گاندھی جی کو پراتھنا کا آغاز ”قُل ھُو اللہ اَحد“ سے کرتے دیکھا بزرگ صحافی نذیرخان کی کتھا
ایسا لگتا تھا کہ پورے ہندوستان میں ہی پاکستان بن رہا ہے
SAN FRANCISCO:
'1947ءمیں ترک وطن کو نکلے، تو دل وجان سے عزیز رِلے (Relay) سائیکل جگری یار 'کتھا سنگھ' کو سونپی جس سے دوبارہ کبھی رابطہ نہ ہو سکا تقسیم کا بِگل بجا اور پرانی دلی، پرانے قلعے میں دھکیل دی گئی وہ بھی 20 دن وہاں محصور رہے یہاں 'کتھا سنگھ' روزانہ اپنے گھر سے لسی اور پراٹھے لاتا۔ لوگوں کی حالت ناقابل بیان تھی، کھانے کے لیے پنجاب سے ڈیکو جہاز میں روٹیاں آتیں اور روزانہ ایک روٹی فی کس بٹتی کچھ پتا نہ تھا کہ اب کیا ہوگا؟ بس صبر کی تلقین ہوتی۔ رفع حاجت تک کا بندوبست نہ تھا، فوتگی ہوتی، تو وہیں چھوڑ دیتے!'
یہ بزرگ صحافی نذیرخان ہیں، جو تاریخ، سیاست اورصحافت سے متعلق لگ بھگ نو دہائیوں کا احاطہ کر رہے ہیں وہ 19 اپریل 1928ءکو پہاڑ گنج، دلی میں جنمے، بہن بھائیوں میں تیسرا نمبر تھا، والد ایک رسالے میں تھے، پھر گورنر جنرل کے عملے میں شامل ہوگئے۔ والدہ کے انتقال کے بعد والد نے دوسری شادی کی۔ نذیر خان نے 1946ءمیں اینگلو عربک کالج سے گریجویشن کیا، وہاں کچھ غیر مسلم اور کانگریسی طلبہ بھی تھے، لیکن تفریق نہ تھی۔ وہاں 'مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن' بنی، تو ظہور الحق صدر ہوئے، جو بعد میں کراچی میں جج بھی رہے۔ کالج میں ایک مرتبہ سردار عبدالرب نشتر نے اپیل کی تو خواتین نے زیورات کا ڈھیر لگا دیا۔
نذیر خان 1942ءمیں کانگریس کی 'ہندوستان چھوڑ دو' تحریک اس طرح یاد کرتے ہیں "جلوس میں ٹرک پر ہارمونیم رکھا ہوتا اور ایک بڑھیا چرخا کات رہی ہوتی، گیت کے بول کچھ یوں تھے 'چرخا چلاﺅ بہنو، کاتو یہ کچے دھاگے، بھارت کے بھاگ جاگے' نذیر خان 1945-46ءمیں مسلم لیگ نیشنل گارڈ میں شامل ہوئے، جس کے تحت روزانہ مغرب کے بعد مسجد قرول باغ میں ورزش ہوتی۔ اِس کی قیادت 'انجام' اخبار کے بانی عثمان آزاد کے عرب نژاد بہنوئی کرتے۔ وہ پہاڑ گنج (دلی) میں مولانا ظفر علی خان سے بھی ملے، جب وہ 1946ءمیں مسلم لیگ کی پرچم کشائی میں آئے، کہتے ہیں کہ رعشے کے سبب ان کا عصا بھی لرز رہا تھا۔
'بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان' کے نعرے اپنے ہاتھ سے لکھے، کہتے ہیں ایسا لگتا تھا کہ 'پورے ہندوستان میں ہی پاکستان بن رہا ہے!' لگ بھگ 1946ءمیں جب سردار قیوم اور پیر صاحب بانکی شریف مسلم لیگ میں شمولیت کے لیے قائد کی رہائش گاہ 10، اورنگ زیب روڈ آئے، تو 'مسلم لیگ نیشنل گارڈ' کی طرف سے انہیں پورے اعزاز سے قائد کے کمرے تک لے جانے والوں میں وہ بھی شامل تھے، طویل ملاقات کے بعد جب قائد مہمانوں کو رخصت کرنے باہر آئے، تو بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرداً فرداً سب سے مصافحہ کیا۔ یہ اُن کی قائداعظم سے واحد ملاقات تھی۔
وہ موہن داس گاندھی سے کبھی ملے نہیں، لیکن اُنہیں روزانہ مغرب کے وقت پراتھنا کرتے دیکھا، جس کا آغاز وپ "قُل ھُو اللہُ اَحد" سے کرتے۔ ولبھ بھائی پٹیل کو سخت لقب سے نوازتے ہیں۔ انہوں نے یہ تاریخی منظر بھی دیکھا، جب 15 اگست 1947ءکو جواہر لعل نہرو، گورنر جنرل ماوئنٹ بیٹن سے وزارت عظمیٰ کی اجازت لے کر بگھی میں اسمبلی ہال کے لیے روانہ ہوئے۔
نذیرخان کہتے ہیں کہ دلی میں غیر مسلم ہم سائے بھی تھے، لیکن کبھی خوف محسوس نہ ہوا۔ آخری دنوں وہ سائیکل سے مسلم لیگ کا جھنڈا نوچے جانے پر بہت برہم ہوئے، لیکن والدین نے انہیں ردعمل سے روک دیا۔ بٹوارے کے ہنگام میں ایک مرتبہ بلوائی ان کی جانب لپکا، تو انہوں نے اپنی رلے (Relay) سائیکل دوڑا کر جان بچائی۔
نذیر خان بتاتے ہیں کہ مہاجروں کی پہلی ریل گاڑی ہمایوں کے مقبرے سے چلی، جس پر انہوں نے چاک سے لکھا تھا 'ترک وطن ہے سنت محبوب الٰہی۔' ہزارہا مسافروں سے لدی ہوئی یہ ریل جالندھر میں بلوائیوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اگلے دن (17 اکتوبر 1947ئ) دوسری ٹرین میں وہ بھی تھے، پٹری کے اطراف لاشیں پڑی دیکھیں، خواتین کی میتوں کے زیوارت نُچے تھے۔ ان کی ریل کی پچھلی بوگیوں پر حملہ ہوا تو ڈرائیور نے رفتار بڑھا کر جان بچائی، وہ گھر سے صرف سنگر کی مشین لے کر نکلے، روانگی کے وقت دوران تلاشی وہ بھی روک لی۔ ہجرت کے سبب اُن کی وکالت پڑھنے کا سپنا ادھورا رہ گیا۔
