ستم بالائے ستم
یعنی بجائے اس کے کہ مہنگائی اور کرپشن کا خاتمہ کیا جاتا حفیظ شیخ سے وزارت خزانہ کا قلم دان واپس لے لیا گیا
یعنی بجائے اس کے کہ اپنی اصلاح کی جاتی، مہنگائی اور کرپشن کا خاتمہ کیا جاتا حفیظ شیخ سے وزارت خزانہ کا قلم دان واپس لے لیا گیا ، اس اعلان کے ساتھ کہ ایک فریش ٹیم کو لے کر نئے کرداروں کے ساتھ حکومت پھر پردہ سیمیں پر نمودار ہوگی اور اس بار بہت سختی کے ساتھ منافع خوروں سے ، ذخیرہ اندوزوں سے نمٹا جائے گا ، جس میں آہنی ہاتھوں کا استعمال ہوگا۔
مجرم دوست ہوں یا دشمن اپنے ہوں یا غیرکسی سے کوئی رعایت نہیں ہوگی۔کیونکہ اس بار تو نیا پاکستان بنے ہی بنے ، اور اعلان میں یہ بھی صاف طور پر جتایا گیا کہ اس سارے آپریشن کی نگرانی وزیر اعظم خود فرمائیں گے اصل میں تو خوفزدہ کردینے والی بات ہی یہ ہے کہ محترم پھر میدان عمل میں تشریف لانے کا ارادہ فرما چکے ہیں حالانکہ انھیں اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے ان کے دوست اور دشمن دونوں ہی مصروف عمل ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ صاحب کے سینے میں پھر غریبوں کی محبت جاگ گئی ہے اور وہ خود نگرانی پر مصر ہیں۔ ادھر قوم کو صاحب کی پچھلی نگرانی اب تک یاد ہے جس کے بعد اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے بجائے ہوش ربا اضافہ ہو گیا تھا۔ اب بھی عوام کو خدشہ ہے کہ کہیں مہنگائی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ نا جائے اور ان کے مسائل میں اضافہ ہو جائے۔
ایک اور بات آج تک سمجھ میں نہ آسکی کہ آخر قوم کس قدر آسودہ حال ہے کہ اس پر مہنگائی کا سرے سے ہی کوئی اثر نہیں ہوتا یا پھرمان لیا جائے کہ پژمردگی ، مایوسی بددلی ، بے اعتباری اس حد تک بڑھ چکی کہ قو م مردہ ہو گئی ، چلیے اگر ایسا ہے تو پھرکبھی کوئی مجمع اکٹھا ہی نہ ہو لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہی قوم محرم ، فرقہ وارانہ جھگڑوں ، بارہ ربیع الاول ، کشمیر ریلی ہو یا دنیا بھر کے تنازعات آپ کو بہت متحد دکھائی دے گی مارنے مٹنے پر آمادہ دکھائی دے گی سڑکوں کو بلاک کرتی ہوئی ملے گی ، بس نہیں نکلتی تو اپنے لیے۔ عجیب درویش قسم کی قوم ہے۔ لیکن موضوع پر آتے ہوئے اب یہ تو ماننا ہی ہوگا کہ خان صاحب کی حکومت نظام میں کوئی خاص تبدیلی تو درکنار عام سی تبدیلی بھی لانے میں ناکام رہی وہ اعتراف کریں یا نہیں، ہے ایسا ہی، شاید انھیں حکومت اور سیاست کا کوئی تجربہ سرے سے ہی نہیں تھا۔
لگتا ہے وہ اقتدارکو بھی کوئی کرکٹ میچ سمجھ رہے تھے لیکن یہ سیاست کا میدان ہے اور سیاست بھی پاکستان کی جس میں صرف منافقت ہے جہاں کب کوئی راستہ بدل جائے کچھ پتا نہیں چلتا ، جہاں سیاست دوسرے الفاظ میں محض ایک کاروبار ہے، ایک کھیل بلکہ بعض اوقات ایک تفریح بھی۔ اب حال یہ ہے کہ صاحب کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آرہا حالات ہیں کہ روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں، شاید وہ وقت ہی نہ آجائے کہ چیزیں گرفت سے ہی نکل جائیں۔ آج کل جنھیں عرف عام میں سلیکٹرزکہا جاتا ہے وہ کس نئے فارمولے پرکام کررہے ہیں۔ اللہ کرے کہ جو تجربہ ہو قوم کے حق میں ہواورملک ترقی کی منزل پر روا ں دواں ہو۔
