ہم اسلام اور پاکستان
ہماری قومی زبان تو اردو ہے مگر سرکاری زبان انگریزی، ہم ہیں تو مسلمان لیکن رہن سہن انگریزوں جیسا چاہتے ہیں
لاہور:
پاکستان بننے کا مقصد مسلمانوں کےلیے ایک جداگانہ ریاست کا قیام تھا جہاں مسلمان اپنے رب سے رشتہ استوار کرسکیں اور ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ عمل پذیر ہوسکے اور ہم ایک ایسا اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکیں جو دنیا کےلیے ایک مثال ہو۔
بانیٔ پاکستان کو اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ آزادی کے بعد اس معاملے میں کچھ قانون سازی کرسکتے۔ ابتدائی طور پر جو اس ملک کا قانون بنا وہ انگریزوں سے مستعار لیا گیا قانون تھا۔ ان انگریزوں نے تو اس میں بہت سی تبدیلیاں کرلی ہیں مگر ہم نے اس اثاثے کو ابھی تک ویسے ہی سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ اب تک نہیں آرہی کہ انگریزوں سے ہم نے آزادی لی یا وہ ہم سے آزاد ہو کر چلے گئے۔
بہرحال یہ بات مان لیتے ہیں کہ شروع کے کچھ سال تو ملکی سالمیت کے ساتھ اور بھی کئی مسائل درپیش تھے جس کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں کی جاسکی ہوگی۔ مگر اس کے بعد سال پہ سال گزرتے گئے اور ہم اسلامی قانون یا شریعت اس ملک میں نافذ نہ کرسکے۔ مگر ہم نے اسلام کو ویسے نہیں چھوڑا بلکہ اسے اپنے مفاد کےلیے استعمال کرنے کا فن خوب سیکھ لیا۔ جی ہاں! آج اسلام ہمارے لیے لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے اور اپنی مقبولیت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس ملک کے بھولے بھالے عوام کی اسلام سے محبت اس قدر شدید ہے کہ ایک اسلامی نعرہ انہیں سڑکوں پر نکال کر ہم آواز کرسکتا ہے، مگر عملی طور پر ہم سب انگریز کے بنائے اصول ہی مدنظر رکھتے ہیں، چاہے زبان سے انہیں لاکھ برا بھلا کہتے رہیں۔ مطلب ہم مکمل طور پر انگریز کی پیروی کرکے بھی سینہ تان کر خود کو مسلمان کہتے ہیں۔
ہماری قومی زبان تو اردو ہے مگر سرکاری زبان انگریزی، ہم ہیں تو مسلمان لیکن رہن سہن انگریزوں جیسا چاہتے ہیں۔ ہمارا قومی ترانہ فارسی زبان میں اور مذہب عربی زبان میں ہے، مگر ہم ان دونوں زبانوں سے نابلد ہیں اور نہ ہی انہیں سیکھنے کی کوئی کوشش کرتے ہیں۔ ہاں مگر انگریزی ضرور سیکھتے ہیں کہ دنیا ہی تو کمانی ہے ہم نے اور اس کےلیے انگریزی زبان بہت ضروری ہے۔
دنیاوی اعتبار سے کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی اس کی اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے چار عناصر سیاستدان، فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی ہوتے ہیں جو کہ اگر ایک ساتھ مل کر کام کریں تو ہی ملک ترقی کرسکتا ہے اور اگر ان میں سے ہر ایک صرف اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرے گا تو ملک کا نظام بے ہنگم ہوجائے گا اور یہی کچھ حال ہمارے ملک پاکستان کا ہے۔ ہمارے سیاستدان چاہتے ہیں کہ ملک کے سیاہ و سفید کے وہ مالک بن جائیں اور ان کا کوئی حساب لینے والا نہ ہو۔ اسی طرح پھر باقی ادارے بھی اپنی خودمختاری اور آزادی کا نعرہ مار کر میدان میں آجاتے ہیں اور پھر بات اس سے بھی آگے کو نکلتی جاتی ہے۔ ان میں سے کوئی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ مالک و خودمختار تو وہ ہے جس نے اس پاک سرزمین جیسی نعمت ہم جیسے بے قدروں کے حوالے کردی۔ تو اس کا قانون کیوں نہیں نافذ کرتے؟
