موٹیویشنل اسپیکنگ حقیقت اور افسانہ حصہ اول
پچھلے کچھ سال میں ہزاروں موٹیویشنل اسپیکرز کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں
KARACHI:
ایک کتاب ہے، ایک صاحب کتاب ہے۔ ایک کتاب کو پڑھنا ہے، ایک صاحب کتاب کو پڑھنا ہے، سننا ہے، دیکھنا ہے۔پرسنل ڈیویلپمنٹ یا سیلف ہیلپ انڈسٹری میں بعض اوقات دونوں ایک ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں واٹس ایپ اور یو ٹیوب کی وجہ سے '' موٹیویشنل اسپیکنگ انڈسٹری'' راتوں رات مقبول ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے الیکشن فارم میں اپنا پیشہ ''موٹیویشنل اسپیکر'' لکھا تھا۔ موٹیویشنل اسپیکنگ کے لاکھوں مداحین ہیں جو اسے زندگی بدلنے اور خوابوں کے حصول کا پروانہ سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب ہزاروں نقاد بھی ہیں، جو اسے بس باتیں بنا کر پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ دلچسپ طور پر پچھلے کچھ سال میں ہزاروں موٹیویشنل اسپیکرز کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں اور بہت سے لوگ اسے کیریئر کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں جو کہ ایک خوش آیند بات ہے، تاہم انھیں اس ڈور کا سرا نہیں ملتا۔ گزشتہ بیس برس کے تجربے کی بنیاد پر میرا خیال ہے کہ پاکستان میں یہ انڈسٹری ابھی بچپنے میں ہے اور کچھ وجوہات کی بنا پر یہ موضوع اتنا متنازعہ اور دھواں دھواں ہے کہ بہتر ہے کہ کھل کر بات کر ہی لی جائے۔ پاکستان میں شاید یہ اس موضوع پر پہلی تحریر کہی جاسکتی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ نام بذات خود غلط العام ہے۔ یہ موٹیویشنل اسپیکنگ نہیں، پرسنل ڈیویلپمنٹ یا سیلف ہیلپ انڈسٹری ہے۔ موٹیویشن اس کا ایک چھوٹا ساجزو ہے۔ بنیادی طور پر اسے حکمت یا وزڈم کی انڈسٹری سمجھ لیجیے اور یہ اکیسویں صدی کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ ہزاروں سال پرانی ہے۔ آپ کو سکندر اعظم کے اتالیق کے طور پر ارسطو کا انتخاب سمجھ میں آ جائے گا۔ اکبر کے نو رتن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ تقریر اس کا لازمی جزو نہیں ہے، مگر حکمت اس کا لازمی جزو ہے۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں کے مشیر حکمت کے اسی ہتھیار سے لیس ہوتے تھے اور مرتبے پاتے تھے۔ فیضی، ابن خلدون، بیربل وغیرہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے۔
صنعتی انقلاب آیا تو پہلی مرتبہ سرمایہ دارانہ نظام کے ابھرتے ہی ایک بڑی زد اس عقیدے پر پڑی جس کی رْوسے کامیابی اور امارت ورثے میں حاصل ہوتے تھے۔ ایک دلچسپ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ 1900 کے شروع تک دنیا کے 100 امیر ترین لوگوں میں سے 96 وہی تھے جو کہ خاندانی امیر تھے اور پچھلے سو، دو سو سال سے زمین، سونے اور وراثت کے زور پر امیر تھے۔
