کھیلوں تک عام رسائی کے بغیر امن و ترقی ناممکن
دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کھیلوں کی مدد سے کیا جاسکتا ہے
جب آپ کوئٹہ کے پرنس روڈ سے جناح روڈ کی جانب جائیں تو مسجد روڈ چوک سے جناح روڈ چوک تک آپ کی بائیں جانب گورنمنٹ سائنس کالج کا احاطہ ہے۔
کالج کے تمام تعلیمی بلاکس کی بلڈنگ جنوبی جانب پٹیل روڈ اورمغربی جانب جناح روڈ سے متصل ہیں۔ پرنس روڈ کی جانب جوکہ کالج کی شمالی سمت ہے اُس جانب مادر علمی کے دوعدد وسیع و عریض گرائونڈ ہیں۔ ایک گرائونڈ فٹ بال کے کھیل کے میدان جتنا بڑا ہے۔ اور دوسرا ہاکی گرائونڈ جتنا ہے۔
یہ وہ گرا ئونڈ ز ہیں جو کبھی کالج ٹائم سے پہلے اور بعد میں کوئٹہ کے باسیوں سے کچھا کچھ بھری ہوتی تھیں۔ کہیں کرکٹ کھیلی جارہی ہوتی تھی توکہیں فٹ بال، کہیں ہاکی ہورہی ہوتی تھی تو کہیں والی بال۔کہیں علاقائی کھیل ہورہے ہوتے تھے تو کہیں گپ شپ بھی چل رہی ہوتی تھی۔
سردیوں میں پتنگیں اڑانے والے بھی یہاںپہنچ جاتے تھے۔ اُس وقت گرائونڈز کی دیکھ بھال کالج انتظامیہ بہت محنت سے کرتی تھی۔ کوئٹہ شہر کے وسطی علاقوں میں رہنے والے ہمارے ہم عمر اور ہم سے بڑوں میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو کہ جس نے اپنے بچپن اورنو جوانی میں سائنس کالج کے گرائونڈ ز میں کھیلا نہ ہو۔ شہر کے وسط میں یہ اکلوتا کھیل کا میدان تھا جہاں انٹری عام تھی اور آپ اپنی مرضی کا کوئی بھی کھیل کھیل سکتے تھے۔ شہر میں اگرچہ اور بھی اسپورٹس گرائونڈز ہیں لیکن ان میں سے اکثر اسکولوں اور کالجوں کے احاطوں کے اندر اوردیگر اداروں کے ہیں جہاں انٹری عام نہیں اور چند ایک تو کسی ایک خاص کھیل کے لیے مخصوص ہیں۔ اس لیے سائنس کالج گرائونڈ کو کوئٹہ شہر کی کھیلوں کی سرگرمیوں میں ایک مرکزی اہمیت حاصل تھی۔
لیکن پھر ہوا یہ کہ سیکورٹی مقاصد کے لیے کالج انتظامیہ نے ان میدانوں میں کھیلنے پر پابندی لگا دی ۔ یوں سائنس کالج گرائونڈ جہاں کھیلنے کی جگہ نہیں ملتی تھی اب اپنی ویرانی کا نوحہ کناں ہیں۔ ماضی قریب میںدہشت گردی کے واقعات نے ہمارے گرائونڈ ز کو غیر آباد کردیا تھا۔ لیکن نیشنل ایکشن پلان کی بدولت ملک میں امن وامان کی صورتحال اب بہت بہتر ہے اور ہمارے کھیل کے میدان پھر سے آباد ہورہے ہیں۔ بین الاقوامی کھلاڑی اور دیگر ممالک کی ٹیمیں پاکستان آکر کھیل رہی ہیں۔یوں جس بد امنی نے ہمارے کھیل کے میدانوں کو ویران کیا تھا آج اُنہی میدانوں کو آباد کرکے امن کے قیام کا اظہارکیا جارہا ہے۔یعنی کھیل جہاں بد امنی سے متاثر ہوتے ہیں وہیں اس بد امنی کے آگے یہ ایک ڈھال بن کربھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔
دنیا بھر کے معاشروں میں کھیلوں کا کردار اور اثرترقی اور امن کے قیام کے حوالے سے صدیوں سے بحث کا موضوع رہا ہے کچھ اس کے منفی پہلوئوں پربات کرتے ہیں تو کچھ اس کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کھیل برائے ترقی اور امن کو دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر ترقی کے میدان میںایک ابھرتی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ پا لیسی اور سماجی تحریک کی صورت میں کھیل برا ئے ترقی اور امن کا استعمال تو 1990 کے عشرے سے ہورہا ہے۔ لیکن اس کا ماضی بہت قدیم ہے۔
جب اولمپک Truce کو پہلی بار متحارب ریاستوں کے مابین عارضی امن قائم کرنے کے لئے استعمال کیا گیاتھا۔ یہ ایک قدیم یونانی روایت پر مبنی ہے جو آٹھویں صدی ( بی سی) سے شروع ہوئی جس کے تحت تمام تنازعات Truce کی مدت کے دوران ختم ہوگئے۔ جو اولمپک کھیلوں کے آغاز سے سات دن پہلے شروع ہوا تھا اور کھیلوں کے اختتام کے بعد ساتویں دن ختم ہوا تاکہ کھلاڑی ، فنکار اُن کے رشتہ دار سلامتی سے سفر کرسکیں۔ اولمپک کھیلوں کے لئے اور اس کے بعد اپنے ممالک کو لوٹ جائیں۔کھیل برائے ترقی اور امن ایک ابھرتا ہوا تعلیمی شعبہ ہے۔
اس کا مطالعہ متعدد مضامین خاص طور پر بین الاقوامی ترقی، تنازعات اور پیس اسٹڈیز، کھیلوں کا مطالعہ، انسانی جسمانی حرکتی فعلیات (kinesiology) ، عمرانیات اور علاقائی اسٹڈیز میں کیا جا رہا ہے۔ جب کے اس کے استعمال کی بین الاقوامی سطح کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ چین اور امریکہ کے مابین پینگ پونگ کے ذریعے غیر دوستانہ تعلقات کا خاتمہ، جنوبی افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلا کی جانب سے ملک میں خانہ جنگی کی روک تھام اور ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنے کے لیے رگبی ورلڈ کپ کا انعقادکا سہارا لینا، 2008 میں ترکی اور آرمینیا کے صدور کا اپنی ٹیموں کے مابین فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ کو سفارتی مکالمے کو دوبارہ کھولنے کے لئے استعمال کرنا ۔اسی طرح پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے بھی امن کی کوششیں ہوچکی ہیں۔
یعنی تنازعات کی روک تھام اور امن کے قیام کے آلے کے طور پر کھیل کی طاقت اور اہمیت کا اطلاق بین الاقوامی معاہدوں اور حکمت عملیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کھیل معاشرے میں سماجی تنائو،تنازعات کو کم کرنے اور ترقیاتی عمل کو مہمیز کرنے میں اہم کرداربھی ادا کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اگست2013 میں 06 اپریل کو''کھیل برائے ترقی اور امن'' کے بین الاقوامی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔کھیل برائے ترقی اور امن سے مراد کھیلوں کاجسمانی سرگرمی اور کھیل کے ذریعے مخصوص ترقی اور امن کے مقاصد کے حصول کے لئے جان بوجھ کر استعمال کرنا ہے۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے صدر تھامس بچ(Thomas Bach) باقاعدگی سے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''کھیل صرف جسمانی سرگرمی ہی نہیں ہے۔
اس سے صحت کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ جدید تہذیب کی بیماریوں سے بچنے اور ان کا علاج میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک تعلیمی ٹول بھی ہے جو علمی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ معاشرتی رویوں کی تعلیم دیتا ہے اور کمیونٹیز کو متحد کرنے میں مدد کرتا ہے''۔
کھیل میں شرکت اور ان تک رسائی کے حق کومتعدد بین الاقوامی کنونشنوں میں تسلیم کیا گیا ہے۔ 1978 میں یونیسکو نے کھیل اور جسمانی تعلیم کو سب کے لئے بنیادی حق قرار دیا۔ لیکن آج تک اکثر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں کھیل اور کھیل کے حق کو اکثرنظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔جس کا اندازہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یواین ڈی پی کی پاکستان ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ2017 کے ان اعداوشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں 100 نوجوانوں میں سے93 کو کھیلوں کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں صرف 7 نوجوانوں کو یہ سہولیات حاصل ہیں۔
یہ صورتحال جب ہم نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسپورٹس سائینسز اینڈ فزیکل ایجوکیشن کے چیئر مین ڈاکٹر محمد ظفر اقبال بٹ کے سامنے رکھی تو اُ نکا کہنا تھا کہ '' حکومت کی جانب سے اس پر کوئی قدغن نہیں ہے ۔ رسائی کے حوالے سے آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اجازت تو سب ہی کے لیے ہے مگر کھیل ہر کسی کی رسائی میںانفراسٹرکچر ل سہولیات کے حوالے سے اور معاشی سکت کے حوالے سے ہے نہیں۔ دیہات اور چھوٹے شہروں میںاسپورٹس کی اچھی سہولیات کا فقدان ہے اس لئے لوگوں کی رسائی میں یہ اُس طریقے کے ساتھ نہیں ہے جس طریقے سے ہونا چاہیے''۔ پاکستان میں کھیلوں کی سہولیات کی صورتحال کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ '' یہ سب سے بڑا چیلنج ہے حکومتوں کے لئے ہماری دلچسپی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی سیٹ اڑھائی سال سے خالی ہے ۔کھیلوں کی سہولیات کے حوالے سے نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر تو ضروری ہے ہی لیکن پرانے انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال اور مرمت بھی ہونی چاہیے جوکہ نہیں ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصے میں تحصیل، ڈسٹرکٹ اورڈویژن کی سطح پر کئی سیٹ اپ بنائے گئے اوربعض جگہ پر تو بہت اچھے سیٹ اپ بنائے گئے ہیں مگر وہاں پر اتنی زیادہ فارمیلیٹیز(Formalities) کر دی گئی ہیں کہ عام بندے کے لئے وہ قابل استعمال ہی نہیں اس کی سب سے بڑی مثال لاہور میں قذافی سٹیڈیم میں پنجاب اسپورٹس بورڈنے جو سوئمنگ پول بنائے ہیں ان کی ممبرشپ اتنی مہنگی رکھی ہوئی ہے کہ عام پبلک کی رسائی نہیں ہوسکتی ۔اسی طرح تحصیل سطح پر بہت اچھے ٹریننگ سینٹر بنے ہوئے ہیں مگرکیا وہ سب کے سب خاص کر جو ایوریج سپورٹس پرسن ہے اُس کی دسترس اور ٹریننگ کے لیے اُس کے استعمال میں ہیں؟ کئی سنٹر ایسے ہیں جہاں تمام چیزیں ہیںاور وہ پڑی پڑی آؤٹ ڈیٹڈ ہو رہی ہیں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
خاص کرکے لوئر کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے اتنی زیادہ فارمیلیٹیز(Formalities) نہ رکھی جائیں''۔کھیل انسان کو کیا سیکھاتا ہے؟اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹرمحمد ظفر اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ ''کھیل ہمیں زندگی میں بہترین اور کامیاب شہری بننے کے لیے ہر چیز سیکھاتا ہے یہ ڈسپلن سے لے کر کسی کی بات کو سننے ماننے برداشت کرنے ،رو لز پر عمل درآمد کرنے ، اپنی صحت کو اچھا رکھنے ،شفاف کھیلنے، دوسروں کا احترام کرنے، تمام سماجی، ثقافتی اوراخلاقی اقدارکی پاسداری کے حوالے سے ہماری گرومنگ کرتا ہے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض چیزیں جو ہم تعلیم میں حاصل نہیں کرتے وہ کھیل کے میدانوں میں حاصل کرتے ہیں۔ بغیر کسی تفریق کے یگانگت مساوات اور محبت سکھاتا ہے ۔
ہمیں اپنی روایت اور ثقافتی روایات کو اجاگر کرنے میں مدد دیتا ہے''۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ہمارے کھیلوں کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟اس سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ''دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ہماری کھیلوں کو بہت متاثر کیا ہے مارچ 2009 میں جب سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو پاکستانی میں بین الاقوامی سطح پر صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ تمام کھیلوں پر پابندیاں لگ گئیں اور پاکستان میں کھیلوں کا کوئی بھی بڑا ایونٹ بہت عرصے تک نہیں ہوا جس کی وجہ سے ہماری سپورٹس انڈسٹری مندے کا شکار رہی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کوکھیلنے کے حوالے سے اچھے مواقع ہی نہیں ملے ۔اب چیزیں بہتر ہو رہی ہیں اور آنے والے وقت میں یہ اور زیادہ بہتر ہو جائیں گی ۔دہشت گردی اور انتہا پسندی نے سب سے زیادہ پا کستان کی ا سپورٹس کو نقصان پہنچایا ہے'' ۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کھیلوں سے کیسے کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹر ظفر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ''دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ اسپورٹس سے بہتر اور کوئی بھی چیز نہیں کرسکتی۔ کھلاڑی امن کے سفیر ہوتے ہیں یہ امن اور بھائی چارہ کا پیغام دیتے ہیں۔ یہ انٹر پرسنل تعلقات مختلف ملکوں ، گروہوں کے درمیان بنانے کا سب سے بہتر ذریعہ ہیں۔ اسپورٹس اسلامی روایات کا ایک خاصہ رہا ہے۔ موجودہ دور میں بھی اس کے اوپر کیسی بھی مذہبی حوالے سے تقسیم نہیں ہے ۔
