شوکت علی
پرُجوش ملی نغموں سے لہو گرمانے والا چل بسا
BEIJING:
اپنے ملی نغموں سے قوم کے لہو کو گرمانے والے لیجنڈ گلوکار شوکت علی بھی چل بسے، اس نے بالاخر موت کا ذائقہ بھی ضرور چکھنا ہوتا ہے، روز مرہ کے دفتری امور میں مصروف تھا کہ شوکت علی کے صاحبزادے عمران شوکت علی کا پیغام موصول ہوا کہ ان کے والداب اس دنیا میں نہیں رہے، یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری، شوکت علی نے زندگی کی76بہاریں دیکھیں،وہ جتنا عرصہ بھی حیات رہے، انہوں نے پاکستان سمیت بھارت اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں بسنے والے اپنے کروڑوں پرستاروں کے دلوں پر راج کیا۔ شوکت علی کی خدمات کے صلہ میں انہیں وائس آف پنجاب کے خطاب سمیت متعدد ایوارڈز اور پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔
شوکت علی گزشتہ کچھ عرصے سے بیمار تھے اور دل کے عارضے کے باعث ان کا بائی پاس آپریشن بھی ہو چکا تھا۔ کچھ عرصہ قبل وہ جگر کی بیماری میں مبتلا ہوئے تھے اور صوبہ سندھ کے شہر خیرپور میں واقع ہسپتال میں ان کا علاج کیا گیا تھا۔تاہم ایک مرتبہ پھر حال ہی میں انھیں دوبارہ جگر کی بیماری نے ہسپتال تک پہنچا دیا تھا۔
شدید علالت میں انھیں لاہور کے سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں گزشتہ چند روز سے ان کی حالت بہت زیادہ خراب بتائی جا رہی تھی۔شوکت علی کے تین بیٹے امیر شوکت علی، عمران شوکت علی اور محسن شوکت علی بھی گلوکار ہیں۔ شوکت علی کے بیٹے امیر شوکت علی اور عمران شوکت علی کے مطابق ان کے والد گزشتہ کچھ عرصہ سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور 'یہی ان کی موت کی وجہ بنی۔ ان کا جگر کام کرنا چھوڑ گیا تھا۔
امیر شوکت نے حال ہی میں ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انھوں نے اپنیوالد کے مداحوں اور عوام سے ان کی صحتیابی کے لیے دعا کی درخواست کی تھی۔امیر شوکت نے اپنے والد کے علاج پر پاکستانی افواج کے سربراہ سمیت ان افراد کا شکریہ ادا کیا۔ ایکسپریس سے خصوصی بات چیت میں شوکت علی کے بیٹے عمران شوکت علی کا کہنا تھا کہ آخری وقت میں بھی میرے والد صاحب کی زبان پر پاکستان کے الفاظ تھے،ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میرے بعد دنیا بھر میں پاکستان کا علم بلند رکھنے کا اب مشن تم نے سنبھالنا ہے۔
عمران شوکت کا مزید کہنا تھا کہ ابا جی نے وزیراعظم عمران خان کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزنگ مہم میں ملک اور بیرون ملک بھرپور انداز میں حصہ لیا اور ہسپتال کے لئے کروڑوں روپے کے فنڈز اکٹھے کیے،وہ میرے اور بھائیوں کے والد نہیں بلکہ دوستوں کی طرح تھے۔جمعہ کی رات کو ہی سینکڑوں سوگواران کی موجودگی میں شوکت علی کو جوہر ٹائون کے سمسانی قبرستان سپرد خاک کر دیا گیا۔ مرحوم کے نماز جنازہ میں راشدمحمود، اظہر رنگیلا، نواز انجم، آغا قیصر، بابا نجمی سمیت فنکاروں، گلوکاروں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی، جنازے میں شریک فنکاروں کے مطابق شوکت علی نہ صرف اعلی پائے کے گلوکار تھے بلکہ عظیم انسان بھی تھے۔
اگر شوکت علی کے کیریئر کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ صوفیانہ کلام، غزل گائیکی اور پنجابی گیت گانے میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے،برصغیر میں فوک گائیکی کا رانجھا کہلائے جانے والے شوکت علی 3 مئی 1944کو بھاٹی گیٹ لاہور میں پیدا ہوئے،ان کے والدکا نام فقیر علی تھا جو پیشے کے اعتبار سے درزی تھے، موسیقی کی تعلیم بڑے بھائی عنایت علی سے حاصل کی۔ 1963 میں فلم ''ماں کے آنسو' میں پہلی مرتبہ گانے کا موقع ملا جبکہ بطور گلوکار ان کی دوسری فلم ''تیس مار خان'' تھی۔ شوکت علی نے جوجنگی ترانے گائے انہوں نے گھر گھردھوم مچائی۔یہ گیت آ ج بھی لہو گرما دیتے ہیں۔
