ایم کیو ایم کا یومِ تاسیس

قائد تحریک 31 سال تک جلاوطن رہنے کے باوجود مقبول رہنما رہے، اب وہ ماضی کی سرگرمیوں پر معذرت خواہ ہیں۔

tauceeph@gmail.com

KARACHI:
ایم کیو ایم کے37سال مسلسل جدوجہد، اتحادیوں کی تبدیلی اور دہشت گردی کے الزامات سے پر ہے۔

قائد تحریک 31 سال تک جلاوطن رہنے کے باوجود مقبول رہنما رہے، اب وہ ماضی کی سرگرمیوں پر معذرت خواہ ہیں ، اسٹیبلشمنٹ انھیں معافی دینے کو تیار نہیں۔ ایم کیو ایم کا ایک دھڑا پی ایس پی جس کی قیادت مصطفی کمال کررہے ہیں وہ کراچی اور حیدرآباد فتح کرنے کے بعد کوئٹہ کو فتح کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔

ایک اور دھڑا ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے نام سے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں قائم ہے اور انھوں نے پی آئی بی میں اپنے گھر کے سامنے ایک جلسہ برپا کیا تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان جس کی قیادت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کررہے ہیںسب سے بڑا دھڑا ہے۔

اس کے اراکین قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کرتے ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے 37ویں یوم تاسیس کے موقع پر نشتر پارک میں ایک جلسہ کیا مگر 31 سال قبل ایم کیو ایم کے آغاز کے موقع پر ہونے والے جلسہ کے مقابلے میں یہ خاصا چھوٹا جلسہ تھا۔ اس جلسہ میں مقررین نے کہا کہ جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑتے وقت کراچی کو صوبہ بنانے کا عندیہ دیا تھا مگر ہمارے بزرگ سندھ میں شامل رہنے کی تجویز کے حامیہوئے مگر اب حالات اتنے خراب ہیں کہ شہر ی صوبہ ضروری ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر مردم شماری کرائے۔

گزشتہ مردم شماری میں کراچی، حیدرآباد اور شہری علاقوں کی آبادی کم ریکارڈ کی گئی اور نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کی جائیں۔ معروف سیاسی رہنما محترمہ کشور زہرا نے کہا کہ کارکنوں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے فاصلے کیسے کم ہونگے دوسری طرف کارکنوں کو گرفتارکیا جاتا ہے۔ ایک مقرر نے کہا کہ سندھو دیش اور پاکستان نہ کھپے کا نعرہ لگانے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر کمالی نے کہا کہ مہاجروں سے زیادہ محب وطن پاکستانی اس خطے میں کوئی نہیں ہے۔

ایم کیو ایم تحریک انصاف کی اتحادی ہے مگر ایم کیو ایم کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے یکساں شکایتیں ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری کو پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے مسترد کیا تھا۔ جب تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت قائم ہوئی تو سندھ کی حکومت نے مشترکہ مفاد کونسل میں مردم شماری کے عبوری نتائج پر اعتراضات کیے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ مردم شماری کے حتمی نتائج مرتب کرنے سے پہلے کراچی میں محدود پیمانہ پر پائلٹ مردم شماری کی جائے گی، جب ایم کیو ایم نے پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد کیا تھا تو عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ مردم شماری کے نتائج کی تصدیق کے لیے پائلٹ مردم شماری ہوگی۔

ایک طرف وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ دوسری طرف مردم شماری کے حتمی نتائج جاری نہیں کیے، جب سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مقدمہ سماعت کے لیے آیا تو سندھ کی حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ مردم شماری کے حتمی نتائج کے اجراء کے بغیر بلدیاتی انتخابات کے لیے حد بندیاں ممکن نہیں ہیں مگر 4 سال گزرنے کے باوجود حتمی نتائج کا اجراء نہ ہوا، یوں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی التواء کا شکار ہے۔


ایم کیو ایم کے دفاترکی بحالی اور کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل، سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے اور مہینہ دو مہینے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا معاملہ وفاق سے متعلق ہے اور وزیر اعظم عمران خان اس صورتحال کے ذمے دار ہیں۔ گزشتہ ماہ جب قومی اسمبلی میں اسلام آباد کی نشست کے لیے انتخابات کا وقت آیا ، پھر سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب منعقد ہونے لگا تو تحریک انصاف کی حکومت بڑے بحران کا شکار تھی مگر ایم کیو ایم نے یہ موقع ضایع کیا اور ایک وزارت لے کر نامعلوم وجوہات کی بناء پر تحریک انصاف کی حکومت پر اعتماد کا اظہارکردیا۔

