’’نامعلوم‘‘کی تلاش
وہ مطلق العنان آمر ضیا کے جبر میں بھی’’شاہراہ دستور‘‘ سے واقف تھا
وہ مطلق العنان آمر ضیا کے جبر میں بھی''شاہراہ دستور'' سے واقف تھا،وہ اکثر کبھی صبح تڑکے کبھی سہ پہر اور کبھی رات کے مہیب سناٹوں میں ''شاہراہِ دستور''پہ لٹکے وقت کو دیکھتا رہتا تھا،وقت سے باتیں کیا کرتا تھا،وقت سے ظلم و جبر ختم ہونے کا سمے معلوم کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا،وہ سندھ کے سیراب کرتے دریا مانند اپنی گفتگو کو دھیما رکھ کر شاہراہِ دستور پہ لٹکتے وقت کو سندھ کے اجڑنے،دریاؤں کے بہاؤ کی روانی کے ٹہر جانے اور منچھر کنارے آباد مچھیروں کی معاشی بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل ہونے والے وقت کا معلوم کیا کرتا،جب شاہراہِ دستور پہ لٹکا ہوا وقت اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیتا تھا تو وہ بوجھل قدموں سے گھر لوٹ کر اپنی مایوسی اور کھوجنا کو قلم کے سپرد کرکے اپنی بپتا کو افسانوی رنگ دے کر دکھی دل کی بھڑاس نکال لیا کرتا تھا۔
وہ جبر کے کئی سال شاہراہِ دستور پہ لٹکتے وقت کا ایک مستقل دوست بن گیا تھا،اسے امید تھی کہ شاہراہِ دستور پہ لٹکتا ہوا وقت اسے ضرور بتائے گا کہ ظلم و جبر کی یہ سیاہی روشنی میں کب، کیسے اور کس وقت تک تبدیل ہوگی،وہ ریاست کے شہر اقتدار میں آیا ہی اس نیت سے تھا کہ وہ اپنے سندھ کے اجڑے کھیت کھلیان اور سندھ کے عوام میں پھیلی وحشت اور جبر کی قوت سے پھیلتی دہشت کا کوئی حل نکال سکے،مگر شاہراہ دستور پہ لٹکتے وقت نے بھی سندھ کے عوام کا ساتھ دینے کے بجائے آمر جنتائی قوتوں کا ساتھ دیا،اور اس کے دل میں مچلتی عوامی امید خوشحالی اور جمہوریت کی آس آخر کار دم توڑ گئی۔
نجانے کیوں وہ مایوس نہ ہوتا تھا،تبھی تو وہ تمام خدشات کی پرواہ کیے بغیر اپنے گم شدہ دوست دھنی بخش کی تلاش میں پاگل خانے تک جا پہنچا،وہ دھنی بخش کے ان نا معلوم اغوا کنندگان کا پتہ چاہتا تھا،جن سے واقف ہونے والے بھی ان کی واقفیت سے لاتعلقی اختیار کیا کرتے تھے،اور جب وہ اپنے دوست دھنی بخش کے متعلق زیادہ کھوجنا کیا کرتا تو اسے کہا جاتا کہ تم باز آجاؤ دھنی بخش کی کھوجنا سے،اسے ڈرایا اور دھمکایا جاتا،مگر جب وہ دھنی بخش کی تلاش سے باز نہ آیا تو اکثر اسے جواب ملا کہ ہم نہیں جانتے کہ دھنی بخش کو گم کرنے والے کون ہیں۔
شاید کہ نامعلوم ہیں وہ لوگ...وہ پاگلوں کے بھیس میں بھی نامعلوم کی کھوجنا میں جتا رہا،مگر ''نامعلوم''نے اس کے مقدر میں ناکامی داخل کر دی تھی،وہ کوششوں کے باوجود اپنے دوست دھنی بخش کو گم کرنے والے''نا معلوم'' کا پتہ نہ ڈھونڈ سکا،اچانک اسے امید ہو چلی کہ اس کی مدد ''اوپر والا'' ضرور کرے گا،اس نے اس کے سامنے اپنے دوست دھنی بخش کی گمشدگی کا حال سنایا تو اسے وہاں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا،وہ خود نام کا جلیل تھا لہذا بہت پر امید تھا کہ اس کے اسم کو سن کر اس پر مہربان ہوا جائے گا اور یوں اس کے دوست دھنی بخش کو اغوا کرنے والے نامعلوم کا پتہ چل جائے گا۔
