منتخب حکومت کی آئینی حیثیت
سابق جنرل کے خلاف مقدمہ کو روکنے کے لیے جو کچھ گزشتہ ایک ہفتے میں ہوا وہ حقائق جاننے کے لیے کافی ہے
''جنرل کیانی، جسٹس افتخار چوہدری، پرویز الٰہی اور مجھ پر بھی مقدمہ چلائیں۔ مشرف کا ٹرائل 12 اکتوبر سے ہونا چاہیے۔ لفظ ٹریزن Treason کا ترجمہ غداری نہیں ہے۔'' مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی مخالفت میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل مشرف پر مقدمہ چلانے والوں نے جنرل مشرف سے حلف لیا ہے۔ مسلم لیگ کے ایک اور رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے اس موقع پر کہا کہ سابق آرمی چیف کو غدار کہنا درست نہیں ہے۔ مشرف حکومت کو مستحکم کرنے والے ان دو کرداروں نے اس وقت اپنے خیالات کا اظہار کیا جب سابق صدر فوج کی نگرانی میں امراض قلب کے فوجی اسپتال میں داخل ہیں اور یوں وہ اب تک سنگین عوامی مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ اب چوہدری شجاعت حسین آرٹیکل 6 میں ترمیم کے خواہاں ہیں۔ خصوصی عدالت کے سامنے ان کی طبی رپورٹس پیش ہوچکی ہیں جن میں کسی خطرناک مرض کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ اسلام آباد کے دورے کے اختتام پر واضح کرچکے ہیں کہ ان کے دورے کا جنرل مشرف کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر پھر بھی بعض مبصرین کہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف جلد علاج کے لیے بیرون ملک چلے جائیں گے۔
اب تو امریکی اخبارات نے بھی پیشگوئی کردی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کی اس دلیل میں بڑا وزن ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو ملک کے وزیراعظم کو معزول کیا گیا۔ ان کے سابق جنرلوں نے اس وقت وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرکے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کو حراست میں لیا، جب جنرل پرویز مشرف پی آئی اے کے طیارے میں سری لنکا سے کراچی آرہے تھے۔ سپریم کورٹ نے مسلم لیگی رہنما ظفر علی شاہ کی پٹیشن کو مسترد کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو آئینی تحفظ فراہم کیا اور جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا۔ 2002 میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی نے جنرل مشرف کے اقدامات کی توسیع کردی۔ اس کارخیر میں متحدہ مجلس عمل کے اراکین نے بھی حصہ لیا تھا۔ یوں نہ صرف جنرل مشرف، ان کے ساتھی جنرل، سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان (جنھوں نے ظفر علی شاہ کی پٹیشن کو مسترد کرکے جنرل مشرف کو حکومت کرنے کا قانونی حق دیا) اور 2002 کی اسمبلی کے وہ تمام اراکین شامل ہیں جنہوں نے عبوری آئینی حکم (P.C.O) کی توثیق کی اور 1973 کے آئین کو معطل کرنے کے جرم میں ملوث ہے۔
جنرل مشرف کی حکومت کو سول حکومت میں تبدیلی کے عمل کی حمایت کرنے والے چوہدری برادران کے ان دلائل میں کہیں بھی جنرل مشرف کے آئین توڑنے کے الزام سے بری نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں ابھی تک فوجی جنرلوں پر آئین کو پامال کرنے کے الزام میں مقدمہ چلانے کی روایت قائم نہیں ہوئی ہے۔ اس جرم میں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف براہ راست ملوث ہیں۔ جنرل یحییٰ خان پر تو ملک توڑنے اور ناقص حکمت عملی کے تحت 90 ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈال کر بھارت کے حوالے کرنے کے بھی الزامات تھے مگر کسی بھی سویلین حکومت میں ان میں سے کسی جنرل کے خلاف مقدمہ چلانے کی جرات نہیں ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار میں آئے تو وہ ملک کے مقبول ترین رہنما تھے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمن کی قیادت میں اعلیٰ سطح کا کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے مہینوں تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ تیار کی، مگر یہ رپورٹ عسکری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی بناء پر منظرعام پر نہیں آسکی۔ یوں حمود الرحمن کمیشن کی تحقیقات کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹنے کے ذمے دار عناصر کے خلاف کارروائی ہونی تھی وہ کبھی بھی نہ ہوسکی۔