فوک گائیکی میں شوکت علی کا انداز ہمیشہ نا قابل فراموش رہے گا۔سیف الملوک ہو یا چھلہ جیسے گیت سبھی دل میں اتر جاتے ہیں،ایک لوک گلوکار کی حیثیت سے وہ نہ صرف پنجاب ، پاکستان بلکہ پنجاب بھارت میں بھی مشہور رہے۔ شوکت علی نے برطانیہ ، کینیڈا اور امریکہ جیسے پنجابی تارکین وطن کے اہم آبادی والے ممالک میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا۔شوکت علی صوفی شاعری کو بڑے احترام سے پیش کرتے تھے۔
شوکت علی کو 1976 میں 'وائس آف پنجاب' ایوارڈ ملا۔ جولائی 2013 میں ، انھیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج ، آرٹ اینڈ کلچرکے ذریعہ 'پرائیڈ آف پنجاب' ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے نئی دہلی میں 1982 میں ہونے والے ایشین گیمز میں براہ راست پرفارمنس دی اور 1990 میں انہیں پاکستان کا سب سے اعلیٰ شہری صدارتی ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ شوکت علی نے آل پاکستان میوزک کانفرنس کے ایونٹس میں پرفارمنس بھی دی اور پاکستانی ٹیلی ویڑن شوز میں بھی اکثر گلوکاری کرتے نظر آئے۔
کینیڈا کی ایک کمپنی نے پاکستانی موسیقی کی صنعت میں ان کی شراکت کو یادگار بنانے کے لئے ایک گھنٹہ طویل دستاویزی فلم تیار کی۔ اس دستاویزی فلم میں شوکت علی کو اپنے پورے کیریئر میں درپیش مشکلات کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں ان کی گذشتہ پرفارمنس کے ساتھ ساتھ لتا منگیشکر سمیت کئی گلوکاروں کے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ہمہ جہت شخصیت کے مالک شوکت علی نے دو فلموں کفارہ اور اکبرا میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ پنجابی میں ان کے دو شعری مجموعے بھی شائع ہوئے۔
اپنے ملی نغموں سے قوم کے لہو کو گرمانے والے لیجنڈ گلوکار شوکت علی بھی چل بسے، اس نے بالاخر موت کا ذائقہ بھی ضرور چکھنا ہوتا ہے، روز مرہ کے دفتری امور میں مصروف تھا کہ شوکت علی کے صاحبزادے عمران شوکت علی کا پیغام موصول ہوا کہ ان کے والداب اس دنیا میں نہیں رہے، یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری، شوکت علی نے زندگی کی76بہاریں دیکھیں،وہ جتنا عرصہ بھی حیات رہے، انہوں نے پاکستان سمیت بھارت اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں بسنے والے اپنے کروڑوں پرستاروں کے دلوں پر راج کیا۔ شوکت علی کی خدمات کے صلہ میں انہیں وائس آف پنجاب کے خطاب سمیت متعدد ایوارڈز اور پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔
شوکت علی گزشتہ کچھ عرصے سے بیمار تھے اور دل کے عارضے کے باعث ان کا بائی پاس آپریشن بھی ہو چکا تھا۔ کچھ عرصہ قبل وہ جگر کی بیماری میں مبتلا ہوئے تھے اور صوبہ سندھ کے شہر خیرپور میں واقع ہسپتال میں ان کا علاج کیا گیا تھا۔تاہم ایک مرتبہ پھر حال ہی میں انھیں دوبارہ جگر کی بیماری نے ہسپتال تک پہنچا دیا تھا۔
شدید علالت میں انھیں لاہور کے سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں گزشتہ چند روز سے ان کی حالت بہت زیادہ خراب بتائی جا رہی تھی۔شوکت علی کے تین بیٹے امیر شوکت علی، عمران شوکت علی اور محسن شوکت علی بھی گلوکار ہیں۔ شوکت علی کے بیٹے امیر شوکت علی اور عمران شوکت علی کے مطابق ان کے والد گزشتہ کچھ عرصہ سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور 'یہی ان کی موت کی وجہ بنی۔ ان کا جگر کام کرنا چھوڑ گیا تھا۔