لاہور میں کچھ دن ٹھیرے، پھر راول پنڈی آکر نیم فوجی تنظیم 'مسلم لیگ نیشنل گارڈ 56 بٹالین' میں شامل ہوئے۔ 1951ءمیں کراچی (ڈینسوہال) آئے، سائیکل کمپنی میں ملازمت کی، اس کے بعد 1951ءمیں وہ سی او ڈی (سینٹرل آرڈینس ڈپو) میں کلرک ہوگئے، سرکاری طور طریقوں سے مزاج نہ ملا، 1957ءمیں مستعفی ہو گئے۔ 1958ء میں 'کراچی میونسپل کارپوریشن' کے انتخابات میں کونسلر منتخب ہوئے، اسی چناﺅ میں میٹھادر سے عبدالستار ایدھی بھی کونسلر بنے، اسی برس مارشل لا آگیا۔ اس کے بعد 1964ءمیں 'بی ڈی' رکن بھی منتخب ہوئے۔ نذیر خان ایک ادارے کے شعبہ 'تعلقات عامہ' میں تھے، 1970ءمیں جاری ہونے والے روزنامہ 'جسارت' میں 'جونیر رپورٹر' ہوگئے۔ کوچہ ¿ صحافت میں آنے کے لیے انہیں 500 روپے سے 323 روپے (یعنی 35 فی صدکم) تنخواہ پر اکتفا کرنا پڑا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 'جسارت' پر پابندی کے خلاف روزانہ آئی آئی چندریگر روڈ پر احتجاجی کیمپ پر بیٹھتے، جہاں صحافی راہ نما منہاج برنا اور دیگر بھی ہوتے۔ کہتے ہیں کہ اخبار کی بندش پر چھے، چھے ماہ تنخواہ نہ ملتی، ضیا الحق کے خلاف بھی مظاہرے کیے، ضیا دور میں 'پی ایف یوجے' میں 'دستوری' کے نام سے دھڑا بنا، تو منہاج برنا نے کہا "دستوری والوں کو سمجھاﺅ، وہ آپس میں تصادم کر کے صحافیوں کو کیوں کمزور کر رہے ہیں۔" نذیرخان صحافیوں کی گروہ بندی کو 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کے سامراجی اصول پر عمل بتاتے ہیں کہ 'مسائل کے حل کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی، ورنہ صحافیوں کا استحصال ہوتا رہے گا۔'
نذیر خان کہتے ہیں کہ صحافی کا کام لکھنا اور پڑھنا ہی ہوتا ہے، جو کہتا ہے صحافی کبھی 'ریٹائر' نہیں ہوتا، تو وہ مجھے دیکھ لے، میں بھی کبھی صبح ساڑھے نو بجے نکلتا، تو رات ڈیڑھ بجے لوٹتا تھا، اب ایسا نہیں۔' وہ آج کل کی نامہ نگاری میں ذاتی خیالات کے اظہار کو سب سے بڑی خرابی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اصل رپورٹر وہ ہے، جو الفاظ میں ہیر پھیر نہ کرے، اس بات پر معراج محمد خان مجھے بارہا سراہتے تھے۔ میں اگر بِک جاتا، تو آج کسی اونچی مسند پر ہوتا۔ بلیک میلنگ اور کرپشن کرنے والے رپوٹروں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ "انہیں تو لٹکا دینا چاہیے، تاکہ دوسروں کو نصیحت ہو۔"
پریس ریلیز کی بنیاد پر خبر دینے کا تذکرہ ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ ایک صاحب دفتر میں بیٹھ کر ہی مذہبی بیٹھک کی خبریں بنا دیتے، اور یہ خبریں جن سے منسوب ہوتیں، وہ کبھی تردید بھی نہ کرتے! نذیرخان سیاسی نامہ نگاری کے دوران کسی بھی دباﺅ کی نفی کرتے ہیں۔ روکی جانے والی خبروں کے استفسار پر اثبات میں جواب دیتے ہیں کہ 'سیاسی جماعت کے کاموں پر تنقید پر اُن کے مشتہرین دفتر پہنچ جاتے تھے۔'
اپنی سیاسی نامہ نگاری کی یادیں یوں بازیافت کرتے ہیں کہ جنرل ضیا نے عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ولی خان کی آمد پر پابندی لگائی اور انہیں کراچی ائیرپورٹ پر روکا گیا، تو انہوں نے وہاں ولی خان اور بیگم نسیم ولی سے گفتگو کی۔ لیاری میں بے نظیر بھٹو کی شادی میں اہلیہ اور نواسی کے ساتھ شریک ہوئے۔
'لال قلعہ' پر جنرل یحییٰ خان کے دوست کا بنگلا تھا، وہاں ایک تقریب میں جنرل یحییٰ آئے اور گانے سے خوش ہو کر انہوں نے نور جہاں کو سونے کی انگوٹھی پہنائی۔ نذیرخان حسین شہید سہروردی کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کے گھر پر تھے، جب شیخ مجیب کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ صورت حال میرے اختیار میں ہے، اب بھی اگر کچھ کر سکتی ہیں، تو کرلیں، ورنہ ڈھاکا آپ کے ہاتھ سے جا رہا ہے، یہ خبر چھاپنے سے پہلے ہی سقوط ڈھاکا ہوگیا۔ 1998ءمیں نوازشریف کی امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقات کے دوران ٹیپ ریکارڈر آگے کیا، تو ایک امریکی اہل کار نے ان کا ہاتھ پیچھے کردیا، کلنٹن نے یہ منظر دیکھا، تو اُسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ ایک بار لانڈھی میں محمود اعظم فاروقی کی تقریر تھی۔ اگلے دن انہوں نے نذیرخان سے پوچھا کہ وہاں 'جسارت' سے کوئی دکھائی نہیں دیا؟ تو نذیر خان نے بتایا کہ وہ تھے وہاں اور صفحہ دو پر خبر بھی چھپی ہے، تو وہ معنی خیز انداز میں بولے "اچھا 'سٹی' پر لگی ہے!" یعنی وہ صفحہ ¿ اول کے خواہا ں تھے۔ ایک دفعہ بے نظیر کی خبر جسارت بینر لائن لگا دی، جس سے جماعت اسلامی کے حلقوں میں اعتراض ہوا، لیکن بے نظیر نے بہ نفس نفیس فون کر کے شکریہ ادا کیا اور کہا وہی لکھا جو میں نے کہا۔ پسندیدہ سیاست دانوں میں وہ بہت سوچنے کے بعد بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا نام لیتے ہیں۔
جب کنور مہندر سنگھ بیدی نے رہا کرایا
دلی میں ایک مرتبہ دفعہ 144 نافذ تھی، مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے لڑکے لال کنواں تھانے کے سامنے جمع ہوگئے، وہاں انہیں پولیس نے گھیر لیا۔ وہ بچنے کو 'بَلّی ماران' کی گلیوں میں جاگھسے، مگر پکڑے گئے۔ ایک رات تھانے میں رہے۔ پھر مجسٹریٹ کنور مہندر سنگھ بیدی کی عدالت میں پیش کیا گیا، انہوں نے پوچھا کہ جب پولیس آئی تو تم نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا ہم گلی میں بھاگ گئے، تو انہوں نے کہا کہ جب منتشر ہو گئے، تو پھر 144 کی خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ یوں انہوں نے نذیر خان سمیت تمام لڑکوں کو رہا کر دیا۔ 29 دسمبر 1982ءکو جب کنور مہندر سنگھ بیدی کراچی آئے، تو انہوں نے اُن کے گلے میں ہار ڈال کر بٹوارے کے زمانے کی 'گرفتاری ورہائی' کی یادیں تازہ کیں۔
'قائد ملت کا پاسپورٹ جلتا ہوا ملا'
یہ جنرل ضیا الحق کے اوائل کا زمانہ تھا، نذیر خان نے 'کراچی پریس کلب' جاتے ہوئے، پاسپورٹ آفس کی سمت دھواں اٹھتا ہوا دیکھا، قریب گئے تو پتا چلا پرانے پاسپورٹ نذر آتش کیے جا رہے ہیں، ٹٹولا تو وہاں قائد ملت لیاقت علی خان کا پاسپورٹ ملا، جس کا نمبر 001 تھا۔ اگلے دن یہ خبر مع تصویر صفحہ ¿ اول پر چھپی، جس پر تفتیشی اہلکاروں نے ان کے بیان لیے، انہی دنوں بیگم لیاقت علی کے ہاں چوری ہوئی تھی، ان سے پوچھا گیا کہ یہ پاسپورٹ تو چوری نہیں ہوا تھا، انہوں نے نفی کی اور کہا کہ وہ پرانا پاسپورٹ جمع کرا دیا کرتے تھے۔ امیگریشن والے نے کہا کہ بیگم صاحبہ نے جان بچا لی، ورنہ چوری کے الزام میں دھر لیے جاتے۔ انہوں نے یہ پاسپورٹ قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر تصویر حسین حمیدی کے اصرار پر انہیں دے دیا، وہاں قائد ملت کی گیلری میں رکھ دیا گیا، لیکن بعد میں غائب ہوگیا، پتا چلا کہ نئے ڈائریکٹر آئے ہیں، شاید انہوں نے اسلام اّباد یا لاہور منتقل کر دیا۔
'ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں!'
ایک مرتبہ صحافی مختار عاقل کے ہاں پائے کی دعوت میں الطاف حسین بھی مدعو تھے، وہاں جب نذیر خان کو کھانا نکالنے کا ذمہ ملا، تو ان کے پیچھے ایم کیو ایم کے دو لڑکے کھڑے ہوگئے، انہوں نے ہٹنے کو کہا، مگر وہ نہ مانے، تکرار سن کر الطاف حسین بھی وہاں آگئے، ماجرا سنا اور لڑکوں کو وہاں سے ہٹا دیا۔ نذیر خان بتاتے ہیں کہ وہ اس لیے کھڑے تھے کہ کھانے میں کچھ ملا نہ دیا جائے۔ سانحہ ¿ علی گڑھ 1986ءکے حوالے سے ویڈیو کیسٹ کی تقسیم کے موقع پر انہوں نے الطاف حسین کی سگریٹ سے رغبت کو بھانپ کر انہیں وہی سگریٹ پیش کیا، تو وہ بہت حیران ہوئے 'ارے، آپ کو کیسے پتا' کہتے ہیں کہ ہم اکثر شادی کا سوال کر کے انہیں چھیڑتے، تو وہ کہتے "ارے، ہو جائے گی، ہو جائے گی" 'جسارت' سے وابستگی کی بنا پر ایم کیو ایم میں کسی تفریق کا پوچھا، تو انہوں نے نفی کی کہ چیئرمین عظیم احمد طارق تو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ ایک دفعہ 'امن' اخبار میں مرضی کے خلاف خبر لگانے پر وقار ہاشمی کا نائن زیرو پر داخلہ بند رہا، تاوقتے کہ مدیر 'امن' اجمل دہلوی نے معذرت نہ کرلی۔ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی ایک لفظ کی بھی تبدیلی نہیں کی، اس لیے مجھ سے کبھی کوئی تلخی نہ ہوئی۔
ضیاالحق نے کہا "ہم بھکاری اکٹھا نہیں کرنا چاہتے!"
