رکشہ اور جھاڑو
کچریوال نے مارچ 2013ء میں بجلی کی بڑھتی قیمت کیخلاف بھوک ہڑتال کردی اُس کے ساتھ صرف ایک ہفتہ میں 3 لاکھ لوگ شامل ہوگئے
سیاست ہمارے ملک کا مہنگا ترین اور خطرناک کھیل ہے۔ اس پُر خطر میدان میں ہر طرح کے کھلاڑی موجود ہیں۔ ہر جسامت، ہر قد کاٹھ، ہر زبان اور ہر ذہن کے کھلاڑی۔ اس میں کئی میچ پہلے ہی سے طے شدہ ہوتے ہیں اور کئی بار رومن گلیڈئیٹر (Gladiator) کی طرح دوسرے کو زندگی سے آزاد کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو میچ اتنا پیچیدہ اور مشکل ہو جاتا ہے کہ کھیلنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ایمپائر بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بھی بہت دلچسپ اور عجیب ہوتے ہیں۔ کئی بار معذور شخص کو بیس کلومیٹر کی دوڑ میں شامل کروا کر جتا دیتے ہیں تو کبھی سب سے اچھے دوڑنے والے کو ریس سے نکال دیا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سیاست میں دل نہیں ہوتا اور جذبات بھی نہیں ہوتے۔ میرا ناقص تجزیہ کہتا ہے کہ اُس کو بھر پور جذبے سے ہی جیتا جا سکتا ہے۔
اس سے زیادہ رحم دلانہ سلوک کیا ہو گا کہ مارنے والا بڑی تمیز اور ادب سے مقتل گاہ میں اپنے حریف سے پوچھتا ہے کہ وہ کیسے اس دنیا سے باعزت رخصت ہونا چاہتا ہے؟ کئی بار تو اس سے بھی زیادہ خلوص کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ سیاسی حریف کو عرض کی جاتی ہے کہ اپنی گردن خود ہی تن سے جدا کر کے ہمارے حوالے کر دے تا کہ ہر ایک کی عزت برقرار رہے؟ دراصل یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔ کس کو 99 سے صفر پر پہنچانا ہے، کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ لیکن اس کھیل میں نیچے گرنے والے کو چوٹ بہت آتی ہے۔ وہ بتا بھی نہیں سکتا کہ ضرب کیسے آئی ہے اور تکلیف کتنی ہے۔ بہر حال جو کچھ بھی ہو، کوئی بھی میدان میں ہو، اس میں ایک اصول قطعی طے شدہ ہے کہ اس مشکل کھیل کا میدان صرف ہمارے عام لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ہر چیز بدل سکتی ہے کھلاڑی اور ایمپائر بھی بدل سکتے ہیں۔ سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں سانپ کا رنگ اور لمبائی بدل سکتی ہے۔ سیڑھی تک بدل سکتی ہے مگر اس کا میدان نہیں بدلتا۔ اس میں استعمال صرف عام آدمی ہی ہوتا ہے۔ جس دن عام آدمی کو اس ظالمانہ کھیل کا شعور آ گیا اُس دن ہر چیز بدل جائے گی۔ کھلاڑی بھی اور شائد مدتوں سے بیٹھے ہوئے ایمپائر بھی؟ دہلی میں حالیہ سیاسی تبدیلی نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اروند کچریوال بالکل سادہ سا سرکاری ملازم تھا۔ وہ ہندوستان میں انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ (I.R.S) میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے 1991ء میں بھرتی ہوا تھا۔ تعلیم کے لحاظ سے وہ ایک مکینکل انجینئر تھا۔ ٹیکس کی نوکری میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق بہت کم افسروں کو ہوتا ہے۔ اروند نے تین سال کی چھٹی لی اور تعلیم حاصل کرنے لگا۔ اس کے ڈیپارٹمنٹ نے صرف اس بنیاد پر چھٹی دی تھی کہ وہ واپس آ کر کم از کم تین سال تک نوکری کرے گا۔ واپس آ کر وہ دہلی میں جائنٹ کمشنر لگ گیا۔ کسی نے بھی محسوس نہیں کیا کہ اروند مکمل تبدیل ہو چکا ہے۔ اُس نے محسوس کیا کہ تبدیلی بڑی چیزوں سے نہیں بلکہ انتہائی چھوٹی اور معمولی چیزوں سے آتی ہے۔ اس سوچ نے اُس شخص کو وہ اعتماد دیا جس نے اُس کے آنے والے زندگی کے سفر کو جوہری طور پر بالکل تبدیل کر دیا۔ دوران ملازمت اُس نے 2006ء میں لوگوں کی تکالیف کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ریسرچ فاؤنڈیشن قائم کی۔ اُس کے وسائل بہت محدود تھے۔ ملازمین کی تنخواہ اور دیگر اخراجات کے لیے اُس نے ایک فنڈ قائم کیا۔ اُس کے پاس رامون میگا ایوارڈ سے کچھ پیسے پڑے تھے۔ اُس نے اپنے تمام پیسے اس فاؤنڈیشن کی تنخواہوں کی نذر کر دیے۔
دوران ملازمت اس نے محسوس کیا کہ لوگوں کو انکم ٹیکس کے گوشوارے بھرنے میں بہت دشواری آتی ہے۔ اُس کو یہ بھی پتہ چلا کہ دہلی میں عام لوگوں کے لیے بجلی اور راشن کارڈ کے مسائل بہت سنجیدہ ہیں۔ کچریوال نے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں ہی ایک تحریک شروع کی اور عام لوگوں کی آسانی کے لیے اُس نے مفت مدد کرنی شروع کر دی۔2008ء میں اس نے دہلی میں بوگس راشن کارڈ کا ایک سکینڈل پکڑا۔ لیکن اس کی محنت پر کسی نے بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ نوکری چھوڑنا چاہتا تھا۔ مگر رکاوٹ وہ معاہدہ تھا کہ وہ اپنی اعلی تعلیم کے بعد کم از کم تین سال تک سرکاری نوکری میں رہے گا۔ اُس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ حکومت کو دے کر نوکری سے استعفیٰ دے سکتا۔ لیکن اُس نے 2011ء میں اپنے قریبی دوستوں سے قرضہ لیا اور نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت کی نظر میں وہ ایک غیر سنجیدہ افسر تھا۔ گورنمنٹ کی قید سے آزاد ہو کر اس نوجوان نے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے۔
کچریوال نے محسوس کیا کہ دہلی کی لوکل گورنمنٹ، انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اور بجلی کے بورڈ میں بے انتہا کرپشن ہے۔ اس نے (Right to Information) کا سہارا لے کر اس کرپشن کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ صیح باتیں کر رہا ہے۔ پھر اس کے ملاقات انا ہزارے سے ہو گئی۔ دونوں نے مل کر کرپشن کے خلاف تحریک چلا دی۔ اس تحریک کے خوف سے حکومت نے ''لوکپال بل'' کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ عام لوگوں کے لیے بہت بڑی فتح تھی۔
2011-12ء میں پورے ملک میں انا ہزارے اور اروند کچریوال کے چرچے شروع ہو گئے۔ ان دونوں کے خیالات کروڑوں لوگوں پر اثر انداز ہونے لگے۔ لیکن ان دونوں میں ایک ذہنی تناؤ آ گیا۔ ہزارے ایک عمر رسیدہ ضعیف شخص تھا۔ اُس کی دانست میں کرپشن کے خلاف اس کی مہم کو مکمل غیر سیاسی رہنا چاہیے مگر اروند کا خیال بالکل مختلف تھا۔ اس کے مطابق جب تک وہ سیاست میں نہیں آتے اس کے نیک خیالوں پر عملدرامد نہیں ہو سکتا۔ طاقت کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