ایسی بات کرنے یا نعرہ مارنے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر عملی طور پر بہت مشکل۔ کیوں کہ اگر اسلامی نظام نافذ ہوگیا تو کرپشن ختم ہوجائے گی۔ پھر ہم اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ کیسے بھریں گے؟ اگر اسلامی نظام نافذ ہوگیا تو سود کا نظام بند کرنا پڑے گا۔ پھر ہمارے بینک کیسے چلیں گے؟ اور ان کے ذریعے ہم قرض کیسے لیں گے؟ اسلامی نظام نافذ ہوا تو ہماری سیاست کیسے چلے گی، جو کہ چلتی ہی جھوٹ اور منافقت پر ہے۔ جس کو ہم نے ایک نیا نام دے دیا ہے کہ جی وہ تو ''سیاسی بیان'' تھا۔ اگر اسلام نافذ ہوا تو مولوی مسجد کے باہر آجائے گا، پھر ہم اسے قابو میں کیسے رکھیں گے؟ مسجدوں پر پابندی، اپنی مرضی کے فتوے کیسے لیں گے؟ اگر اسلام نافذ ہوگیا تو عورت کو تو عزت و مرتبہ والا اعلیٰ مقام مل جائے گا، پھر ہم نیم برہنہ عورتوں کے جسم کی نمائش کیسے دیکھ پائیں گے جو کہ ہر سال سڑکوں پر اپنا حق مانگنے نکلتی ہیں۔
ان جیسے اور بھی بہت سے سوالات ہیں اور جب تک ان کے جواب نہیں مل پاتے ہم مسلمان تو رہیں گے مگر اسلام کو اپنی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرنے دیں گے، بلکہ ہم خود اسلام میں دخل اندازی کریں گے اور اسے اپنے مفاد کےلیے استعمال کرتے رہیں گے کیوں کہ اسی میں ہماری بھلائی ہے اور ملک کی بھلائی یا دین اسلام کی بھلائی سے ہمارا کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ ہم اسلام کو دوسروں کو کافر ثابت کرنے کےلیے بطور ہتھیار استعمال کریں گے، جس پر مرضی غداری کا فتوی لگائیں گے اور خود کو اسلام کا ایک ہیرو بنا کر پیش کریں گے۔ ہم مسلمان بننا نہیں بلکہ مسلمان نظر آنا پسند کرتے ہیں اور وہ بھی عملی طور پر نہیں بلکہ زبانی طور پر۔ ہم اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے تو بہادر بن جاتے ہیں جس کے سامنے ہماری اوقات کسی مچھر سے بھی کم ہے، مگر دنیاوی خداؤں کے سامنے ہم سجدہ ریز ہوجاتے ہیں کہ ہمیں ان سے دنیا میں کچھ فوائد حاصل ہوسکیں۔
ہم بحیثیت قوم برائیوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور جب کوئی قوم اجتماعی طور پر برائیوں کا شکار ہوجائے تو پھر ان کا وہی حشر ہوتا ہے جو قوم عاد و ثمود کا ہوا، جو بنی اسرائیل کی تاریخ ہے، جو سقوط اندلس و غرناطہ میں مسلمانوں کی تاریخ ہے اور جس سے انسان نے کبھی بھی سبق لینے کی کوشش نہیں کی۔ اسی لیے پاکستان کو پہلی تنبیہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں کی گئی، مگر ہم پھر بھی نہیں سمجھے اور اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ ہاں مگر اپنے 73ء کے آئین میں کچھ اسلامی دفعات ڈال کر خود کو مسلمان اور ملک کو اسلامی سلطنت بنانے کی خوب کوشش کی۔ ہم نے انگریزی درخت پر دیسی پھل لٹکا دیے اور انتظار میں ہیں کہ خوب پھلے گا پھولے گا۔ کچھ عرصہ تو گزر گیا مگر اب کشمیر کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔ مگر ہم ابھی بھی اپنے انفرادی مقصد کو ہی اولیت دیتے نظر آتے ہیں۔
ہم ابھی بھی رجوع کرنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں رہے بلکہ جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں، جو کہ تمام نیک اعمالوں کو برباد کردیتا ہے۔ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ جو زیادہ جھوٹ بولے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہوتا ہے۔ مگر کہلواتے ہم خود کو صادق ہیں۔ میری تو فکر ہی جواب دیتی جارہی ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے، توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ تو کیوں نہ اس دروازے میں داخل ہوجائیں، اسلام کو اپنا دین بنائیں اور اسے اپنے ملک اور اپنی زندگیوں میں نافذ کردیں اور اپنی سمت درست کرلیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان بننے کا مقصد مسلمانوں کےلیے ایک جداگانہ ریاست کا قیام تھا جہاں مسلمان اپنے رب سے رشتہ استوار کرسکیں اور ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ عمل پذیر ہوسکے اور ہم ایک ایسا اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکیں جو دنیا کےلیے ایک مثال ہو۔