اسپورٹس کتھارسسز (katharsis) کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ زندگی کی کسی اور جہت میں اتنی معاون چیزیں آپ کو نہیں ملتیں۔ کھیل ترقی اور امن کے لیے کس طرح اور کیوں ضروری ہیں؟اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد ظفر بٹ کہتے ہیں کہ''کسی قوم اور ملک کی ترقی کے لیے سپورٹس اور امن ان دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے ۔جتنے بھی بڑے میگا ایونٹ ہوتے ہیں وہ ایک قسم کا آپ کا کلچر آپ کے رہن سہن کو اجاگر کرتے ہیں ۔مارچ 2009 میں جب سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو اس کے بعد پاکستان کو امن کے نام پر کھیلوں کے حوالے سے بالکل الگ تھلگ کر دیا گیا ۔
جس کی وجہ سے ہماری تمام کی تمام سپورٹس انڈسٹری بیٹھ گئی اور پاکستان کا باہر کے ممالک میں تشخص بڑی بری طرح متاثر ہوا۔ پاکستان کی معیشت میںا سپورٹس کی انڈسٹری میں تنزلی کی وجہ سے کمی آئی ۔اب کچھ معاملات بہتر ہوئے ہیں جیسے پی ایس ایل کا ایونٹ ہو رہا ہے کچھ انٹرنیشنل ٹورنامنٹ بھی شروع ہوگئے ہیں اور موجودہ گورنمنٹ کی پالیسیز بھی قابل ستائش ہے ۔جتنی دیر تک پاکستان میں انٹرنیشنل سپورٹس بحال نہیں ہوگی پاکستان suffer کرے گا ۔پاکستان ایک امن پسند ملک ہے یہاں کے لوگ امن پسند ہیں اسپورٹس کے دلدادہ ہیں۔ہماری اسپورٹس انڈسٹری جس سے بے شمار لوگوں کے کا روزگار وابستہ ہے توترقی اُس صورت ہی ممکن ہے کہ ہماری اسپورٹس لوکل سطح ، نیشنل اور بین الاقوامی سطح پر بحال ہو۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے حکومت تو اقدامات کر رہی ہے لیکن عالمی سطح پر کوویڈ 19 نے اسے محدود کردیا ہے اور اس کی دوسری اورتیسری لہر کی وجہ سے کوئی بھی ایکٹیوٹی اس طریقے سے نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہیے ۔ اگر ہمارے کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے تو ہسپتال یقینا ویران ہوں گے جو کہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے ۔
کوویڈ 19 میں سپورٹنگ ایکٹیویٹی، ایکسرسائز رنگ ایکٹیویٹی آپ کی امیونٹی کو بہت بہتر کرتی ہے ۔یہ ایک طریقے سے اس بیماری کے خلاف جہاد ہے یہ سرگرمیاں بیماری کو آپ پر حاوی نہیں ہونے دیتیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کا اہل بناتی ہیں''۔ اسپورٹس ملکی ترقی میں کیسے معاون ہوسکتے ہیں؟ڈاکٹر ظفر کہتے ہیں کہ ''اسپورٹس اب ایک انڈسٹری ہے یہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک صنعت کے طور پر کام کر رہی ہے یہ وہ انڈسٹری ہے جو پاکستان کی اکانومی کو بہت بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
ہمارے سیالکوٹ کے کھیلوں کی مصنوعات کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہے ۔ کھیل تحفظ اور زندگی کے معمول پر آنے کا احساس کو فروغ دیتے ہیں۔ جس سے بین الاقوامی سیاحت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہ اقوام متحدہ کے پائیدار انسانی ترقی کے کئی اہداف کو حاصل کر نے کا بھی باعث بنتے ہیں''۔ کیا ہمارے کھیل کے میدان ماضی کی طرح آج بھی اِسی طرح آباد ہیں؟ اس حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ '' اس میں فرق پڑا ہے سرگرمیاں محدود ہو گئی ہیں۔پہلے 2009 کے واقعہ کی وجہ سے اور اب کوویڈ19 کی وجہ سے بھی۔
اس کے علاوہ پہلے لوگ اپنے اعزاز اپنے وقار اپنے نام کے لیے کھیلتے تھے اب معاشی فیکٹر نے بہت پنجے گاڑ لئے ہیں۔ ماضی میں سپورٹنگ ایکٹیویٹیز لوگوں کا شعار تھا اب بچوں پرپڑھائی کا اتنا زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ بچے اور والدین کھیل کے میدان میں جانے سے کتراتے ہیں۔ بچوں کو مشین بنا دیا گیا ہے بچوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ گراؤنڈ میں جا کر کھیلیں۔ دوسرا فزیکل اسپورٹس کی بجائے اب موبائل اورکمپیوٹر پر اسپورٹس نے جگہ لے لی ہے۔اس نے آپ کو فریکل ایکٹیوو بنانے کی بجائے فریکلی زیادہ اِن ایکٹیوو (inactive)کردیا ہے۔ ملک میں اسپورٹس کی سہولیات سب کی پہنچ میں لانے کے لیے اور اِن سے استفادہ کے حوالے سے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ڈاکٹر ظفر بٹ نے اس سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''سب سے پہلے انفراسٹرکچر ل ڈویلپمنٹ کریں ۔صوبائی اور وفاقی سطح پر کھیلوں کی سہولیات کا ایک جال بچھایا جائے ۔ نجی اسکولوں میں گراؤنڈ بنائیں سہولیات مہیا کی جائیں ۔تعلیمی اداروں میںا سپورٹس کے پیریڈ ہوں اور طلبا کی شرکت لازمی بنائی جائے۔
گورنمنٹ کی سطح پر اس کی پذیرائی کی جائے۔پبلک سیکٹر میں اس طریقے کی چیزیں بنائی جائیں جو سب کی پہنچ میں ہوں۔ خاص کر وہ معاشی لحاظ سے اتنی مہنگی نہ ہو ںکہ لوگ انھیں جوائن نہ کرسکیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی لیول پر ان چیزوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں تو کھیل کے میدان ہی نہیں ہیں اس کے اوپر بھی توجہ دینی چاہیے ۔جتنی دیر تک ان کے پاس پلینگ ایریا نہ ہو ایسے سکول کی اجازت نہیں دی جائے ۔ متعلقہ اداروں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
اسپورٹس ڈیولپمنٹ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔صوبائی اور وفاقی سطح پر کھیلوں کے لیے بجٹ مختص کرنا اور کھلاڑیوں اس بجٹ کا استعمال ہونا ضروری ہے ۔کرکٹ کے علاوہ اور کون سا ایسا کھیل ہے ہمارے ہاں جس میں کھلاڑی کو اچھا روزگار مل جائے اس لیے اس طرح کے مواقعوں کا سب کھیلوں اورکھلاڑیوںکے لیے اجرا کیا جائے تاکہ لوگوں کا اس جانب بطور کیریئر رجحان بڑھے۔ اگرہم اپنی اسپورٹس کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو معاشی مدد ہونی چاہیے تمام ا سپورٹس باڈیز اور کھلاڑیوں کی۔ا سپورٹس میں گڈگورننس ہو اُسے اچھے انداز میں آرگنائز کیا جائے۔ اسپورٹس پالیسی کا اسٹرکچر اچھا بنایا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لیا جائے۔ کھیلوں میں ماس پارٹیسیپیشن (Mass participation)ہو۔
اس بات سے قطع نظر کہ اسپورٹس کو بطور کرئیر اپنا یا جائے۔ ٹیلنٹ کی نشاندہی اور مواقعوں کی فراہمی یعنی اس کی ڈویلپمنٹ کریں۔ کھلاڑی کو معاشی تحفظ کھیل اور اس کے بعدبھی مہیا کرنا ہو گا ۔ ٹریننگ کی سہولیات بہتر بنانا اور عام کھلاڑی کی رسائی میں لانا ہوں گی ۔کوچز اور کوچز کی ڈیولپمنٹ ہو ۔نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر کھیلوں کے باقاعدگی سے مقابلے ہونے چاہیے۔ آپ دیکھ لیںہماری نیشنل چیمپئن شپ کتنی بار مسنگ ہے۔اسپورٹس میں سائنٹیفیک ریسرچ اور اینو ویشن (Research and Innovation )آنی چاہیے۔ اس میں یونیورسٹیاں بہت اچھا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ دنیا میں اسپورٹس کی علیحدہ یونیورسٹیاں ہیں حکومت ملک میں ایک اسپورٹس یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائے یہ بہت ضروری ہے''۔
کھیل تقریباً ہر معاشرہ میں موجود ہیں۔ اِنکی مقبولیت سیاسی، قومی اور نظریاتی سرحدوں سے بالا تر ہے اور ان کا ترقی اور امن کے لیے استعمال بھی دنیا کے اکثر خطوں میں جاری ہے۔ اسپورٹس فار ڈیولپمنٹ اینڈ پیس انٹرنیشنل ورکنگ گروپ کی جانب سے مدعو کیے گئے 34 ممالک کو کھیل برائے امن اور ترقی کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کے بارے میں جب معلومات دینے کا کہا گیا تو69 فیصد ترقی پذیر اور 85 فیصد ترقی یافتہ ممالک نے تنازعات کے حل اور امن کے قیام کے لیے اپنی قومی حکمت عملیوں میں کھیل کو استعمال کیا یا وہ اسے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کیا پاکستان کے تناظر میں کھیل برائے ترقی اور امن کے آئیڈیا کی ضرورت ہے؟ ڈاکٹرزاہد شہاب احمد ، جوڈیاکن یونیورسٹی آسڑیلیا سے وابستہ ایک اسکالر ہیںاورپاکستان میں امن کی ترویج ان کا ترجیحی موضوع ہے۔
اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ''پہلے پاکستان کے کچھ اعداد وشمارکاجائزہ لیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی انسٹھ فیصد ہے اوربے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح چار اعشاریہ پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں اور لاکھوں ہی نوجوان بے روزگار ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ صرف ان پڑھ اور بے روزگار ہی دہشت گردی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں بلکہ انہیں شدت پسند نظریات کے اثرات سے بھی بچانا ہے۔ امن کے پروجیکٹس عمومی طور پراسکولوں اور یونیورسٹیز میں زیر تعلیم طلبا کو ہی اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگرنوجوانوں کو بھی مثبت سرگرمیوں کے مواقع فراہم کیے جائیں تا کہ انتہا پسند نظریات کے خلاف ان میں مزاحمت پیدا کی جا سکے۔ اس طرح پاکستان کو امن کے لیے کھیلوں کی ضرورت ہے۔
در حقیقت پاکستان میں اس قسم کے پروجیکٹس کی کئی مثالیں ہیں۔ میں یہاں سابقہ فاٹا میں قائم شاہ محمودپیس اکیڈمی فارکرکٹ کی مثال دوں گا۔اس کا مشن کرکٹ کے نوجوان کھلاڑیوں کو تربیت فراہم کرنا ہے اور انہیں پرتشدد شدت پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے بچانا بھی ہے''۔ کھیل برائے ترقی اور امن کی وضاحت کرتے ہوئے اُ نکا کہنا ہے کہ ''کھیل برائے امن کے لیے ایک بین الاقوامی تحریک ہے جس کا آغاز یو این میلینیم ڈیویلپمینٹ گولز سے ہوا اور یہ اب پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت جاری ہے۔
بہت سی تنظیمیں ہیں جو کہ اپنے سماجی اور انسانی مشنز میںا سپورٹس کو استعمال کرتی ہیں۔ کھیلوں کو امن کے فروغ اور نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے میں ایک بنیاد ی عنصر سمجھا جاتا ہے''۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے پاکستان میں کھیلوں کو کس حد تک متاثر کیا؟اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ''ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی نے پاکستان میں کھیلوں کو متاثر کیا ہے۔یہ نہ صرف قومی سطح پر ہے بلکہ یہ معاشرے میں مقامی سطح پر بھی ہے۔ اگرچہ ملک کے مختلف حصوں میں لڑکیوں کے لیے کھیل کے محدود مواقع ہیں۔مگر لڑکوں کے لیے بھی کھیل کے مواقع مختلف وجوہات مثلا ً کھیلوں کی سہولیات اور مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے کو ئی زیادہ نہیں ہیں۔قومی سطح پر ہم نے دیکھاہے کہ دہشت گردی نے پاکستانیوں کے پسندیدہ کھیل کرکٹ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دو ہزار نو میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردانہ حملے کو تقریبا ًایک دہائی سے زائدکا عرصہ بیت چکا ہے اس کے بعد سے ملک میں کو ئی بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہوئی۔
