گجرات قدیم تاریخی اور خوبصورت شہر

مغلیہ دور میں مغل بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ گجرات ہی تھا

مغلیہ دور میں مغل بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ گجرات ہی تھا

فوجی جوانوں میں شہید راجہ عزیز بھٹی، میجر شبیر شہید ، میجر اکرم شہید ، سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ، عالم لوہار ، عارف لوہار ، سیاستدانوں میں چوہدری ظہور الٰہی، چوہدری فضل الٰہی، سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین ، سابق ڈپٹی وزیر اعظم سربراہ مسلم لیگ (ق)، چوہدری پرویز الٰہی ، چوہدری مختار احمد، قمرالزمان کائرہ، کا تعلق بھی ضلع گجرات سے ہے۔ ہزاروں سالہ قدیم تاریخ کے حامل صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے بارے میں ایسے حقائق جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔

دریائے جہلم، دریائے ستلج کے درمیان واقع نہایت خوبصورت ضلع گجرات ہے ، اس کا مجموعی رقبہ تین ہزار ایک سو ترانوے کلومیٹر ہے۔ اس کی آبادی 2756000 (ستائیس لاکھ چھپن ہزار) نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کی چار تحصیلیں ہیں، کھاریاں، گجرات، سرائے عالمگیر اور جلال پور جٹاں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ گوجر، میر، آرائیں، جٹ اور وڑائچ ہیں۔

اس ضلع کے مشرق میں گرداس پور خالصتان ، شمال مشرق میں جموں، شمال میں بھمبر، جہلم، مغرب میں منڈی بہاؤالدین، جنوب مشرق میں سیالکوٹ واقع ہے۔ اس مشہور شہر سے شیرشاہ سوری کی بنوائی ہوئی طویل جرنیلی سڑک (گرانٹ روڈ) گزرتی ہے۔ اس کے جنوب سے دریائے چناب شمال سے دریائے جہلم گزرتا ہے ، گجرات دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔ آس پاس کے قریب شہروں میں وزیرآباد ، گوجرانوالہ ، ڈسکہ ، لالہ موسیٰ ، جہلم ،کوٹلہ ، منڈی بہاؤالدین اور آزاد کشمیر شامل ہیں۔ علاوہ ازیں سیکڑوں دیہاتوں میں گھرا ہوا ہے جہاں سے لوگ کام کاج کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں۔

460 قبل مسیح میں ایک راجہ بچن پال نے اس کی بنیاد رکھی بعد میں سیالکوٹ کی رانی گوجراں نے اس علاقے کو فتح کیا اور اس کا نام '' گوجر نگر '' رکھا بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ نام ''گجرات'' میں تبدیل ہو گیا۔ تہہ مونگ مشہور جگہ بھی گجرات میں ہے جہاں خونریز لڑائی سکندر اور راجہ پورس کے درمیان ہوئی۔ 1580 میں مغل بادشاہ اکبر کا تعمیر کردہ قلعہ اسی ضلع میں موجود ہے۔

ضلع گجرات کے اکثر لوگ کاشتکاری کرتے ہیں یہاں کی زمین زرخیز ہے زیادہ ترگندم ، جو ، مکئی ، گنا اور چاول کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ 1900میں برطانوی سامراج نے علاقے کے محکماتی نظام کی بنیاد رکھی۔

مغلیہ دور میں مغل بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ گجرات ہی تھا، شہنشاہ جہانگیر کا انتقال کشمیر سے واپسی پر راستے میں ہی ہو گیا۔ ریاستی بدامنی سے بچنے کے لیے انتقال کی خبرکو چھپایا گیا اس کے پیٹ سے آلائش نکال کر گجرات میں دفن کردی گئیں، جہاں ہر سال شاہ جہانگیر کے نام سے میلہ لگتا ہے۔ فرنگیوں اور سکھوں کے درمیان لڑائی اسی ضلع میں ہوئی جس میں جڑانوالہ اورگجرات کی لڑائی شامل ہے۔ گجرات کی لڑائی جیتنے کے بعد فرنگیوں نے 22 فروری 1849 کو پنجاب میں اپنی جیت کا اعلان کیا۔ کئی تاریخی قدیمی عمارات اور باقیات کھنڈرات کی شکل میں گجرات کے آس پاس موجود ہیں۔


