سلیم بیٹری والے

مجھے یقین ہے کہ قریشی صاحب کو اس وقت میری شکل بھی کسی ایسی تصویر کی طرح ہی دکھائی دی ہوگی

farooq.adilbhuta@gmail.com

پینسٹھ کی جنگ آپ کو یاد ہے؟ میں نے سوال کیا۔ سلیم قریشی نے کہ اپنا منہ گاڑی کے بونٹ میں دیے کھڑے تھے، اسی طرح جھکے جھکے گردن کا زاویہ بدل کر میری طرف دیکھا۔ خلّاق فوٹو گرافر کبھی کبھی کیمرہ زمین پر رکھ کر تصاویر بنایا کرتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ قریشی صاحب کو اس وقت میری شکل بھی کسی ایسی تصویر کی طرح ہی دکھائی دی ہوگی۔

یہ جو ذرا کی ذرا انھوں نے میری طرف دیکھا تھا، اس دورانیے میں انھوں نے کہا کہ 'یا یا۔۔ یاد ہے۔ بابا۔۔ بالکل یاد ہے'۔ بات کرتے ہوئے ان کی زبان میں ذرا سی لکنت آ جاتی تھی،یہ کیفیت اس وقت عروج پر تھی۔ تت تت۔۔ تمہیں یہ جنگ کیوں یاد آگئی؟ اب ان کا رخ دوبارہ گاڑی کی بیٹری کی طرف تھا۔' بس، آگئی یاد، آپ سے کچھ پوچھنا ہے'۔ میں نے جواب دیا:''اچھا'' انھوں نے ذرا لا تعلقی کے ساتھ کہا اور کہا کہ چل کر دفتر میں بیٹھو، ابھی آتا ہوں۔ میں یہ سوچتے ہوئے ان کے دفتر کی طرف بڑھااور سوچا کہ گئے کام سے،وہ اپنے ملنے والوں کو دفتر بھیج کر بھول جایا کرتے تھے۔

' اوئے چھوٹے۔۔۔'ورک شاپ میں کام کرنے والے لڑکے کو انھوں نے طلب کیا۔ لڑکے کو بلاتے ہوئے انھوں نے وہ الفاظ بھی دہرائے جو اس شہر والے کسی نالائق کو پکارتے وقت پیار سے دہرایا کرتے ہیں، ایسے الفاظ جن کے بارے میں باہر والوں کی رائے کچھ زیادہ مثبت نہیں۔ان کے دفتر میں پنکھے کے عین نیچے بیٹھ کر میں نے اُس خوب صورت اخبار کے ادارتی صفحے پر نگاہ ڈالی جس میں خلد آشیانی انتظار حسین لاہور نامہ کے عنوان سے اس دیس کے پھول پتوں، میلوں ٹھیلوں اور گلی محلوں کا ذکر اس اچھوتے انداز میں کیا کرتے تھے کہ اس پر پیار آجاتا۔

انتظار صاحب کا کالم ابھی میں نے پڑھا ہی تھا کہ وہ دفتر میں پہنچ گئے اور پسینہ پونچھتے ہوئے سوال کیا کہ ہاں بھئی، کیا پوچھ رہے تھے؟ میں ان دنوں انٹر کا طالب علم تھا اور کراچی کے ایک ہفت روزے میں ڈائری لکھا کرتا تھا۔ اگست ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ایڈیٹر صاحب نے رابطہ کیا اور کہا کہ سرگودھا تو ہلال استقلال رکھنے والا شہر ہے، پاکستان کے دو دوسرے شہروں کی طرح۔ تو آپ ایک فیچر لکھیں جس میں یہ بتایا جائے کہ اس شہر کو ہلال استقلال سے کیوں نوازا گیا۔ قریشی صاحب نے میری بات سنی اور کرسی سے ٹیک لگالی، عام طور پر وہ کرسی کے اگلے حصے پر ذرا سا ٹکا ہی کرتے تھے اور میز پر زور ڈال کر بیٹھا کرتے تھے۔

کرسی کی پشت نے ذرا سے احتجاج کے ساتھ جگہ بدلی تو لگا کہ جیسے یادوں کے خزانے کی پوٹلی کھل گئی ہے، قریشی صاحب نے تڑپ کر کرسی کی پشت چھوڑی اور میز سے ٹیک لگا کر کہا: 'جنگ کا پہلا دن تھا یا پھر دوسرا، درمیانے عہدے کا ایک فوجی اہل کار ورک شاپ میں داخل ہوا، کہا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے اور اس کا بہت سا دار و مدار گاڑیوں کی آمد و رفت اور اسلحے کے چلنے سے ہے جس میں بیٹری کا کردار سب سے اہم ہے۔ یہ سارا انتظام ہم خود کرتے ہیں لیکن یہ جنگ کے دن ہیں اور جنگوں میں جتنی اہمیت وقت کی ہے، کسی اور چیز کی نہیں'۔ میں نے یہ بات سنی اور اس افسر سے کہاکہ فکر نہ کریں۔ بیٹری کا کام مجھ پر چھوڑ دیں اور معاوضے کا بالکل نہ سوچیں۔ اس دن کے بعد سے فوج کی بیٹریاں ہوں یا ایئر فورس کی، یہیں اسی ورک شاپ میں آتیں اور ہم گھڑی کی گھڑی میں درست کر کے روانہ کر دیتے۔