اب بتدریج بین الاقوامی کرکٹ نہ صرف پاکستان سپر لیگ بلکہ باہمی سیریز کے ذریعے بحال ہورہی ہے''۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کھیلوں سے کیسے کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹرزاہد شہاب احمد کا اس مناسبت سے کہنا ہے کہ ''اگرچہ انتہا پسند موجود ہیں اور وہ پاکستان میں اپنی آن لائن اور آف لائن سرگرمیوں کے ذریعے اپنا دائرہ اثر پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
مگرا ہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی نام نہاد کوشش کے لیے نوجوانوں کو ہی بھرتی کرنے کے خواہشمند ہیں۔ زندگی میں کسی مقصد کے متلاشی نوجوان کو اپنے ساتھ ملا لینا ان کے لیے بہت آسان ہے۔اگر ہم نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیوں مثلاً کھیلوں کی جانب راغب کرلیں تو ہم انہیں زندگی کے لیے ایک مثبت مقصد دے دیں گے۔ امن کی سرگرمیوں کے لیے کھیلوں کے فروغ کے توسط سے نہ صرف ہم نوجوانوں کو ان کی پسند کی تفریح کے مواقع فراہم کریں گے بلکہ شدت پسندانہ نظریات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے ان میں زیادہ آگاہی پیداکریں گے''۔ پاکستان میں کھیل برائے ترقی اور امن کی چند مثالیں دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ''سابقہ فاٹا میں کھیلوں کا فروغ کھیلیں امن کے لیے سے منسلک ہے۔
حکومت اس کی اہمیت سے آگاہ ہے اور ملک کے نوجوانوں کے لیے اس قسم کی سرگرمیوں کو زیادہ فروغ دینے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ اب تک گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کو اس مقصد کے لیے کسی حد تک استعمال کیا گیا ہے۔ ہمیںابھی انتظا ر کرنا ہو گا یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا مقامی لوگ اس سہولت کو مختلف نوعیت کے ٹورنامنٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ نہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ بلوچستان میں مختلف کھیلوں کے ٹورنامنٹس کے انعقاد کے لیے اس اسٹیڈیم کو استعمال کیا جائے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں کئی ایسی تنظیمیں ہیں جو کہ امن کے لیے کھیلوں کو فروغ دے رہی ہیں ۔
مثال کے طور پر کراچی میں لیاری کا علاقہ''۔ پاکستان میں ماضی میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے کی بندش اور ملک کے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متاثرہ علاقوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں محدود ہونے کے کیا معاشرتی اور معاشی اثرات مرتب ہوئے؟ اس سوال کے جواب میںڈاکٹرزاہدشہاب کہتے ہیں کہ '' دہشت گردی نے پاکستان میںمعاشرتی سطح پر کیسے کھیلوں کو متاثر کیا ہے اس کا حقیقی اندازہ لگانا مشکل ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستانی مجموعی طور پر بین الاقوامی سطح پر ملک کے تاثر سے مایوس ہیں اور اس بات سے بھی کہ کیسے ملک کو دہشت گردی کے لیے مورد الزام ٹھہرایاگیا ہے۔ اگرچہ پاکستانی عوام دبئی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی جانب سے کھیلے جانے والے میچ ٹی وی سکرین پر دیکھ سکتے ہیں مگر اپنے ملک میں لائیو کرکٹ میچز کو دیکھنے کا اپنا ہی حسن ہے ۔یہ لائیو کرکٹ میچز دیکھنے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔جب نوجوان سٹیڈیم میں جا کر کرکٹ دیکھتے ہیں تو وہ بھی مستقبل میں ایک اچھا کھلاڑی بننے کے لیے ترغیب پاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ایک دہائی سے پاکستانی نوجوانوں کو یہ مو قع نہیں ملا کیونکہ پاکستان میں کوئی بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہورہی تھی۔ اسی طرح دیگر کھیلوں کا بھی یہی حال رہا ہے۔کھیل سماجی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ یہ تما م سما جی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیاں فراہم کرتے ہیں اور سماجی ہم آہنگی کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں''۔ کوویڈ19کے کھیل اور سماجی ترقی پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اِ ن اثرات کا کیسے مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ''کوویڈ COVID-19 کی وجہ سے تقریبا تمام قسم کی سماجی سرگرمیوں پر منفی اثرات پڑے ہیں اور کھیل بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اس عالمی وبا نے پاکستان میں کیسے بین الاقوامی ٹورنامنٹس کو متاثر کیا ہے۔ مثلاً جب سری لنکا اور سائوتھ افریقہ کی ٹیموں نے پاکستان کادورہ کیا۔ کچھ کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے اس سال پاکستان سپر لیگ جاری نہ رہ سکی۔ اس کا پاکستان کرکٹ بورڈ اور فرنچائز کو لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس وبا کے اثرات جاری رہیں گے یہاں تک کہ ممالک اپنے شہریوں کی ویکسینیشن کا کوئی انتظام کریں''۔
ڈاکٹرزاہد شہاب احمد نوجوانوں کے کھیلوں میں شرکت کرنے کو ملک میں امن کے قیام اور ترقی کے حصول کے لیے بنیادی ضرورت قرار دیتے ہیں اور ایسا اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس وقت یو ایس سینسز بیورو کے انترنیشنل ڈیٹا بیس کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان کی 19 فیصد آبادی اقوام متحدہ کی نوجوان آبادی کی متعین کردہ عمر کے گروپ15 سے24 سال پر مشتمل ہے۔ جبکہ ملک کی 27 فیصد آبادی دولتِ مشترکہ کی نوجوان آبادی کی متعین کردہ عمر کے گروپ15 سے29سال پر مشتمل ہے۔
پاکستان میں سرکاری طور پر دولتِ مشترکہ کی واضع کردہ ایج گروپ پرمبنی آبادی کو نوجوان آبادی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وطنِ عزیز کی21 فیصد آبادی عالمی ادارہ صحت کی تعریف کردہ نوبالغوں (Adolescent) جن کی عمر10 سے19 سال پر مشتمل ہے ۔ جبکہ پاکستان کی 12 فیصد آبادی 5 سے9 سال کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔یہ آبادی کے وہ گروپس ہیں جن کاجسمانی اور نفسیاتی طور پر صحت مند اور مثبت سوچ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ فارعہ رحمان، جو سینئیر کلینیکل سائیکالوجسٹ اور اسپورٹس تھراپیسٹ ہیں کھیل کے انسانی نفسیات پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں کہ''کہا جاتا ہے کہ باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی آپ کو جسمانی طور پر فٹ رکھتی ہے اور فٹ رہنے میں مدد دیتی ہے۔ جب بھی آپ کوئی جسمانی سرگرمی کرتے ہیں۔ متحرک ہوتے ہیں فوری طور پر آپ کوایک ذہنی اور جسمانی تبدیلی محسوس ہوگئی کیونکہ آپ کا دماغ ایسا کیمیکل جاری کرتا ہے جس سے آپ کو ذیادہ خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔
ایک منظم کھیل بچوں،بڑوں ہر عمر کے افراد کو نفسیاتی، معاشرتی، معاشی اور سماجی فائدہ دیتا ہے۔ جب آپ تفریحی جسمانی سرگرمی یا ٹیم کے ساتھ کھیل میں خود کو مشغول کرلیتے ہیں اُس وقت آپ زندگی کے تنائو اور چیلنجوں کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ تنائوکی یہ عارضی مہلت منفی خیالات کی زد میں آنے سے بچنے میں آپ کی مدد کرسکتی ہے۔جب آپ کھیلتے ہیں یا ورزش کرتے ہیں جسم ایک کیمیکل پیدا کرتا ہے۔جس سے اینڈورفنز کہتے ہیں۔جو کے ایک قدرتی/فطرتی موڈ بوسڑ ہے۔
جو ہماری تنائواور افسردگی کی کفیت سے لڑتا ہے۔ جسکی وجہ سے آپ کا موڈ غیر محسوس طریقے سے بہتر ہو جا تا ہے۔کھیل اور ورزش جلدی نیند آنے میں مدد کرتا ہے۔جب جسمانی طور پر تھکے ہوئے ہوتے ہیں۔اور متحرک ہونے کی وجہ سے کیمیکل آپ کے ذہن سے منفی خیالات کو متوازن کر دیتا ہے۔اس وجہ سے آپ کو گہری نیند آتی ہے۔رات کو پوری نیند لینے کی وجہ سے صبح آپ کا مزاج پہلے سے بہتر ہوجاتا ہے اور دماغی افعال میں بہتری آتی ہے۔کھیل آپ کی شخصیت میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے۔اسی نظم و ضبط کی وجہ سے آپ کے ذہن کی فعالیت بہتر ہو جاتی ہے۔جب کھیل کی وجہ سے آپ کی زندگی میں ترتیب آتی ہے اسی ترتیب کی وجہ سے آپ ہر ٹاسک کو آپ نے صحیح ٹائم پر کرنے کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔اس طرح آپ کی یاداشت کی کمی کی شکایت دور ہوجاتی ہے۔
کوئی بھی جسمانی اور ذہنی کھیل کھیلنے سے آپ کے اندر ایک خوبصورت تبدیلی کا احساس پیدا ہوتا ہے وہ تبدیلی آپ کے اندر خوداعتمادی کا بڑھنا ہے۔ جب آپ کھیلتے ہوئے بغیر کسی منصوبہ بندی صورتحال کے مطابق فوری عمل کرتے تو اس سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تہذیب، شخصی تمدن بڑھے تو ہمیں معاشرے کی ہر سطح ہر کھیل کے رجحان کو بڑھانا ہوگا۔اگر کھیل کے رجحان کو علاقائی اور طبقاتی اور ملکی و غیرملکی سطح پر پھیلایا جائے اس سے ہر طبقے،علاقے اور ملکی و غیرملکی سطح پر لوگوں کے درمیان سماجی تعلق کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر دیکھا گیا ہے کہ کھیل صرف ایک تفریح ہی نہیں ہے بلکہ یہ ذہنی و جسمانی صحت کو بہتر کرتا ہے، سماجی تعلق بڑھاتا ہے وہیں یہ معاشی طور پر کسی بھی علاقے اور ملک کی ترقی میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ معاشی طور پر ایک انڈسڑی کی حیثیت اختیار کر چکاہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس سے منسلک ہیں جیسے کھیل کے سامان کی تیاری، رسائی،کھیل کے تربیتی کیمپ اور گرائونڈ، کلب وغیرہ۔ اگر ہم کھیل کی صنعت کو فروغ دیتے ہیں اس سے معاشرے میں بدامنی اور بے سکونی کو دور کیا جا سکتا ہے''۔
کسی بھی معاشرے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی صورت میں موجود خوف کو کھیلوں کی مدد سے زائل کیا جاسکتا ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے کوئٹہ میں آل پاکستان چیف منسٹر بلوچستان گولڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ کا انعقاد ہے۔گوادر میں کرکٹ اسٹیڈیم کا قیام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حکمت عملی کو نچلی سطح یعنی یونین کونسل کی سطح تک لیکر جایا جائے تاکہ ہمارے نوجوان جو پہلے ہی کھیلوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اُنھیں کھیلوں سے جوڑا جائے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق ''پاکستان کے85 اضلاع کے 161 پرائمری اسکولوں میں سے95 میں کھیل کا کوئی میدان نہ تھا۔ یعنی زیرجائزہ اسکولوں کا 59 فیصد کھیل کے میدان سے محروم تھے''۔ اس کے علاوہ دستیاب کھیل کے میدانوں کی دیکھ بھال کی صورتحال بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
