منظوم ترجمے
آپ شاید محسوس کریں کہ ذرا سی لفظی تبدیلی سے بات زیادہ مترنم اور برجستہ ہوسکتی تھی۔
میں گاہے گاہے اپنے قارئین کی خدمت میں دنیا بھر کے ادب اور تہذیب سے کچھ اقوالِ زریں نما باتیں ڈھونڈ کے لاتا رہتا ہوں کہ یہ وہ دانش ہے جو انفرادی ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ اجتماعی کے زمرے میں ہی شمار ہوگی کہ بے شک اس کے کہنے والے کا تعلق کسی خاص قوم ، زمانے اور صورتِ حال سے ہوگا مگر اُس کی کہی ہوئی بات کی خوشبو ہر طرح کی قید اور پابندی سے آزاد ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں کچھ دوستوں کی طرف سے ایسے ہی کچھ دانش پارے ملے تو اتفاق سے ''آمد'' کا یعنی تخلیقی دور چل رہا تھا میں نے یونہی اُن میں سے کچھ کو منظوم کرنے کی کوشش کی تو نتیجہ بہت اچھا نکلا اور چھوٹی چھوٹی نظمیں بنتی ہی چلی گئیں اس سارے عمل میں بنیادی مسئلہ صرف ایک تھا کہ قافیہ پیمائی یا شعری حسن کو ترجیح دی جائے یا بات کے اصل مقصد اور پیغام کو کیونکہ بات اور شاعری کے تقاضے کہیں کہیں آپس میں ٹکرا جاتے تھے پھر دھیان آیا کہ اصل خوبی تو اس بات کے اندر موجود دانش اور تخلیقی بات ہی ہے اس کی قیمت پر کس طرح کا سمجھوتہ جائز نہیں ہونا چاہیے، سو میں نے یہی طریقہ اور راستہ اختیار کیا ہے۔
آپ شاید محسوس کریں کہ ذرا سی لفظی تبدیلی سے بات زیادہ مترنم اور برجستہ ہوسکتی تھی لیکن مسئلہ پھر وہی تھا کہ ہمیں اپنی شاعری کے جوہرنہیں دکھانے تھے بلکہ زیرِ نظر بات کے حُسن کو منظوم انداز میں پیش کرنا تھا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ معاملہ ہر جگہ پیش نہیں آیا زیادہ تر باتیں آپ سے آپ نظم کی شکل میں ڈھلتی چلی گئی ہیں،ان اقوال کا تعلق فلسفیوں، اہلِ علم، قومی لیڈروں، عظیم سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں، مختلف علوم کے دانشوروں غرض ہر اُس شعبے سے جس کا تصور کیا جاسکتا ہو اور کہی جانے والی بات کا کوئی نہ کوئی تعلق عالمی اقداری نظام سے بھی بنتا اور نکلتا ہو بیشتر Quotations کا تعلق ہمارے اُن عمومی معاشرتی رویوں سے ہے۔
جنھیں ہم جانتے زیادہ اور مانتے کم ہیں کچھ اقوال تو مشہور تھے مگر اُن کے کہنے والوں کے نام صحت کے ساتھ معلوم نہیں ہوسکے اس لیے میں نے کسی بھی نظم کے ساتھ صاحبِ قول کا نام نہیں دیا کہ پھول کے تعارف کے لیے اس کی خوشبو ہی کافی ہوتی ہے۔ توآیے اب ان منظوم دانش پاروں کی طرف چلتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر ایک اصولِ حیات کا درجہ رکھتا ہے فرق صرف اس کو گہرائی میں جاکر سمجھنے کا ہے۔
(1)
لازم ہے کہ جو بھی کہو تم
اُس میں پُوری سچّائی ہو
لیکن ہر اک سچائی کو
کہہ دینا بھی ٹھیک نہیں
(2)
دل میں کسی کے گھر کرنے کی
سب سے اچھی راہ یہی ہے