26 نومبر 2012ء یعنی صرف ایک سال دو مہینے پہلے ارودند نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس کا نام بہت مختلف اور دلچسپ تھا۔ "عام آدمی پارٹی" جی ہاں عام آدمی پارٹی۔ سیاسی جماعتوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ اس پارٹی نے لوگوں کے بالکل عام اور چھوٹے مسائل کو اپنا منشور بنا ڈالا۔ سیاست دان اور سرکاری ملازم کے درمیان کرپشن کا ان دیکھا معاہدہ لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ اس پارٹی نے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو بھی بے نقاب کیا۔ انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ بجلی بنانے والی کمپنیوں اور حکومت میں اتحاد ہے۔ اس لوٹ مار میں سرکاری ملازم بھی ان کے ہم نوالہ ہیں۔ اس پارٹی نے یہ بھی محسوس کیا کہ عورتوں کے خلاف جرائم کی سزا بہت کم ہے چنانچہ ان قوانین کو سخت بنانے کے لیے بھی آواز اٹھائی گئی۔ اس پارٹی نے دہلی کی سیاست میں زلزلہ برپا کر دیا۔ کانگریس جو دہلی میں ایک دہائی سے حکومت میں موجود تھی، مکمل خوفزدہ ہو گئی۔
کچر یوال نے مارچ 2013ء میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت اور بلوں کے خلاف بھوک ہڑتال کر دی۔ اُس کے ساتھ صرف ایک ہفتہ میں تین لاکھ لوگ شامل ہو گئے۔ جون2013ء میں اس نے رکشہ ڈرائیوروں کے ساتھ مل کر ان کے حقوق کے لیے جلسے اور جلوس کرنے شروع کر دیے۔28 دسمبر 2013ء کو دہلی میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے۔ عام آدمی پارٹی نے پرانے سیاسی فنکاروں کو شکست فاش دے دی۔ کچر یوال نے دہلی کی خاتون وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ کو پچیس ہزار ووٹوں سے ہرا دیا۔ عام آدمیوں کی اس پارٹی نے 70 سیٹوں میں سے 28 نشستیں حاصل کر لیں۔ یہ جیت سیاسی گرگوں کی سوچ سے بھی باہر تھی۔ آج سے چند روز پہلے کچریوال دہلی کا سب سے کم عمر وزیر اعلیٰ بن گیا۔ اس نے اپنا حلف رام لیلا اسٹیڈیم میں 50 ہزار لوگوں کے سامنے اٹھایا۔ حلف لینے کے لیے وہ مٹرو ٹرین پر مسافروں کے ساتھ سفر کر کے پہنچا۔ اُس کی کابینہ میں چھ وزیر ہیں۔ ایک وزیر رکشہ میں حلف اٹھانے کے لیے آیا۔
وزیر اعلیٰ نے سرکاری مراعات لینے سے انکار کر دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کا خوبصورت سرکاری گھر چھوڑ کر یہ عام سے فلیٹ میں چلا گیا ہے۔ اس نے اب تک حیرت انگیز فیصلے کیے ہیں۔ بجلی کی قیمت کو غریب آدمی کے لیے پچاس فیصد کم کر دیا گیا ہے۔ اُس نے فیصلہ کیا ہے کہ دہلی کی تین بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا حکومتی آڈٹ ہو گا۔ دہلی میں لوگوں کے لیے پانی کی فراہمی بھی مفت کر دی گئی ہے۔ عام آدمی پارٹی کا انتخابی نشان "جھاڑو" ہے۔ کچریوال نے دہلی کی روائیتی اور خاندانی سیاست کو اپنے "جھاڑو" سے مکمل صاف کر دیا ہے۔