ادھر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کا جو حال ہوا اس پرکیا نوحہ خوانی کی جائے لیکن سج پوچھیے توکچھ ایسی حیرانی بھی نہیں ہوئی وہ مختلف النسل۔ مختلف الخیال افراد کا ایک عارضی اتحاد تھا جسے مٹنا ہی تھا ختم ہونا ہی تھا اور ہوگیا ،بس خواہش تھی کہ جب بھی ختم ہو عزت سے ہو لیکن یہ خواہش بھی پوری ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ وہاں جنگ سیاسی نہیں، بلکہ طویل مفادات کی تھی اور ہے۔ سو ان سے گلہ اچھا نہیں لگتا ہے۔ خیر، آنے والے دن جانے والے دنوں سے بہتر ہوں آہستگی سے ہی سہی۔ چیونٹی کی چال سے ہی سہی کسی طورکبھی تو ہم بھی سنور جائیں گے۔
اللہ ہماری بھی سنے گا بس اس کے لیے تجربات بند کرنے ہوں گے ، جسے عوام چنیں اب خواہ وہ ڈاکو ہی ہو حکومت اسے ملنی چاہیے ، اسی طرح جو سینئر ہو ترقی اسی کو ملنا چاہیے، تمام اداروں میں ایسا ہی ہونا چاہیے ترقی وہیں سے شروع ہو گی۔
کاش ہمارے سیاستدانوں میں عاقبت، آخرت کا ذرا سا بھی خوف ہوتا ،کاش وہ ماضی بعید نہیں، ماضی قریب ہی میں جھانک کر دیکھنے کی سکت رکھتے تو انھیں اندازہ ہوجاتا کہ وقت کسی کی ملکیت نہیں ہے تاج و تخت عارضی ہوتے ہیں ، اقتدار ، طاقت، دولت ، دھوکے ہوتے ہیں اگر یہ سیاسی اکابرین صرف پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ بھی کرلیں تو بہت کچھ جان لیں گے۔ دیکھیے ہر دورمیں وقت کا ایک تقاضہ ہوتا ہے اور ہر بار خود سے بھی مختلف ہوتا ہے اور بہترین قومیں، رہنما وہی ہوتے ہیں جو وقت کی اس تحریرکو پڑھنے پر قدرت رکھتے ہوں۔
جیسے آج اس ملک کو جسے آپ نے نسل در نسل بے دریغ لوٹا ہے ، وہ ملک قربانی چاہتا ہے ، آپ کی توجہ ، محبت چاہتا ہے آپ کا اتحاد اب ملک کی ضرورت ہے ، ہم بحیثیت قوم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ آپ سب خواتین و حضرات کی کل جائیدادیں، اولادیں ملک سے باہر ہیں، آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آج آٹا ، چینی، گھی ، دالیں ، سبزیاں کس بھاؤ میں بک رہی ہیں؟ آپ نہیں جانتے کہ آج ہر دوسرے گھر میں فاقہ ہے لیکن ہم پھر بھی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ گھر جیسا بھی ہو گھر ہوتا ہے اورگھرکے اس حال کا ذمے دارکون ہے ؟ صرف اور صرف آپ، اداروں کے سربراہ ، بیوروکریٹس ہر صاحب اقتدار مسند پر بیٹھا ہوا ہر وہ جو ہر سال بعد آتا ہے ہمیں جھوٹے خواب دکھاتا ہے ، جھوٹے وعدے کرتا ہے۔
ہم سے ووٹ لیتا ہے اور جیتنے کے بعد لوٹ کر نہیں آتا۔ پھر صحرائے تھر میں بچے بھوک سے بلبلاتے ہوئے دم توڑ جائیں یا ملک میں لوگ افلاس سے تنگ آکر خودکشی کرلیں اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اب سارے نئے پرانے پاکستان دیکھ چکے، وعدوں کا ہر رنگ ، نسل جھوٹ اور فریب کا ہر سلسلہ ہمیں زبانی یاد ہے ، لیکن ہم اس طوفان کی آمد سے قبل جو تنگ آمد بہ جنگ آمد کے بعد آتا ہے ، اس تباہی سے پہلے جو پھول پودے ، جنگل اور صحرا تک چاٹ جاتی ہے آپ کو پھر آواز دیتے ہیں کہ لوٹ آئیے ، قوم اب قریب المرگ ہے اس سے مزید مذاق مہنگا پڑسکتا ہے۔
