور 'سلسلہ' پسند آئی۔ سنیجو کمار اور ونود کھنہ کی کلا نے دل میں گھر کیا۔ مہدی حسن کی گائیکی نے دل دادہ کیا۔ جب صحت اچھی تھی تو حیدر آبادی بریانی کے شوقین رہے، اب معدے کے السر کے سبب کھانے پینے میں بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔
ظہیر اختر بیدری کہتے ہیں کہ جب انسانوں میں نفرت مٹ جائے گی، تو وہی مسرت کا دن ہوگا۔ ہم جس رنگ ونسل کے ہیں، اس میں ہمارا کوئی دوش نہیں ہے، تو پھر اس بنیاد پر نفرت کا کیا جواز؟ یہی ماجرا مذہبی عقائد کا ہے، بیش تر لوگ جو ماحول دیکھتے ہیں، اسی میں ڈھل جاتے ہیں۔ مختلف مذاہب کے لوگ جب خدا کی بات کرتے ہیں، تو اوپر ہی اشارہ کرتے ہیں۔ عقائد مختلف سہی، لیکن سب آدم کی اولاد ہیں۔ ایسا راستہ ہونا چاہیے کہ سب مذاہب کے لوگ محبت سے رہیں۔ آخری سانس تک اُن کی یہی جدوجہد ہے۔
٭جب اہل خانہ نے طبع زاد تحاریر جلا دیں!
1960ءمیں پورٹ ٹرسٹ میں ملازم تھے، جہاں کی فرصت لکھنے لکھانے کی صورت کارآمد کی اور ایک ناول 'کالا سورج' اور 'سنگ ریزے ' کے عنوان سے 14 افسانے لکھے، جو شایع نہیں ہوئے۔ کچھ عرصے بعد بائیں بازو کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی، تو اُن کے بھی وارنٹ نکلے جس کے سبب وہ روپوش تھے۔ گھر کے باہر پولیس کی گاڑی کا پہرا ہوتا، گھر کی تلاش میں آتے رہتے۔ اہل خانہ نے اُن کے کاغذوں کے پلندے ایک بوری میں بند کر کے رکھے تھے۔ ایک دن سرکاری کارندوں کی پوچھ گچھ کے ڈر سے گھر والوں نے اُس بورے کو نذرآتش کر دیا، جس میں ان کی شایع ہونے والی تحریروں کے ریکارڈ کے ساتھ طبع زاد ناول 'کالا سورج' اور افسانوں کا مجموعہ 'سنگ ریزے' آگ کی نذر ہوگیا۔ جسے دوبارہ نہ لکھ سکے۔
٭قصہ جنگی جہازوں کے 'نشانہ' لینے کا!
1948ءمیں ریاست حیدرآباد (دکن) کے ہندوستان سے الحاق کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ظہیر اختر بیدری کہتے ہیں کہ نمازِجمعہ کے اجتماع پر ہندوستانی طیارے شیلنگ کرتے تھے، اور بچے نشانے والی بندوق لے کر درختوں پر چڑھ جاتے اور حملہ آور طیاروں پر "نشانہ" باندھتے۔ اُن کے بچپن میں یہ من پسند مشغلہ ہوتا تھا۔ ضلع بیدر میں مسلمان آبادی 12 فی صد تھی، جب کہ ہندو 88 فی صد تھے۔ مسلمان حاکم تھے، اس لیے نفسیاتی طور پر حاوی رہتے، لیکن کوئی جھگڑا بھی نہیں تھا، والد کے کاروباری شراکت دار ہندو تھے۔ وہ ہمارے ساتھ بریانی کھاتے، ہم ان کے باورچی خانے میں بیٹھ کر کھاتے۔ ہمارے ہاں وہ بڑے کا گوشت بھی کھا لیتے، عموماً گائے ذبح کی جاتی۔ اُس زمانے میں بکرے کا گوشت بیمار کھاتے۔ انہوں نے وہاں آخری قربانی 1952ءمیں کی، جس کے لیے گائے 13 روپے کی ملی۔ آج بھی بہت سے رشتے دار وہاں رہتے ہیں۔ 1980ءمیں ہندوستان گئے، کہتے ہیں کہ وہاں کی اکثریت اعتدال پسند ہے۔ لوگ مل جل کر رہنا سیکھ گئے، یا مجبور ہو گئے۔ حکام نے بھی تعاون کیا، بیدر کا ویزہ نہ ہونے کے باوجود وہاں گئے۔
٭رشحات قلم کا ذکر
ظہیر اختر بیدری کے افسانوں کے مرکزی خیال امن پسندی اور مساوات پر استوار ہیں۔ 1992ءمیں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ 'ستائے ہوئے لوگ' شایع ہوا، اس کے بعد 'آسمان سے آگے'، 'ریت کے بگولے'، 'صدیوں کے سراب'، 'آخر شب'، 'داغ داغ اجالا' اور 'ریگزار' سمیت افسانوں کی نو کتابیں آچکیں۔ دو کالموں کے مجموعے 'زبان خلق' اور 'صدابصحر' شایع ہوئے، جب کہ کالموں کا ایک اور مجموعہ اشاعت کے مراحل میں ہے۔