سیلف میڈ ملین ایئر ہونے کا تصور بعد میں مقبول ہوا۔ امریکا مواقعے کی سرزمین بن کر ابھرا۔ لوگ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر وہاں پہنچے اور مالامال ہوگئے۔ یہ ایک نئی دریافت تھی کہ کوئی بھی شخص اپنی قسمت خود بنا سکتا ہے اور کروڑ پتی ہی نہیں، ارب پتی بھی بن سکتا ہے۔ پچاس برس پہلے جب بل گیٹس جیسے لوگ ارب پتی کلب میں نئے شامل ہوئے تو وہ ایک نئی بات تھی۔اس وقت اس کلب میں صرف20 فیصد پرانے لوگ رہ گئے ہیں اور ہر سال نئے ارب پتیوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک بات صحیح ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے حکمت کو انڈسٹری کی شکل دی۔ تاہم پرانے زمانے میں بھی حکمت کے موتی برسانے والے کا منہ اشرفیوں سے بھرا جاتا تھا کہ حکمت ہر زمانے میں انمول رہی ہے۔
مغرب اور مشرق اس بارے میں مختلف سوچتے رہے ہیں۔ مشرق چونکہ زیادہ روحانی اور گہرا ہے تو ہمارے ہاں استاد اور شاگرد، پیر اور مرشد، گرو اور چیلے کا ایک پورا دبستان وجود رکھتا ہے۔ مغرب چونکہ روحانی طور پر اتھلا ہے اور لین دین پر یقین رکھتا ہے تو اس سلسلے میں زیادہ مضبوط روایات موجود نہیں ہیں۔ جنگ عظیم کے بعد جب امریکا میں نئے کروڑ پتی ابھرنے لگے تو ڈیل کارنیگی پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری کے شو بوائے کے طور پر سامنے آیا اور اس کی کتابیں کروڑوں میں شایع ہوئیں۔ یوں سیلف ہیلپ کا یہ نیا تصور مقبول ہوا کہ آپ اپنی زندگی خود بنا سکتے ہیں اور اپنی قسمت خود لکھ سکتے ہیں۔ انھی دنوں میں ہی نپولین ہل کی کتابیں سامنے آئیں جنھوں نے اس ضمن میں بائبل کا درجہ اختیار کر لیا۔
1950 کی دہائی سے مغرب میں یہ تصور راسخ ہوا کہ کوئی بھی علم سیکھا جاسکتا ہے۔ اب سیکھنے کے لیے موزوں لوگوں کی جستجو ہوئی تو ماسٹر یعنی ایکسپرٹ کی بات ہوئی۔ جیسے جیسے سیکھنے کی دنیا میں انقلاب آیا، وہاں سکھانے والے کی مہارت کے حساب سے اس کا سکہ جمنے لگا۔
اگر نظریہ اضافت پر کچھ سیکھنا ہے تو سب سے بہترین شخص تو آئن اسٹائن ہی ہوگا۔ لیکن اگر آئن اسٹائن سے سیکھنا ہے تو پھر اسی حساب سے اس کے وقت کی قیمت دینی ہوگی، سو تب سے گرو یا ماسٹر لوگ جو دنیا میں اپنے میدان میں آپ مثال تھے، سونے میں تلنے لگے۔ نابغہ روزگار لوگ ایک وقت میں بولنے کا معاوضہ ہزار ڈالر سے شروع ہوئے اور اب ایک ملین ڈالرز سے زیادہ چارج کرتے ہیں۔بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک خبر ہوگی، کہ پرسنل ڈویلپمنٹ انڈسٹری کا بین الاقوامی تخمینہ 2027-2020 میں 56 ارب ڈالرز سالانہ لگایا گیا ہے۔