ایم کیو ایم کا شہری صوبہ کا نعرہ اگرچہ بہت سی محرومیوں کا مظہر ہے اور ان محرومیوں کا براہِ راست تعلق پیپلز پارٹی کے 12سالہ طویل اقتدار سے ہے مگر پیپلز پارٹی کے 12 سال بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کے تناظر میں قانون سازی کے حوالے سے بہترین سال ہیں البتہ اچھی طرزِ حکومت اور سندھ کے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے اعتبار سے بدترین سال ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کے خلاف ہے اور سندھ میں ایسا بلدیاتی نظام قائم ہے کہ اس نظام کے نتیجہ میں شہر اورگاؤں مغلوں کے دور میں چلے گئے ہیں۔ ہر شہر میں کوڑے کے ٹیلے ہیں اور سیورج کا پانی مستقل سڑکوں اور گلیوں میں جمع رہتا ہے اور ہر شہرگاؤں میں آوارہ کتوں کی بھرمار ہے، یوں شہری ایک غیر انسانی ماحول سے تنگ ہے۔

کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ان شہروں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ ہر ضلع میں ایک سے 15 گریڈ کی آسامیاں قانونی طور پر اس ضلع کے ڈومیسائل رکھنے والے افراد کے لیے مختص ہوتی ہیں مگر یہ آسامیاں ان ہی اضلاع کے لیے مختص فنڈز کو دیگر اضلاع میں غیر قانونی طور پر منتقل کرنا معمول بن گیا ہے۔

سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ ختم ہوچکی ہے۔ اگرچہ ایک وقت تھا کہ دیہی علاقوں کی پسماندگی کی بنیاد پر شہری اور دیہی کوٹہ ضروری تھا مگر پیپلز پارٹی نے 12 سال کے دوران ہر سال گاؤں اور شہر میں اسکول و کالجوں کا جال بچھایا۔ اب اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے لائق افراد سپیریئر سروس کے امتحانات میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ ان میں ذہین خواتین کی تعداد میں بھی خاطرخواہ اضافے ہوا ہے تو پھر اس پر بحث کی ضرورت ہے کہ سندھ کے کون سے علاقے زیادہ پسماندہ ہیں اور 12 برسوں میں ان علاقوں کے لیے مختص کیے گئے فنڈز کہاں خرچ ہوئے ، یوں کوٹہ سسٹم کی ضرورت اور اس کے نفاذ کی وجوہات سامنے آئیں گی۔

لوگ کہتے ہیں کہ صرف ملازمتوں میں نہیں بلکہ تقرریوں میں شہری علاقوں کے افسروں سے بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کو 12 سال کیوں لگے اور لیاری کی طرح ایک گنجان پسماندہ بڑی آبادی اورنگی ٹاؤن میں کب یونیورسٹی قائم ہوگی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 12 سال میں کراچی اور حیدرآباد وغیرہ میں ماس ٹرانزٹ پروگرام کیوں نہیں شروع کیا گیا اور لاہور ماس ٹرانزٹ پروگرام میں کراچی سے آگے کیوں نکل گیا؟

ایک حقیقت یہ ہے کہ کراچی کو اسلام آباد نے ہمیشہ استعمال کیا اور برسوں ایم کیو ایم اسلام آباد کی مقتدرہ کے بنائے ہوئے راستہ پر چلتی رہی۔ اسلام آباد نے ایم کیو ایم کو جمہوری حکومتوں کے اقتدارکو سبوتاژ کرنے میں استعمال کیا۔ تمام تر اختلافات اور امتیازی سلوک کی شکایات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ سندھی بولنے والے ہی اردو بولنے والوں کے فطری اتحادی ہیں اور ان سے اتحاد سے ہی حقوق حاصل ہوسکتے ہیں۔

ایم کیو ایم کے قائد ین کو علیحدہ صوبہ کے مضمرات کو محسوس کرنا چاہیے اور گزشتہ 72 برس کے دوران ملک کے مختلف علاقوں سے کراچی ہجرت کرنے والی برادریوں کی آبادی کے پھیلاؤ کو محسوس کرنا چاہیے۔ شہری صوبے کے مطالبہ کا مطلب ایک طرف سندھ میں نئے تضادات پیدا ہونا ہے تو دوسرا ایم کیو ایم جن لوگوں کے لیے صوبہ بنانا چاہتی ہے ان کے اقلیت میں جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اب نچلی سطح کے اختیارکے بلدیاتی نظام کو نافذ کرنا چاہیے اور شہری علاقوں کے لوگوں کی شکایات کے تدارک کے لیے سوچ بچارکرنی چاہیے، ورنہ سندھ تضادات کا شکار رہے گا اور سب کے حصہ میں بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔
Load Next Story