سچے دل سے قوم کی بہتری کے بارے میں سوچیںاور اپنے ارد گردایسے لوگوں کو اکٹھا کریں جو ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے کہ کبھی بنگلہ دیش کی کرنسی ٹکے کے لیے ازراہ مذاق کہا جاتا تھا ، ٹکے کی اوقات نہیں، باتیں اتنی بڑی بڑی۔ وہ ٹکا آج ہمارے روپے سے دگنی مالیت کا ہے ، تو اب کیا کہنا چاہیے؟
مجرم دوست ہوں یا دشمن اپنے ہوں یا غیرکسی سے کوئی رعایت نہیں ہوگی۔کیونکہ اس بار تو نیا پاکستان بنے ہی بنے ، اور اعلان میں یہ بھی صاف طور پر جتایا گیا کہ اس سارے آپریشن کی نگرانی وزیر اعظم خود فرمائیں گے اصل میں تو خوفزدہ کردینے والی بات ہی یہ ہے کہ محترم پھر میدان عمل میں تشریف لانے کا ارادہ فرما چکے ہیں حالانکہ انھیں اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے ان کے دوست اور دشمن دونوں ہی مصروف عمل ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ صاحب کے سینے میں پھر غریبوں کی محبت جاگ گئی ہے اور وہ خود نگرانی پر مصر ہیں۔ ادھر قوم کو صاحب کی پچھلی نگرانی اب تک یاد ہے جس کے بعد اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے بجائے ہوش ربا اضافہ ہو گیا تھا۔ اب بھی عوام کو خدشہ ہے کہ کہیں مہنگائی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ نا جائے اور ان کے مسائل میں اضافہ ہو جائے۔
ایک اور بات آج تک سمجھ میں نہ آسکی کہ آخر قوم کس قدر آسودہ حال ہے کہ اس پر مہنگائی کا سرے سے ہی کوئی اثر نہیں ہوتا یا پھرمان لیا جائے کہ پژمردگی ، مایوسی بددلی ، بے اعتباری اس حد تک بڑھ چکی کہ قو م مردہ ہو گئی ، چلیے اگر ایسا ہے تو پھرکبھی کوئی مجمع اکٹھا ہی نہ ہو لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہی قوم محرم ، فرقہ وارانہ جھگڑوں ، بارہ ربیع الاول ، کشمیر ریلی ہو یا دنیا بھر کے تنازعات آپ کو بہت متحد دکھائی دے گی مارنے مٹنے پر آمادہ دکھائی دے گی سڑکوں کو بلاک کرتی ہوئی ملے گی ، بس نہیں نکلتی تو اپنے لیے۔ عجیب درویش قسم کی قوم ہے۔ لیکن موضوع پر آتے ہوئے اب یہ تو ماننا ہی ہوگا کہ خان صاحب کی حکومت نظام میں کوئی خاص تبدیلی تو درکنار عام سی تبدیلی بھی لانے میں ناکام رہی وہ اعتراف کریں یا نہیں، ہے ایسا ہی، شاید انھیں حکومت اور سیاست کا کوئی تجربہ سرے سے ہی نہیں تھا۔
لگتا ہے وہ اقتدارکو بھی کوئی کرکٹ میچ سمجھ رہے تھے لیکن یہ سیاست کا میدان ہے اور سیاست بھی پاکستان کی جس میں صرف منافقت ہے جہاں کب کوئی راستہ بدل جائے کچھ پتا نہیں چلتا ، جہاں سیاست دوسرے الفاظ میں محض ایک کاروبار ہے، ایک کھیل بلکہ بعض اوقات ایک تفریح بھی۔ اب حال یہ ہے کہ صاحب کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آرہا حالات ہیں کہ روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں، شاید وہ وقت ہی نہ آجائے کہ چیزیں گرفت سے ہی نکل جائیں۔ آج کل جنھیں عرف عام میں سلیکٹرزکہا جاتا ہے وہ کس نئے فارمولے پرکام کررہے ہیں۔ اللہ کرے کہ جو تجربہ ہو قوم کے حق میں ہواورملک ترقی کی منزل پر روا ں دواں ہو۔
