نیا پاکستان بھی کَھپّے
ڈان کو پکڑنا اور زرداری صاحب کی سیاست کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے
کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اس پر کہنے والے کہتے ہیں،''بالکل غلط، سیاست کا تو سینہ ہی نہیں ہوتا'' رہے ہم، تو ہم ان کہنے والوں کے کہنے کو غلط کہتے ہیں۔
بھئی سیاست کا سینہ ہوتا ہے، اس کا ثبوت بہت سے سیاست دانوں کی ''چوری اور سینہ زوری'' ہے، دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر سیاست کا سینہ نہ ہوتا تو سیاست داں ایک دوسرے کی چھاتی پر مونگ کیسے دل رہے ہوتے؟ اور تیسری بات، سیاست سینہ رکھتی ہے تبھی تو اہل سیاست سینہ سپر ہوجاتے ہیں، یہ الگ بات کہ پھر ''سینہ سپر'' کو سر پر پاؤں رکھ بھاگنا پڑتا یا پرواز کرنی پڑتی ہے۔ آخری بات یہ کہ سینہ ہوتا ہے تبھی تو مشکل وقت میں مخالفین کو بھی ''آ سینے نال لگ جا ٹھا کرکے'' کہتے ہوئے سینے سے لگالیا جاتا ہے، جیسے آصف زرداری صاحب نے ن لیگ کو لگایا، اور یوں لگایا کہ لگے ہاتھوں نوازلیگ والوں نے جئے بھٹو کا نعرہ اور گڑھی خدا بخش کا چکر بھی لگا ڈالا۔
سینے سے لگانے کا مطلب یہ نہیں کہ مستقل لگائے رکھیں، جب اچانک پسینے کی بدبو آئے تو دور ہونا پڑتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ بدبو قوت شامہ محسوس کرے، بعض اوقات سینہ بہ سینہ اطلاع ملتی ہے کہ ''میاں! جسے سینے سے لگائے ہو اس سے بدبو اٹھ رہی ہو، فوری دور ہوجاؤ، ورنہ اٹھتی بدبو کی طرح کسی مقدمے میں اٹھ گئے تو سینہ کوبی کرتے رہ جائے گے۔''
تو بھیا بات یہ ہوئی کہ سیاست میں سینے سے لگانا، گلے لگانا اور پھر یوں ہی لگے لگے چونا لگانا عام سی بات ہے۔ ایسی باتوں کو دل سے نہیں لگانا چاہیے۔ آصف زرداری صاحب یہی کرتے ہیں۔۔۔۔ہمارا مطلب ہے کوئی بات دل سے نہیں لگاتے۔ خیر آصف زرداری کی تو بات ہی الگ ہے، جس طرح ان کی سیاست دیگر سیاست دانوں سے جُدا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو، باقی سیاست دانوں اور زرداری صاحب میں بہت فرق ہے۔ اہم ترین فرق یہ کہ اُن کا سیاست سے رشتہ ہے، یہ ''رشتے'' کی وجہ سے سیاست میں آئے اور موت کے فرشتے کی وجہ سے سیاست پر چھائے۔
ڈان کو پکڑنا اور زرداری صاحب کی سیاست کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ''ڈان'' نے سیاست نہیں کی، چناں چہ کہا نہیں جاسکتا کہ اس کا طرزسیاست سمجھا جاسکتا تھا یا نہیں، مگر آصف زرداری کو پکڑنا بہت آسان رہا ہے، البتہ پکڑے جانے کے باوجود انھوں نے کبھی پکڑائی نہیں دی۔
بھلا بتائیے، ہم آصف زرداری کا موازنہ ایک فلمی کردار سے کرنے بیٹھ گئے، دونوں کا کیا جوڑ، اُس نے جو کیا ڈائریکٹر کے کہنے پر کیا اور اِنھوں نے سب اپنی مرضی سے، ہاں کبھی کبھی ''ڈائریکٹر جنرل'' کے کہنے پر کچھ کرلیا تو اور بات ہے۔ ویسے اداکاری زرداری صاحب نے بھی کی ہے لیکن بچپن میں، بڑے ہوکر انھوں نے کسی فلم میں اداکاری نہیں کی، بس جہاں جب جو کردار ملا بہ خوبی نبھایا۔
کون نہیں جانتا کہ وہ اپنے کردار میں پوری طرح ڈوب جاتے ہیں، کبھی کبھی تو دوسروں کو بھی ڈبو دیتے ہیں، جیسے پہلے پیپلزپارٹی اور اب پی ڈی ایم، یقین نہ آئے تو مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھ لیں، جو پی ڈی ایم کی نَیّا پار لگانے کے آرزومند تھے مگر بیڑا غرق ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