جب جنرل ضیا الحق کراچی آئے، تو نذیرخان نے بہاریوں سے متعلق پوچھا کہ وہ بھی تو پاکستانی ہیں، انہیں بنگلادیش سے یہاں لانے کی کوشش کیجیے؟' جس پر انہوں نے کہا "ہاں پاکستان سب کا ہے، لیکن ہم یہاں بھکاری اکٹھے نہیں کرنا چاہتے۔" یہ خبر چھپتے ہی سخت ردعمل آیا، اور ایک جان بھی چلی گئی، جس پر ضیاالحق نے میئر کراچی عبدالستار افغانی اور رکن قومی اسمبلی آفاق شاہد کو اسلام آباد بلا کر تردید کی اور کہا کہ یہ تو رپورٹر نے ایسے لکھ دیا، نذیر خان پہلے ہی دونوں کو ریکارڈنگ سنا چکے تھے، چناں چہ دونوں نے کہا، ہم نے تو خود سنا ہے، جس پر وہ بولے کہ 'اچھا تو وہ آپ کو سناتے بھی پھر رہے ہیں!' اگلے دن ضیا کے پریس سیکریٹری نے محفل میں اس خبر کو 'شرارت' کہا تو انہوں نے ریکارڈنگ سنا کر انہیں چپ کرا دیا۔ نذیر خان سے اس خبر کی تردید کا مطالبہ مسترد کیا اور خبر پر قائم رہے۔ اس کے بعد انٹیلی جنس بیورو کے کچھ افراد نے ان سے ریکارڈنگ مانگی، انہوں نے کہا یہ تو میری ملکیت ہے، ریکارڈنگ چاہیے تو ریڈیو پاکستان سے لیجیے۔ ہم نے سوال کیا کہ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کے خبر لگانے کے سبب ایک جان چلی گئی، تو نذیر خان گویا ہوئے کہ حکومت کا تو یہی کہنا تھا، مگر جب حقیقت عیاں ہوئی، تو چپ ہونا پڑا۔
"میرے اخبار کا مدیر تو 16 گریڈ کا افسر ہے"
مدیر صلاح الدین کی 'جسارت' سے علیحدگی کے سوال پر نذیر خان نے سوچتے ہوئے جواب دیا کہ 'یہ تو کتاب لکھنے والی بات ہے۔' پھر گویا ہوئے کہ 'انتظامیہ کی جانب سے ان کی ادارت کو چیلینج کیا جانے لگا تھا۔ محمود اعظم فاروقی (امیر جماعت اسلامی، کراچی) روز دفتر آکر انہیں طلب کرتے کہ فلاں سرخی یہاں نہیں جانی چاہیے تھی، یا فلاں سرخی وہاں ہونی چاہیے تھی، ایک دن صلاح الدین نے کہہ دیا کہ مجھے تو کاپی جاتے وقت فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اب میں اُس وقت آپ سے پوچھتا پھروں کہ یہ سرخی لگاﺅں یا نہیں، یہ میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ بس یہی مرکزی نکتہ تھا ان کی جسارت سے علیحدگی کا۔' ایک اور واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے نذیر خان کہتے ہیں کہ ضیا آمریت کے دوران سنسر شپ نافذ تھی، اس دوران انہوں نے مدیران کو پریس کانفرنس میں بلایا، صلاح الدین نہ گئے، تو جنرل ضیا کا فون آیا۔ انہوں نے کہا میں آکر کیا کرتا، میں تو اب مدیر نہیں، میرے اخبار کا مدیر تو وزارت اطلاعات کا 16 گریڈ کا افسر ہے، (جو اخبار سنسر کرتا تھا) میری جگہ اسے بلا لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا! کچھ دن بعد ایم ایچ اصفہانی کی کتاب کی تقریب رونمائی میں جنرل ضیا اور صلاح الدین کی ملاقات ہوئی، تو ضیا سنسر شپ کی مصلحتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بولے کہ آپ اب تک خفا ہیں۔ صلاح الدین نے کہا، جب تک میرا اخبار کا ناتا بحال نہیں ہوتا، میں آپ سے کیا بات کروں۔ نذیرخان کہتے ہیں کہ اس کے تین چار روز بعد جنرل ضیا نے سنسر شپ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
شادی ہوجائے، تو پھر 'پسند' ہو ہی جاتی ہے
نذیر خان 1990ءمیں 'جسارت' سے سبک دوش ہوئے اور 'این این آئی' (نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل) میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر کی مسند سنبھالی، جہاں 2014 تک رہے۔ اس دوران 'نوائے وقت' میں کالم لکھتے رہے۔ گھر میں کھانا پکانے کا شوق بھی پورا کرتے رہے ہیں، آم کے ساتھ روے میدے کے پراٹھے اور ہری مرچیں قیمہ من پسند کھاجا ہے۔ 'ملک کا مستقبل' دل چسپ ترین موضوع ہے، پرامید ہیں، کہ یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا۔ سانحہ ¿ 1971ءکا پوچھا، تو اسے بد نصیبی قرار دیا کہ 70 برسوں میں وہ مقاصد حاصل نہ ہوئے، جو ہونے چاہیے تھے۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ مقاصد درست راہ بری سے مل سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں خودنوشت کے لیے قلم اٹھایا، پھر بیماری نے آلیا، خواہش ہے کہ اسے مکمل کر سکیں۔ نذیر خان 1969ءمیں 'کراچی پریس کلب' کے رکن بنے، آج معمر ترین اراکین میں سے ہیں۔ وہ کبھی 'پریس کلب' یا صحافتی تنظیم کے انتخابات کا حصہ نہیں رہے۔
نذیرخان 1949ءمیں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، کہتے ہیں کہ شادی ہو جائے تو پھر 'پسند' ہو ہی جاتی ہے، پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ ان کے صاحب زادے، پی آئی اے، محکمہ انکم ٹیکس، واٹر بورڈ اور شعبہ ¿ صحافت میں ہیں، جب کہ ایک صاحب زادے یوسف طلعت دو سال قبل ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگئے، وہ محکمہ انسداد تجاوزات (بلدیہ کراچی) میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ ایک بیٹی امریکا اور دوسری بیٹی انگلستان میں ہیں۔
'1947ءمیں ترک وطن کو نکلے، تو دل وجان سے عزیز رِلے (Relay) سائیکل جگری یار 'کتھا سنگھ' کو سونپی جس سے دوبارہ کبھی رابطہ نہ ہو سکا تقسیم کا بِگل بجا اور پرانی دلی، پرانے قلعے میں دھکیل دی گئی وہ بھی 20 دن وہاں محصور رہے یہاں 'کتھا سنگھ' روزانہ اپنے گھر سے لسی اور پراٹھے لاتا۔ لوگوں کی حالت ناقابل بیان تھی، کھانے کے لیے پنجاب سے ڈیکو جہاز میں روٹیاں آتیں اور روزانہ ایک روٹی فی کس بٹتی کچھ پتا نہ تھا کہ اب کیا ہوگا؟ بس صبر کی تلقین ہوتی۔ رفع حاجت تک کا بندوبست نہ تھا، فوتگی ہوتی، تو وہیں چھوڑ دیتے!'