اور شاید اسی بنا وہ سندھ کے رہواسیوں میں خود کو''امر'' کر جائے،مگر نجانے ایسا کیوں نہ ہو سکا،البتہ شاید نامعلوم کے دوستوں کو اس کی ''اوپر والے'' سے گفتگو اور راز ونیاز کا پتہ لگ گیا،تب سے وہ دھنی بخش کے اغوا کنندگان کی کھوج کا قصور وار تو نہ ٹہرا البتہ رازو نیاز کے جرم میں اسقدر '' جلیل القدر''ہوگیا کہ اس کے خلاف نامعلوم سے زیادہ انتہا پسند منبر متحرک ہوگئے اور جو دھنی بخش کو تلاش کرکے سندھ واسیوں میں ''امر'' ہونا چاہتا تھا،اسے انتہا پسندوں کے فتوؤں نے سندھ بلکہ جگ بھر میں انجانے خوف سے''امر''کردیا۔
سوچتا ہوں کہ اس افسانہ نگار نے تو جو کچھ گلہ شکوہ کیا ہوگا وہ افسانہ نگار جانے اور اس کا معبود...مگر عورت حقوق کی تلاش میں برسہا برس سے پا پیادہ اور کسی اجر اور صلے کی تمنا کیے بغیر باقاعدگی کے ساتھ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی خواتین نے تو ہر گز ''کسی'' سے نہ راز و نیاز کیا اور نہ کسی ''نا معلوم'' کی شکایت کی۔
بات یہاں تک ہوتی تو شاید کہ نظر انداز کیاجا سکتا تھا،مگر اسی اثنا اعلیٰ عدلیہ کے معزز جسٹس منصور علی شاہ نے عصمت دری کیس میں ایک ایسا دلیرانہ فیصلہ دیا کہ جس کی رو سے عصمت دری کی شکار عورت سے اس کے کردار پر سوال نہ کرنے اور اس کی شخصیت کے متعلق ذاتی سوال کرنے کی ممانعت کا فیصلہ دے دیا اور عدالت میں متاثرہ عورت پر جرح کرنے سے وکلا کو روک دیا گیا،یہ اعلیٰ عدلیہ کا انصاف کے ضمن میں وہ فیصلہ تھاجو کہ عالمی طور سے سراہا جا رہا ہے،جب کہ اس فیصلے کی رو سے عمومی طور سے سماج انصاف کے حصول میں ایک قدم آگے بڑھا ہے۔ اس سماج میں یہ چلن عورت حقوق اور خدا سے رازو نیاز کرنے کے سلسلے میں عام ہو چلا ہے کہ جب چاہو بغیر ثبوت کسی پر الزام لگادو اور جب چاہو کسی آمر کو پوجا پاٹ کے اوتار کا منصب عطا کردو۔
ہم جب سماج کی تعریف اور اس کے خدو خال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو جائزہ لینے والے سماج کے طور طریقوں اور راہ و رسم میں اخلاقیات کو اول درجے پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں،جب سماج کی اخلاقیات کی بات کی جانے لگے تو اس سماج میں تعلیمی نظام کی اس سوچ پر نظر رکھنا ضروری ہو جاتا ہے،جس کے تحت سماج عمل کرتا ہو،پاکستانی سماج کی سمت کیا ہے یا آیا یہ سماج کی حقیقی تعریف میں آتا ہے،یہ وہ جان لیوا سوال یا گتھی ہے،جس کی وضاحت میں جان کی بازی دینا اکثر ٹہر جاتا ہے،یعنی جان لیا جائے کہ جو سماج دلیل اور منطق پر گفتگو نہ کرے یا خیالات کے آدرش پر بحث و مباحثہ نہ کرے تو اسے سماج کا درجہ دینا بھی ایک سوال ہی بن جاتا ہے۔