بانیٔ پاکستان کو اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ آزادی کے بعد اس معاملے میں کچھ قانون سازی کرسکتے۔ ابتدائی طور پر جو اس ملک کا قانون بنا وہ انگریزوں سے مستعار لیا گیا قانون تھا۔ ان انگریزوں نے تو اس میں بہت سی تبدیلیاں کرلی ہیں مگر ہم نے اس اثاثے کو ابھی تک ویسے ہی سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ اب تک نہیں آرہی کہ انگریزوں سے ہم نے آزادی لی یا وہ ہم سے آزاد ہو کر چلے گئے۔
بہرحال یہ بات مان لیتے ہیں کہ شروع کے کچھ سال تو ملکی سالمیت کے ساتھ اور بھی کئی مسائل درپیش تھے جس کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں کی جاسکی ہوگی۔ مگر اس کے بعد سال پہ سال گزرتے گئے اور ہم اسلامی قانون یا شریعت اس ملک میں نافذ نہ کرسکے۔ مگر ہم نے اسلام کو ویسے نہیں چھوڑا بلکہ اسے اپنے مفاد کےلیے استعمال کرنے کا فن خوب سیکھ لیا۔ جی ہاں! آج اسلام ہمارے لیے لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے اور اپنی مقبولیت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس ملک کے بھولے بھالے عوام کی اسلام سے محبت اس قدر شدید ہے کہ ایک اسلامی نعرہ انہیں سڑکوں پر نکال کر ہم آواز کرسکتا ہے، مگر عملی طور پر ہم سب انگریز کے بنائے اصول ہی مدنظر رکھتے ہیں، چاہے زبان سے انہیں لاکھ برا بھلا کہتے رہیں۔ مطلب ہم مکمل طور پر انگریز کی پیروی کرکے بھی سینہ تان کر خود کو مسلمان کہتے ہیں۔
ہماری قومی زبان تو اردو ہے مگر سرکاری زبان انگریزی، ہم ہیں تو مسلمان لیکن رہن سہن انگریزوں جیسا چاہتے ہیں۔ ہمارا قومی ترانہ فارسی زبان میں اور مذہب عربی زبان میں ہے، مگر ہم ان دونوں زبانوں سے نابلد ہیں اور نہ ہی انہیں سیکھنے کی کوئی کوشش کرتے ہیں۔ ہاں مگر انگریزی ضرور سیکھتے ہیں کہ دنیا ہی تو کمانی ہے ہم نے اور اس کےلیے انگریزی زبان بہت ضروری ہے۔
دنیاوی اعتبار سے کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی اس کی اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے چار عناصر سیاستدان، فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی ہوتے ہیں جو کہ اگر ایک ساتھ مل کر کام کریں تو ہی ملک ترقی کرسکتا ہے اور اگر ان میں سے ہر ایک صرف اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرے گا تو ملک کا نظام بے ہنگم ہوجائے گا اور یہی کچھ حال ہمارے ملک پاکستان کا ہے۔ ہمارے سیاستدان چاہتے ہیں کہ ملک کے سیاہ و سفید کے وہ مالک بن جائیں اور ان کا کوئی حساب لینے والا نہ ہو۔ اسی طرح پھر باقی ادارے بھی اپنی خودمختاری اور آزادی کا نعرہ مار کر میدان میں آجاتے ہیں اور پھر بات اس سے بھی آگے کو نکلتی جاتی ہے۔ ان میں سے کوئی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ مالک و خودمختار تو وہ ہے جس نے اس پاک سرزمین جیسی نعمت ہم جیسے بے قدروں کے حوالے کردی۔ تو اس کا قانون کیوں نہیں نافذ کرتے؟