قریشی صاحب نے اپنی بات مکمل کی، ذرا دیر سانس لیا اور بتایا کہ ان سترہ دنوں میں ورک شاپ عام گاہکوں کے لیے میں نے بند کر دی اور صرف دفاعی سرگرمیوں کو بلا تعطل جاری رکھنے کے لیے کام کیا۔ چوہدری ثنااللہ سرگودھا کی ایک اور دل آویز شخصیت تھے جو اپنے بے ساختہ پنجابی جملے اور ویسپا اسکوٹر کے لیے شہرت رکھتے تھے، انھوں نے ٹکڑا لگایا کہ ان دنوں تو مجھے بھی یاد ہے کہ چھاونی تا ورک شاپ، گاڑیوں کی قطار لگی ہوتی تھی جو کبھی ٹوٹتے نہ دیکھی گئی۔


میں نے ان بزرگوں کی باتیں سنیں تو سمجھ میں آیا کہ وہ کیسی جنگیں ہوتی ہیں جن میں من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے۔' وہ دن تو ایسے تھے'۔قریشی صاحب نے چائے کی پیالی میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ یہ فرق ہی ختم ہو گیا تھا کہ کون فوجی ہے اور کون فوجی نہیں۔

قریشی صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے، لاہوری لہجے میں بات چیت کیا کرتے، کوئی بات مزاج کے خلاف ہو جاتی تو اسی لہجے میں بے نقط سنا دیتے لیکن اگلے لمحے سب کچھ بھول بھال کر گلے سے بھی لگا لیا کرتے۔

دل کے غنی تو ایسے تھے کہ سوچا کرے کوئی۔منور اقبال گوندل ایک روز ہانپتے کانپتے ان کے پاس پہنچے، دور تک پیدل چلنے کی وجہ سے جوتے مٹی سے اٹ چکے تھے۔ قریشی صاحب ان کی حالت دیکھ کر فکر مند سے ہوئے لیکن بولے کچھ نہیں۔ چائے منگائی، اپنے مخصوص لہجے میں تھوڑی آزادانہ گپ شپ کی پھر پوچھا کہ ایہہ فوجاں اج پیدل کیوں نیں؟ منور صاحب نے بتایا کہ قرضہ تھا ،موٹر سائیکل بک گئی، اب پیدل گزارا ہے۔ قریشی صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے یہ ماجرا سنا، ذرادیر خاموش رہے پھر منور صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے: 'بہ بہ بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ'۔

اپنے ملنے والوں کو وہ اکثر ایسے ہی کہا کرتے تھے۔ منور شام تک وہاں بیٹھے رہے، کبھی اخبار پڑھتے، کبھی قریشی صاحب کے خرچے پر دوستوں کو فون کرتے۔ شام کے ڈھلتے ڈھلتے قریشی صاحب کی جیب پیسوں سے بھر چکی تھی۔ وہ جیب سے پیسے نکالتے جاتے اور منور صاحب کو پکڑاتے جاتے، اُس زمانے میں ہونڈا سیونٹی کوئی پانچ سات ہزار میں آ جاتا تھا، یہ رقم بھی اتنی ہی تھی۔ منور جانے کس کام سے وہاں گئے تھے، موٹر سائیکل لے کر لوٹے۔

ہاتھ کے کھلے ہونے کے ساتھ ساتھ وہ جی دار بھی بہت تھے۔ ستر کی دہائی میں ان کی دوستی ایک ایسے شخص کے ساتھ تھی جس کے بڑے بھائی صوبائی وزیر تھے۔ ان کے دوست نے اقتدار کے نشے یا دوستی کے مان میں قریشی صاحب کی دکان سے اپنی مخالف جماعت کا جھنڈا اتارنے کی کوشش کی، اس پر دونوں میں تو تو میں میں ہوگئی جس کا خمیازہ انھوں نے ٹیکس کے ناجائز مقدمے کی صورت میں برسوں بھگتا لیکن اپنی رائے پر سودے بازی سے انکار کر دیا۔

وہ بتایا کرتے تھے کہ بیٹریوں کا کام انھوں نے اپنے والد کے ساتھ گول چوک کے قریب ایک چھوٹے سے کھوکھے میں شروع کیا تھا۔ کاروبار شروع کرتے ہوئے، اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ کاروبار چل نکلا تو وہ اپنی آمدنی کا ایک خاص حصہ اللہ کی راہ میں دیا کریں گے۔ یہ کاروبار ایسا چلا کہ شہر میں بیٹری کی جو بھی نئی دکان کھلتی، عام طور پر ان ہی کی ورک شاپ کے نام پر کھلتی۔ قریشی صاحب نے بھی وعدے کی لاج رکھی اوراپنے اللہ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ تادم آخر پورا کیا۔ وقتِ رخصت ان کی عمر نوے برس سے زیادہ تھی، مالی اعتبار سے ان کا شمار رؤسائے شہر میں ہوتا تھا لیکن زندگی کے آخری دنوں تک وہ باقاعدگی سے ورک شاپ میں آتے اور اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے۔
Load Next Story