مارکسزم اور قوم پرستی کی سیاست آخری حصہ

جب قوم پرستی کی بنیاد پر آزادی کا سوال اٹھتا ہے تویہ دیکھنا بھی لازمی ٹھہرتا ہے کہ دوسری طرف سے حقیقی مطالبہ کس کا ہے

ibhinder@yahoo.co.uk

ISLAMABAD:
جب قوم پرستی کی بنیاد پر آزادی یا خود مختاری کا سوال اٹھتا ہے تو یہ دیکھنا بھی لازمی ٹھہرتا ہے کہ دوسری طرف سے حقیقی مطالبہ کس کا ہے۔ اگر تو مطالبہ عوام کے جذبات کے استحصال پر قائم کیا گیا ہے، یا پھر دوسری طرف کسی ایسی ریاست کے مفادات ہیں کہ جو نئی آزاد ہونے والی ریاست کی بورژوازی کو باآسانی بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے زیر تسلط لاسکتی ہے تو ایسے مطالبے کے حق میں کھڑے ہونا بورژوازی اور سامراجی یلغار کی زد میں آنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں اس وقت ''بلوچ قوم پرستی'' کی 'تحریک' کو اس مظہر کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

مارکسزم کی سیاست میں فرقہ پرستی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، تاہم بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے چند ایسے گروہ موجود ہیں جو طبقات کی بنیاد پر حقیقی جدوجہد کرنے کے بجائے رنگ، نسل، قوم پرستی اور مذہب کی سیاست کی جانب مڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ قوم پرستی کے سوال پر لینن واضح کردیتا ہے کہ ''بورژوا قوم پرستی اور پرولتاریہ بین الاقوامیت دو مخالف نعرے ہیں جو سرمایہ دارانہ دنیا میں دو مختلف طبقات کی نمایندگی کرتے ہیں اور قومی سوال پر دو مختلف پالیسیاں رکھتے ہیں۔'' مزید یہ کہ ''ہر جدید قوم میں دو اقوام ہوتی ہیں۔'' دو اقوام کی یہ بنیاد طبقاتی ہے: ایک وہ جو ذرایع پیداوار پر قابض ہے اور دوسرا وہ محکوم طبقہ جو اس کے لیے قدر زائد کو پیدا کرتا ہے۔ قوم پرستی کی ہر تحریک کی حمایت یا مخالفت اسی بنیاد کے پیش نظر کی جانی چاہیے۔ ہر قوم کے اندر دو اقوام کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بھی دو قسم کے مسلمان ہیں: ایک حاکم دوسرا محکوم۔ لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والے اس حقیقت کو مخفی رکھنا چاہتے ہیں کہ ایک ہی زبان بولنے والے بھی طبقاتی سطح پر منقسم ہیں۔ حقیقی اتحاد لسانی ، مذہبی، نسلی اور علاقائی امتیازات کے بجائے طبقاتی تفریق کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔

بورژوا فلسفے میں ''قوم پرستی'' حکمرانوں کی آئیڈیالوجی کے علاوہ کچھ نہیں، جسے بورژوا سیاست میں بہت اہمیت حاصل ہے اور جسے حکمرانوں کے مفادات کو تقویت دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بورژوا سیاست میں قوم پرستی کا مقصد خود میں مضمر حقیقی تضاد کو مخفی رکھنا اور اس کے برعکس فرضی تضادات کو تقویت دینا ہوتا ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سرمایہ داری نظام میں قوم پرستی ایک کلیت پسند اور مرکزیت پسند رجحان ہے جو ایک ہی ملک میں مختلف اقوام کی ثقافت، تہذہب، زبان، مذہب اور علاقائیت کے مابین امتیاز و تفریق کو فراموش کرکے انھیں ایک جبری ''شناخت'' عطا کرتی ہے۔ یہی وہ جبر ہے جو مظلوم اقوام پر روا رکھا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے قوم پرستی اپنی سرشت میں ردِ تکثیریت کی عکاسی کرتی ہے۔ نائن الیون کے بعد جب مغرب و امریکا میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مقصود تھا تو ذرایع ابلاغ کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف مسیحی جذبات کو بھڑکایا گیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے جذبات کا انگیخت ہونا بھی لازمی امر تھا۔ برطانیہ میں مسیحی قوم پرستی اور فسطائی رجحانات کو تقویت ملی اور تکثیری معاشرے کی نفی ہوئی۔ تکثیری معاشرہ اقوام کی ''بلند سطح پر وحدت'' کو قائم کرتا ہے، مگر یہ وحدت سرمایہ داری نظام کے بحران کے ساتھ ہی منہدم ہونے لگتی ہے۔