کیا یہ معجزہ ہمارے ملک میں ہو سکتا ہے؟ کیا یہاں اقتدار عام آدمی کے پاس جا سکتا ہے۔ اگر واقعی چلا گیا تو خاندانی سیاست دانوں اور روائیتی بیورو کریٹس کا کیا حال ہو گا؟ یہ نہ ہو کہ وزیر اعلیٰ کے استقبال کے لیے اس کا اسٹاف ائیر پورٹ پر موجود ہو اور پتہ چلے کہ وہ تو بس میں شہر پہنچ چکا ہے؟ یہ نہ ہو کہ وزیر اعلیٰ کسی بھی دربار ہال میں حلف لینے کے بجائے ایک چوک میں رکشہ ڈرائیوروں کے سامنے حلف لے لے؟ کہیں ہر چیز پر جھاڑو نہ پِھر جائے؟
اس سے زیادہ رحم دلانہ سلوک کیا ہو گا کہ مارنے والا بڑی تمیز اور ادب سے مقتل گاہ میں اپنے حریف سے پوچھتا ہے کہ وہ کیسے اس دنیا سے باعزت رخصت ہونا چاہتا ہے؟ کئی بار تو اس سے بھی زیادہ خلوص کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ سیاسی حریف کو عرض کی جاتی ہے کہ اپنی گردن خود ہی تن سے جدا کر کے ہمارے حوالے کر دے تا کہ ہر ایک کی عزت برقرار رہے؟ دراصل یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔ کس کو 99 سے صفر پر پہنچانا ہے، کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ لیکن اس کھیل میں نیچے گرنے والے کو چوٹ بہت آتی ہے۔ وہ بتا بھی نہیں سکتا کہ ضرب کیسے آئی ہے اور تکلیف کتنی ہے۔ بہر حال جو کچھ بھی ہو، کوئی بھی میدان میں ہو، اس میں ایک اصول قطعی طے شدہ ہے کہ اس مشکل کھیل کا میدان صرف ہمارے عام لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ہر چیز بدل سکتی ہے کھلاڑی اور ایمپائر بھی بدل سکتے ہیں۔ سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں سانپ کا رنگ اور لمبائی بدل سکتی ہے۔ سیڑھی تک بدل سکتی ہے مگر اس کا میدان نہیں بدلتا۔ اس میں استعمال صرف عام آدمی ہی ہوتا ہے۔ جس دن عام آدمی کو اس ظالمانہ کھیل کا شعور آ گیا اُس دن ہر چیز بدل جائے گی۔ کھلاڑی بھی اور شائد مدتوں سے بیٹھے ہوئے ایمپائر بھی؟ دہلی میں حالیہ سیاسی تبدیلی نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اروند کچریوال بالکل سادہ سا سرکاری ملازم تھا۔ وہ ہندوستان میں انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ (I.R.S) میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے 1991ء میں بھرتی ہوا تھا۔ تعلیم کے لحاظ سے وہ ایک مکینکل انجینئر تھا۔ ٹیکس کی نوکری میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق بہت کم افسروں کو ہوتا ہے۔ اروند نے تین سال کی چھٹی لی اور تعلیم حاصل کرنے لگا۔ اس کے ڈیپارٹمنٹ نے صرف اس بنیاد پر چھٹی دی تھی کہ وہ واپس آ کر کم از کم تین سال تک نوکری کرے گا۔ واپس آ کر وہ دہلی میں جائنٹ کمشنر لگ گیا۔ کسی نے بھی محسوس نہیں کیا کہ اروند مکمل تبدیل ہو چکا ہے۔ اُس نے محسوس کیا کہ تبدیلی بڑی چیزوں سے نہیں بلکہ انتہائی چھوٹی اور معمولی چیزوں سے آتی ہے۔ اس سوچ نے اُس شخص کو وہ اعتماد دیا جس نے اُس کے آنے والے زندگی کے سفر کو جوہری طور پر بالکل تبدیل کر دیا۔ دوران ملازمت اُس نے 2006ء میں لوگوں کی تکالیف کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ریسرچ فاؤنڈیشن قائم کی۔ اُس کے وسائل بہت محدود تھے۔ ملازمین کی تنخواہ اور دیگر اخراجات کے لیے اُس نے ایک فنڈ قائم کیا۔ اُس کے پاس رامون میگا ایوارڈ سے کچھ پیسے پڑے تھے۔ اُس نے اپنے تمام پیسے اس فاؤنڈیشن کی تنخواہوں کی نذر کر دیے۔
