پاکستان بھارت کو سرحدوں کی سیاست سے باہر نکالنے میں کامیاب
بیک ڈورڈپلومیسی سے کشیدگی کے بادل چھٹ گئے، مذاکراتی عمل شروع ہونے کے قریب
پاکستان بالاخر بھارت کوسرحدوں کی سیاست سے باہرنکالنے میںکامیاب ہوگیا ہے جس کااظہاربھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپریل میں دورہ پاکستان کی حامی بھرکے کی ہے۔
پاکستان تمام مواقع پربھارتی قیادت کویہ باورکرانے کی کوشش میں مصروف رہاکہ تمام ترتصفیہ طلب مسائل کاحل جنگ وجدل یا سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ کرنے کے بجائے مذاکرات میںہ ے مگر بھارتی قیادت کوایسے مشیروں نے گھیررکھاہے جومسائل کے حل کیلیے مذاکرات کے بجائے کشیدگی بڑھانے پریقین رکھتے ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت نے خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرکے اسے نیا رخ دیا جس کے ثمرات فوری طور پر بیک ڈورڈپلومیسی سے نظر آنا شروع ہوگئے اورکشیدگی کے بادل چھٹنے پر سفارتی طریقے سے مذاکراتی عمل شروع ہونے کے قریب آ گیا، وزرائے اعظم کے مابین جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پرملاقات ہوئی اور بعداز اںوزرائے خارجہ کی دوبارملاقات ہوئی، تیسری اعلیٰ سطح ملاقات ڈی جی ایم اوزکی ہوئی جس میںلائن آف کنٹرول پربلاوجہ فائرنگ کاسلسلہ روکنے میں کامیابی حاصل ہوئی، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مثبت اثرات افغانستان میںنمایاںطورپردیکھے جا سکتے ہیں جہاںماضی کی نسبت پاکستان کے لیے نرم گوشہ محسوس کیاجارہاہے۔
اسی پالیسی کی جھلک امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک مذاکرات کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں جس کیلیے وزیراعظم کے بعدمشیرخارجہ سرتاج عزیزدورہ امریکا کیلیے صف بندی کررہے ہیں، روس کے ساتھ نئے سرے سے سفارتی وتجارتی روابط بڑھائے جارہے ہیںجس کیلیے وزیراعظم کے دورہ روس کی تیاریاں جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میںبیک ڈورڈپلومیسی نے نمایاں کردار ادا کیا ہے جوپہلے شہریارخان اوربعدمیںوزیراعلیٰ پنجاب اور اب دوبارہ شہریارخان کررہے ہیںاس دورے کے دوران انھوںنے دونوںممالک کے عوامی روابط بڑھانے کے حوالے سے کرکٹ میچزشروع کرنے کیلیے بھارتی قیادت پرزوردیاہے۔ اس دورے سے قوی امیدہے کہ کسی حدتک دونوںممالک کے مابین کرکٹ سیریز شروع ہوجائے گی، جنوری سے اپریل کے دورانیے کے دوران دونوں ممالک کے مابین جہاںسفارتی تعلقات بہترہوںگے وہاں دونوں ممالک کے مابین تصفیہ طلب مسائل پرمذاکراتی عمل بھی شروع ہونے کاعندیہ دیا جارہاہے۔
پاکستان تمام مواقع پربھارتی قیادت کویہ باورکرانے کی کوشش میں مصروف رہاکہ تمام ترتصفیہ طلب مسائل کاحل جنگ وجدل یا سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ کرنے کے بجائے مذاکرات میںہ ے مگر بھارتی قیادت کوایسے مشیروں نے گھیررکھاہے جومسائل کے حل کیلیے مذاکرات کے بجائے کشیدگی بڑھانے پریقین رکھتے ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت نے خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرکے اسے نیا رخ دیا جس کے ثمرات فوری طور پر بیک ڈورڈپلومیسی سے نظر آنا شروع ہوگئے اورکشیدگی کے بادل چھٹنے پر سفارتی طریقے سے مذاکراتی عمل شروع ہونے کے قریب آ گیا، وزرائے اعظم کے مابین جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پرملاقات ہوئی اور بعداز اںوزرائے خارجہ کی دوبارملاقات ہوئی، تیسری اعلیٰ سطح ملاقات ڈی جی ایم اوزکی ہوئی جس میںلائن آف کنٹرول پربلاوجہ فائرنگ کاسلسلہ روکنے میں کامیابی حاصل ہوئی، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مثبت اثرات افغانستان میںنمایاںطورپردیکھے جا سکتے ہیں جہاںماضی کی نسبت پاکستان کے لیے نرم گوشہ محسوس کیاجارہاہے۔
اسی پالیسی کی جھلک امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک مذاکرات کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں جس کیلیے وزیراعظم کے بعدمشیرخارجہ سرتاج عزیزدورہ امریکا کیلیے صف بندی کررہے ہیں، روس کے ساتھ نئے سرے سے سفارتی وتجارتی روابط بڑھائے جارہے ہیںجس کیلیے وزیراعظم کے دورہ روس کی تیاریاں جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میںبیک ڈورڈپلومیسی نے نمایاں کردار ادا کیا ہے جوپہلے شہریارخان اوربعدمیںوزیراعلیٰ پنجاب اور اب دوبارہ شہریارخان کررہے ہیںاس دورے کے دوران انھوںنے دونوںممالک کے عوامی روابط بڑھانے کے حوالے سے کرکٹ میچزشروع کرنے کیلیے بھارتی قیادت پرزوردیاہے۔ اس دورے سے قوی امیدہے کہ کسی حدتک دونوںممالک کے مابین کرکٹ سیریز شروع ہوجائے گی، جنوری سے اپریل کے دورانیے کے دوران دونوں ممالک کے مابین جہاںسفارتی تعلقات بہترہوںگے وہاں دونوں ممالک کے مابین تصفیہ طلب مسائل پرمذاکراتی عمل بھی شروع ہونے کاعندیہ دیا جارہاہے۔