ایسی بات کرنے یا نعرہ مارنے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر عملی طور پر بہت مشکل۔ کیوں کہ اگر اسلامی نظام نافذ ہوگیا تو کرپشن ختم ہوجائے گی۔ پھر ہم اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ کیسے بھریں گے؟ اگر اسلامی نظام نافذ ہوگیا تو سود کا نظام بند کرنا پڑے گا۔ پھر ہمارے بینک کیسے چلیں گے؟ اور ان کے ذریعے ہم قرض کیسے لیں گے؟ اسلامی نظام نافذ ہوا تو ہماری سیاست کیسے چلے گی، جو کہ چلتی ہی جھوٹ اور منافقت پر ہے۔ جس کو ہم نے ایک نیا نام دے دیا ہے کہ جی وہ تو ''سیاسی بیان'' تھا۔ اگر اسلام نافذ ہوا تو مولوی مسجد کے باہر آجائے گا، پھر ہم اسے قابو میں کیسے رکھیں گے؟ مسجدوں پر پابندی، اپنی مرضی کے فتوے کیسے لیں گے؟ اگر اسلام نافذ ہوگیا تو عورت کو تو عزت و مرتبہ والا اعلیٰ مقام مل جائے گا، پھر ہم نیم برہنہ عورتوں کے جسم کی نمائش کیسے دیکھ پائیں گے جو کہ ہر سال سڑکوں پر اپنا حق مانگنے نکلتی ہیں۔
ان جیسے اور بھی بہت سے سوالات ہیں اور جب تک ان کے جواب نہیں مل پاتے ہم مسلمان تو رہیں گے مگر اسلام کو اپنی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرنے دیں گے، بلکہ ہم خود اسلام میں دخل اندازی کریں گے اور اسے اپنے مفاد کےلیے استعمال کرتے رہیں گے کیوں کہ اسی میں ہماری بھلائی ہے اور ملک کی بھلائی یا دین اسلام کی بھلائی سے ہمارا کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ ہم اسلام کو دوسروں کو کافر ثابت کرنے کےلیے بطور ہتھیار استعمال کریں گے، جس پر مرضی غداری کا فتوی لگائیں گے اور خود کو اسلام کا ایک ہیرو بنا کر پیش کریں گے۔ ہم مسلمان بننا نہیں بلکہ مسلمان نظر آنا پسند کرتے ہیں اور وہ بھی عملی طور پر نہیں بلکہ زبانی طور پر۔ ہم اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے تو بہادر بن جاتے ہیں جس کے سامنے ہماری اوقات کسی مچھر سے بھی کم ہے، مگر دنیاوی خداؤں کے سامنے ہم سجدہ ریز ہوجاتے ہیں کہ ہمیں ان سے دنیا میں کچھ فوائد حاصل ہوسکیں۔
ہم بحیثیت قوم برائیوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور جب کوئی قوم اجتماعی طور پر برائیوں کا شکار ہوجائے تو پھر ان کا وہی حشر ہوتا ہے جو قوم عاد و ثمود کا ہوا، جو بنی اسرائیل کی تاریخ ہے، جو سقوط اندلس و غرناطہ میں مسلمانوں کی تاریخ ہے اور جس سے انسان نے کبھی بھی سبق لینے کی کوشش نہیں کی۔ اسی لیے پاکستان کو پہلی تنبیہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں کی گئی، مگر ہم پھر بھی نہیں سمجھے اور اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ ہاں مگر اپنے 73ء کے آئین میں کچھ اسلامی دفعات ڈال کر خود کو مسلمان اور ملک کو اسلامی سلطنت بنانے کی خوب کوشش کی۔ ہم نے انگریزی درخت پر دیسی پھل لٹکا دیے اور انتظار میں ہیں کہ خوب پھلے گا پھولے گا۔ کچھ عرصہ تو گزر گیا مگر اب کشمیر کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔ مگر ہم ابھی بھی اپنے انفرادی مقصد کو ہی اولیت دیتے نظر آتے ہیں۔
ہم ابھی بھی رجوع کرنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں رہے بلکہ جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں، جو کہ تمام نیک اعمالوں کو برباد کردیتا ہے۔ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ جو زیادہ جھوٹ بولے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہوتا ہے۔ مگر کہلواتے ہم خود کو صادق ہیں۔ میری تو فکر ہی جواب دیتی جارہی ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے، توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ تو کیوں نہ اس دروازے میں داخل ہوجائیں، اسلام کو اپنا دین بنائیں اور اسے اپنے ملک اور اپنی زندگیوں میں نافذ کردیں اور اپنی سمت درست کرلیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