بھٹو حکومت کے دور میں جنرل ایوب خان کا انتقال ہوا۔ ایوب خان نے 1956 کا آئین توڑ کر ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا تھا اور پھر اپنا آئین تیار کیا تھا، جس میں اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کے برسر اقتدار آنے کا راستہ بھی بند ہوا تھا۔ ایوب خان کی اس پالیسی کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے عوام مرکز سے بدظن ہونا شروع ہوگئے تھے۔ مگر بھٹو حکومت جنرل ایوب خان کے خلاف مقدمہ چلانے، ایوب حکومت کے اقتدار میں آنے کے نقصانات نئی نسل تک پہنچانے کے بارے میں نہیں سوچ سکی اور جب ایوب خان کا انتقال ہوا تو بھٹو صاحب کی مرضی کے خلاف اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل ٹکا خان نے ایوب خان کو گارڈ آف آنر کے ساتھ تدفین کے لیے فوج کا ایک چاق و چوبند دستہ پہنچ گیا۔ جنرل یحییٰ خان اس لیے خوش قسمت تھے کہ سنگین الزامات کے باوجود انھیں کسی عدالت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ان کا انتقال ایک اور فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں ہوا۔ یوں وہ بھی فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے۔ اسی طرح جب محمد خان جونیجو کی منتخب حکومت کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران یہ محسوس ہوا کہ عدالت جونیجو حکومت کو بحال کردے گی تو فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ نے اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کو ہدایت کی کہ جونیجو حکومت بحال نہ کی جائے۔ یہ خبر اخبارات میں شایع ہوئی مگر جنرل اسلم بیگ کے خلاف توہین عدالت کی کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی۔
گزشتہ حکومت میں سپریم کورٹ نے مہران بینک اسکینڈل مقدمے کے 20 سال التوا کے بعد سماعت کی اور جنرل اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کو غیر قانونی رقم کی تقسیم کا ذمے دار قرار دیا مگر سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود جنرل اسلم بیگ کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ اس لیے ملک میں آئین توڑنے والے فوج کے سابق سربراہوں کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کی روایت نہیں تھی۔ اس بنا پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جنرل مشرف کے خلاف مقدہ چلانے کی ہدایت کی تو انھوں نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کرنے اور سپریم کورٹ کے ججوں کو معزول کر کے الزامات پر مبنی چارج شپ تیار کرنے کی ہدایت کی۔ جسٹس افتخار چوہدری کی اس ہدایت کے پس پردہ جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدام کی سپریم کورٹ کی اس بینچ سے توثیق بھی تھی۔ اس بینچ میں خود جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری بھی شامل تھے مگر مسلم لیگی حکومت کے سامنے 1958 سے شروع ہونے والی تاریخ تھی جس میں کسی فوجی آمر کی سرزنش نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے صرف 12 اکتوبر 1999 سے 3 نومبر 2007 تک کے مرکزی کردار جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے الزام میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کی یہ دلیل حقائق کے خلاف ہے کہ لفظ ٹریزن کا اردو ترجمہ غداری نہیں ہے۔
انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے والی تمام ڈکشنریوں میں یہی ترجمہ درج ہے۔ پھر صرف ایک سابق جنرل کے خلاف مقدمہ کو روکنے کے لیے جو کچھ گزشتہ ایک ہفتے میں ہوا وہ حقائق جاننے کے لیے کافی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بہت سے مقدمات تھے مگر وہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے، جیسے جیسے اس مقدمے کی تاریخ قریب آتی گئی ان کی قیام گاہ کے نزدیک سڑک سے روزانہ دستی بم برآمد ہونے لگے۔ ان کی سیکیورٹی کی ذمے داری سے پولیس کو علیحدہ رکھا گیا تھا۔ یوں محض جنرل پرویز مشرف کی اچانک بیماری اور ان کی فوجی اسپتال میں منتقلی کے واقعات بہت سی کہانیوں کو واضح کررہے ہیں۔ اصولی طور پر تو چوہدری شجاعت کی بات درست ہے کہ آئین توڑنے میں ملوث تمام جنرلوں، اس اقدام کی توثیق کرنے والے ججوں اور سیاستدانوں کے خلاف بھی مقدمہ چلنا چاہیے مگر جب ایک فرد کے خلاف مقدمہ نہیں چل رہا تو ان سارے فریقوں کے خلاف تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اب صورتحال انتہائی خطرناک موڑ پر ہے۔ منتخب حکومت نے آئین توڑنے کے الزام کا ریفرنس خصوصی عدالت کو پیش کردیا ہے۔ اب اگر عدالت سے ہٹ کر مشرف کو رہا کیا گیا تو منتخب حکومت آئینی حیثیت کھو بیٹھے گی۔ اب تو ہر صورت اس مقدمے کا منطقی نتیجہ برآمد ہونا چاہیے مگر معروضی حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت عدالت سے علامتی سزا کی استدعا کرے، یوں اس معاملے کو نمٹایا جائے۔
اب تو امریکی اخبارات نے بھی پیشگوئی کردی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کی اس دلیل میں بڑا وزن ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو ملک کے وزیراعظم کو معزول کیا گیا۔ ان کے سابق جنرلوں نے اس وقت وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرکے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کو حراست میں لیا، جب جنرل پرویز مشرف پی آئی اے کے طیارے میں سری لنکا سے کراچی آرہے تھے۔ سپریم کورٹ نے مسلم لیگی رہنما ظفر علی شاہ کی پٹیشن کو مسترد کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو آئینی تحفظ فراہم کیا اور جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا۔ 2002 میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی نے جنرل مشرف کے اقدامات کی توسیع کردی۔ اس کارخیر میں متحدہ مجلس عمل کے اراکین نے بھی حصہ لیا تھا۔ یوں نہ صرف جنرل مشرف، ان کے ساتھی جنرل، سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان (جنھوں نے ظفر علی شاہ کی پٹیشن کو مسترد کرکے جنرل مشرف کو حکومت کرنے کا قانونی حق دیا) اور 2002 کی اسمبلی کے وہ تمام اراکین شامل ہیں جنہوں نے عبوری آئینی حکم (P.C.O) کی توثیق کی اور 1973 کے آئین کو معطل کرنے کے جرم میں ملوث ہے۔
جنرل مشرف کی حکومت کو سول حکومت میں تبدیلی کے عمل کی حمایت کرنے والے چوہدری برادران کے ان دلائل میں کہیں بھی جنرل مشرف کے آئین توڑنے کے الزام سے بری نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں ابھی تک فوجی جنرلوں پر آئین کو پامال کرنے کے الزام میں مقدمہ چلانے کی روایت قائم نہیں ہوئی ہے۔ اس جرم میں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف براہ راست ملوث ہیں۔ جنرل یحییٰ خان پر تو ملک توڑنے اور ناقص حکمت عملی کے تحت 90 ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈال کر بھارت کے حوالے کرنے کے بھی الزامات تھے مگر کسی بھی سویلین حکومت میں ان میں سے کسی جنرل کے خلاف مقدمہ چلانے کی جرات نہیں ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار میں آئے تو وہ ملک کے مقبول ترین رہنما تھے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمن کی قیادت میں اعلیٰ سطح کا کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے مہینوں تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ تیار کی، مگر یہ رپورٹ عسکری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی بناء پر منظرعام پر نہیں آسکی۔ یوں حمود الرحمن کمیشن کی تحقیقات کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹنے کے ذمے دار عناصر کے خلاف کارروائی ہونی تھی وہ کبھی بھی نہ ہوسکی۔
بھٹو حکومت کے دور میں جنرل ایوب خان کا انتقال ہوا۔ ایوب خان نے 1956 کا آئین توڑ کر ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا تھا اور پھر اپنا آئین تیار کیا تھا، جس میں اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کے برسر اقتدار آنے کا راستہ بھی بند ہوا تھا۔ ایوب خان کی اس پالیسی کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے عوام مرکز سے بدظن ہونا شروع ہوگئے تھے۔ مگر بھٹو حکومت جنرل ایوب خان کے خلاف مقدمہ چلانے، ایوب حکومت کے اقتدار میں آنے کے نقصانات نئی نسل تک پہنچانے کے بارے میں نہیں سوچ سکی اور جب ایوب خان کا انتقال ہوا تو بھٹو صاحب کی مرضی کے خلاف اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل ٹکا خان نے ایوب خان کو گارڈ آف آنر کے ساتھ تدفین کے لیے فوج کا ایک چاق و چوبند دستہ پہنچ گیا۔ جنرل یحییٰ خان اس لیے خوش قسمت تھے کہ سنگین الزامات کے باوجود انھیں کسی عدالت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ان کا انتقال ایک اور فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں ہوا۔ یوں وہ بھی فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے۔ اسی طرح جب محمد خان جونیجو کی منتخب حکومت کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران یہ محسوس ہوا کہ عدالت جونیجو حکومت کو بحال کردے گی تو فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ نے اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کو ہدایت کی کہ جونیجو حکومت بحال نہ کی جائے۔ یہ خبر اخبارات میں شایع ہوئی مگر جنرل اسلم بیگ کے خلاف توہین عدالت کی کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی۔
گزشتہ حکومت میں سپریم کورٹ نے مہران بینک اسکینڈل مقدمے کے 20 سال التوا کے بعد سماعت کی اور جنرل اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کو غیر قانونی رقم کی تقسیم کا ذمے دار قرار دیا مگر سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود جنرل اسلم بیگ کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ اس لیے ملک میں آئین توڑنے والے فوج کے سابق سربراہوں کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کی روایت نہیں تھی۔ اس بنا پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جنرل مشرف کے خلاف مقدہ چلانے کی ہدایت کی تو انھوں نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کرنے اور سپریم کورٹ کے ججوں کو معزول کر کے الزامات پر مبنی چارج شپ تیار کرنے کی ہدایت کی۔ جسٹس افتخار چوہدری کی اس ہدایت کے پس پردہ جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدام کی سپریم کورٹ کی اس بینچ سے توثیق بھی تھی۔ اس بینچ میں خود جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری بھی شامل تھے مگر مسلم لیگی حکومت کے سامنے 1958 سے شروع ہونے والی تاریخ تھی جس میں کسی فوجی آمر کی سرزنش نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے صرف 12 اکتوبر 1999 سے 3 نومبر 2007 تک کے مرکزی کردار جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے الزام میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کی یہ دلیل حقائق کے خلاف ہے کہ لفظ ٹریزن کا اردو ترجمہ غداری نہیں ہے۔
انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے والی تمام ڈکشنریوں میں یہی ترجمہ درج ہے۔ پھر صرف ایک سابق جنرل کے خلاف مقدمہ کو روکنے کے لیے جو کچھ گزشتہ ایک ہفتے میں ہوا وہ حقائق جاننے کے لیے کافی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بہت سے مقدمات تھے مگر وہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے، جیسے جیسے اس مقدمے کی تاریخ قریب آتی گئی ان کی قیام گاہ کے نزدیک سڑک سے روزانہ دستی بم برآمد ہونے لگے۔ ان کی سیکیورٹی کی ذمے داری سے پولیس کو علیحدہ رکھا گیا تھا۔ یوں محض جنرل پرویز مشرف کی اچانک بیماری اور ان کی فوجی اسپتال میں منتقلی کے واقعات بہت سی کہانیوں کو واضح کررہے ہیں۔ اصولی طور پر تو چوہدری شجاعت کی بات درست ہے کہ آئین توڑنے میں ملوث تمام جنرلوں، اس اقدام کی توثیق کرنے والے ججوں اور سیاستدانوں کے خلاف بھی مقدمہ چلنا چاہیے مگر جب ایک فرد کے خلاف مقدمہ نہیں چل رہا تو ان سارے فریقوں کے خلاف تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اب صورتحال انتہائی خطرناک موڑ پر ہے۔ منتخب حکومت نے آئین توڑنے کے الزام کا ریفرنس خصوصی عدالت کو پیش کردیا ہے۔ اب اگر عدالت سے ہٹ کر مشرف کو رہا کیا گیا تو منتخب حکومت آئینی حیثیت کھو بیٹھے گی۔ اب تو ہر صورت اس مقدمے کا منطقی نتیجہ برآمد ہونا چاہیے مگر معروضی حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت عدالت سے علامتی سزا کی استدعا کرے، یوں اس معاملے کو نمٹایا جائے۔