یہ بزرگ صحافی نذیرخان ہیں، جو تاریخ، سیاست اورصحافت سے متعلق لگ بھگ نو دہائیوں کا احاطہ کر رہے ہیں وہ 19 اپریل 1928ءکو پہاڑ گنج، دلی میں جنمے، بہن بھائیوں میں تیسرا نمبر تھا، والد ایک رسالے میں تھے، پھر گورنر جنرل کے عملے میں شامل ہوگئے۔ والدہ کے انتقال کے بعد والد نے دوسری شادی کی۔ نذیر خان نے 1946ءمیں اینگلو عربک کالج سے گریجویشن کیا، وہاں کچھ غیر مسلم اور کانگریسی طلبہ بھی تھے، لیکن تفریق نہ تھی۔ وہاں 'مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن' بنی، تو ظہور الحق صدر ہوئے، جو بعد میں کراچی میں جج بھی رہے۔ کالج میں ایک مرتبہ سردار عبدالرب نشتر نے اپیل کی تو خواتین نے زیورات کا ڈھیر لگا دیا۔
نذیر خان 1942ءمیں کانگریس کی 'ہندوستان چھوڑ دو' تحریک اس طرح یاد کرتے ہیں "جلوس میں ٹرک پر ہارمونیم رکھا ہوتا اور ایک بڑھیا چرخا کات رہی ہوتی، گیت کے بول کچھ یوں تھے 'چرخا چلاﺅ بہنو، کاتو یہ کچے دھاگے، بھارت کے بھاگ جاگے' نذیر خان 1945-46ءمیں مسلم لیگ نیشنل گارڈ میں شامل ہوئے، جس کے تحت روزانہ مغرب کے بعد مسجد قرول باغ میں ورزش ہوتی۔ اِس کی قیادت 'انجام' اخبار کے بانی عثمان آزاد کے عرب نژاد بہنوئی کرتے۔ وہ پہاڑ گنج (دلی) میں مولانا ظفر علی خان سے بھی ملے، جب وہ 1946ءمیں مسلم لیگ کی پرچم کشائی میں آئے، کہتے ہیں کہ رعشے کے سبب ان کا عصا بھی لرز رہا تھا۔
'بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان' کے نعرے اپنے ہاتھ سے لکھے، کہتے ہیں ایسا لگتا تھا کہ 'پورے ہندوستان میں ہی پاکستان بن رہا ہے!' لگ بھگ 1946ءمیں جب سردار قیوم اور پیر صاحب بانکی شریف مسلم لیگ میں شمولیت کے لیے قائد کی رہائش گاہ 10، اورنگ زیب روڈ آئے، تو 'مسلم لیگ نیشنل گارڈ' کی طرف سے انہیں پورے اعزاز سے قائد کے کمرے تک لے جانے والوں میں وہ بھی شامل تھے، طویل ملاقات کے بعد جب قائد مہمانوں کو رخصت کرنے باہر آئے، تو بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرداً فرداً سب سے مصافحہ کیا۔ یہ اُن کی قائداعظم سے واحد ملاقات تھی۔
وہ موہن داس گاندھی سے کبھی ملے نہیں، لیکن اُنہیں روزانہ مغرب کے وقت پراتھنا کرتے دیکھا، جس کا آغاز وپ "قُل ھُو اللہُ اَحد" سے کرتے۔ ولبھ بھائی پٹیل کو سخت لقب سے نوازتے ہیں۔ انہوں نے یہ تاریخی منظر بھی دیکھا، جب 15 اگست 1947ءکو جواہر لعل نہرو، گورنر جنرل ماوئنٹ بیٹن سے وزارت عظمیٰ کی اجازت لے کر بگھی میں اسمبلی ہال کے لیے روانہ ہوئے۔
نذیرخان کہتے ہیں کہ دلی میں غیر مسلم ہم سائے بھی تھے، لیکن کبھی خوف محسوس نہ ہوا۔ آخری دنوں وہ سائیکل سے مسلم لیگ کا جھنڈا نوچے جانے پر بہت برہم ہوئے، لیکن والدین نے انہیں ردعمل سے روک دیا۔ بٹوارے کے ہنگام میں ایک مرتبہ بلوائی ان کی جانب لپکا، تو انہوں نے اپنی رلے (Relay) سائیکل دوڑا کر جان بچائی۔
نذیر خان بتاتے ہیں کہ مہاجروں کی پہلی ریل گاڑی ہمایوں کے مقبرے سے چلی، جس پر انہوں نے چاک سے لکھا تھا 'ترک وطن ہے سنت محبوب الٰہی۔' ہزارہا مسافروں سے لدی ہوئی یہ ریل جالندھر میں بلوائیوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اگلے دن (17 اکتوبر 1947ئ) دوسری ٹرین میں وہ بھی تھے، پٹری کے اطراف لاشیں پڑی دیکھیں، خواتین کی میتوں کے زیوارت نُچے تھے۔ ان کی ریل کی پچھلی بوگیوں پر حملہ ہوا تو ڈرائیور نے رفتار بڑھا کر جان بچائی، وہ گھر سے صرف سنگر کی مشین لے کر نکلے، روانگی کے وقت دوران تلاشی وہ بھی روک لی۔ ہجرت کے سبب اُن کی وکالت پڑھنے کا سپنا ادھورا رہ گیا۔