ادھر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کا جو حال ہوا اس پرکیا نوحہ خوانی کی جائے لیکن سج پوچھیے توکچھ ایسی حیرانی بھی نہیں ہوئی وہ مختلف النسل۔ مختلف الخیال افراد کا ایک عارضی اتحاد تھا جسے مٹنا ہی تھا ختم ہونا ہی تھا اور ہوگیا ،بس خواہش تھی کہ جب بھی ختم ہو عزت سے ہو لیکن یہ خواہش بھی پوری ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ وہاں جنگ سیاسی نہیں، بلکہ طویل مفادات کی تھی اور ہے۔ سو ان سے گلہ اچھا نہیں لگتا ہے۔ خیر، آنے والے دن جانے والے دنوں سے بہتر ہوں آہستگی سے ہی سہی۔ چیونٹی کی چال سے ہی سہی کسی طورکبھی تو ہم بھی سنور جائیں گے۔
اللہ ہماری بھی سنے گا بس اس کے لیے تجربات بند کرنے ہوں گے ، جسے عوام چنیں اب خواہ وہ ڈاکو ہی ہو حکومت اسے ملنی چاہیے ، اسی طرح جو سینئر ہو ترقی اسی کو ملنا چاہیے، تمام اداروں میں ایسا ہی ہونا چاہیے ترقی وہیں سے شروع ہو گی۔
کاش ہمارے سیاستدانوں میں عاقبت، آخرت کا ذرا سا بھی خوف ہوتا ،کاش وہ ماضی بعید نہیں، ماضی قریب ہی میں جھانک کر دیکھنے کی سکت رکھتے تو انھیں اندازہ ہوجاتا کہ وقت کسی کی ملکیت نہیں ہے تاج و تخت عارضی ہوتے ہیں ، اقتدار ، طاقت، دولت ، دھوکے ہوتے ہیں اگر یہ سیاسی اکابرین صرف پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ بھی کرلیں تو بہت کچھ جان لیں گے۔ دیکھیے ہر دورمیں وقت کا ایک تقاضہ ہوتا ہے اور ہر بار خود سے بھی مختلف ہوتا ہے اور بہترین قومیں، رہنما وہی ہوتے ہیں جو وقت کی اس تحریرکو پڑھنے پر قدرت رکھتے ہوں۔
جیسے آج اس ملک کو جسے آپ نے نسل در نسل بے دریغ لوٹا ہے ، وہ ملک قربانی چاہتا ہے ، آپ کی توجہ ، محبت چاہتا ہے آپ کا اتحاد اب ملک کی ضرورت ہے ، ہم بحیثیت قوم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ آپ سب خواتین و حضرات کی کل جائیدادیں، اولادیں ملک سے باہر ہیں، آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آج آٹا ، چینی، گھی ، دالیں ، سبزیاں کس بھاؤ میں بک رہی ہیں؟ آپ نہیں جانتے کہ آج ہر دوسرے گھر میں فاقہ ہے لیکن ہم پھر بھی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ گھر جیسا بھی ہو گھر ہوتا ہے اورگھرکے اس حال کا ذمے دارکون ہے ؟ صرف اور صرف آپ، اداروں کے سربراہ ، بیوروکریٹس ہر صاحب اقتدار مسند پر بیٹھا ہوا ہر وہ جو ہر سال بعد آتا ہے ہمیں جھوٹے خواب دکھاتا ہے ، جھوٹے وعدے کرتا ہے۔
ہم سے ووٹ لیتا ہے اور جیتنے کے بعد لوٹ کر نہیں آتا۔ پھر صحرائے تھر میں بچے بھوک سے بلبلاتے ہوئے دم توڑ جائیں یا ملک میں لوگ افلاس سے تنگ آکر خودکشی کرلیں اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اب سارے نئے پرانے پاکستان دیکھ چکے، وعدوں کا ہر رنگ ، نسل جھوٹ اور فریب کا ہر سلسلہ ہمیں زبانی یاد ہے ، لیکن ہم اس طوفان کی آمد سے قبل جو تنگ آمد بہ جنگ آمد کے بعد آتا ہے ، اس تباہی سے پہلے جو پھول پودے ، جنگل اور صحرا تک چاٹ جاتی ہے آپ کو پھر آواز دیتے ہیں کہ لوٹ آئیے ، قوم اب قریب المرگ ہے اس سے مزید مذاق مہنگا پڑسکتا ہے۔
سچے دل سے قوم کی بہتری کے بارے میں سوچیںاور اپنے ارد گردایسے لوگوں کو اکٹھا کریں جو ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے کہ کبھی بنگلہ دیش کی کرنسی ٹکے کے لیے ازراہ مذاق کہا جاتا تھا ، ٹکے کی اوقات نہیں، باتیں اتنی بڑی بڑی۔ وہ ٹکا آج ہمارے روپے سے دگنی مالیت کا ہے ، تو اب کیا کہنا چاہیے؟