دائیں بازو کے رجعتی رجحانات یعنی مذہبیت، علاقائیت، نسل پرستی وغیرہ جیسی شناختیں مستحکم ہونے لگتی ہیں۔ برطانیہ میں جنم لینے والے مسلمان جو خود کو برطانوی سمجھتے تھے ان کے مذہب کو دہشت گردی سے جوڑ کر انھیں یہ باور کرایا گیا کہ قومیت کے تصور میں مذہب کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، جب کہ دوسری طرف مذہبی جذبات کا استحصال کرکے مسیحیوں کو برطانویت کے قریب لایا جارہا تھا۔ امریکی صدر جارج بش نے ''کروسیڈ'' کا لفظ استعمال کرکے اقوام کا تعین مذہب کی بنیاد پر کیا۔ ابھی حال ہی میں برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے برطانیہ میں مقیم اقلیتوں کو باور کرایا کہ برطانیہ میں مقیم دیگر اقوام پر ''برطانویت'' کا خیال رکھنا لازم ہے۔ حکمران طبقات لسانی، علاقائی، مذہبی اور نسلی امتیازات کا فائدہ محض اپنے مفادات کے پیش نظر اٹھاتے رہتے ہیں۔ بنیادی مقصد ان کا صرف یہ ہوتا ہے کہ انھیں بھی حکمرانی میں شراکت دار بنایا جائے تاکہ وہ بھی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے رہیں۔

پاکستان میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ کبھی بلوچی قوم پرستی، پشتون قوم، سندھی قوم پرست اور کبھی لسانی بنیادوں پر اپنی سیاست چمکائی جاتی ہے۔ آخری تجزیے میں لسانی، علاقائی، مذہبی اور نسلی بنیادوں پر عوام کے اذہان کو قومیتوں میں تقسیم کرنا فسطائیت سے ہم آہنگ ہونے کے مترادف ہے۔ قومیت ایک انتہائی پیچیدہ اور مبہم اصطلاح ہے، جس کی کوئی ایسی تعریف ممکن نہیں ہے کہ جس پر تمام سماجی سائنسدان متفق ہوسکیں، تاہم اس کے باوجود جوزف اسٹالن نے قوم پرستی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ایک قوم تاریخی طور پر تشکیل پائے ہوئے ایسے طبقے (Community) پر مشتمل ہوتی ہے جو مشترک زبان، علاقہ، معاشی زندگی اور نفسیاتی عمل کا یکساں کلچر کے طور پر اظہار کرے۔'' اگرچہ اسٹالن کی یہ تعریف جامع ہے، مگر اس کے باوجود مکمل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہ ہر خطے اور علاقے کے لیے اس کا متعلقہ اور درست ہونا لازمی نہیں ہے۔ تاریخی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مذہب ایک اہم عامل کے طور پر ہمیشہ مختلف نسلوں، متنوع لسانی پس منظر اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے سیمنٹ کا کام دیتا رہا ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اس کی سب سے جامع مثال ہے کہ جس میں محض مذہب کے نعرے کے تحت ایک الگ ملک کے قیام کو ممکن بنالیا گیا۔

ایک ہی ثقافتی اور سماجی پس منظر رکھنے والی قوم کی نفسیات دو حصوں میں منقسم ہوئی۔ عہد رفتہ میں اگر بلوچستان کی جانب دیکھنے سے عیاں ہوگا کہ جومذہبی آئیڈیالوجی پاکستان کی تخلیق کا باعث بنی، وہ پاکستانی ریاست کی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے ناکافی معلوم ہورہی ہے۔ اگرچہ بلوچستان میں علیحدگی کا مطالبہ جس ''قوم پرستی'' کی بنیاد پر کیا جارہا ہے اس کی آئیڈیولاجیکل حیثیت بھی اتنی ہی مشکوک ہے جتنی کہ لسانی یا مذہبی بنیادوں پر مشکوک ہوسکتی ہے۔ بورژوا عقلیت کا بنیادی نقص ہی یہ ہے کہ جب یہ خارجی سطح پر حقیقی تضادات کی عملی تحلیل میں ناکام رہتی ہے تو محض اپنی بقا کے لیے ان کے مقابل فرضی تضادات کی تشکیل کرتی ہے۔ عوام کے اذہان میں ان تضادات کو ٹھونسا جاتا ہے، انھیں یقین دلایا جاتا ہے کہ حقیقت یہی ہے جو ان کو بتائی جارہی ہے، بالآخر عوام اس فرضی حقیقت کوہی حقیقی گرداننے لگتے ہیں۔ ''قوم پرستی'' ایک ایسا ہی تضاد ہے، جو طبقات کے درمیان حقیقی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے، جسے وحشت و بربریت اور تشدد ودہشت کی عکاس سرمایہ دارانہ حکومت کے مفادات اور اقتدار کے دورانیے کی توسیع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک ایسے عہد میں جہاں پیداواری قوتوں کے ارتقا اور سرمائے کی عالمگیریت کے نتیجے میں پرانی تشکیلات کے انہدام کا عمل تیزی سے جاری ہو اور کسی ایسی ''شناخت'' کے وجود میں آنے کے امکانات مفقود ہوں جو نئی تشکیلات سے ہم آہنگ ہوسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لسانی، قومی، ثقافتی، نسلی اور مذہبی حوالوں سے قائم شدہ پرانے ''تعینات'' جن تصورات پر قائم تھے وہ غیر متعلقہ ہوچکے ہیں۔ اس لیے جب تک نئی صورتحال کا معروضی اور مقرونی (Concrete) تجزیہ نہ کرلیا جائے پرانے دعوؤں کی سچائی کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ عہد حاضر میں کمزور اقوام پر سامراجی قبضوں کی نوعیت اٹھارویں اور انیسویں صدی سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔
Load Next Story