مانو یا نہ مانو لیکن
دل سے اُس کی بات سنو
(3)
پیار ،محبت اور توجہ
تینوں ہی درکار ہیں لیکن
جب بھی کوئی
تم سے ان کی قیمت مانگے
اُس کی جانب مت دیکھو اور
ان کے پیچھے مت بھاگو
(4)
گفتگو اور مکالمے سے ہی
علم کا انتقال ممکن ہے
فالتو بحث اور حُجت سے
بات کی سمت ہی نہیں رہتی
راہ ملتی ہے بس جہالت کو
جتنے دروازے تھے کُھلے ، وہ بھی
بندہوتے ہیں اور آخر میں
جہل کے بے کنار صحرا میں
عقل کو راستہ نہیں ملتا
لوگ رکتے ہیں انتہاؤں پر
اور تفہیم کے لیے کوئی بیچ کا راستہ نہیں ملتا
(5)
جس جس نے بھی
میرے پھیلے ہاتھ کو جھٹکا
اور پھر مجھ کو ''نہیں''کہا
وہ سب میرے محسن ہیں
کہ اُن کے اس انکار نے ہی تو
مجھ کو اپنے سب کاموں کو
خود کرنے کی ہمت دی
(6)
اپنوں کی ہر بُھول ہمیشہ ریت پہ لکھو
تاکہ اُس کو پانی کی اک موج بہا دے
اور جتنے احسان ہوں اُن کے
پتھر پر وہ نقش کرو کہ
ہر اک آتا لمحہ اُن کی قیمت کو کچھ اور بڑھا دے
(7)
کسی کو نیچا دکھا کر ملے جو تم کو جیت
نہ اُس میں جیت ہے کوئی نہ کامیابی ہے
کسی کے دل کو دُکھا کر کوئی خوشی لینا
نہیں ہے جس کا مداوا یہ وہ خرابی ہے
(8)
زندگانی میں مِل کے رہنے کے
ہیں یہی دوستو طریقے دو
برف کی طرح یا تو جم جاؤ
یا پگھل جاؤ ایک دُوجے میں
میری مانو تو لاکھ بہتر ہے
اختلافات کے وفا دشمن
برف زاروں میں جم کے رہنے سے
کسی احساس میں پگھل جانا
(9)
اس سے کوئی غرض نہیں تم
جیسا بھی محسوس کرو
اُٹھو، اپنا آپ سمیٹو
اور دنیا کے سامنے آؤ
وقت کا سب سے سُندر لمحہ
یہیں کہیں ہے آنے کو
(10)
ممکن ہے دنیا کے لیے ہو
میرا دُکھ اک بات ہنسی کی
لیکن یہ تو ناممکن ہے
میری ہنسی کے باعث کوئی
لمحہ بھر کو آزردہ ہو
یا پھر اُس کا دل دُکھ جائے
گزشتہ دنوں کچھ دوستوں کی طرف سے ایسے ہی کچھ دانش پارے ملے تو اتفاق سے ''آمد'' کا یعنی تخلیقی دور چل رہا تھا میں نے یونہی اُن میں سے کچھ کو منظوم کرنے کی کوشش کی تو نتیجہ بہت اچھا نکلا اور چھوٹی چھوٹی نظمیں بنتی ہی چلی گئیں اس سارے عمل میں بنیادی مسئلہ صرف ایک تھا کہ قافیہ پیمائی یا شعری حسن کو ترجیح دی جائے یا بات کے اصل مقصد اور پیغام کو کیونکہ بات اور شاعری کے تقاضے کہیں کہیں آپس میں ٹکرا جاتے تھے پھر دھیان آیا کہ اصل خوبی تو اس بات کے اندر موجود دانش اور تخلیقی بات ہی ہے اس کی قیمت پر کس طرح کا سمجھوتہ جائز نہیں ہونا چاہیے، سو میں نے یہی طریقہ اور راستہ اختیار کیا ہے۔