کہیں ناجائز قبضے ہوچکے ہیں۔ کہیں کھیل کے میدان تعمیراتی سازوسامان کا اسٹور بن چکے ہیں۔ لاہور میںآج بھی کئی ایک ایسے کھیل کے میدان موجود ہیں جہاں شہر کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا سامان رکھا ہے لیکن ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد بھی وہ میدان اپنی پہلی حالت میں فعال نا ہوسکے۔ اسکے علاوہ ہمارے تیزی سے پھیلتے شہروں میں بننے والی ہائوسنگ اسکیموں میں رولز کے تحت پارک بنانا تو ضروری ہے لیکن شاید کھیل کا میدان بنانا ضروری نہیں۔اور جو پارکس بنائے جاتے ہیں اُس میں یہ بورڈ اکثر آویزاں ملتا ہے کہ پارک میں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کھیلنا منع ہے۔تو ایسی صورت میں بچے اور نوجوان کہاں کھیلیں۔ گلی محلوں میں بھاگتی دوڑتی موٹر ویکلز نے ان کو بھی کھیل کے حوالے سے غیر محفوظ کردیا ہے۔
کھیل رواداری ، احترام اور ٹیم ورک جیسی اقدار کا مترادف ہے اسی لیے دہشت گرد گروہ کھیلوں کے مقابلوں کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔آج کی خاص طور پر غیر مستحکم دنیا میں کھیل نوجوان اور کمزور لوگوں کے لئے ایک اہم پناہ گاہ ہیں۔ کھیل دنیا بھر کے بچوں اور نوبالغوںکو بہتر ، زیادہ روادار اور قابل احترام شہری بننے کے لئے نفسیاتی اور جذباتی طاقت کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔ کھیل انہیں دہشت گردی کے پروپیگنڈے کے خلاف مزاحمت کے لیے صحیحtools سے آراستہ کرتا ہے۔
کھیل دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہونے والی خوف اور ڈر کی کیفیتوں سے نکلنے میں مددگار ہوتے ہیں یہ کہنا ہے ڈاکٹر امجد طفیل، ایسوسی ایٹ پروفیسر آف سائیکالوجی، گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ ،لاہور کا وہ کہتے ہیں کہ''دیکھیں جب ہم انسانی زندگی ،انسانی نفسیات پر غور کرتے ہیں توکچھ بنیادی عناصر اس کی فطرت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اس میں ایک چیز aggression ہے اسے جارحیت کہا جاتا ہے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہaggression کوئی منفی بات ہے ۔لیکن یہ ایسی چیز نہیں ہے aggression کے انسانی زندگی کے ساتھ مثبت اور منفی دونوں طرح کے معاملات ہیں۔ مثبت معاملات یہ ہیں کہ یہ بنیادی طور پر انسان کو زندہ رکھنے کے لیے جو درکارقوت ہے وہ مہیا کرتی ہے۔ مشکل اور خطرے میں انسان کو اپنی زندگی کے دفاع کا موقع دیتا ہے۔
تو اس کو آپ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ اور اس طرح کی جو معاشرے میں منفی سرگرمیاں ہیں ان کے ساتھ جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں ۔تو کھیل جو ہیں وہ بنیادی طور پر آپ کی اسaggression کی فطرت کوچینالائز کرتے ہیں ۔اُس کو ایک segregate way میں ایک ملائم انداز میں اس کے اظہار کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا یقین اس بات پر ہے کہ جبلتوں کو دبا دینے سے یا ان کو بالکل آزاد چھوڑ دینے سے انسانی زندگی بہتر نہیں ہوتی۔ بلکہ اُن کو تہذیب کے دائرے میں رہ کر اظہار کا موقع دینے سے انسانی زندگی میں، معاشرتی زندگی میں، اجتماعی زندگی میں بہتری آتی ہے۔ تو یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو کھیل ہیں جب کسی معاشرے میں ان کو رواج دیا جاتا ہے لوگوں کو ان کھیلوں کی طرف لایا جاتا ہے تو اُس سے معاشرے میں ڈر خوف کی فضا کم ہوتی ہے جبلتیں اپنے اظہار کا ایک مہذب طریقہ سیکھتی ہیں۔
انسان اپنے جذبوں کو کنٹرول کرنا سیکھتا ہے کہ اُس نے صورتحال پر کس طرح اپنے بہترین ردعمل کا اظہار کرنا ہے ۔یوں ہماری معاشرتی زندگی میں کھیل بہت بنیادی نوعیت کا کردار ادا کرتے ہیں''۔معاشرے کی ہر سطح پر کھیلوں کے ہونے سے معاشرتی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ اس بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ '' ماہرین نفسیات نے کھیلوں کے انسان کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات پر جو اثرات ہیں ان کو بہت گہرے انداز میں سمجھنے کے لیے بہت سی تحقیقات کی ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ کھیل بچوں میں خاص طور پر زندگی کے بارے میں ،معاشرت کے بارے میں ،میل جول کے بارے میں بہت سے بنیادیconceptsکو واضح کرتا ہے۔ انسان جس معاشرے میں رہتا ہے وہ وہاں لوگوں کے ساتھ compete بھی کرتا ہے اورcooperate بھی کرتا ہے ۔
یہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں کہ جب آپcompetition میں آئیں گے تو آپ competitor سےcooperateکیسے کریں گے ۔لیکن انسانی زندگی ان دونوں کے توازن سے بنتی ہے تو کھیل جو ہے وہ حقیقی زندگی میں ہمیں مواقع دیتے ہیں ہم اپنی حقیقی زندگی میںباقاعدہ ایک سیچویشن میں آ کے حالات سے سیکھتے ہیں۔ کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بھی کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں۔ تو یہ میرے خیال میں بہت اہم عنصر ہے کھیل کا جو ہماری معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں کھیل بہت کم ہیں اور ان کو بہتmarginalize کر دیا گیا ہے ۔خاص طور پر ہم نے اپنی تعلیمی زندگی سے تو کھیلوں کو بالکل باہر نکال کر پھینکا ہوا ہے۔ کبھی سال میں ایک باربعض اسکول اور کالجز اپنے بچوں کے لئے کھیلوں کے مقابلے کرا لیتے ہیں اس سے کھیل انسانی زندگی کا حصہ نہیں بنتا ۔کھیلوں کو ہمیں اپنی تعلیمی سرگرمیاں کا مستقل حصہ بنانا ہوگا اس سے فرد انفرادی سطح پربھی صحت مند ہوگا اور اُس کے ساتھ ساتھ وہ دوسرے افراد کے ساتھ مل کر اچھی سماجی زندگی گزارنے کی بھی تربیت حاصل کرے گا''۔
اسی طرح یونیورسٹی آف لاہور کے اسکول آف انٹیگریٹڈسوشل سائنسز کی استاد اور ریسرچ ایسوسی ایٹ، عائشہ جہاں لودھی کھیل کو معاشروں کی تعمیر اور اِن کے پھلنے پھولنے کا منبع قرار دیتی ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ''کھیل تقریبا ً ہر معاشرے میں ایک بہت بڑا معاشرتی ادارہ ہیں کیونکہ یہ کسی بھی ادارے میں پائی جانے والی خصوصیات کو یکجا کرتے ہیں ۔
جدید معاشروں میں کھیل کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ کھیل ایک مسلسل معاشرتی تجربہ ہے ۔ جس میں بنی نوع انسان اپنی صلاحیتوں کو وسعت دیتے ہوئے انسانی سرمائے کو جمع اور بہتر بناتا ہے۔ اسی لیے البرٹ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ '' کھیل تحقیق کی اعلیٰ ترین شکل ہیں''۔کھیلوں کا نظام صحت ، سائنس ، ثقافت ، پرورش اور تعلیم کے نظام وںسے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ کسی بھی جدید معاشرے کے سماجی ،معاشی اور سیاسی عمل پر کھیلوں کے نمایاں اثرات پڑتے ہیں۔
اس کے علاوہ کھیل صنف کے کردار اور اُن کی معاشرتی و معاشی امور کے بارے میں ہماری تفہیم پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔در حقیقت معاشرے میں کھیل اتنے اہم ہیں کہ اقوام متحدہ نے انھیں ایک انسانی حق قرار دیا ہے۔یہ انسانیت ، ترقی اور امن کی کوششوں میں ایک کم لاگت اور اعلیٰ اثرات کے حامل آلے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔کھیل چاہے وہ تفریحی ، پیشہ ورانہ یا تعلیمی مقاصد کے لئے ہوں محض تندرستی یا فتح سے متعلق نہیں ہوتے ہیں۔بلکہ یہ ایک خوشحال اور صحت مند معاشرے کا لازمی جزو ہے ۔ بچے جب کھیل رہے ہوتے ہیں تو وہ ہارنا بھی سیکھتے ہیں۔ بچوں کو ناامیدی سے دور ہونے اور ناخوشگوار تجربات سے نمٹنے کا درس اور لچکدار بننے کی تربیت ملتی ہے۔
کھیل کھیلنا بچوں کو اپنے جذبات پر قابو پانے میں اور مثبت انداز میں منفی جذبات کو چینل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سے بچوں کو صبرپیدا کرنے اورسمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔ٹیم میں کھیلنا بچوں کو بہت سی معاشرتی صلاحیتوں کو اُبھارنے میں مدد دیتا ہے جن کی انہیں زندگی بھرضرورت ہوتی ہے۔ یہ انہیں تعاون کرنے،کم خودغرض رہنے اور دوسرے بچوں کو سننے کی تعلیم دیتا ہے۔اس سے بچوں کو اپنے تعلق کا احساس اور نئے دوست بنانے میں مدد ملتی ہے اور وہ اسکول سے باہر اپنا سماجی حلقہ بناتے ہیں۔ٹیم میں کھیلنے کا ایک اہم حصہ ڈسپلن کو قبول کرنا ہے۔ کھیل کھیلنے کا مطلب ہے کہ بچوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قواعد پر عمل کریں ۔فیصلے قبول کریں ۔جسمانی پہلوؤں کے مقابلے میں کھیل کسی بھی فرد کی یوں بھی بہت زیادہ مدد کرتا ہے کہ یہ کردار تیار کرتا ہے۔اسٹریٹجک سوچ تیار کرتا اور بناتا ہے۔ تجزیاتی سوچ سکھاتا ہے۔قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرتا ہے ۔اہداف کا تعین کرنا سیکھاتا ہے اور خطرہ مول لینے کی ترغیب دیتا ہے ۔
کھیل بنیادی طور پر معاشرے میں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی تقسیم کو ختم کرنے اور گروہوں کے مابین مشترکہ ثقافت اور رفاقت کا احساس پیدا کرنے کا کام کرتا ہے ۔ یہ سماجی میل جول بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ معاشی بہتری لانے کا باعث بنتے ہیں۔ صحت پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرتے ہیں جس سے دیگر سہولیات کی انفرادی اور حکومتی سطح پر فراہمی کے لیے معاشی وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔ معاشرے کو صدمات کی کیفیت سے نکالنے کے لیے کھیلوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔کھیل سے اجتماعی شعور پیدا ہوتا ہے جس سے معاشرتی مسائل کے حل اور فیصلہ سازی کرنے میں مدد ملتی ہے''۔
ملک میں کھیلوں کے زوال پذیر معیار اور سہولیات کے فقدان نے ہر ذی شعور کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ متعلقہ ادارے اصلاحی اقدامات کریںاور ایسی تبدیلیاں لائیں جن سے کھیلوں کے اداروں کی باضابطہ کارکردگی کی راہ میں حائل خامیوں اور رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ ملک میں پاکستان اسپورٹس بورڈ، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، نیشنل اسپورٹس فیڈریشنز،صو بائی ا سپورٹس بورڈز، ایسوسی ایشنز، محکمے اور تعلیمی ادارے کھیلوں کی تنظیم کرنے والی اہم ایجنسیاں ہیں ۔تحصیل اور ضلع پر کھیل محض رواج ہیں اور بعض اوقات یہ بالکل نہیں ہوتے۔
ذاتی پسند اور ناپسند، اقراباپروری اور سفارش نے ہماری کھیلوں کو اس نے نہج تک پہنچا دیا ہے کہ ہم اب سوائے اپنے ماضی پر نازاں ہونے کے کچھ نہیں۔ صوبوں میں کھیلوں کی سہولیات بھی اعلیٰ معیار کی نہیں۔ ملک میں مناسب سہولیات والے بہت کم اسٹیڈیم یا جمنازیم موجود ہیں ۔فیڈریشن کے اپنے حلقے ہیں ان پر با اثر عہدیداروں کی بالادستی ہے جو کئی سالوں سے فیڈریشن میں عہدوں پر فائز ہیں ۔محکموں نے کھلاڑیوں کی بھرتی اور ملک میں کھیلوں کی روایت کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو قابلِ ستائش ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ جن تعلیمی اداروں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کھیلوں کی نرسری ہیں۔ اُنہوں نے ہنرمند کھلاڑی پیدا کرنے کا کام بند کر دیا ہے ۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ہم امن کے قیام اور ترقی کے حصول کی خواہش کو کیسے شرمندہ تعبیر کرسکیں گے۔ اس کے لیے ہمیں کھیلوں کے گرتے ہوئے معیار اور سہولیات کے فقدان کا حل تلاش کرنے کے لئے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔
کالج کے تمام تعلیمی بلاکس کی بلڈنگ جنوبی جانب پٹیل روڈ اورمغربی جانب جناح روڈ سے متصل ہیں۔ پرنس روڈ کی جانب جوکہ کالج کی شمالی سمت ہے اُس جانب مادر علمی کے دوعدد وسیع و عریض گرائونڈ ہیں۔ ایک گرائونڈ فٹ بال کے کھیل کے میدان جتنا بڑا ہے۔ اور دوسرا ہاکی گرائونڈ جتنا ہے۔
یہ وہ گرا ئونڈ ز ہیں جو کبھی کالج ٹائم سے پہلے اور بعد میں کوئٹہ کے باسیوں سے کچھا کچھ بھری ہوتی تھیں۔ کہیں کرکٹ کھیلی جارہی ہوتی تھی توکہیں فٹ بال، کہیں ہاکی ہورہی ہوتی تھی تو کہیں والی بال۔کہیں علاقائی کھیل ہورہے ہوتے تھے تو کہیں گپ شپ بھی چل رہی ہوتی تھی۔
سردیوں میں پتنگیں اڑانے والے بھی یہاںپہنچ جاتے تھے۔ اُس وقت گرائونڈز کی دیکھ بھال کالج انتظامیہ بہت محنت سے کرتی تھی۔ کوئٹہ شہر کے وسطی علاقوں میں رہنے والے ہمارے ہم عمر اور ہم سے بڑوں میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو کہ جس نے اپنے بچپن اورنو جوانی میں سائنس کالج کے گرائونڈ ز میں کھیلا نہ ہو۔ شہر کے وسط میں یہ اکلوتا کھیل کا میدان تھا جہاں انٹری عام تھی اور آپ اپنی مرضی کا کوئی بھی کھیل کھیل سکتے تھے۔ شہر میں اگرچہ اور بھی اسپورٹس گرائونڈز ہیں لیکن ان میں سے اکثر اسکولوں اور کالجوں کے احاطوں کے اندر اوردیگر اداروں کے ہیں جہاں انٹری عام نہیں اور چند ایک تو کسی ایک خاص کھیل کے لیے مخصوص ہیں۔ اس لیے سائنس کالج گرائونڈ کو کوئٹہ شہر کی کھیلوں کی سرگرمیوں میں ایک مرکزی اہمیت حاصل تھی۔
لیکن پھر ہوا یہ کہ سیکورٹی مقاصد کے لیے کالج انتظامیہ نے ان میدانوں میں کھیلنے پر پابندی لگا دی ۔ یوں سائنس کالج گرائونڈ جہاں کھیلنے کی جگہ نہیں ملتی تھی اب اپنی ویرانی کا نوحہ کناں ہیں۔ ماضی قریب میںدہشت گردی کے واقعات نے ہمارے گرائونڈ ز کو غیر آباد کردیا تھا۔ لیکن نیشنل ایکشن پلان کی بدولت ملک میں امن وامان کی صورتحال اب بہت بہتر ہے اور ہمارے کھیل کے میدان پھر سے آباد ہورہے ہیں۔ بین الاقوامی کھلاڑی اور دیگر ممالک کی ٹیمیں پاکستان آکر کھیل رہی ہیں۔یوں جس بد امنی نے ہمارے کھیل کے میدانوں کو ویران کیا تھا آج اُنہی میدانوں کو آباد کرکے امن کے قیام کا اظہارکیا جارہا ہے۔یعنی کھیل جہاں بد امنی سے متاثر ہوتے ہیں وہیں اس بد امنی کے آگے یہ ایک ڈھال بن کربھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔
دنیا بھر کے معاشروں میں کھیلوں کا کردار اور اثرترقی اور امن کے قیام کے حوالے سے صدیوں سے بحث کا موضوع رہا ہے کچھ اس کے منفی پہلوئوں پربات کرتے ہیں تو کچھ اس کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کھیل برائے ترقی اور امن کو دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر ترقی کے میدان میںایک ابھرتی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ پا لیسی اور سماجی تحریک کی صورت میں کھیل برا ئے ترقی اور امن کا استعمال تو 1990 کے عشرے سے ہورہا ہے۔ لیکن اس کا ماضی بہت قدیم ہے۔
جب اولمپک Truce کو پہلی بار متحارب ریاستوں کے مابین عارضی امن قائم کرنے کے لئے استعمال کیا گیاتھا۔ یہ ایک قدیم یونانی روایت پر مبنی ہے جو آٹھویں صدی ( بی سی) سے شروع ہوئی جس کے تحت تمام تنازعات Truce کی مدت کے دوران ختم ہوگئے۔ جو اولمپک کھیلوں کے آغاز سے سات دن پہلے شروع ہوا تھا اور کھیلوں کے اختتام کے بعد ساتویں دن ختم ہوا تاکہ کھلاڑی ، فنکار اُن کے رشتہ دار سلامتی سے سفر کرسکیں۔ اولمپک کھیلوں کے لئے اور اس کے بعد اپنے ممالک کو لوٹ جائیں۔کھیل برائے ترقی اور امن ایک ابھرتا ہوا تعلیمی شعبہ ہے۔
اس کا مطالعہ متعدد مضامین خاص طور پر بین الاقوامی ترقی، تنازعات اور پیس اسٹڈیز، کھیلوں کا مطالعہ، انسانی جسمانی حرکتی فعلیات (kinesiology) ، عمرانیات اور علاقائی اسٹڈیز میں کیا جا رہا ہے۔ جب کے اس کے استعمال کی بین الاقوامی سطح کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ چین اور امریکہ کے مابین پینگ پونگ کے ذریعے غیر دوستانہ تعلقات کا خاتمہ، جنوبی افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلا کی جانب سے ملک میں خانہ جنگی کی روک تھام اور ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنے کے لیے رگبی ورلڈ کپ کا انعقادکا سہارا لینا، 2008 میں ترکی اور آرمینیا کے صدور کا اپنی ٹیموں کے مابین فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ کو سفارتی مکالمے کو دوبارہ کھولنے کے لئے استعمال کرنا ۔اسی طرح پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے بھی امن کی کوششیں ہوچکی ہیں۔
یعنی تنازعات کی روک تھام اور امن کے قیام کے آلے کے طور پر کھیل کی طاقت اور اہمیت کا اطلاق بین الاقوامی معاہدوں اور حکمت عملیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کھیل معاشرے میں سماجی تنائو،تنازعات کو کم کرنے اور ترقیاتی عمل کو مہمیز کرنے میں اہم کرداربھی ادا کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اگست2013 میں 06 اپریل کو''کھیل برائے ترقی اور امن'' کے بین الاقوامی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔کھیل برائے ترقی اور امن سے مراد کھیلوں کاجسمانی سرگرمی اور کھیل کے ذریعے مخصوص ترقی اور امن کے مقاصد کے حصول کے لئے جان بوجھ کر استعمال کرنا ہے۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے صدر تھامس بچ(Thomas Bach) باقاعدگی سے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''کھیل صرف جسمانی سرگرمی ہی نہیں ہے۔
اس سے صحت کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ جدید تہذیب کی بیماریوں سے بچنے اور ان کا علاج میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک تعلیمی ٹول بھی ہے جو علمی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ معاشرتی رویوں کی تعلیم دیتا ہے اور کمیونٹیز کو متحد کرنے میں مدد کرتا ہے''۔
کھیل میں شرکت اور ان تک رسائی کے حق کومتعدد بین الاقوامی کنونشنوں میں تسلیم کیا گیا ہے۔ 1978 میں یونیسکو نے کھیل اور جسمانی تعلیم کو سب کے لئے بنیادی حق قرار دیا۔ لیکن آج تک اکثر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں کھیل اور کھیل کے حق کو اکثرنظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔جس کا اندازہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یواین ڈی پی کی پاکستان ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ2017 کے ان اعداوشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں 100 نوجوانوں میں سے93 کو کھیلوں کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں صرف 7 نوجوانوں کو یہ سہولیات حاصل ہیں۔
یہ صورتحال جب ہم نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسپورٹس سائینسز اینڈ فزیکل ایجوکیشن کے چیئر مین ڈاکٹر محمد ظفر اقبال بٹ کے سامنے رکھی تو اُ نکا کہنا تھا کہ '' حکومت کی جانب سے اس پر کوئی قدغن نہیں ہے ۔ رسائی کے حوالے سے آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اجازت تو سب ہی کے لیے ہے مگر کھیل ہر کسی کی رسائی میںانفراسٹرکچر ل سہولیات کے حوالے سے اور معاشی سکت کے حوالے سے ہے نہیں۔ دیہات اور چھوٹے شہروں میںاسپورٹس کی اچھی سہولیات کا فقدان ہے اس لئے لوگوں کی رسائی میں یہ اُس طریقے کے ساتھ نہیں ہے جس طریقے سے ہونا چاہیے''۔ پاکستان میں کھیلوں کی سہولیات کی صورتحال کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ '' یہ سب سے بڑا چیلنج ہے حکومتوں کے لئے ہماری دلچسپی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی سیٹ اڑھائی سال سے خالی ہے ۔کھیلوں کی سہولیات کے حوالے سے نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر تو ضروری ہے ہی لیکن پرانے انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال اور مرمت بھی ہونی چاہیے جوکہ نہیں ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصے میں تحصیل، ڈسٹرکٹ اورڈویژن کی سطح پر کئی سیٹ اپ بنائے گئے اوربعض جگہ پر تو بہت اچھے سیٹ اپ بنائے گئے ہیں مگر وہاں پر اتنی زیادہ فارمیلیٹیز(Formalities) کر دی گئی ہیں کہ عام بندے کے لئے وہ قابل استعمال ہی نہیں اس کی سب سے بڑی مثال لاہور میں قذافی سٹیڈیم میں پنجاب اسپورٹس بورڈنے جو سوئمنگ پول بنائے ہیں ان کی ممبرشپ اتنی مہنگی رکھی ہوئی ہے کہ عام پبلک کی رسائی نہیں ہوسکتی ۔اسی طرح تحصیل سطح پر بہت اچھے ٹریننگ سینٹر بنے ہوئے ہیں مگرکیا وہ سب کے سب خاص کر جو ایوریج سپورٹس پرسن ہے اُس کی دسترس اور ٹریننگ کے لیے اُس کے استعمال میں ہیں؟ کئی سنٹر ایسے ہیں جہاں تمام چیزیں ہیںاور وہ پڑی پڑی آؤٹ ڈیٹڈ ہو رہی ہیں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
خاص کرکے لوئر کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے اتنی زیادہ فارمیلیٹیز(Formalities) نہ رکھی جائیں''۔کھیل انسان کو کیا سیکھاتا ہے؟اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹرمحمد ظفر اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ ''کھیل ہمیں زندگی میں بہترین اور کامیاب شہری بننے کے لیے ہر چیز سیکھاتا ہے یہ ڈسپلن سے لے کر کسی کی بات کو سننے ماننے برداشت کرنے ،رو لز پر عمل درآمد کرنے ، اپنی صحت کو اچھا رکھنے ،شفاف کھیلنے، دوسروں کا احترام کرنے، تمام سماجی، ثقافتی اوراخلاقی اقدارکی پاسداری کے حوالے سے ہماری گرومنگ کرتا ہے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض چیزیں جو ہم تعلیم میں حاصل نہیں کرتے وہ کھیل کے میدانوں میں حاصل کرتے ہیں۔ بغیر کسی تفریق کے یگانگت مساوات اور محبت سکھاتا ہے ۔
ہمیں اپنی روایت اور ثقافتی روایات کو اجاگر کرنے میں مدد دیتا ہے''۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ہمارے کھیلوں کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟اس سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ''دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ہماری کھیلوں کو بہت متاثر کیا ہے مارچ 2009 میں جب سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو پاکستانی میں بین الاقوامی سطح پر صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ تمام کھیلوں پر پابندیاں لگ گئیں اور پاکستان میں کھیلوں کا کوئی بھی بڑا ایونٹ بہت عرصے تک نہیں ہوا جس کی وجہ سے ہماری سپورٹس انڈسٹری مندے کا شکار رہی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کوکھیلنے کے حوالے سے اچھے مواقع ہی نہیں ملے ۔اب چیزیں بہتر ہو رہی ہیں اور آنے والے وقت میں یہ اور زیادہ بہتر ہو جائیں گی ۔دہشت گردی اور انتہا پسندی نے سب سے زیادہ پا کستان کی ا سپورٹس کو نقصان پہنچایا ہے'' ۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کھیلوں سے کیسے کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹر ظفر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ''دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ اسپورٹس سے بہتر اور کوئی بھی چیز نہیں کرسکتی۔ کھلاڑی امن کے سفیر ہوتے ہیں یہ امن اور بھائی چارہ کا پیغام دیتے ہیں۔ یہ انٹر پرسنل تعلقات مختلف ملکوں ، گروہوں کے درمیان بنانے کا سب سے بہتر ذریعہ ہیں۔ اسپورٹس اسلامی روایات کا ایک خاصہ رہا ہے۔ موجودہ دور میں بھی اس کے اوپر کیسی بھی مذہبی حوالے سے تقسیم نہیں ہے ۔