دوران ملازمت اس نے محسوس کیا کہ لوگوں کو انکم ٹیکس کے گوشوارے بھرنے میں بہت دشواری آتی ہے۔ اُس کو یہ بھی پتہ چلا کہ دہلی میں عام لوگوں کے لیے بجلی اور راشن کارڈ کے مسائل بہت سنجیدہ ہیں۔ کچریوال نے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں ہی ایک تحریک شروع کی اور عام لوگوں کی آسانی کے لیے اُس نے مفت مدد کرنی شروع کر دی۔2008ء میں اس نے دہلی میں بوگس راشن کارڈ کا ایک سکینڈل پکڑا۔ لیکن اس کی محنت پر کسی نے بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ نوکری چھوڑنا چاہتا تھا۔ مگر رکاوٹ وہ معاہدہ تھا کہ وہ اپنی اعلی تعلیم کے بعد کم از کم تین سال تک سرکاری نوکری میں رہے گا۔ اُس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ حکومت کو دے کر نوکری سے استعفیٰ دے سکتا۔ لیکن اُس نے 2011ء میں اپنے قریبی دوستوں سے قرضہ لیا اور نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت کی نظر میں وہ ایک غیر سنجیدہ افسر تھا۔ گورنمنٹ کی قید سے آزاد ہو کر اس نوجوان نے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے۔
کچریوال نے محسوس کیا کہ دہلی کی لوکل گورنمنٹ، انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اور بجلی کے بورڈ میں بے انتہا کرپشن ہے۔ اس نے (Right to Information) کا سہارا لے کر اس کرپشن کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ صیح باتیں کر رہا ہے۔ پھر اس کے ملاقات انا ہزارے سے ہو گئی۔ دونوں نے مل کر کرپشن کے خلاف تحریک چلا دی۔ اس تحریک کے خوف سے حکومت نے ''لوکپال بل'' کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ عام لوگوں کے لیے بہت بڑی فتح تھی۔
2011-12ء میں پورے ملک میں انا ہزارے اور اروند کچریوال کے چرچے شروع ہو گئے۔ ان دونوں کے خیالات کروڑوں لوگوں پر اثر انداز ہونے لگے۔ لیکن ان دونوں میں ایک ذہنی تناؤ آ گیا۔ ہزارے ایک عمر رسیدہ ضعیف شخص تھا۔ اُس کی دانست میں کرپشن کے خلاف اس کی مہم کو مکمل غیر سیاسی رہنا چاہیے مگر اروند کا خیال بالکل مختلف تھا۔ اس کے مطابق جب تک وہ سیاست میں نہیں آتے اس کے نیک خیالوں پر عملدرامد نہیں ہو سکتا۔ طاقت کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