اِدھر ہم بڑی حیرت سے مولانا اور آصف زرداری کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ بہ ظاہر تو دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں، لیکن دونوں کا اسلوبِ سیاست اتنا ملتا جلتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں مدرسے اور اسکول کے کم از کم یہ ''نتیجے'' ایک جیسے ہیں۔ خیر اس مماثلت پر حیران ہونے والی کیا بات ہے، ہمارے ہاں ''زر'' ہی کو ''فضل'' سمجھا جاتا ہے۔ زرداری اگرچہ کہیں سے بھی مولانا نہیں، لیکن دونوں شخصیات میں ''لانا'' قدرمشترک ہے۔ اسی صفت کے پیش نظر مولانا نے زرداری صاحب سے کہا،''ذرا استعفے لانا'' اب کیا مولانا کا خون کھولانا ضروری تھا، جواب میں ''پھر کسی اور وقت مولانا'' ہی کہہ دیا جاتا تو شاید فضل الرحمٰن مطمئن ہوجاتے، مگر جواباً ''نہ نہ نہ'' کہہ کر انھیں مایوس کردیا گیا۔
دراصل زرداری صاحب اور پاکستان پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے اس لیے استعفے نہیں دینا چاہتے کہ وہ ملک وقوم کی خدمت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔ کیوں جانے دیں، ہاتھ دکھانے کا موقع باربار تھوڑی ملتا ہے، واضح رہے کہ ہم کسی نجومی کو ہاتھ دکھانے کی بات نہیں کر رہے۔ یوں بھی ہمارے خیال میں زرداری صاحب نجومی کو ہاتھ دکھانے سے گریز کرتے ہوں گے۔
کیوں کہ دولت ہاتھ کا میل ہے اور ہاتھ دکھانے کے چکر میں یہ میل اتر کر نجومی کی ہتھیلی پر چڑھ سکتا ہے۔ اتنے میل کے باوجود ان کے ہاتھوں کی صفائی ایک اور ایسا کمال ہے جو ہمیں ان کا گرویدہ بنائے ہوئے ہے۔ وہ شاید قسمت کے ستاروں پر یقین بھی نہیں رکھتے، جو ستاروں کی چال سے زیادہ اچھی چال چلتا ہو اسے قسمت کے ستاروں پر یقین رکھنے یا نہ رکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔
استعفے کا مطالبہ کرنے والے اس حقیقت کو سمجھ نہ پائے کہ آصف زردی صاحب کا بنیادی مسئلہ اور ان کی سیاست کا محور بس ایک لفظ ہے ''کَھپّے (چاہیے)''، وہ جانتے ہیں کہ جو ملک کے سیاسی نظام میں مطلوبہ ومنظورِنظر لوگوں اور جماعتوں کو کھپاتے ہیں۔
انھیں مستعفی آصف زرداری اور پیپلزپارٹی نہ کھپے اور زرداری صاحب کو نہ کھپنا نہ کھپے۔ انھیں سب کچھ کھپے، پاکستان تو کھپے ہی تھا اب نیا پاکستان بھی کھپے۔ اسی لیے انھوں نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں صاف صاف کہہ دیا کہ پیپلزپارٹی کسی صورت میں اسمبلیوں کو نہیں چھوڑے گی۔ ہوسکتا ہے انھوں نے ساتھ یہ بھی کہا ہو،''چھوڑ بیٹھے اسمبلی کسی کے لیے، یہ مناسب نہیں آدمی کے لیے۔'' یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسمبلیاں نہ چھوڑنے کے اعلان کو اسمبلیوں کی اراضی اور عمارتوں سے متعلق کوئی ارادہ نہ سمجھا جائے۔
زرداری صاحب نے اس موقع پر ایک اور بات بھی کہی، جس پر ہمیں تعجب ہے۔ کہنے لگے۔
''میں جنگ کے لیے تیار ہوں مگر میرا ڈومیسائل مختلف ہے۔'' حضرت! جب آپ کے بچے زرداری سے یکایک بھٹو ہوسکتے ہیں تو ڈومیسائل تبدیل کرنے میں کیا قباحت ہے، جھٹ پٹ وہاں کا ڈومیسائل بنوالیں جہاں کی یہ دستاویز جنگ میں حائل نہ ہوسکے۔ اس ضمن میں وہ سندھ کے حکم رانوں سے طریقہ معلوم کرسکتے ہیں، جو کراچی کا ڈومیسائل جسے کھپے اسے ہاتھ کے ہاتھ بنا کر دے دیتے ہیں۔