اسپورٹس کتھارسسز (katharsis) کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ زندگی کی کسی اور جہت میں اتنی معاون چیزیں آپ کو نہیں ملتیں۔ کھیل ترقی اور امن کے لیے کس طرح اور کیوں ضروری ہیں؟اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد ظفر بٹ کہتے ہیں کہ''کسی قوم اور ملک کی ترقی کے لیے سپورٹس اور امن ان دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے ۔جتنے بھی بڑے میگا ایونٹ ہوتے ہیں وہ ایک قسم کا آپ کا کلچر آپ کے رہن سہن کو اجاگر کرتے ہیں ۔مارچ 2009 میں جب سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو اس کے بعد پاکستان کو امن کے نام پر کھیلوں کے حوالے سے بالکل الگ تھلگ کر دیا گیا ۔
جس کی وجہ سے ہماری تمام کی تمام سپورٹس انڈسٹری بیٹھ گئی اور پاکستان کا باہر کے ممالک میں تشخص بڑی بری طرح متاثر ہوا۔ پاکستان کی معیشت میںا سپورٹس کی انڈسٹری میں تنزلی کی وجہ سے کمی آئی ۔اب کچھ معاملات بہتر ہوئے ہیں جیسے پی ایس ایل کا ایونٹ ہو رہا ہے کچھ انٹرنیشنل ٹورنامنٹ بھی شروع ہوگئے ہیں اور موجودہ گورنمنٹ کی پالیسیز بھی قابل ستائش ہے ۔جتنی دیر تک پاکستان میں انٹرنیشنل سپورٹس بحال نہیں ہوگی پاکستان suffer کرے گا ۔پاکستان ایک امن پسند ملک ہے یہاں کے لوگ امن پسند ہیں اسپورٹس کے دلدادہ ہیں۔ہماری اسپورٹس انڈسٹری جس سے بے شمار لوگوں کے کا روزگار وابستہ ہے توترقی اُس صورت ہی ممکن ہے کہ ہماری اسپورٹس لوکل سطح ، نیشنل اور بین الاقوامی سطح پر بحال ہو۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے حکومت تو اقدامات کر رہی ہے لیکن عالمی سطح پر کوویڈ 19 نے اسے محدود کردیا ہے اور اس کی دوسری اورتیسری لہر کی وجہ سے کوئی بھی ایکٹیوٹی اس طریقے سے نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہیے ۔ اگر ہمارے کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے تو ہسپتال یقینا ویران ہوں گے جو کہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے ۔
کوویڈ 19 میں سپورٹنگ ایکٹیویٹی، ایکسرسائز رنگ ایکٹیویٹی آپ کی امیونٹی کو بہت بہتر کرتی ہے ۔یہ ایک طریقے سے اس بیماری کے خلاف جہاد ہے یہ سرگرمیاں بیماری کو آپ پر حاوی نہیں ہونے دیتیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کا اہل بناتی ہیں''۔ اسپورٹس ملکی ترقی میں کیسے معاون ہوسکتے ہیں؟ڈاکٹر ظفر کہتے ہیں کہ ''اسپورٹس اب ایک انڈسٹری ہے یہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک صنعت کے طور پر کام کر رہی ہے یہ وہ انڈسٹری ہے جو پاکستان کی اکانومی کو بہت بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
ہمارے سیالکوٹ کے کھیلوں کی مصنوعات کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہے ۔ کھیل تحفظ اور زندگی کے معمول پر آنے کا احساس کو فروغ دیتے ہیں۔ جس سے بین الاقوامی سیاحت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہ اقوام متحدہ کے پائیدار انسانی ترقی کے کئی اہداف کو حاصل کر نے کا بھی باعث بنتے ہیں''۔ کیا ہمارے کھیل کے میدان ماضی کی طرح آج بھی اِسی طرح آباد ہیں؟ اس حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ '' اس میں فرق پڑا ہے سرگرمیاں محدود ہو گئی ہیں۔پہلے 2009 کے واقعہ کی وجہ سے اور اب کوویڈ19 کی وجہ سے بھی۔
اس کے علاوہ پہلے لوگ اپنے اعزاز اپنے وقار اپنے نام کے لیے کھیلتے تھے اب معاشی فیکٹر نے بہت پنجے گاڑ لئے ہیں۔ ماضی میں سپورٹنگ ایکٹیویٹیز لوگوں کا شعار تھا اب بچوں پرپڑھائی کا اتنا زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ بچے اور والدین کھیل کے میدان میں جانے سے کتراتے ہیں۔ بچوں کو مشین بنا دیا گیا ہے بچوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ گراؤنڈ میں جا کر کھیلیں۔ دوسرا فزیکل اسپورٹس کی بجائے اب موبائل اورکمپیوٹر پر اسپورٹس نے جگہ لے لی ہے۔اس نے آپ کو فریکل ایکٹیوو بنانے کی بجائے فریکلی زیادہ اِن ایکٹیوو (inactive)کردیا ہے۔ ملک میں اسپورٹس کی سہولیات سب کی پہنچ میں لانے کے لیے اور اِن سے استفادہ کے حوالے سے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ڈاکٹر ظفر بٹ نے اس سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''سب سے پہلے انفراسٹرکچر ل ڈویلپمنٹ کریں ۔صوبائی اور وفاقی سطح پر کھیلوں کی سہولیات کا ایک جال بچھایا جائے ۔ نجی اسکولوں میں گراؤنڈ بنائیں سہولیات مہیا کی جائیں ۔تعلیمی اداروں میںا سپورٹس کے پیریڈ ہوں اور طلبا کی شرکت لازمی بنائی جائے۔
گورنمنٹ کی سطح پر اس کی پذیرائی کی جائے۔پبلک سیکٹر میں اس طریقے کی چیزیں بنائی جائیں جو سب کی پہنچ میں ہوں۔ خاص کر وہ معاشی لحاظ سے اتنی مہنگی نہ ہو ںکہ لوگ انھیں جوائن نہ کرسکیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی لیول پر ان چیزوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں تو کھیل کے میدان ہی نہیں ہیں اس کے اوپر بھی توجہ دینی چاہیے ۔جتنی دیر تک ان کے پاس پلینگ ایریا نہ ہو ایسے سکول کی اجازت نہیں دی جائے ۔ متعلقہ اداروں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
اسپورٹس ڈیولپمنٹ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔صوبائی اور وفاقی سطح پر کھیلوں کے لیے بجٹ مختص کرنا اور کھلاڑیوں اس بجٹ کا استعمال ہونا ضروری ہے ۔کرکٹ کے علاوہ اور کون سا ایسا کھیل ہے ہمارے ہاں جس میں کھلاڑی کو اچھا روزگار مل جائے اس لیے اس طرح کے مواقعوں کا سب کھیلوں اورکھلاڑیوںکے لیے اجرا کیا جائے تاکہ لوگوں کا اس جانب بطور کیریئر رجحان بڑھے۔ اگرہم اپنی اسپورٹس کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو معاشی مدد ہونی چاہیے تمام ا سپورٹس باڈیز اور کھلاڑیوں کی۔ا سپورٹس میں گڈگورننس ہو اُسے اچھے انداز میں آرگنائز کیا جائے۔ اسپورٹس پالیسی کا اسٹرکچر اچھا بنایا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لیا جائے۔ کھیلوں میں ماس پارٹیسیپیشن (Mass participation)ہو۔
اس بات سے قطع نظر کہ اسپورٹس کو بطور کرئیر اپنا یا جائے۔ ٹیلنٹ کی نشاندہی اور مواقعوں کی فراہمی یعنی اس کی ڈویلپمنٹ کریں۔ کھلاڑی کو معاشی تحفظ کھیل اور اس کے بعدبھی مہیا کرنا ہو گا ۔ ٹریننگ کی سہولیات بہتر بنانا اور عام کھلاڑی کی رسائی میں لانا ہوں گی ۔کوچز اور کوچز کی ڈیولپمنٹ ہو ۔نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر کھیلوں کے باقاعدگی سے مقابلے ہونے چاہیے۔ آپ دیکھ لیںہماری نیشنل چیمپئن شپ کتنی بار مسنگ ہے۔اسپورٹس میں سائنٹیفیک ریسرچ اور اینو ویشن (Research and Innovation )آنی چاہیے۔ اس میں یونیورسٹیاں بہت اچھا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ دنیا میں اسپورٹس کی علیحدہ یونیورسٹیاں ہیں حکومت ملک میں ایک اسپورٹس یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائے یہ بہت ضروری ہے''۔
کھیل تقریباً ہر معاشرہ میں موجود ہیں۔ اِنکی مقبولیت سیاسی، قومی اور نظریاتی سرحدوں سے بالا تر ہے اور ان کا ترقی اور امن کے لیے استعمال بھی دنیا کے اکثر خطوں میں جاری ہے۔ اسپورٹس فار ڈیولپمنٹ اینڈ پیس انٹرنیشنل ورکنگ گروپ کی جانب سے مدعو کیے گئے 34 ممالک کو کھیل برائے امن اور ترقی کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کے بارے میں جب معلومات دینے کا کہا گیا تو69 فیصد ترقی پذیر اور 85 فیصد ترقی یافتہ ممالک نے تنازعات کے حل اور امن کے قیام کے لیے اپنی قومی حکمت عملیوں میں کھیل کو استعمال کیا یا وہ اسے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کیا پاکستان کے تناظر میں کھیل برائے ترقی اور امن کے آئیڈیا کی ضرورت ہے؟ ڈاکٹرزاہد شہاب احمد ، جوڈیاکن یونیورسٹی آسڑیلیا سے وابستہ ایک اسکالر ہیںاورپاکستان میں امن کی ترویج ان کا ترجیحی موضوع ہے۔
اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ''پہلے پاکستان کے کچھ اعداد وشمارکاجائزہ لیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی انسٹھ فیصد ہے اوربے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح چار اعشاریہ پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں اور لاکھوں ہی نوجوان بے روزگار ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ صرف ان پڑھ اور بے روزگار ہی دہشت گردی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں بلکہ انہیں شدت پسند نظریات کے اثرات سے بھی بچانا ہے۔ امن کے پروجیکٹس عمومی طور پراسکولوں اور یونیورسٹیز میں زیر تعلیم طلبا کو ہی اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگرنوجوانوں کو بھی مثبت سرگرمیوں کے مواقع فراہم کیے جائیں تا کہ انتہا پسند نظریات کے خلاف ان میں مزاحمت پیدا کی جا سکے۔ اس طرح پاکستان کو امن کے لیے کھیلوں کی ضرورت ہے۔
در حقیقت پاکستان میں اس قسم کے پروجیکٹس کی کئی مثالیں ہیں۔ میں یہاں سابقہ فاٹا میں قائم شاہ محمودپیس اکیڈمی فارکرکٹ کی مثال دوں گا۔اس کا مشن کرکٹ کے نوجوان کھلاڑیوں کو تربیت فراہم کرنا ہے اور انہیں پرتشدد شدت پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے بچانا بھی ہے''۔ کھیل برائے ترقی اور امن کی وضاحت کرتے ہوئے اُ نکا کہنا ہے کہ ''کھیل برائے امن کے لیے ایک بین الاقوامی تحریک ہے جس کا آغاز یو این میلینیم ڈیویلپمینٹ گولز سے ہوا اور یہ اب پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت جاری ہے۔
بہت سی تنظیمیں ہیں جو کہ اپنے سماجی اور انسانی مشنز میںا سپورٹس کو استعمال کرتی ہیں۔ کھیلوں کو امن کے فروغ اور نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے میں ایک بنیاد ی عنصر سمجھا جاتا ہے''۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے پاکستان میں کھیلوں کو کس حد تک متاثر کیا؟اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ''ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی نے پاکستان میں کھیلوں کو متاثر کیا ہے۔یہ نہ صرف قومی سطح پر ہے بلکہ یہ معاشرے میں مقامی سطح پر بھی ہے۔ اگرچہ ملک کے مختلف حصوں میں لڑکیوں کے لیے کھیل کے محدود مواقع ہیں۔مگر لڑکوں کے لیے بھی کھیل کے مواقع مختلف وجوہات مثلا ً کھیلوں کی سہولیات اور مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے کو ئی زیادہ نہیں ہیں۔قومی سطح پر ہم نے دیکھاہے کہ دہشت گردی نے پاکستانیوں کے پسندیدہ کھیل کرکٹ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دو ہزار نو میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردانہ حملے کو تقریبا ًایک دہائی سے زائدکا عرصہ بیت چکا ہے اس کے بعد سے ملک میں کو ئی بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہوئی۔