26 نومبر 2012ء یعنی صرف ایک سال دو مہینے پہلے ارودند نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس کا نام بہت مختلف اور دلچسپ تھا۔ "عام آدمی پارٹی" جی ہاں عام آدمی پارٹی۔ سیاسی جماعتوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ اس پارٹی نے لوگوں کے بالکل عام اور چھوٹے مسائل کو اپنا منشور بنا ڈالا۔ سیاست دان اور سرکاری ملازم کے درمیان کرپشن کا ان دیکھا معاہدہ لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ اس پارٹی نے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو بھی بے نقاب کیا۔ انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ بجلی بنانے والی کمپنیوں اور حکومت میں اتحاد ہے۔ اس لوٹ مار میں سرکاری ملازم بھی ان کے ہم نوالہ ہیں۔ اس پارٹی نے یہ بھی محسوس کیا کہ عورتوں کے خلاف جرائم کی سزا بہت کم ہے چنانچہ ان قوانین کو سخت بنانے کے لیے بھی آواز اٹھائی گئی۔ اس پارٹی نے دہلی کی سیاست میں زلزلہ برپا کر دیا۔ کانگریس جو دہلی میں ایک دہائی سے حکومت میں موجود تھی، مکمل خوفزدہ ہو گئی۔
کچر یوال نے مارچ 2013ء میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت اور بلوں کے خلاف بھوک ہڑتال کر دی۔ اُس کے ساتھ صرف ایک ہفتہ میں تین لاکھ لوگ شامل ہو گئے۔ جون2013ء میں اس نے رکشہ ڈرائیوروں کے ساتھ مل کر ان کے حقوق کے لیے جلسے اور جلوس کرنے شروع کر دیے۔28 دسمبر 2013ء کو دہلی میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے۔ عام آدمی پارٹی نے پرانے سیاسی فنکاروں کو شکست فاش دے دی۔ کچر یوال نے دہلی کی خاتون وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ کو پچیس ہزار ووٹوں سے ہرا دیا۔ عام آدمیوں کی اس پارٹی نے 70 سیٹوں میں سے 28 نشستیں حاصل کر لیں۔ یہ جیت سیاسی گرگوں کی سوچ سے بھی باہر تھی۔ آج سے چند روز پہلے کچریوال دہلی کا سب سے کم عمر وزیر اعلیٰ بن گیا۔ اس نے اپنا حلف رام لیلا اسٹیڈیم میں 50 ہزار لوگوں کے سامنے اٹھایا۔ حلف لینے کے لیے وہ مٹرو ٹرین پر مسافروں کے ساتھ سفر کر کے پہنچا۔ اُس کی کابینہ میں چھ وزیر ہیں۔ ایک وزیر رکشہ میں حلف اٹھانے کے لیے آیا۔
وزیر اعلیٰ نے سرکاری مراعات لینے سے انکار کر دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کا خوبصورت سرکاری گھر چھوڑ کر یہ عام سے فلیٹ میں چلا گیا ہے۔ اس نے اب تک حیرت انگیز فیصلے کیے ہیں۔ بجلی کی قیمت کو غریب آدمی کے لیے پچاس فیصد کم کر دیا گیا ہے۔ اُس نے فیصلہ کیا ہے کہ دہلی کی تین بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا حکومتی آڈٹ ہو گا۔ دہلی میں لوگوں کے لیے پانی کی فراہمی بھی مفت کر دی گئی ہے۔ عام آدمی پارٹی کا انتخابی نشان "جھاڑو" ہے۔ کچریوال نے دہلی کی روائیتی اور خاندانی سیاست کو اپنے "جھاڑو" سے مکمل صاف کر دیا ہے۔
کیا یہ معجزہ ہمارے ملک میں ہو سکتا ہے؟ کیا یہاں اقتدار عام آدمی کے پاس جا سکتا ہے۔ اگر واقعی چلا گیا تو خاندانی سیاست دانوں اور روائیتی بیورو کریٹس کا کیا حال ہو گا؟ یہ نہ ہو کہ وزیر اعلیٰ کے استقبال کے لیے اس کا اسٹاف ائیر پورٹ پر موجود ہو اور پتہ چلے کہ وہ تو بس میں شہر پہنچ چکا ہے؟ یہ نہ ہو کہ وزیر اعلیٰ کسی بھی دربار ہال میں حلف لینے کے بجائے ایک چوک میں رکشہ ڈرائیوروں کے سامنے حلف لے لے؟ کہیں ہر چیز پر جھاڑو نہ پِھر جائے؟