پاکستانی سماج کا اجمالی جائزہ لیتے وقت ہم سب کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری بنیاد ہرگز کسی شائستگی،دلیل اور بحث و مباحث سے تخلیق کرنے کے عوامل پر نہیں رکھی گئی ہے،حقیقت یہ ہے کہ ہم نہ تاریخی طور پر اور نہ ہی تعلیمی طور پر آگہی حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں،بلکہ ہم سنی سنائی اور بغیر تحقیق کیے ایسے سراب کی جانب چلے جانے والے افراد ہیں جن میں عقل و شعور نام کی کوئی شے نہیں بستی چہ جائیکہ ہم اپنی انتہا پسند سوچ کو مکمل اپنے اوپر طاری نہ کرلیں۔
ہمارے سماج میں انتہا پسند سوچ کی بنیادی وجہ جہاں عام فرد تک تعلیم کا نہ پہنچنا ہے وہیں بار بار ایوان اقتدار پر عوام کے غیر منتخب افراد کا زمام حکومت سنبھالنا بھی ہے،ملک میں بار بار کے آمرانہ راج اور ان کے پروردہ سیاسی سلیکٹیڈ راج رہے ہیں، جو اپنے اقتدار کے مکمل ہونے کی کوشش میں سماج کی بنت سازی پر کوئی توجہ نہ دیتے اور نہ سماج کی آبیاری ان کا مسئلہ ہے، ریاست کی اس سماج دشمن سوچ کا فطری نتیجہ عدم برداشت،معاشرتی اخلاقی بگاڑ اور ان تمام کے نتیجے میں انتہا پسند سوچ کا پنپنا ہے،سوال یہ ہے کہ کیا ہم مایوس ہوکر بہتر سماج کے تشکیل کی کوششیں ترک کردیں؟ اگر ہم سب یہ نہیں چاہتے تو پھر ہم میں برداشت در گذر اور تحقیق کے سوتے کیسے اور کیونکر پیدا ہونگے؟اس کا سادہ سا جواب ہے کہ جب آپ ایک اچھے سامع بننے کی جانب جائیں گے تو آپ میں برداشت تحمل در گذر اور وسیع النظری جنم لے گی جو آخر کار تنگ نظری اور انتہا پسندی کے اژدھے کو قابو کر لے گی۔
وگرنہ آیندہ نسل نہ پہاڑ جوکھم روہڑی سندھ سے امر جلیل اور نہ استحصال سے مبرا عورت یا ماں کوئی نسل اگل پائے گی، فیصلہ آج ہی کرنا ہے کہ کیا ہم بانجھ دھرتی اپنے مستقبل کو دیں گے یا تعمیری سوچ اور احترام کی انصاف بر مبنی دھرتی،جہاں سکھ چین کی بانسری کی آواز ہو اور پرند چہچہائیں تو ان کے آزادانہ سر ہمارے کل کے آزاد انسان کو سُر اور تخلیق کی لے پر شانتی دیں اور وہ تعمیر و تخلیق کے وہ راہرو ہوں جن پر سماج کی ہر پرت اپنی بانہیں کھول دے اور ہم وسیع ذہن سے ہر بات کو سننے، پرکھنے اور ردعمل دینے کے اوتار بنیں۔
وہ جبر کے کئی سال شاہراہِ دستور پہ لٹکتے وقت کا ایک مستقل دوست بن گیا تھا،اسے امید تھی کہ شاہراہِ دستور پہ لٹکتا ہوا وقت اسے ضرور بتائے گا کہ ظلم و جبر کی یہ سیاہی روشنی میں کب، کیسے اور کس وقت تک تبدیل ہوگی،وہ ریاست کے شہر اقتدار میں آیا ہی اس نیت سے تھا کہ وہ اپنے سندھ کے اجڑے کھیت کھلیان اور سندھ کے عوام میں پھیلی وحشت اور جبر کی قوت سے پھیلتی دہشت کا کوئی حل نکال سکے،مگر شاہراہ دستور پہ لٹکتے وقت نے بھی سندھ کے عوام کا ساتھ دینے کے بجائے آمر جنتائی قوتوں کا ساتھ دیا،اور اس کے دل میں مچلتی عوامی امید خوشحالی اور جمہوریت کی آس آخر کار دم توڑ گئی۔