لاہور میں کچھ دن ٹھیرے، پھر راول پنڈی آکر نیم فوجی تنظیم 'مسلم لیگ نیشنل گارڈ 56 بٹالین' میں شامل ہوئے۔ 1951ءمیں کراچی (ڈینسوہال) آئے، سائیکل کمپنی میں ملازمت کی، اس کے بعد 1951ءمیں وہ سی او ڈی (سینٹرل آرڈینس ڈپو) میں کلرک ہوگئے، سرکاری طور طریقوں سے مزاج نہ ملا، 1957ءمیں مستعفی ہو گئے۔ 1958ء میں 'کراچی میونسپل کارپوریشن' کے انتخابات میں کونسلر منتخب ہوئے، اسی چناﺅ میں میٹھادر سے عبدالستار ایدھی بھی کونسلر بنے، اسی برس مارشل لا آگیا۔ اس کے بعد 1964ءمیں 'بی ڈی' رکن بھی منتخب ہوئے۔ نذیر خان ایک ادارے کے شعبہ 'تعلقات عامہ' میں تھے، 1970ءمیں جاری ہونے والے روزنامہ 'جسارت' میں 'جونیر رپورٹر' ہوگئے۔ کوچہ ¿ صحافت میں آنے کے لیے انہیں 500 روپے سے 323 روپے (یعنی 35 فی صدکم) تنخواہ پر اکتفا کرنا پڑا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 'جسارت' پر پابندی کے خلاف روزانہ آئی آئی چندریگر روڈ پر احتجاجی کیمپ پر بیٹھتے، جہاں صحافی راہ نما منہاج برنا اور دیگر بھی ہوتے۔ کہتے ہیں کہ اخبار کی بندش پر چھے، چھے ماہ تنخواہ نہ ملتی، ضیا الحق کے خلاف بھی مظاہرے کیے، ضیا دور میں 'پی ایف یوجے' میں 'دستوری' کے نام سے دھڑا بنا، تو منہاج برنا نے کہا "دستوری والوں کو سمجھاﺅ، وہ آپس میں تصادم کر کے صحافیوں کو کیوں کمزور کر رہے ہیں۔" نذیرخان صحافیوں کی گروہ بندی کو 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کے سامراجی اصول پر عمل بتاتے ہیں کہ 'مسائل کے حل کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی، ورنہ صحافیوں کا استحصال ہوتا رہے گا۔'
نذیر خان کہتے ہیں کہ صحافی کا کام لکھنا اور پڑھنا ہی ہوتا ہے، جو کہتا ہے صحافی کبھی 'ریٹائر' نہیں ہوتا، تو وہ مجھے دیکھ لے، میں بھی کبھی صبح ساڑھے نو بجے نکلتا، تو رات ڈیڑھ بجے لوٹتا تھا، اب ایسا نہیں۔' وہ آج کل کی نامہ نگاری میں ذاتی خیالات کے اظہار کو سب سے بڑی خرابی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اصل رپورٹر وہ ہے، جو الفاظ میں ہیر پھیر نہ کرے، اس بات پر معراج محمد خان مجھے بارہا سراہتے تھے۔ میں اگر بِک جاتا، تو آج کسی اونچی مسند پر ہوتا۔ بلیک میلنگ اور کرپشن کرنے والے رپوٹروں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ "انہیں تو لٹکا دینا چاہیے، تاکہ دوسروں کو نصیحت ہو۔"
پریس ریلیز کی بنیاد پر خبر دینے کا تذکرہ ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ ایک صاحب دفتر میں بیٹھ کر ہی مذہبی بیٹھک کی خبریں بنا دیتے، اور یہ خبریں جن سے منسوب ہوتیں، وہ کبھی تردید بھی نہ کرتے! نذیرخان سیاسی نامہ نگاری کے دوران کسی بھی دباﺅ کی نفی کرتے ہیں۔ روکی جانے والی خبروں کے استفسار پر اثبات میں جواب دیتے ہیں کہ 'سیاسی جماعت کے کاموں پر تنقید پر اُن کے مشتہرین دفتر پہنچ جاتے تھے۔'
اپنی سیاسی نامہ نگاری کی یادیں یوں بازیافت کرتے ہیں کہ جنرل ضیا نے عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ولی خان کی آمد پر پابندی لگائی اور انہیں کراچی ائیرپورٹ پر روکا گیا، تو انہوں نے وہاں ولی خان اور بیگم نسیم ولی سے گفتگو کی۔ لیاری میں بے نظیر بھٹو کی شادی میں اہلیہ اور نواسی کے ساتھ شریک ہوئے۔
'لال قلعہ' پر جنرل یحییٰ خان کے دوست کا بنگلا تھا، وہاں ایک تقریب میں جنرل یحییٰ آئے اور گانے سے خوش ہو کر انہوں نے نور جہاں کو سونے کی انگوٹھی پہنائی۔ نذیرخان حسین شہید سہروردی کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کے گھر پر تھے، جب شیخ مجیب کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ صورت حال میرے اختیار میں ہے، اب بھی اگر کچھ کر سکتی ہیں، تو کرلیں، ورنہ ڈھاکا آپ کے ہاتھ سے جا رہا ہے، یہ خبر چھاپنے سے پہلے ہی سقوط ڈھاکا ہوگیا۔ 1998ءمیں نوازشریف کی امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقات کے دوران ٹیپ ریکارڈر آگے کیا، تو ایک امریکی اہل کار نے ان کا ہاتھ پیچھے کردیا، کلنٹن نے یہ منظر دیکھا، تو اُسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ ایک بار لانڈھی میں محمود اعظم فاروقی کی تقریر تھی۔ اگلے دن انہوں نے نذیرخان سے پوچھا کہ وہاں 'جسارت' سے کوئی دکھائی نہیں دیا؟ تو نذیر خان نے بتایا کہ وہ تھے وہاں اور صفحہ دو پر خبر بھی چھپی ہے، تو وہ معنی خیز انداز میں بولے "اچھا 'سٹی' پر لگی ہے!" یعنی وہ صفحہ ¿ اول کے خواہا ں تھے۔ ایک دفعہ بے نظیر کی خبر جسارت بینر لائن لگا دی، جس سے جماعت اسلامی کے حلقوں میں اعتراض ہوا، لیکن بے نظیر نے بہ نفس نفیس فون کر کے شکریہ ادا کیا اور کہا وہی لکھا جو میں نے کہا۔ پسندیدہ سیاست دانوں میں وہ بہت سوچنے کے بعد بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا نام لیتے ہیں۔