بولنا، یعنی ''کی نوٹ اسپیکنگ''، پرسنل ڈویلپمنٹ انڈسٹری کا ایک حصہ ہے اور موٹیویشنل اسپیکنگ تو بہت ہی چھوٹا حصہ ہے۔ اس فہرست میں آپ کو نوبل انعام یافتہ سائنسدان، دنیا کی بہترین کتابوں کے مصنف، ایتھلیٹ، کوچ، اسپورٹس مین اور وومین، بزنس مین اور وومین، ہالی ووڈ کے سپر اسٹار، کامیڈین، اقتصادی ماہرین، تاریخ نگار، ماہر قانون، صدور، وزرائے اعظم، جرنیل، سیاست دان سب ملیں گے۔ یہ سب لوگ موٹیویٹ نہیں کر رہے ہوتے کہ وہ تو اس کھیل کی ابتدا ہے۔ یہ اپنے اپنے شعبے میں سیکھی گئی حکمت کے خزانے لٹاتے ہیں اور منہ مانگوں دام پاتے ہیں۔
اب یہ گرو لوگ کتنے سونے میں تلتے ہیں؟ اللہ کے بے پناہ کرم سے مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر پرسنل ڈویلپمنٹ انڈسٹری کو جنوں کے ساتھ سیکھا اور کام کیا۔ میں شاید ابھی تک واحد پاکستانی ہوں جو بین الاقوامی طور پر اس سرکٹ تک پہنچا ہے اور میں نے پھر دنیا کے نامور ترین لوگوں کے ساتھ کام بھی کیا۔ Success Resources، پرسنل ڈویلپمنٹ میں اسپیکنگ کے میدان میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے، اور اس کے چیف ایگزیکٹو میرے دوستوں میں سے ہیں، یہ پانچ براعظموں میں، کورونا وائرس سے پہلے تین کروڑ سے زائد افراد کو ہر سال اپنے پروگراموں میں شامل کرتے ہیں۔
مجھے خود دنیا کے موثر ترین لیڈروں اور بولنے والوں کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔ میں 2012 میں لندن میں صدر بل کلنٹن کے ساتھ مقررین میں شامل ہوا تھا جس میں دنیا کے 56 ملکوں سے 7000 سے زائد چیف ایگزیکٹوز نے شمولیت کی تھی۔ تب بل کلنٹن کو 6 گھنٹے کی موجودگی کے لیے ایک ملین ڈالرز ادا کیے گئے۔ 75 ہزار ڈالرز، جہاز چارٹر کرنے کے اور دو دن کے قیام کے لیے دیے گئے۔ صرف سیکیورٹی کا خرچ بیس ہزار ڈالرز تھا۔
(جاری ہے)
ایک کتاب ہے، ایک صاحب کتاب ہے۔ ایک کتاب کو پڑھنا ہے، ایک صاحب کتاب کو پڑھنا ہے، سننا ہے، دیکھنا ہے۔پرسنل ڈیویلپمنٹ یا سیلف ہیلپ انڈسٹری میں بعض اوقات دونوں ایک ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں واٹس ایپ اور یو ٹیوب کی وجہ سے '' موٹیویشنل اسپیکنگ انڈسٹری'' راتوں رات مقبول ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے الیکشن فارم میں اپنا پیشہ ''موٹیویشنل اسپیکر'' لکھا تھا۔ موٹیویشنل اسپیکنگ کے لاکھوں مداحین ہیں جو اسے زندگی بدلنے اور خوابوں کے حصول کا پروانہ سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب ہزاروں نقاد بھی ہیں، جو اسے بس باتیں بنا کر پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ دلچسپ طور پر پچھلے کچھ سال میں ہزاروں موٹیویشنل اسپیکرز کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں اور بہت سے لوگ اسے کیریئر کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں جو کہ ایک خوش آیند بات ہے، تاہم انھیں اس ڈور کا سرا نہیں ملتا۔ گزشتہ بیس برس کے تجربے کی بنیاد پر میرا خیال ہے کہ پاکستان میں یہ انڈسٹری ابھی بچپنے میں ہے اور کچھ وجوہات کی بنا پر یہ موضوع اتنا متنازعہ اور دھواں دھواں ہے کہ بہتر ہے کہ کھل کر بات کر ہی لی جائے۔ پاکستان میں شاید یہ اس موضوع پر پہلی تحریر کہی جاسکتی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ نام بذات خود غلط العام ہے۔ یہ موٹیویشنل اسپیکنگ نہیں، پرسنل ڈیویلپمنٹ یا سیلف ہیلپ انڈسٹری ہے۔ موٹیویشن اس کا ایک چھوٹا ساجزو ہے۔ بنیادی طور پر اسے حکمت یا وزڈم کی انڈسٹری سمجھ لیجیے اور یہ اکیسویں صدی کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ ہزاروں سال پرانی ہے۔ آپ کو سکندر اعظم کے اتالیق کے طور پر ارسطو کا انتخاب سمجھ میں آ جائے گا۔ اکبر کے نو رتن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ تقریر اس کا لازمی جزو نہیں ہے، مگر حکمت اس کا لازمی جزو ہے۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں کے مشیر حکمت کے اسی ہتھیار سے لیس ہوتے تھے اور مرتبے پاتے تھے۔ فیضی، ابن خلدون، بیربل وغیرہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے۔
صنعتی انقلاب آیا تو پہلی مرتبہ سرمایہ دارانہ نظام کے ابھرتے ہی ایک بڑی زد اس عقیدے پر پڑی جس کی رْوسے کامیابی اور امارت ورثے میں حاصل ہوتے تھے۔ ایک دلچسپ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ 1900 کے شروع تک دنیا کے 100 امیر ترین لوگوں میں سے 96 وہی تھے جو کہ خاندانی امیر تھے اور پچھلے سو، دو سو سال سے زمین، سونے اور وراثت کے زور پر امیر تھے۔
سیلف میڈ ملین ایئر ہونے کا تصور بعد میں مقبول ہوا۔ امریکا مواقعے کی سرزمین بن کر ابھرا۔ لوگ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر وہاں پہنچے اور مالامال ہوگئے۔ یہ ایک نئی دریافت تھی کہ کوئی بھی شخص اپنی قسمت خود بنا سکتا ہے اور کروڑ پتی ہی نہیں، ارب پتی بھی بن سکتا ہے۔ پچاس برس پہلے جب بل گیٹس جیسے لوگ ارب پتی کلب میں نئے شامل ہوئے تو وہ ایک نئی بات تھی۔اس وقت اس کلب میں صرف20 فیصد پرانے لوگ رہ گئے ہیں اور ہر سال نئے ارب پتیوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک بات صحیح ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے حکمت کو انڈسٹری کی شکل دی۔ تاہم پرانے زمانے میں بھی حکمت کے موتی برسانے والے کا منہ اشرفیوں سے بھرا جاتا تھا کہ حکمت ہر زمانے میں انمول رہی ہے۔
مغرب اور مشرق اس بارے میں مختلف سوچتے رہے ہیں۔ مشرق چونکہ زیادہ روحانی اور گہرا ہے تو ہمارے ہاں استاد اور شاگرد، پیر اور مرشد، گرو اور چیلے کا ایک پورا دبستان وجود رکھتا ہے۔ مغرب چونکہ روحانی طور پر اتھلا ہے اور لین دین پر یقین رکھتا ہے تو اس سلسلے میں زیادہ مضبوط روایات موجود نہیں ہیں۔ جنگ عظیم کے بعد جب امریکا میں نئے کروڑ پتی ابھرنے لگے تو ڈیل کارنیگی پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری کے شو بوائے کے طور پر سامنے آیا اور اس کی کتابیں کروڑوں میں شایع ہوئیں۔ یوں سیلف ہیلپ کا یہ نیا تصور مقبول ہوا کہ آپ اپنی زندگی خود بنا سکتے ہیں اور اپنی قسمت خود لکھ سکتے ہیں۔ انھی دنوں میں ہی نپولین ہل کی کتابیں سامنے آئیں جنھوں نے اس ضمن میں بائبل کا درجہ اختیار کر لیا۔