آپ شاید محسوس کریں کہ ذرا سی لفظی تبدیلی سے بات زیادہ مترنم اور برجستہ ہوسکتی تھی لیکن مسئلہ پھر وہی تھا کہ ہمیں اپنی شاعری کے جوہرنہیں دکھانے تھے بلکہ زیرِ نظر بات کے حُسن کو منظوم انداز میں پیش کرنا تھا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ معاملہ ہر جگہ پیش نہیں آیا زیادہ تر باتیں آپ سے آپ نظم کی شکل میں ڈھلتی چلی گئی ہیں،ان اقوال کا تعلق فلسفیوں، اہلِ علم، قومی لیڈروں، عظیم سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں، مختلف علوم کے دانشوروں غرض ہر اُس شعبے سے جس کا تصور کیا جاسکتا ہو اور کہی جانے والی بات کا کوئی نہ کوئی تعلق عالمی اقداری نظام سے بھی بنتا اور نکلتا ہو بیشتر Quotations کا تعلق ہمارے اُن عمومی معاشرتی رویوں سے ہے۔
جنھیں ہم جانتے زیادہ اور مانتے کم ہیں کچھ اقوال تو مشہور تھے مگر اُن کے کہنے والوں کے نام صحت کے ساتھ معلوم نہیں ہوسکے اس لیے میں نے کسی بھی نظم کے ساتھ صاحبِ قول کا نام نہیں دیا کہ پھول کے تعارف کے لیے اس کی خوشبو ہی کافی ہوتی ہے۔ توآیے اب ان منظوم دانش پاروں کی طرف چلتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر ایک اصولِ حیات کا درجہ رکھتا ہے فرق صرف اس کو گہرائی میں جاکر سمجھنے کا ہے۔
(1)
لازم ہے کہ جو بھی کہو تم
اُس میں پُوری سچّائی ہو
لیکن ہر اک سچائی کو
کہہ دینا بھی ٹھیک نہیں
(2)
دل میں کسی کے گھر کرنے کی
سب سے اچھی راہ یہی ہے
مانو یا نہ مانو لیکن
دل سے اُس کی بات سنو
(3)
پیار ،محبت اور توجہ
تینوں ہی درکار ہیں لیکن
جب بھی کوئی
تم سے ان کی قیمت مانگے
اُس کی جانب مت دیکھو اور
ان کے پیچھے مت بھاگو
(4)
گفتگو اور مکالمے سے ہی
علم کا انتقال ممکن ہے
فالتو بحث اور حُجت سے
بات کی سمت ہی نہیں رہتی
راہ ملتی ہے بس جہالت کو
جتنے دروازے تھے کُھلے ، وہ بھی
بندہوتے ہیں اور آخر میں
جہل کے بے کنار صحرا میں
عقل کو راستہ نہیں ملتا
لوگ رکتے ہیں انتہاؤں پر
اور تفہیم کے لیے کوئی بیچ کا راستہ نہیں ملتا
(5)
جس جس نے بھی
میرے پھیلے ہاتھ کو جھٹکا
اور پھر مجھ کو ''نہیں''کہا
وہ سب میرے محسن ہیں
کہ اُن کے اس انکار نے ہی تو
مجھ کو اپنے سب کاموں کو
خود کرنے کی ہمت دی
(6)
اپنوں کی ہر بُھول ہمیشہ ریت پہ لکھو
تاکہ اُس کو پانی کی اک موج بہا دے
اور جتنے احسان ہوں اُن کے
پتھر پر وہ نقش کرو کہ
ہر اک آتا لمحہ اُن کی قیمت کو کچھ اور بڑھا دے
(7)
کسی کو نیچا دکھا کر ملے جو تم کو جیت
نہ اُس میں جیت ہے کوئی نہ کامیابی ہے
کسی کے دل کو دُکھا کر کوئی خوشی لینا
نہیں ہے جس کا مداوا یہ وہ خرابی ہے
(8)
زندگانی میں مِل کے رہنے کے
ہیں یہی دوستو طریقے دو
برف کی طرح یا تو جم جاؤ
یا پگھل جاؤ ایک دُوجے میں
میری مانو تو لاکھ بہتر ہے
اختلافات کے وفا دشمن
برف زاروں میں جم کے رہنے سے
کسی احساس میں پگھل جانا
(9)
اس سے کوئی غرض نہیں تم
جیسا بھی محسوس کرو
اُٹھو، اپنا آپ سمیٹو
اور دنیا کے سامنے آؤ
وقت کا سب سے سُندر لمحہ
یہیں کہیں ہے آنے کو
(10)
ممکن ہے دنیا کے لیے ہو
میرا دُکھ اک بات ہنسی کی
لیکن یہ تو ناممکن ہے
میری ہنسی کے باعث کوئی
لمحہ بھر کو آزردہ ہو
یا پھر اُس کا دل دُکھ جائے