طالبان سے مذاکرات میں رکاوٹ ڈرون حملے یا بم دھماکے
سمیع الحق میٹنگ میں ہیں،پرسنل اسٹاف کارابطے پرجواب،فضل الرحمن عمرہ پرچلے گئے.
تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے کراچی میں ایس ایس پی چوہدری اسلم اور ان کے ساتھیوں پر حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہی طالبان سے امن مذاکرات کیلیے رابطوں کے دعویدار دونوں مولانا نے خاموشی اختیارکرلی ہے۔
طالبان کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاکت پر پاکستان کے وزیر داخلہ اور امن مذاکرات میں رابطہ کاری کے فرائض ادا کرنے والوں نے ڈرون حملوں کو امن مذاکرات سبوتاژکرنے کی سازش قرار دیا تھا اور حکومت پاکستان کے ذمہ داران نے امریکی انتظامیہ کی اعلیٰ ترین سطح تک آواز احتجاج بلند کی تھی کہ حکومت پاکستان امن کے قیام کیلیے طالبان کیساتھ مذاکرات شروع ہی کرنے والی تھی کہ امریکا نے ڈرون حملہ کر کے حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کو جان سے مار ڈالا جس سے امن کے قیام کی حکومتی سنجیدہ کوششوں کو شدید دھچکا لگا، اب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے طالبان سے رابطوں کو ناکامی جانتے ہوئے حکومت پاکستان نے یہ ذمہ داری جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے بقول انھیں سونپی ہے، وہ وزیر اعظم نواز شریف سے بالمشافہ ملاقات کے بعد پاکستانی طالبان سے رابطے بحال کرنے اور امن کے قیام کیلیے انھیں مذاکرات پر آمادہ کر رہے یاکر چکے ہیں۔
مگر جمعرات کے روز کراچی میں پولیس کے نامور، فرض شناس اور مثالی افسر چوہدری اسلم کو ایک حملے میں نشانہ بنایا گیا اور وہ اپنے تین ساتھیوں سمیت خالق حقیقی سے جا ملے ، ایسے میں حکومت پاکستان اور اس کے رابطہ کار مولانا سمیع الحق مکمل طور پر خاموش ہیں اور عوام کو یہ بتانے سے بھی قاصر نظر آ رہے ہیں کہ ڈرون حملوں کی طرح چوہدری اسلم اور اس کے ساتھیوں پر کیا جانیوالا تحریک طالبان کا حملہ بھی امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کارروائی ہے، جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے رابطہ کر کے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کے پرسنل سٹاف نے کہا کہ مولانا سمیع الحق ایک ضروری میٹنگ میں ہیں ، اس لیے ان سے اب بات نہیں ہو سکتی جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جمعرات کے روز ہی عمرہ کی ادائیگی کیلیے سعودی عرب روانہ ہو گئے ہیں، اس لیے وہ بھی یہ بتانے سے قاصر معلوم ہوتے ہیں کہ حکومت پاکستان کی طالبان کیساتھ مجوزہ امن مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ امریکا کے ڈرون حملے ہیں یا طالبان کی طرف سے کیے جانیوالے بم دھماکے ہیں۔
طالبان کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاکت پر پاکستان کے وزیر داخلہ اور امن مذاکرات میں رابطہ کاری کے فرائض ادا کرنے والوں نے ڈرون حملوں کو امن مذاکرات سبوتاژکرنے کی سازش قرار دیا تھا اور حکومت پاکستان کے ذمہ داران نے امریکی انتظامیہ کی اعلیٰ ترین سطح تک آواز احتجاج بلند کی تھی کہ حکومت پاکستان امن کے قیام کیلیے طالبان کیساتھ مذاکرات شروع ہی کرنے والی تھی کہ امریکا نے ڈرون حملہ کر کے حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کو جان سے مار ڈالا جس سے امن کے قیام کی حکومتی سنجیدہ کوششوں کو شدید دھچکا لگا، اب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے طالبان سے رابطوں کو ناکامی جانتے ہوئے حکومت پاکستان نے یہ ذمہ داری جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے بقول انھیں سونپی ہے، وہ وزیر اعظم نواز شریف سے بالمشافہ ملاقات کے بعد پاکستانی طالبان سے رابطے بحال کرنے اور امن کے قیام کیلیے انھیں مذاکرات پر آمادہ کر رہے یاکر چکے ہیں۔
مگر جمعرات کے روز کراچی میں پولیس کے نامور، فرض شناس اور مثالی افسر چوہدری اسلم کو ایک حملے میں نشانہ بنایا گیا اور وہ اپنے تین ساتھیوں سمیت خالق حقیقی سے جا ملے ، ایسے میں حکومت پاکستان اور اس کے رابطہ کار مولانا سمیع الحق مکمل طور پر خاموش ہیں اور عوام کو یہ بتانے سے بھی قاصر نظر آ رہے ہیں کہ ڈرون حملوں کی طرح چوہدری اسلم اور اس کے ساتھیوں پر کیا جانیوالا تحریک طالبان کا حملہ بھی امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کارروائی ہے، جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے رابطہ کر کے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کے پرسنل سٹاف نے کہا کہ مولانا سمیع الحق ایک ضروری میٹنگ میں ہیں ، اس لیے ان سے اب بات نہیں ہو سکتی جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جمعرات کے روز ہی عمرہ کی ادائیگی کیلیے سعودی عرب روانہ ہو گئے ہیں، اس لیے وہ بھی یہ بتانے سے قاصر معلوم ہوتے ہیں کہ حکومت پاکستان کی طالبان کیساتھ مجوزہ امن مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ امریکا کے ڈرون حملے ہیں یا طالبان کی طرف سے کیے جانیوالے بم دھماکے ہیں۔