نجانے کیوں وہ مایوس نہ ہوتا تھا،تبھی تو وہ تمام خدشات کی پرواہ کیے بغیر اپنے گم شدہ دوست دھنی بخش کی تلاش میں پاگل خانے تک جا پہنچا،وہ دھنی بخش کے ان نا معلوم اغوا کنندگان کا پتہ چاہتا تھا،جن سے واقف ہونے والے بھی ان کی واقفیت سے لاتعلقی اختیار کیا کرتے تھے،اور جب وہ اپنے دوست دھنی بخش کے متعلق زیادہ کھوجنا کیا کرتا تو اسے کہا جاتا کہ تم باز آجاؤ دھنی بخش کی کھوجنا سے،اسے ڈرایا اور دھمکایا جاتا،مگر جب وہ دھنی بخش کی تلاش سے باز نہ آیا تو اکثر اسے جواب ملا کہ ہم نہیں جانتے کہ دھنی بخش کو گم کرنے والے کون ہیں۔
شاید کہ نامعلوم ہیں وہ لوگ...وہ پاگلوں کے بھیس میں بھی نامعلوم کی کھوجنا میں جتا رہا،مگر ''نامعلوم''نے اس کے مقدر میں ناکامی داخل کر دی تھی،وہ کوششوں کے باوجود اپنے دوست دھنی بخش کو گم کرنے والے''نا معلوم'' کا پتہ نہ ڈھونڈ سکا،اچانک اسے امید ہو چلی کہ اس کی مدد ''اوپر والا'' ضرور کرے گا،اس نے اس کے سامنے اپنے دوست دھنی بخش کی گمشدگی کا حال سنایا تو اسے وہاں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا،وہ خود نام کا جلیل تھا لہذا بہت پر امید تھا کہ اس کے اسم کو سن کر اس پر مہربان ہوا جائے گا اور یوں اس کے دوست دھنی بخش کو اغوا کرنے والے نامعلوم کا پتہ چل جائے گا۔
اور شاید اسی بنا وہ سندھ کے رہواسیوں میں خود کو''امر'' کر جائے،مگر نجانے ایسا کیوں نہ ہو سکا،البتہ شاید نامعلوم کے دوستوں کو اس کی ''اوپر والے'' سے گفتگو اور راز ونیاز کا پتہ لگ گیا،تب سے وہ دھنی بخش کے اغوا کنندگان کی کھوج کا قصور وار تو نہ ٹہرا البتہ رازو نیاز کے جرم میں اسقدر '' جلیل القدر''ہوگیا کہ اس کے خلاف نامعلوم سے زیادہ انتہا پسند منبر متحرک ہوگئے اور جو دھنی بخش کو تلاش کرکے سندھ واسیوں میں ''امر'' ہونا چاہتا تھا،اسے انتہا پسندوں کے فتوؤں نے سندھ بلکہ جگ بھر میں انجانے خوف سے''امر''کردیا۔
سوچتا ہوں کہ اس افسانہ نگار نے تو جو کچھ گلہ شکوہ کیا ہوگا وہ افسانہ نگار جانے اور اس کا معبود...مگر عورت حقوق کی تلاش میں برسہا برس سے پا پیادہ اور کسی اجر اور صلے کی تمنا کیے بغیر باقاعدگی کے ساتھ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی خواتین نے تو ہر گز ''کسی'' سے نہ راز و نیاز کیا اور نہ کسی ''نا معلوم'' کی شکایت کی۔
بات یہاں تک ہوتی تو شاید کہ نظر انداز کیاجا سکتا تھا،مگر اسی اثنا اعلیٰ عدلیہ کے معزز جسٹس منصور علی شاہ نے عصمت دری کیس میں ایک ایسا دلیرانہ فیصلہ دیا کہ جس کی رو سے عصمت دری کی شکار عورت سے اس کے کردار پر سوال نہ کرنے اور اس کی شخصیت کے متعلق ذاتی سوال کرنے کی ممانعت کا فیصلہ دے دیا اور عدالت میں متاثرہ عورت پر جرح کرنے سے وکلا کو روک دیا گیا،یہ اعلیٰ عدلیہ کا انصاف کے ضمن میں وہ فیصلہ تھاجو کہ عالمی طور سے سراہا جا رہا ہے،جب کہ اس فیصلے کی رو سے عمومی طور سے سماج انصاف کے حصول میں ایک قدم آگے بڑھا ہے۔ اس سماج میں یہ چلن عورت حقوق اور خدا سے رازو نیاز کرنے کے سلسلے میں عام ہو چلا ہے کہ جب چاہو بغیر ثبوت کسی پر الزام لگادو اور جب چاہو کسی آمر کو پوجا پاٹ کے اوتار کا منصب عطا کردو۔