1950 کی دہائی سے مغرب میں یہ تصور راسخ ہوا کہ کوئی بھی علم سیکھا جاسکتا ہے۔ اب سیکھنے کے لیے موزوں لوگوں کی جستجو ہوئی تو ماسٹر یعنی ایکسپرٹ کی بات ہوئی۔ جیسے جیسے سیکھنے کی دنیا میں انقلاب آیا، وہاں سکھانے والے کی مہارت کے حساب سے اس کا سکہ جمنے لگا۔
اگر نظریہ اضافت پر کچھ سیکھنا ہے تو سب سے بہترین شخص تو آئن اسٹائن ہی ہوگا۔ لیکن اگر آئن اسٹائن سے سیکھنا ہے تو پھر اسی حساب سے اس کے وقت کی قیمت دینی ہوگی، سو تب سے گرو یا ماسٹر لوگ جو دنیا میں اپنے میدان میں آپ مثال تھے، سونے میں تلنے لگے۔ نابغہ روزگار لوگ ایک وقت میں بولنے کا معاوضہ ہزار ڈالر سے شروع ہوئے اور اب ایک ملین ڈالرز سے زیادہ چارج کرتے ہیں۔بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک خبر ہوگی، کہ پرسنل ڈویلپمنٹ انڈسٹری کا بین الاقوامی تخمینہ 2027-2020 میں 56 ارب ڈالرز سالانہ لگایا گیا ہے۔
بولنا، یعنی ''کی نوٹ اسپیکنگ''، پرسنل ڈویلپمنٹ انڈسٹری کا ایک حصہ ہے اور موٹیویشنل اسپیکنگ تو بہت ہی چھوٹا حصہ ہے۔ اس فہرست میں آپ کو نوبل انعام یافتہ سائنسدان، دنیا کی بہترین کتابوں کے مصنف، ایتھلیٹ، کوچ، اسپورٹس مین اور وومین، بزنس مین اور وومین، ہالی ووڈ کے سپر اسٹار، کامیڈین، اقتصادی ماہرین، تاریخ نگار، ماہر قانون، صدور، وزرائے اعظم، جرنیل، سیاست دان سب ملیں گے۔ یہ سب لوگ موٹیویٹ نہیں کر رہے ہوتے کہ وہ تو اس کھیل کی ابتدا ہے۔ یہ اپنے اپنے شعبے میں سیکھی گئی حکمت کے خزانے لٹاتے ہیں اور منہ مانگوں دام پاتے ہیں۔
اب یہ گرو لوگ کتنے سونے میں تلتے ہیں؟ اللہ کے بے پناہ کرم سے مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر پرسنل ڈویلپمنٹ انڈسٹری کو جنوں کے ساتھ سیکھا اور کام کیا۔ میں شاید ابھی تک واحد پاکستانی ہوں جو بین الاقوامی طور پر اس سرکٹ تک پہنچا ہے اور میں نے پھر دنیا کے نامور ترین لوگوں کے ساتھ کام بھی کیا۔ Success Resources، پرسنل ڈویلپمنٹ میں اسپیکنگ کے میدان میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے، اور اس کے چیف ایگزیکٹو میرے دوستوں میں سے ہیں، یہ پانچ براعظموں میں، کورونا وائرس سے پہلے تین کروڑ سے زائد افراد کو ہر سال اپنے پروگراموں میں شامل کرتے ہیں۔
مجھے خود دنیا کے موثر ترین لیڈروں اور بولنے والوں کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔ میں 2012 میں لندن میں صدر بل کلنٹن کے ساتھ مقررین میں شامل ہوا تھا جس میں دنیا کے 56 ملکوں سے 7000 سے زائد چیف ایگزیکٹوز نے شمولیت کی تھی۔ تب بل کلنٹن کو 6 گھنٹے کی موجودگی کے لیے ایک ملین ڈالرز ادا کیے گئے۔ 75 ہزار ڈالرز، جہاز چارٹر کرنے کے اور دو دن کے قیام کے لیے دیے گئے۔ صرف سیکیورٹی کا خرچ بیس ہزار ڈالرز تھا۔
(جاری ہے)