بھئی سیاست کا سینہ ہوتا ہے، اس کا ثبوت بہت سے سیاست دانوں کی ''چوری اور سینہ زوری'' ہے، دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر سیاست کا سینہ نہ ہوتا تو سیاست داں ایک دوسرے کی چھاتی پر مونگ کیسے دل رہے ہوتے؟ اور تیسری بات، سیاست سینہ رکھتی ہے تبھی تو اہل سیاست سینہ سپر ہوجاتے ہیں، یہ الگ بات کہ پھر ''سینہ سپر'' کو سر پر پاؤں رکھ بھاگنا پڑتا یا پرواز کرنی پڑتی ہے۔ آخری بات یہ کہ سینہ ہوتا ہے تبھی تو مشکل وقت میں مخالفین کو بھی ''آ سینے نال لگ جا ٹھا کرکے'' کہتے ہوئے سینے سے لگالیا جاتا ہے، جیسے آصف زرداری صاحب نے ن لیگ کو لگایا، اور یوں لگایا کہ لگے ہاتھوں نوازلیگ والوں نے جئے بھٹو کا نعرہ اور گڑھی خدا بخش کا چکر بھی لگا ڈالا۔
سینے سے لگانے کا مطلب یہ نہیں کہ مستقل لگائے رکھیں، جب اچانک پسینے کی بدبو آئے تو دور ہونا پڑتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ بدبو قوت شامہ محسوس کرے، بعض اوقات سینہ بہ سینہ اطلاع ملتی ہے کہ ''میاں! جسے سینے سے لگائے ہو اس سے بدبو اٹھ رہی ہو، فوری دور ہوجاؤ، ورنہ اٹھتی بدبو کی طرح کسی مقدمے میں اٹھ گئے تو سینہ کوبی کرتے رہ جائے گے۔''
تو بھیا بات یہ ہوئی کہ سیاست میں سینے سے لگانا، گلے لگانا اور پھر یوں ہی لگے لگے چونا لگانا عام سی بات ہے۔ ایسی باتوں کو دل سے نہیں لگانا چاہیے۔ آصف زرداری صاحب یہی کرتے ہیں۔۔۔۔ہمارا مطلب ہے کوئی بات دل سے نہیں لگاتے۔ خیر آصف زرداری کی تو بات ہی الگ ہے، جس طرح ان کی سیاست دیگر سیاست دانوں سے جُدا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو، باقی سیاست دانوں اور زرداری صاحب میں بہت فرق ہے۔ اہم ترین فرق یہ کہ اُن کا سیاست سے رشتہ ہے، یہ ''رشتے'' کی وجہ سے سیاست میں آئے اور موت کے فرشتے کی وجہ سے سیاست پر چھائے۔
ڈان کو پکڑنا اور زرداری صاحب کی سیاست کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ''ڈان'' نے سیاست نہیں کی، چناں چہ کہا نہیں جاسکتا کہ اس کا طرزسیاست سمجھا جاسکتا تھا یا نہیں، مگر آصف زرداری کو پکڑنا بہت آسان رہا ہے، البتہ پکڑے جانے کے باوجود انھوں نے کبھی پکڑائی نہیں دی۔
بھلا بتائیے، ہم آصف زرداری کا موازنہ ایک فلمی کردار سے کرنے بیٹھ گئے، دونوں کا کیا جوڑ، اُس نے جو کیا ڈائریکٹر کے کہنے پر کیا اور اِنھوں نے سب اپنی مرضی سے، ہاں کبھی کبھی ''ڈائریکٹر جنرل'' کے کہنے پر کچھ کرلیا تو اور بات ہے۔ ویسے اداکاری زرداری صاحب نے بھی کی ہے لیکن بچپن میں، بڑے ہوکر انھوں نے کسی فلم میں اداکاری نہیں کی، بس جہاں جب جو کردار ملا بہ خوبی نبھایا۔
کون نہیں جانتا کہ وہ اپنے کردار میں پوری طرح ڈوب جاتے ہیں، کبھی کبھی تو دوسروں کو بھی ڈبو دیتے ہیں، جیسے پہلے پیپلزپارٹی اور اب پی ڈی ایم، یقین نہ آئے تو مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھ لیں، جو پی ڈی ایم کی نَیّا پار لگانے کے آرزومند تھے مگر بیڑا غرق ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