گجرات کے قریبی قصبوں میں شادی وال، کرلاکلاں، گونجان، کوٹلہ، گوشا والا، جلال پور جٹاں، کورالی اور گھٹاں شامل ہیں۔ گجرات بجلی کے پنکھوں ، فرنیچر ، برتن سازی اور جوتوں کی صنعت میں اہم مقام رکھتا ہے ضلع گجرات کا برآمدات میں بڑا نام ہے۔

پاکستان میں استعمال ہونے والے 80 سے زائد پنکھے گجرات کے بنے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں گجرات پوری دنیا کو پنکھے برآمد کرتا ہے مسجد نبوی ، سعودی عریبیہ میں استعمال ہونے والے پنکھے بھی ضلع گجرات پاکستان سے فراہم کیے گئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکا کے کسی بھی شہر میں جائیں وہاں گجرات کے لوگ مل جاتے ہیں۔ پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ بھجوانے میں گجرات کے لوگوں کا اہم کردار ہے۔

گجرات میں نہایت ہی اعلیٰ قسم کا فرنیچر تیار کیا جاتا ہے اس قدر خوبصورت ، مضبوط ، دیدہ زیب فرنیچر میں نے گجرات میں تیارکردہ فرنیچر کے علاوہ کہیں اور نہیں دیکھا، اس کے علاوہ مٹی کے ظروف نہایت دلکش، دل آفرین، ہنرمندی کی مثال گجرات کی تاریخ کا مرقع ہیں۔ صدیوں سے فرنیچر پکے شیشم کی لکڑی والا اور مٹی کے ظروف بنائے جا رہے ہیں۔ گجرات کی طرح ان کی بھی قدیمی تاریخ ہے اور جدید دور میں پنکھوں کی صنعت نے عروج حاصل کیا۔ جیسا میں نے عرض کیا پاکستان کے دیگر شہروں کے علاوہ ملک سے باہر بھی ان پنکھوں کی مانگ ہے۔

گجرات کی چند مشہور پنکھا ساز کمپنیاں آج بھی نہایت معیاری مضبوط پنکھے تیار کر رہی ہیں ان کے پنکھے دو سال قبل آرڈر پر بک کرانے ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے اس قدر مانگ ہے وہ کمپنیاں چوبیس گھنٹے پنکھا سازی میں مصروف رہتی ہیں لیکن مانگ پوری نہیں کرپاتیں جس کی وجہ یہی ہے دو سال پہلے آرڈر بک کرایا جائے۔ فرنیچر اور پنکھوں کی مشرق وسطیٰ سے مانگ بڑھتی جا رہی ہے، یہ ملک کی ترقی و خوشحالی کا بڑا سبب ہے۔

گجرات شہر 18 یونین کونسل پر مشتمل ہے یہاں موسم معتدل ہے ، متعدد تعلیمی ادارے ہیں جن میں یونیورسٹی آف گجرات، گورنمنٹ زمیندار کالج، گجرات کالج آف کامرس، سوئیڈش انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سمیت متعدد اسکول و کالج ہیں۔ دینی مدارس بھی ہیں جہاں طالب علم دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

مسجد پاک بگاہ ایک سنگ مر مر کی عمارت ہی نہیں بلکہ فن تعمیر، فن خطاطی، فن سنگ تراشی، قیمتی پتھروں کی جڑائی، اسلامی نظریاتی پس منظر اور روحانی تقدس کا حسین مرقع ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مسجد کی تعمیر میں مذہب اور فن تاریخ اور روحانیت کا امتزاج نظر آتا ہے۔ گجرات بائی پاس سے 30 کلومیٹر دور ایک گاؤں کیراں والا سعیداں میں واقع ہے۔

آنکھوں کے ڈاکٹر فرحت حفیظ نے نہایت عقیدت و جذبہ ایمانی کے ساتھ اس مسجد کی بنیاد رکھی، مجھے بتایا کہ الحاج ڈاکٹر فرحت حبیب کو خواب میں عظیم شخصیت کی زیارت ہوئی تھی اس لیے اس جگہ کا نام پاک بگاہ رکھا جب کہ ایک بگاہ چار کنال کو کہتے ہیں۔ مسجد کا اندرونی ہال میں امام کے خطبے کی جگہ سنگ مر مر کے اندر سیاہ پٹی لگائی گئی ہے محراب اس میں مختلف طریقوں سے قرآن کی آیات کندہ ہیں۔ یاقوت، مرجان، قیمتی پتھر آویزاں ہیں۔ گنبد کے اندرونی حصے میں آیات لکھی گئی ہیں۔ پتھر نہایت محنت، جفاکشی، مہارت کے ساتھ تراشے گئے ہیں۔
Load Next Story