جب کنور مہندر سنگھ بیدی نے رہا کرایا
دلی میں ایک مرتبہ دفعہ 144 نافذ تھی، مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے لڑکے لال کنواں تھانے کے سامنے جمع ہوگئے، وہاں انہیں پولیس نے گھیر لیا۔ وہ بچنے کو 'بَلّی ماران' کی گلیوں میں جاگھسے، مگر پکڑے گئے۔ ایک رات تھانے میں رہے۔ پھر مجسٹریٹ کنور مہندر سنگھ بیدی کی عدالت میں پیش کیا گیا، انہوں نے پوچھا کہ جب پولیس آئی تو تم نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا ہم گلی میں بھاگ گئے، تو انہوں نے کہا کہ جب منتشر ہو گئے، تو پھر 144 کی خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ یوں انہوں نے نذیر خان سمیت تمام لڑکوں کو رہا کر دیا۔ 29 دسمبر 1982ءکو جب کنور مہندر سنگھ بیدی کراچی آئے، تو انہوں نے اُن کے گلے میں ہار ڈال کر بٹوارے کے زمانے کی 'گرفتاری ورہائی' کی یادیں تازہ کیں۔
'قائد ملت کا پاسپورٹ جلتا ہوا ملا'
یہ جنرل ضیا الحق کے اوائل کا زمانہ تھا، نذیر خان نے 'کراچی پریس کلب' جاتے ہوئے، پاسپورٹ آفس کی سمت دھواں اٹھتا ہوا دیکھا، قریب گئے تو پتا چلا پرانے پاسپورٹ نذر آتش کیے جا رہے ہیں، ٹٹولا تو وہاں قائد ملت لیاقت علی خان کا پاسپورٹ ملا، جس کا نمبر 001 تھا۔ اگلے دن یہ خبر مع تصویر صفحہ ¿ اول پر چھپی، جس پر تفتیشی اہلکاروں نے ان کے بیان لیے، انہی دنوں بیگم لیاقت علی کے ہاں چوری ہوئی تھی، ان سے پوچھا گیا کہ یہ پاسپورٹ تو چوری نہیں ہوا تھا، انہوں نے نفی کی اور کہا کہ وہ پرانا پاسپورٹ جمع کرا دیا کرتے تھے۔ امیگریشن والے نے کہا کہ بیگم صاحبہ نے جان بچا لی، ورنہ چوری کے الزام میں دھر لیے جاتے۔ انہوں نے یہ پاسپورٹ قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر تصویر حسین حمیدی کے اصرار پر انہیں دے دیا، وہاں قائد ملت کی گیلری میں رکھ دیا گیا، لیکن بعد میں غائب ہوگیا، پتا چلا کہ نئے ڈائریکٹر آئے ہیں، شاید انہوں نے اسلام اّباد یا لاہور منتقل کر دیا۔
'ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں!'
ایک مرتبہ صحافی مختار عاقل کے ہاں پائے کی دعوت میں الطاف حسین بھی مدعو تھے، وہاں جب نذیر خان کو کھانا نکالنے کا ذمہ ملا، تو ان کے پیچھے ایم کیو ایم کے دو لڑکے کھڑے ہوگئے، انہوں نے ہٹنے کو کہا، مگر وہ نہ مانے، تکرار سن کر الطاف حسین بھی وہاں آگئے، ماجرا سنا اور لڑکوں کو وہاں سے ہٹا دیا۔ نذیر خان بتاتے ہیں کہ وہ اس لیے کھڑے تھے کہ کھانے میں کچھ ملا نہ دیا جائے۔ سانحہ ¿ علی گڑھ 1986ءکے حوالے سے ویڈیو کیسٹ کی تقسیم کے موقع پر انہوں نے الطاف حسین کی سگریٹ سے رغبت کو بھانپ کر انہیں وہی سگریٹ پیش کیا، تو وہ بہت حیران ہوئے 'ارے، آپ کو کیسے پتا' کہتے ہیں کہ ہم اکثر شادی کا سوال کر کے انہیں چھیڑتے، تو وہ کہتے "ارے، ہو جائے گی، ہو جائے گی" 'جسارت' سے وابستگی کی بنا پر ایم کیو ایم میں کسی تفریق کا پوچھا، تو انہوں نے نفی کی کہ چیئرمین عظیم احمد طارق تو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ ایک دفعہ 'امن' اخبار میں مرضی کے خلاف خبر لگانے پر وقار ہاشمی کا نائن زیرو پر داخلہ بند رہا، تاوقتے کہ مدیر 'امن' اجمل دہلوی نے معذرت نہ کرلی۔ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی ایک لفظ کی بھی تبدیلی نہیں کی، اس لیے مجھ سے کبھی کوئی تلخی نہ ہوئی۔
ضیاالحق نے کہا "ہم بھکاری اکٹھا نہیں کرنا چاہتے!"