امیر شوکت نے حال ہی میں ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انھوں نے اپنیوالد کے مداحوں اور عوام سے ان کی صحتیابی کے لیے دعا کی درخواست کی تھی۔امیر شوکت نے اپنے والد کے علاج پر پاکستانی افواج کے سربراہ سمیت ان افراد کا شکریہ ادا کیا۔ ایکسپریس سے خصوصی بات چیت میں شوکت علی کے بیٹے عمران شوکت علی کا کہنا تھا کہ آخری وقت میں بھی میرے والد صاحب کی زبان پر پاکستان کے الفاظ تھے،ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میرے بعد دنیا بھر میں پاکستان کا علم بلند رکھنے کا اب مشن تم نے سنبھالنا ہے۔
عمران شوکت کا مزید کہنا تھا کہ ابا جی نے وزیراعظم عمران خان کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزنگ مہم میں ملک اور بیرون ملک بھرپور انداز میں حصہ لیا اور ہسپتال کے لئے کروڑوں روپے کے فنڈز اکٹھے کیے،وہ میرے اور بھائیوں کے والد نہیں بلکہ دوستوں کی طرح تھے۔جمعہ کی رات کو ہی سینکڑوں سوگواران کی موجودگی میں شوکت علی کو جوہر ٹائون کے سمسانی قبرستان سپرد خاک کر دیا گیا۔ مرحوم کے نماز جنازہ میں راشدمحمود، اظہر رنگیلا، نواز انجم، آغا قیصر، بابا نجمی سمیت فنکاروں، گلوکاروں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی، جنازے میں شریک فنکاروں کے مطابق شوکت علی نہ صرف اعلی پائے کے گلوکار تھے بلکہ عظیم انسان بھی تھے۔
اگر شوکت علی کے کیریئر کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ صوفیانہ کلام، غزل گائیکی اور پنجابی گیت گانے میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے،برصغیر میں فوک گائیکی کا رانجھا کہلائے جانے والے شوکت علی 3 مئی 1944کو بھاٹی گیٹ لاہور میں پیدا ہوئے،ان کے والدکا نام فقیر علی تھا جو پیشے کے اعتبار سے درزی تھے، موسیقی کی تعلیم بڑے بھائی عنایت علی سے حاصل کی۔ 1963 میں فلم ''ماں کے آنسو' میں پہلی مرتبہ گانے کا موقع ملا جبکہ بطور گلوکار ان کی دوسری فلم ''تیس مار خان'' تھی۔ شوکت علی نے جوجنگی ترانے گائے انہوں نے گھر گھردھوم مچائی۔یہ گیت آ ج بھی لہو گرما دیتے ہیں۔
فوک گائیکی میں شوکت علی کا انداز ہمیشہ نا قابل فراموش رہے گا۔سیف الملوک ہو یا چھلہ جیسے گیت سبھی دل میں اتر جاتے ہیں،ایک لوک گلوکار کی حیثیت سے وہ نہ صرف پنجاب ، پاکستان بلکہ پنجاب بھارت میں بھی مشہور رہے۔ شوکت علی نے برطانیہ ، کینیڈا اور امریکہ جیسے پنجابی تارکین وطن کے اہم آبادی والے ممالک میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا۔شوکت علی صوفی شاعری کو بڑے احترام سے پیش کرتے تھے۔
شوکت علی کو 1976 میں 'وائس آف پنجاب' ایوارڈ ملا۔ جولائی 2013 میں ، انھیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج ، آرٹ اینڈ کلچرکے ذریعہ 'پرائیڈ آف پنجاب' ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے نئی دہلی میں 1982 میں ہونے والے ایشین گیمز میں براہ راست پرفارمنس دی اور 1990 میں انہیں پاکستان کا سب سے اعلیٰ شہری صدارتی ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ شوکت علی نے آل پاکستان میوزک کانفرنس کے ایونٹس میں پرفارمنس بھی دی اور پاکستانی ٹیلی ویڑن شوز میں بھی اکثر گلوکاری کرتے نظر آئے۔
کینیڈا کی ایک کمپنی نے پاکستانی موسیقی کی صنعت میں ان کی شراکت کو یادگار بنانے کے لئے ایک گھنٹہ طویل دستاویزی فلم تیار کی۔ اس دستاویزی فلم میں شوکت علی کو اپنے پورے کیریئر میں درپیش مشکلات کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں ان کی گذشتہ پرفارمنس کے ساتھ ساتھ لتا منگیشکر سمیت کئی گلوکاروں کے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ہمہ جہت شخصیت کے مالک شوکت علی نے دو فلموں کفارہ اور اکبرا میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ پنجابی میں ان کے دو شعری مجموعے بھی شائع ہوئے۔