پولیس افسر کے بیٹوں نے 3 ملازمین کو درخت سے باندھ دیا
پہلے بھی پولیس اہلکاروں کے ساتھ اس نوعیت کے کئی واقعات کرچکے ہیں، ملازمین نے ہڑتال کردی
حیدرآباد پولیس کے اعلی افسر کے بیٹوں نے حیدرآباد کے سرکٹ ہاؤس میں کام کرنے والے3 ملازمین کو مبینہ طور پر درخت سے باندھ دیا۔
واقعے کے خلاف ملازمین نے احتجاج کرتے ہوئے کام بند کردیا ہے۔ ایس ایس پی کے ملازمین سے مذاکرات بھی ناکام ہوگئے۔ ایف آئی آر کے اندراج تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس کے اعلیٰ افسر اپنے اہلخانہ کے ساتھ پولیس ریسٹ ہاؤس کے بجائے گذشتہ 6ماہ سے سرکٹ ہاؤس حیدرآباد میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں جہاں بدھ کے روز اس افسر کے 2 بیٹوں نے مبینہ طور پر3 ملازمین کو رسی کی مدد سے درخت کے ساتھ باندھ دیا۔
جن ملازمین کو باندھا گیا ان میں سرکٹ ہاؤس کا ویٹر محمد وقار، مالی رحیم بخش اور خاکروب امر لال شامل ہیں۔ متاثرہ ملازمین کے احتجاج کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ وہ معمول کے مطابق اپنے اپنے کام کررہے تھے لیکن اچانک پولیس افسر کے بیٹوں نے خاکروب کا گریبان کھلا دیکھ کر اپنے پولیس اہلکار گارڈز کو حکم دیا کہ تینوں کو باندھ دو جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے دو ملازمین کو رسیوں کی مدد سے درخت کے ساتھ اور ایک ملازم کو پولیس موبائل کے ساتھ باندھ دیا۔ بعدازاں مقامی افراد کی مداخلت پر تینوں ملازمین کو آزاد کیا گیا۔
واقعے کے خلاف سرکٹ ہاؤس کے ملازمین نے احتجاج کیا اور کارروائی کا مطالبہ کیا۔ معلوم ہوا ہے کہ کمشنر حیدرآباد محمد عباس بلوچ نے حیدرآباد میں تعیناتی کے بعد اعلیٰ افسر کو صرف 28 اگست کو ایک ہفتے کیلیے سرکٹ ہاؤس میں رہائش کی اجازت دی تھی جس کے بعد سے اب تک پولیس کے یہ اعلی افسر اپنے اہلخانہ کے ہمراہ سرکٹ ہاؤس میں ہی رہائش پذیر ہیں۔
اعلی افسر نے پہلے چند ماہ 2 کمرے اپنے پاس رکھے اور بعدازاں تیسرا کمرہ بھی حاصل کرلیا جن پر مجموعی طور پر 2 لاکھ 60 تک کا کرایہ بنتا ہے اسی طرح کھانے پینے کا بل الگ سے ادا کرنا پڑتا ہے لیکن اعلیٰ افسر مفت میں کھانے کی سروس بھی حاصل کررہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اعلی افسر کے بیٹوں کی ملازمین کے ساتھ بدتمیزی و غیر انسانی سلوک کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی سیکیورٹی پر مامور ایک پولیس اہلکار کو گنجا کرنے کے ساتھ ایک اہلکار کو معطل کروایا جاچکا ہے جبکہ ایک اہلکار کو سخت سرد موسم میں ٹھنڈا پانی جسم پر ڈالنے کے بعد پنکھے کے سامنے بھی بٹھایا گیا تھا۔ جس پر پولیس کے دیگر افسران نے بھی پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ دوسری طرف واقعے کے خلاف سندھ پروانشنل بلڈنگ یونائیٹڈ یونین سی بی اے کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں یکم اپریل سے سندھ بھر کے سرکٹ ہاؤسز اور دفاتر بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
واقعے کے خلاف ملازمین نے احتجاج کرتے ہوئے کام بند کردیا ہے۔ ایس ایس پی کے ملازمین سے مذاکرات بھی ناکام ہوگئے۔ ایف آئی آر کے اندراج تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس کے اعلیٰ افسر اپنے اہلخانہ کے ساتھ پولیس ریسٹ ہاؤس کے بجائے گذشتہ 6ماہ سے سرکٹ ہاؤس حیدرآباد میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں جہاں بدھ کے روز اس افسر کے 2 بیٹوں نے مبینہ طور پر3 ملازمین کو رسی کی مدد سے درخت کے ساتھ باندھ دیا۔
جن ملازمین کو باندھا گیا ان میں سرکٹ ہاؤس کا ویٹر محمد وقار، مالی رحیم بخش اور خاکروب امر لال شامل ہیں۔ متاثرہ ملازمین کے احتجاج کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ وہ معمول کے مطابق اپنے اپنے کام کررہے تھے لیکن اچانک پولیس افسر کے بیٹوں نے خاکروب کا گریبان کھلا دیکھ کر اپنے پولیس اہلکار گارڈز کو حکم دیا کہ تینوں کو باندھ دو جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے دو ملازمین کو رسیوں کی مدد سے درخت کے ساتھ اور ایک ملازم کو پولیس موبائل کے ساتھ باندھ دیا۔ بعدازاں مقامی افراد کی مداخلت پر تینوں ملازمین کو آزاد کیا گیا۔
واقعے کے خلاف سرکٹ ہاؤس کے ملازمین نے احتجاج کیا اور کارروائی کا مطالبہ کیا۔ معلوم ہوا ہے کہ کمشنر حیدرآباد محمد عباس بلوچ نے حیدرآباد میں تعیناتی کے بعد اعلیٰ افسر کو صرف 28 اگست کو ایک ہفتے کیلیے سرکٹ ہاؤس میں رہائش کی اجازت دی تھی جس کے بعد سے اب تک پولیس کے یہ اعلی افسر اپنے اہلخانہ کے ہمراہ سرکٹ ہاؤس میں ہی رہائش پذیر ہیں۔
اعلی افسر نے پہلے چند ماہ 2 کمرے اپنے پاس رکھے اور بعدازاں تیسرا کمرہ بھی حاصل کرلیا جن پر مجموعی طور پر 2 لاکھ 60 تک کا کرایہ بنتا ہے اسی طرح کھانے پینے کا بل الگ سے ادا کرنا پڑتا ہے لیکن اعلیٰ افسر مفت میں کھانے کی سروس بھی حاصل کررہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اعلی افسر کے بیٹوں کی ملازمین کے ساتھ بدتمیزی و غیر انسانی سلوک کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی سیکیورٹی پر مامور ایک پولیس اہلکار کو گنجا کرنے کے ساتھ ایک اہلکار کو معطل کروایا جاچکا ہے جبکہ ایک اہلکار کو سخت سرد موسم میں ٹھنڈا پانی جسم پر ڈالنے کے بعد پنکھے کے سامنے بھی بٹھایا گیا تھا۔ جس پر پولیس کے دیگر افسران نے بھی پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ دوسری طرف واقعے کے خلاف سندھ پروانشنل بلڈنگ یونائیٹڈ یونین سی بی اے کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں یکم اپریل سے سندھ بھر کے سرکٹ ہاؤسز اور دفاتر بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