جب جنرل ضیا الحق کراچی آئے، تو نذیرخان نے بہاریوں سے متعلق پوچھا کہ وہ بھی تو پاکستانی ہیں، انہیں بنگلادیش سے یہاں لانے کی کوشش کیجیے؟' جس پر انہوں نے کہا "ہاں پاکستان سب کا ہے، لیکن ہم یہاں بھکاری اکٹھے نہیں کرنا چاہتے۔" یہ خبر چھپتے ہی سخت ردعمل آیا، اور ایک جان بھی چلی گئی، جس پر ضیاالحق نے میئر کراچی عبدالستار افغانی اور رکن قومی اسمبلی آفاق شاہد کو اسلام آباد بلا کر تردید کی اور کہا کہ یہ تو رپورٹر نے ایسے لکھ دیا، نذیر خان پہلے ہی دونوں کو ریکارڈنگ سنا چکے تھے، چناں چہ دونوں نے کہا، ہم نے تو خود سنا ہے، جس پر وہ بولے کہ 'اچھا تو وہ آپ کو سناتے بھی پھر رہے ہیں!' اگلے دن ضیا کے پریس سیکریٹری نے محفل میں اس خبر کو 'شرارت' کہا تو انہوں نے ریکارڈنگ سنا کر انہیں چپ کرا دیا۔ نذیر خان سے اس خبر کی تردید کا مطالبہ مسترد کیا اور خبر پر قائم رہے۔ اس کے بعد انٹیلی جنس بیورو کے کچھ افراد نے ان سے ریکارڈنگ مانگی، انہوں نے کہا یہ تو میری ملکیت ہے، ریکارڈنگ چاہیے تو ریڈیو پاکستان سے لیجیے۔ ہم نے سوال کیا کہ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کے خبر لگانے کے سبب ایک جان چلی گئی، تو نذیر خان گویا ہوئے کہ حکومت کا تو یہی کہنا تھا، مگر جب حقیقت عیاں ہوئی، تو چپ ہونا پڑا۔
"میرے اخبار کا مدیر تو 16 گریڈ کا افسر ہے"
مدیر صلاح الدین کی 'جسارت' سے علیحدگی کے سوال پر نذیر خان نے سوچتے ہوئے جواب دیا کہ 'یہ تو کتاب لکھنے والی بات ہے۔' پھر گویا ہوئے کہ 'انتظامیہ کی جانب سے ان کی ادارت کو چیلینج کیا جانے لگا تھا۔ محمود اعظم فاروقی (امیر جماعت اسلامی، کراچی) روز دفتر آکر انہیں طلب کرتے کہ فلاں سرخی یہاں نہیں جانی چاہیے تھی، یا فلاں سرخی وہاں ہونی چاہیے تھی، ایک دن صلاح الدین نے کہہ دیا کہ مجھے تو کاپی جاتے وقت فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اب میں اُس وقت آپ سے پوچھتا پھروں کہ یہ سرخی لگاﺅں یا نہیں، یہ میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ بس یہی مرکزی نکتہ تھا ان کی جسارت سے علیحدگی کا۔' ایک اور واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے نذیر خان کہتے ہیں کہ ضیا آمریت کے دوران سنسر شپ نافذ تھی، اس دوران انہوں نے مدیران کو پریس کانفرنس میں بلایا، صلاح الدین نہ گئے، تو جنرل ضیا کا فون آیا۔ انہوں نے کہا میں آکر کیا کرتا، میں تو اب مدیر نہیں، میرے اخبار کا مدیر تو وزارت اطلاعات کا 16 گریڈ کا افسر ہے، (جو اخبار سنسر کرتا تھا) میری جگہ اسے بلا لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا! کچھ دن بعد ایم ایچ اصفہانی کی کتاب کی تقریب رونمائی میں جنرل ضیا اور صلاح الدین کی ملاقات ہوئی، تو ضیا سنسر شپ کی مصلحتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بولے کہ آپ اب تک خفا ہیں۔ صلاح الدین نے کہا، جب تک میرا اخبار کا ناتا بحال نہیں ہوتا، میں آپ سے کیا بات کروں۔ نذیرخان کہتے ہیں کہ اس کے تین چار روز بعد جنرل ضیا نے سنسر شپ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
شادی ہوجائے، تو پھر 'پسند' ہو ہی جاتی ہے
نذیر خان 1990ءمیں 'جسارت' سے سبک دوش ہوئے اور 'این این آئی' (نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل) میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر کی مسند سنبھالی، جہاں 2014 تک رہے۔ اس دوران 'نوائے وقت' میں کالم لکھتے رہے۔ گھر میں کھانا پکانے کا شوق بھی پورا کرتے رہے ہیں، آم کے ساتھ روے میدے کے پراٹھے اور ہری مرچیں قیمہ من پسند کھاجا ہے۔ 'ملک کا مستقبل' دل چسپ ترین موضوع ہے، پرامید ہیں، کہ یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا۔ سانحہ ¿ 1971ءکا پوچھا، تو اسے بد نصیبی قرار دیا کہ 70 برسوں میں وہ مقاصد حاصل نہ ہوئے، جو ہونے چاہیے تھے۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ مقاصد درست راہ بری سے مل سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں خودنوشت کے لیے قلم اٹھایا، پھر بیماری نے آلیا، خواہش ہے کہ اسے مکمل کر سکیں۔ نذیر خان 1969ءمیں 'کراچی پریس کلب' کے رکن بنے، آج معمر ترین اراکین میں سے ہیں۔ وہ کبھی 'پریس کلب' یا صحافتی تنظیم کے انتخابات کا حصہ نہیں رہے۔
نذیرخان 1949ءمیں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، کہتے ہیں کہ شادی ہو جائے تو پھر 'پسند' ہو ہی جاتی ہے، پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ ان کے صاحب زادے، پی آئی اے، محکمہ انکم ٹیکس، واٹر بورڈ اور شعبہ ¿ صحافت میں ہیں، جب کہ ایک صاحب زادے یوسف طلعت دو سال قبل ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگئے، وہ محکمہ انسداد تجاوزات (بلدیہ کراچی) میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ ایک بیٹی امریکا اور دوسری بیٹی انگلستان میں ہیں۔