ہم جب سماج کی تعریف اور اس کے خدو خال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو جائزہ لینے والے سماج کے طور طریقوں اور راہ و رسم میں اخلاقیات کو اول درجے پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں،جب سماج کی اخلاقیات کی بات کی جانے لگے تو اس سماج میں تعلیمی نظام کی اس سوچ پر نظر رکھنا ضروری ہو جاتا ہے،جس کے تحت سماج عمل کرتا ہو،پاکستانی سماج کی سمت کیا ہے یا آیا یہ سماج کی حقیقی تعریف میں آتا ہے،یہ وہ جان لیوا سوال یا گتھی ہے،جس کی وضاحت میں جان کی بازی دینا اکثر ٹہر جاتا ہے،یعنی جان لیا جائے کہ جو سماج دلیل اور منطق پر گفتگو نہ کرے یا خیالات کے آدرش پر بحث و مباحثہ نہ کرے تو اسے سماج کا درجہ دینا بھی ایک سوال ہی بن جاتا ہے۔
پاکستانی سماج کا اجمالی جائزہ لیتے وقت ہم سب کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری بنیاد ہرگز کسی شائستگی،دلیل اور بحث و مباحث سے تخلیق کرنے کے عوامل پر نہیں رکھی گئی ہے،حقیقت یہ ہے کہ ہم نہ تاریخی طور پر اور نہ ہی تعلیمی طور پر آگہی حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں،بلکہ ہم سنی سنائی اور بغیر تحقیق کیے ایسے سراب کی جانب چلے جانے والے افراد ہیں جن میں عقل و شعور نام کی کوئی شے نہیں بستی چہ جائیکہ ہم اپنی انتہا پسند سوچ کو مکمل اپنے اوپر طاری نہ کرلیں۔
ہمارے سماج میں انتہا پسند سوچ کی بنیادی وجہ جہاں عام فرد تک تعلیم کا نہ پہنچنا ہے وہیں بار بار ایوان اقتدار پر عوام کے غیر منتخب افراد کا زمام حکومت سنبھالنا بھی ہے،ملک میں بار بار کے آمرانہ راج اور ان کے پروردہ سیاسی سلیکٹیڈ راج رہے ہیں، جو اپنے اقتدار کے مکمل ہونے کی کوشش میں سماج کی بنت سازی پر کوئی توجہ نہ دیتے اور نہ سماج کی آبیاری ان کا مسئلہ ہے، ریاست کی اس سماج دشمن سوچ کا فطری نتیجہ عدم برداشت،معاشرتی اخلاقی بگاڑ اور ان تمام کے نتیجے میں انتہا پسند سوچ کا پنپنا ہے،سوال یہ ہے کہ کیا ہم مایوس ہوکر بہتر سماج کے تشکیل کی کوششیں ترک کردیں؟ اگر ہم سب یہ نہیں چاہتے تو پھر ہم میں برداشت در گذر اور تحقیق کے سوتے کیسے اور کیونکر پیدا ہونگے؟اس کا سادہ سا جواب ہے کہ جب آپ ایک اچھے سامع بننے کی جانب جائیں گے تو آپ میں برداشت تحمل در گذر اور وسیع النظری جنم لے گی جو آخر کار تنگ نظری اور انتہا پسندی کے اژدھے کو قابو کر لے گی۔
وگرنہ آیندہ نسل نہ پہاڑ جوکھم روہڑی سندھ سے امر جلیل اور نہ استحصال سے مبرا عورت یا ماں کوئی نسل اگل پائے گی، فیصلہ آج ہی کرنا ہے کہ کیا ہم بانجھ دھرتی اپنے مستقبل کو دیں گے یا تعمیری سوچ اور احترام کی انصاف بر مبنی دھرتی،جہاں سکھ چین کی بانسری کی آواز ہو اور پرند چہچہائیں تو ان کے آزادانہ سر ہمارے کل کے آزاد انسان کو سُر اور تخلیق کی لے پر شانتی دیں اور وہ تعمیر و تخلیق کے وہ راہرو ہوں جن پر سماج کی ہر پرت اپنی بانہیں کھول دے اور ہم وسیع ذہن سے ہر بات کو سننے، پرکھنے اور ردعمل دینے کے اوتار بنیں۔