اب بتدریج بین الاقوامی کرکٹ نہ صرف پاکستان سپر لیگ بلکہ باہمی سیریز کے ذریعے بحال ہورہی ہے''۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کھیلوں سے کیسے کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹرزاہد شہاب احمد کا اس مناسبت سے کہنا ہے کہ ''اگرچہ انتہا پسند موجود ہیں اور وہ پاکستان میں اپنی آن لائن اور آف لائن سرگرمیوں کے ذریعے اپنا دائرہ اثر پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
مگرا ہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی نام نہاد کوشش کے لیے نوجوانوں کو ہی بھرتی کرنے کے خواہشمند ہیں۔ زندگی میں کسی مقصد کے متلاشی نوجوان کو اپنے ساتھ ملا لینا ان کے لیے بہت آسان ہے۔اگر ہم نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیوں مثلاً کھیلوں کی جانب راغب کرلیں تو ہم انہیں زندگی کے لیے ایک مثبت مقصد دے دیں گے۔ امن کی سرگرمیوں کے لیے کھیلوں کے فروغ کے توسط سے نہ صرف ہم نوجوانوں کو ان کی پسند کی تفریح کے مواقع فراہم کریں گے بلکہ شدت پسندانہ نظریات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے ان میں زیادہ آگاہی پیداکریں گے''۔ پاکستان میں کھیل برائے ترقی اور امن کی چند مثالیں دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ''سابقہ فاٹا میں کھیلوں کا فروغ کھیلیں امن کے لیے سے منسلک ہے۔
حکومت اس کی اہمیت سے آگاہ ہے اور ملک کے نوجوانوں کے لیے اس قسم کی سرگرمیوں کو زیادہ فروغ دینے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ اب تک گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کو اس مقصد کے لیے کسی حد تک استعمال کیا گیا ہے۔ ہمیںابھی انتظا ر کرنا ہو گا یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا مقامی لوگ اس سہولت کو مختلف نوعیت کے ٹورنامنٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ نہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ بلوچستان میں مختلف کھیلوں کے ٹورنامنٹس کے انعقاد کے لیے اس اسٹیڈیم کو استعمال کیا جائے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں کئی ایسی تنظیمیں ہیں جو کہ امن کے لیے کھیلوں کو فروغ دے رہی ہیں ۔
مثال کے طور پر کراچی میں لیاری کا علاقہ''۔ پاکستان میں ماضی میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے کی بندش اور ملک کے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متاثرہ علاقوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں محدود ہونے کے کیا معاشرتی اور معاشی اثرات مرتب ہوئے؟ اس سوال کے جواب میںڈاکٹرزاہدشہاب کہتے ہیں کہ '' دہشت گردی نے پاکستان میںمعاشرتی سطح پر کیسے کھیلوں کو متاثر کیا ہے اس کا حقیقی اندازہ لگانا مشکل ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستانی مجموعی طور پر بین الاقوامی سطح پر ملک کے تاثر سے مایوس ہیں اور اس بات سے بھی کہ کیسے ملک کو دہشت گردی کے لیے مورد الزام ٹھہرایاگیا ہے۔ اگرچہ پاکستانی عوام دبئی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی جانب سے کھیلے جانے والے میچ ٹی وی سکرین پر دیکھ سکتے ہیں مگر اپنے ملک میں لائیو کرکٹ میچز کو دیکھنے کا اپنا ہی حسن ہے ۔یہ لائیو کرکٹ میچز دیکھنے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔جب نوجوان سٹیڈیم میں جا کر کرکٹ دیکھتے ہیں تو وہ بھی مستقبل میں ایک اچھا کھلاڑی بننے کے لیے ترغیب پاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ایک دہائی سے پاکستانی نوجوانوں کو یہ مو قع نہیں ملا کیونکہ پاکستان میں کوئی بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہورہی تھی۔ اسی طرح دیگر کھیلوں کا بھی یہی حال رہا ہے۔کھیل سماجی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ یہ تما م سما جی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیاں فراہم کرتے ہیں اور سماجی ہم آہنگی کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں''۔ کوویڈ19کے کھیل اور سماجی ترقی پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اِ ن اثرات کا کیسے مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ''کوویڈ COVID-19 کی وجہ سے تقریبا تمام قسم کی سماجی سرگرمیوں پر منفی اثرات پڑے ہیں اور کھیل بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اس عالمی وبا نے پاکستان میں کیسے بین الاقوامی ٹورنامنٹس کو متاثر کیا ہے۔ مثلاً جب سری لنکا اور سائوتھ افریقہ کی ٹیموں نے پاکستان کادورہ کیا۔ کچھ کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے اس سال پاکستان سپر لیگ جاری نہ رہ سکی۔ اس کا پاکستان کرکٹ بورڈ اور فرنچائز کو لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس وبا کے اثرات جاری رہیں گے یہاں تک کہ ممالک اپنے شہریوں کی ویکسینیشن کا کوئی انتظام کریں''۔
ڈاکٹرزاہد شہاب احمد نوجوانوں کے کھیلوں میں شرکت کرنے کو ملک میں امن کے قیام اور ترقی کے حصول کے لیے بنیادی ضرورت قرار دیتے ہیں اور ایسا اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس وقت یو ایس سینسز بیورو کے انترنیشنل ڈیٹا بیس کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان کی 19 فیصد آبادی اقوام متحدہ کی نوجوان آبادی کی متعین کردہ عمر کے گروپ15 سے24 سال پر مشتمل ہے۔ جبکہ ملک کی 27 فیصد آبادی دولتِ مشترکہ کی نوجوان آبادی کی متعین کردہ عمر کے گروپ15 سے29سال پر مشتمل ہے۔
پاکستان میں سرکاری طور پر دولتِ مشترکہ کی واضع کردہ ایج گروپ پرمبنی آبادی کو نوجوان آبادی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وطنِ عزیز کی21 فیصد آبادی عالمی ادارہ صحت کی تعریف کردہ نوبالغوں (Adolescent) جن کی عمر10 سے19 سال پر مشتمل ہے ۔ جبکہ پاکستان کی 12 فیصد آبادی 5 سے9 سال کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔یہ آبادی کے وہ گروپس ہیں جن کاجسمانی اور نفسیاتی طور پر صحت مند اور مثبت سوچ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ فارعہ رحمان، جو سینئیر کلینیکل سائیکالوجسٹ اور اسپورٹس تھراپیسٹ ہیں کھیل کے انسانی نفسیات پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں کہ''کہا جاتا ہے کہ باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی آپ کو جسمانی طور پر فٹ رکھتی ہے اور فٹ رہنے میں مدد دیتی ہے۔ جب بھی آپ کوئی جسمانی سرگرمی کرتے ہیں۔ متحرک ہوتے ہیں فوری طور پر آپ کوایک ذہنی اور جسمانی تبدیلی محسوس ہوگئی کیونکہ آپ کا دماغ ایسا کیمیکل جاری کرتا ہے جس سے آپ کو ذیادہ خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔
ایک منظم کھیل بچوں،بڑوں ہر عمر کے افراد کو نفسیاتی، معاشرتی، معاشی اور سماجی فائدہ دیتا ہے۔ جب آپ تفریحی جسمانی سرگرمی یا ٹیم کے ساتھ کھیل میں خود کو مشغول کرلیتے ہیں اُس وقت آپ زندگی کے تنائو اور چیلنجوں کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ تنائوکی یہ عارضی مہلت منفی خیالات کی زد میں آنے سے بچنے میں آپ کی مدد کرسکتی ہے۔جب آپ کھیلتے ہیں یا ورزش کرتے ہیں جسم ایک کیمیکل پیدا کرتا ہے۔جس سے اینڈورفنز کہتے ہیں۔جو کے ایک قدرتی/فطرتی موڈ بوسڑ ہے۔
جو ہماری تنائواور افسردگی کی کفیت سے لڑتا ہے۔ جسکی وجہ سے آپ کا موڈ غیر محسوس طریقے سے بہتر ہو جا تا ہے۔کھیل اور ورزش جلدی نیند آنے میں مدد کرتا ہے۔جب جسمانی طور پر تھکے ہوئے ہوتے ہیں۔اور متحرک ہونے کی وجہ سے کیمیکل آپ کے ذہن سے منفی خیالات کو متوازن کر دیتا ہے۔اس وجہ سے آپ کو گہری نیند آتی ہے۔رات کو پوری نیند لینے کی وجہ سے صبح آپ کا مزاج پہلے سے بہتر ہوجاتا ہے اور دماغی افعال میں بہتری آتی ہے۔کھیل آپ کی شخصیت میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے۔اسی نظم و ضبط کی وجہ سے آپ کے ذہن کی فعالیت بہتر ہو جاتی ہے۔جب کھیل کی وجہ سے آپ کی زندگی میں ترتیب آتی ہے اسی ترتیب کی وجہ سے آپ ہر ٹاسک کو آپ نے صحیح ٹائم پر کرنے کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔اس طرح آپ کی یاداشت کی کمی کی شکایت دور ہوجاتی ہے۔
کوئی بھی جسمانی اور ذہنی کھیل کھیلنے سے آپ کے اندر ایک خوبصورت تبدیلی کا احساس پیدا ہوتا ہے وہ تبدیلی آپ کے اندر خوداعتمادی کا بڑھنا ہے۔ جب آپ کھیلتے ہوئے بغیر کسی منصوبہ بندی صورتحال کے مطابق فوری عمل کرتے تو اس سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تہذیب، شخصی تمدن بڑھے تو ہمیں معاشرے کی ہر سطح ہر کھیل کے رجحان کو بڑھانا ہوگا۔اگر کھیل کے رجحان کو علاقائی اور طبقاتی اور ملکی و غیرملکی سطح پر پھیلایا جائے اس سے ہر طبقے،علاقے اور ملکی و غیرملکی سطح پر لوگوں کے درمیان سماجی تعلق کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر دیکھا گیا ہے کہ کھیل صرف ایک تفریح ہی نہیں ہے بلکہ یہ ذہنی و جسمانی صحت کو بہتر کرتا ہے، سماجی تعلق بڑھاتا ہے وہیں یہ معاشی طور پر کسی بھی علاقے اور ملک کی ترقی میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ معاشی طور پر ایک انڈسڑی کی حیثیت اختیار کر چکاہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس سے منسلک ہیں جیسے کھیل کے سامان کی تیاری، رسائی،کھیل کے تربیتی کیمپ اور گرائونڈ، کلب وغیرہ۔ اگر ہم کھیل کی صنعت کو فروغ دیتے ہیں اس سے معاشرے میں بدامنی اور بے سکونی کو دور کیا جا سکتا ہے''۔
کسی بھی معاشرے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی صورت میں موجود خوف کو کھیلوں کی مدد سے زائل کیا جاسکتا ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے کوئٹہ میں آل پاکستان چیف منسٹر بلوچستان گولڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ کا انعقاد ہے۔گوادر میں کرکٹ اسٹیڈیم کا قیام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حکمت عملی کو نچلی سطح یعنی یونین کونسل کی سطح تک لیکر جایا جائے تاکہ ہمارے نوجوان جو پہلے ہی کھیلوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اُنھیں کھیلوں سے جوڑا جائے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق ''پاکستان کے85 اضلاع کے 161 پرائمری اسکولوں میں سے95 میں کھیل کا کوئی میدان نہ تھا۔ یعنی زیرجائزہ اسکولوں کا 59 فیصد کھیل کے میدان سے محروم تھے''۔ اس کے علاوہ دستیاب کھیل کے میدانوں کی دیکھ بھال کی صورتحال بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