اِدھر ہم بڑی حیرت سے مولانا اور آصف زرداری کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ بہ ظاہر تو دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں، لیکن دونوں کا اسلوبِ سیاست اتنا ملتا جلتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں مدرسے اور اسکول کے کم از کم یہ ''نتیجے'' ایک جیسے ہیں۔ خیر اس مماثلت پر حیران ہونے والی کیا بات ہے، ہمارے ہاں ''زر'' ہی کو ''فضل'' سمجھا جاتا ہے۔ زرداری اگرچہ کہیں سے بھی مولانا نہیں، لیکن دونوں شخصیات میں ''لانا'' قدرمشترک ہے۔ اسی صفت کے پیش نظر مولانا نے زرداری صاحب سے کہا،''ذرا استعفے لانا'' اب کیا مولانا کا خون کھولانا ضروری تھا، جواب میں ''پھر کسی اور وقت مولانا'' ہی کہہ دیا جاتا تو شاید فضل الرحمٰن مطمئن ہوجاتے، مگر جواباً ''نہ نہ نہ'' کہہ کر انھیں مایوس کردیا گیا۔
دراصل زرداری صاحب اور پاکستان پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے اس لیے استعفے نہیں دینا چاہتے کہ وہ ملک وقوم کی خدمت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔ کیوں جانے دیں، ہاتھ دکھانے کا موقع باربار تھوڑی ملتا ہے، واضح رہے کہ ہم کسی نجومی کو ہاتھ دکھانے کی بات نہیں کر رہے۔ یوں بھی ہمارے خیال میں زرداری صاحب نجومی کو ہاتھ دکھانے سے گریز کرتے ہوں گے۔
کیوں کہ دولت ہاتھ کا میل ہے اور ہاتھ دکھانے کے چکر میں یہ میل اتر کر نجومی کی ہتھیلی پر چڑھ سکتا ہے۔ اتنے میل کے باوجود ان کے ہاتھوں کی صفائی ایک اور ایسا کمال ہے جو ہمیں ان کا گرویدہ بنائے ہوئے ہے۔ وہ شاید قسمت کے ستاروں پر یقین بھی نہیں رکھتے، جو ستاروں کی چال سے زیادہ اچھی چال چلتا ہو اسے قسمت کے ستاروں پر یقین رکھنے یا نہ رکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔
استعفے کا مطالبہ کرنے والے اس حقیقت کو سمجھ نہ پائے کہ آصف زردی صاحب کا بنیادی مسئلہ اور ان کی سیاست کا محور بس ایک لفظ ہے ''کَھپّے (چاہیے)''، وہ جانتے ہیں کہ جو ملک کے سیاسی نظام میں مطلوبہ ومنظورِنظر لوگوں اور جماعتوں کو کھپاتے ہیں۔
انھیں مستعفی آصف زرداری اور پیپلزپارٹی نہ کھپے اور زرداری صاحب کو نہ کھپنا نہ کھپے۔ انھیں سب کچھ کھپے، پاکستان تو کھپے ہی تھا اب نیا پاکستان بھی کھپے۔ اسی لیے انھوں نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں صاف صاف کہہ دیا کہ پیپلزپارٹی کسی صورت میں اسمبلیوں کو نہیں چھوڑے گی۔ ہوسکتا ہے انھوں نے ساتھ یہ بھی کہا ہو،''چھوڑ بیٹھے اسمبلی کسی کے لیے، یہ مناسب نہیں آدمی کے لیے۔'' یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسمبلیاں نہ چھوڑنے کے اعلان کو اسمبلیوں کی اراضی اور عمارتوں سے متعلق کوئی ارادہ نہ سمجھا جائے۔
زرداری صاحب نے اس موقع پر ایک اور بات بھی کہی، جس پر ہمیں تعجب ہے۔ کہنے لگے۔
''میں جنگ کے لیے تیار ہوں مگر میرا ڈومیسائل مختلف ہے۔'' حضرت! جب آپ کے بچے زرداری سے یکایک بھٹو ہوسکتے ہیں تو ڈومیسائل تبدیل کرنے میں کیا قباحت ہے، جھٹ پٹ وہاں کا ڈومیسائل بنوالیں جہاں کی یہ دستاویز جنگ میں حائل نہ ہوسکے۔ اس ضمن میں وہ سندھ کے حکم رانوں سے طریقہ معلوم کرسکتے ہیں، جو کراچی کا ڈومیسائل جسے کھپے اسے ہاتھ کے ہاتھ بنا کر دے دیتے ہیں۔