کہیں ناجائز قبضے ہوچکے ہیں۔ کہیں کھیل کے میدان تعمیراتی سازوسامان کا اسٹور بن چکے ہیں۔ لاہور میںآج بھی کئی ایک ایسے کھیل کے میدان موجود ہیں جہاں شہر کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا سامان رکھا ہے لیکن ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد بھی وہ میدان اپنی پہلی حالت میں فعال نا ہوسکے۔ اسکے علاوہ ہمارے تیزی سے پھیلتے شہروں میں بننے والی ہائوسنگ اسکیموں میں رولز کے تحت پارک بنانا تو ضروری ہے لیکن شاید کھیل کا میدان بنانا ضروری نہیں۔اور جو پارکس بنائے جاتے ہیں اُس میں یہ بورڈ اکثر آویزاں ملتا ہے کہ پارک میں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کھیلنا منع ہے۔تو ایسی صورت میں بچے اور نوجوان کہاں کھیلیں۔ گلی محلوں میں بھاگتی دوڑتی موٹر ویکلز نے ان کو بھی کھیل کے حوالے سے غیر محفوظ کردیا ہے۔
کھیل رواداری ، احترام اور ٹیم ورک جیسی اقدار کا مترادف ہے اسی لیے دہشت گرد گروہ کھیلوں کے مقابلوں کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔آج کی خاص طور پر غیر مستحکم دنیا میں کھیل نوجوان اور کمزور لوگوں کے لئے ایک اہم پناہ گاہ ہیں۔ کھیل دنیا بھر کے بچوں اور نوبالغوںکو بہتر ، زیادہ روادار اور قابل احترام شہری بننے کے لئے نفسیاتی اور جذباتی طاقت کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔ کھیل انہیں دہشت گردی کے پروپیگنڈے کے خلاف مزاحمت کے لیے صحیحtools سے آراستہ کرتا ہے۔
کھیل دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہونے والی خوف اور ڈر کی کیفیتوں سے نکلنے میں مددگار ہوتے ہیں یہ کہنا ہے ڈاکٹر امجد طفیل، ایسوسی ایٹ پروفیسر آف سائیکالوجی، گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ ،لاہور کا وہ کہتے ہیں کہ''دیکھیں جب ہم انسانی زندگی ،انسانی نفسیات پر غور کرتے ہیں توکچھ بنیادی عناصر اس کی فطرت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اس میں ایک چیز aggression ہے اسے جارحیت کہا جاتا ہے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہaggression کوئی منفی بات ہے ۔لیکن یہ ایسی چیز نہیں ہے aggression کے انسانی زندگی کے ساتھ مثبت اور منفی دونوں طرح کے معاملات ہیں۔ مثبت معاملات یہ ہیں کہ یہ بنیادی طور پر انسان کو زندہ رکھنے کے لیے جو درکارقوت ہے وہ مہیا کرتی ہے۔ مشکل اور خطرے میں انسان کو اپنی زندگی کے دفاع کا موقع دیتا ہے۔
تو اس کو آپ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ اور اس طرح کی جو معاشرے میں منفی سرگرمیاں ہیں ان کے ساتھ جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں ۔تو کھیل جو ہیں وہ بنیادی طور پر آپ کی اسaggression کی فطرت کوچینالائز کرتے ہیں ۔اُس کو ایک segregate way میں ایک ملائم انداز میں اس کے اظہار کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا یقین اس بات پر ہے کہ جبلتوں کو دبا دینے سے یا ان کو بالکل آزاد چھوڑ دینے سے انسانی زندگی بہتر نہیں ہوتی۔ بلکہ اُن کو تہذیب کے دائرے میں رہ کر اظہار کا موقع دینے سے انسانی زندگی میں، معاشرتی زندگی میں، اجتماعی زندگی میں بہتری آتی ہے۔ تو یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو کھیل ہیں جب کسی معاشرے میں ان کو رواج دیا جاتا ہے لوگوں کو ان کھیلوں کی طرف لایا جاتا ہے تو اُس سے معاشرے میں ڈر خوف کی فضا کم ہوتی ہے جبلتیں اپنے اظہار کا ایک مہذب طریقہ سیکھتی ہیں۔
انسان اپنے جذبوں کو کنٹرول کرنا سیکھتا ہے کہ اُس نے صورتحال پر کس طرح اپنے بہترین ردعمل کا اظہار کرنا ہے ۔یوں ہماری معاشرتی زندگی میں کھیل بہت بنیادی نوعیت کا کردار ادا کرتے ہیں''۔معاشرے کی ہر سطح پر کھیلوں کے ہونے سے معاشرتی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ اس بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ '' ماہرین نفسیات نے کھیلوں کے انسان کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات پر جو اثرات ہیں ان کو بہت گہرے انداز میں سمجھنے کے لیے بہت سی تحقیقات کی ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ کھیل بچوں میں خاص طور پر زندگی کے بارے میں ،معاشرت کے بارے میں ،میل جول کے بارے میں بہت سے بنیادیconceptsکو واضح کرتا ہے۔ انسان جس معاشرے میں رہتا ہے وہ وہاں لوگوں کے ساتھ compete بھی کرتا ہے اورcooperate بھی کرتا ہے ۔
یہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں کہ جب آپcompetition میں آئیں گے تو آپ competitor سےcooperateکیسے کریں گے ۔لیکن انسانی زندگی ان دونوں کے توازن سے بنتی ہے تو کھیل جو ہے وہ حقیقی زندگی میں ہمیں مواقع دیتے ہیں ہم اپنی حقیقی زندگی میںباقاعدہ ایک سیچویشن میں آ کے حالات سے سیکھتے ہیں۔ کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بھی کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں۔ تو یہ میرے خیال میں بہت اہم عنصر ہے کھیل کا جو ہماری معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں کھیل بہت کم ہیں اور ان کو بہتmarginalize کر دیا گیا ہے ۔خاص طور پر ہم نے اپنی تعلیمی زندگی سے تو کھیلوں کو بالکل باہر نکال کر پھینکا ہوا ہے۔ کبھی سال میں ایک باربعض اسکول اور کالجز اپنے بچوں کے لئے کھیلوں کے مقابلے کرا لیتے ہیں اس سے کھیل انسانی زندگی کا حصہ نہیں بنتا ۔کھیلوں کو ہمیں اپنی تعلیمی سرگرمیاں کا مستقل حصہ بنانا ہوگا اس سے فرد انفرادی سطح پربھی صحت مند ہوگا اور اُس کے ساتھ ساتھ وہ دوسرے افراد کے ساتھ مل کر اچھی سماجی زندگی گزارنے کی بھی تربیت حاصل کرے گا''۔
اسی طرح یونیورسٹی آف لاہور کے اسکول آف انٹیگریٹڈسوشل سائنسز کی استاد اور ریسرچ ایسوسی ایٹ، عائشہ جہاں لودھی کھیل کو معاشروں کی تعمیر اور اِن کے پھلنے پھولنے کا منبع قرار دیتی ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ''کھیل تقریبا ً ہر معاشرے میں ایک بہت بڑا معاشرتی ادارہ ہیں کیونکہ یہ کسی بھی ادارے میں پائی جانے والی خصوصیات کو یکجا کرتے ہیں ۔
جدید معاشروں میں کھیل کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ کھیل ایک مسلسل معاشرتی تجربہ ہے ۔ جس میں بنی نوع انسان اپنی صلاحیتوں کو وسعت دیتے ہوئے انسانی سرمائے کو جمع اور بہتر بناتا ہے۔ اسی لیے البرٹ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ '' کھیل تحقیق کی اعلیٰ ترین شکل ہیں''۔کھیلوں کا نظام صحت ، سائنس ، ثقافت ، پرورش اور تعلیم کے نظام وںسے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ کسی بھی جدید معاشرے کے سماجی ،معاشی اور سیاسی عمل پر کھیلوں کے نمایاں اثرات پڑتے ہیں۔
اس کے علاوہ کھیل صنف کے کردار اور اُن کی معاشرتی و معاشی امور کے بارے میں ہماری تفہیم پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔در حقیقت معاشرے میں کھیل اتنے اہم ہیں کہ اقوام متحدہ نے انھیں ایک انسانی حق قرار دیا ہے۔یہ انسانیت ، ترقی اور امن کی کوششوں میں ایک کم لاگت اور اعلیٰ اثرات کے حامل آلے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔کھیل چاہے وہ تفریحی ، پیشہ ورانہ یا تعلیمی مقاصد کے لئے ہوں محض تندرستی یا فتح سے متعلق نہیں ہوتے ہیں۔بلکہ یہ ایک خوشحال اور صحت مند معاشرے کا لازمی جزو ہے ۔ بچے جب کھیل رہے ہوتے ہیں تو وہ ہارنا بھی سیکھتے ہیں۔ بچوں کو ناامیدی سے دور ہونے اور ناخوشگوار تجربات سے نمٹنے کا درس اور لچکدار بننے کی تربیت ملتی ہے۔
کھیل کھیلنا بچوں کو اپنے جذبات پر قابو پانے میں اور مثبت انداز میں منفی جذبات کو چینل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سے بچوں کو صبرپیدا کرنے اورسمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔ٹیم میں کھیلنا بچوں کو بہت سی معاشرتی صلاحیتوں کو اُبھارنے میں مدد دیتا ہے جن کی انہیں زندگی بھرضرورت ہوتی ہے۔ یہ انہیں تعاون کرنے،کم خودغرض رہنے اور دوسرے بچوں کو سننے کی تعلیم دیتا ہے۔اس سے بچوں کو اپنے تعلق کا احساس اور نئے دوست بنانے میں مدد ملتی ہے اور وہ اسکول سے باہر اپنا سماجی حلقہ بناتے ہیں۔ٹیم میں کھیلنے کا ایک اہم حصہ ڈسپلن کو قبول کرنا ہے۔ کھیل کھیلنے کا مطلب ہے کہ بچوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قواعد پر عمل کریں ۔فیصلے قبول کریں ۔جسمانی پہلوؤں کے مقابلے میں کھیل کسی بھی فرد کی یوں بھی بہت زیادہ مدد کرتا ہے کہ یہ کردار تیار کرتا ہے۔اسٹریٹجک سوچ تیار کرتا اور بناتا ہے۔ تجزیاتی سوچ سکھاتا ہے۔قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرتا ہے ۔اہداف کا تعین کرنا سیکھاتا ہے اور خطرہ مول لینے کی ترغیب دیتا ہے ۔
کھیل بنیادی طور پر معاشرے میں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی تقسیم کو ختم کرنے اور گروہوں کے مابین مشترکہ ثقافت اور رفاقت کا احساس پیدا کرنے کا کام کرتا ہے ۔ یہ سماجی میل جول بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ معاشی بہتری لانے کا باعث بنتے ہیں۔ صحت پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرتے ہیں جس سے دیگر سہولیات کی انفرادی اور حکومتی سطح پر فراہمی کے لیے معاشی وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔ معاشرے کو صدمات کی کیفیت سے نکالنے کے لیے کھیلوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔کھیل سے اجتماعی شعور پیدا ہوتا ہے جس سے معاشرتی مسائل کے حل اور فیصلہ سازی کرنے میں مدد ملتی ہے''۔
ملک میں کھیلوں کے زوال پذیر معیار اور سہولیات کے فقدان نے ہر ذی شعور کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ متعلقہ ادارے اصلاحی اقدامات کریںاور ایسی تبدیلیاں لائیں جن سے کھیلوں کے اداروں کی باضابطہ کارکردگی کی راہ میں حائل خامیوں اور رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ ملک میں پاکستان اسپورٹس بورڈ، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، نیشنل اسپورٹس فیڈریشنز،صو بائی ا سپورٹس بورڈز، ایسوسی ایشنز، محکمے اور تعلیمی ادارے کھیلوں کی تنظیم کرنے والی اہم ایجنسیاں ہیں ۔تحصیل اور ضلع پر کھیل محض رواج ہیں اور بعض اوقات یہ بالکل نہیں ہوتے۔
ذاتی پسند اور ناپسند، اقراباپروری اور سفارش نے ہماری کھیلوں کو اس نے نہج تک پہنچا دیا ہے کہ ہم اب سوائے اپنے ماضی پر نازاں ہونے کے کچھ نہیں۔ صوبوں میں کھیلوں کی سہولیات بھی اعلیٰ معیار کی نہیں۔ ملک میں مناسب سہولیات والے بہت کم اسٹیڈیم یا جمنازیم موجود ہیں ۔فیڈریشن کے اپنے حلقے ہیں ان پر با اثر عہدیداروں کی بالادستی ہے جو کئی سالوں سے فیڈریشن میں عہدوں پر فائز ہیں ۔محکموں نے کھلاڑیوں کی بھرتی اور ملک میں کھیلوں کی روایت کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو قابلِ ستائش ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ جن تعلیمی اداروں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کھیلوں کی نرسری ہیں۔ اُنہوں نے ہنرمند کھلاڑی پیدا کرنے کا کام بند کر دیا ہے ۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ہم امن کے قیام اور ترقی کے حصول کی خواہش کو کیسے شرمندہ تعبیر کرسکیں گے۔ اس کے لیے ہمیں کھیلوں کے گرتے ہوئے معیار اور سہولیات کے فقدان کا حل تلاش کرنے کے لئے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