بوسنیا کی 22 سچی کہانیاں اب ایک کتابی صورت میں
مہذب یورپ کے قلب میں ہونے والے اس ہولناک انسانی المیے کو اب 30 برس کا عرصہ گزرچکا ہے
اگر آپ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور یورپ کے قلب میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا قریبی احوال گویا اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب آپ کے لیے ہے۔
پڑھیے کہ بوسنیا کا ایک قصبہ جب چاروں طرف سے گھِر گیا تو اچانک خاموشی سے کچھ مجاہد نمودار ہوئے۔ انہوں ںے پورے علاقے کا دفاع کیا اور اپنا مشن مکمل کرکے اچانک غائب ہوگئے۔ ان میں سے ایک زخمی پر جب برفانی کتوں نے حملہ کردیا تو اس نے کس بہادری سے اپنی جان بچائی؟
حاجریہ اور احمد کی کہانی بتاتی ہے کہ کس طرح بوسنیا کی آگ مسلم نسل کشی کی دوزخ میں بدلی اور آخرکار ایک واقعے سے حاجریہ کے اعصاب جواب دے گئے اور وہ دماغی توازن کھو بیٹھی؟
جب تیسرے روز، سربیائی افواج کے نسل کشی کے لیے عبدالرحمان کا نام پکارا تو اس نے خوف اور بے رحمی کے سرد عالم میں خود کو بچانے کا کون سا آخری راستہ اختیار کیا؟
امیر اور سمیر جڑواں بھائی ہیں۔ ان کی عادتیں یکساں اور ان کے خیالات بھی ایک جیسے ہیں لیکن بوسنیا کی جنگ میں دونوں کا ایک جیسا نقصان ہوا جو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔
جب کم سن علم دین دشمن کے خلاف بندوق نہ اٹھا سکا تو اس نے مورچوں کو دشمن سے چھپانے کا کام شروع کردیا۔ وہ گولیوں اور دستی بموں سے بے خوف ہوکر اپنا کام کرتا رہا لیکن اسے اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
موستار کے اسپتال میں نذیر کا پاؤں گھٹنے سے نیچے تک کاٹ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسے اپنے بیٹے 19 سالہ مصطفیٰ کے بارے میں خواب آنے لگے لیکن وہ محض خواب نہ تھے بلکہ ایک بڑے سانحے کی پیش آگہی ثابت ہوئے۔
فاطمہ روٹیاں لینے گھر سے نکلی اور اچانک اس نے کشت و خون کا ایک تالاب دیکھا۔ وہاں بم دھماکا ہوگیا تھا اور وہ اس میں منجمد ہوچکی تھی۔ تاہم ایک امید اور واقعے نے اس کی جان بچائی۔
ایک جلتے ہوئے گھر سے ماں اور بچے کو تنہا بچانے والا فائر فائٹر فخرالدین اس کاوش کے بعد کئی ہفتے اسپتال میں رہا لیکن اس نے ایک پورے خاندان کو بچالیا۔
بوسنیائی لڑکی کی جب بے حرمتی ہوئی تو اس کی آنکھوں سے تمام خواب روٹھ گئے، وہ بھیانک سپنے دیکھتی اور آخردم تک نارمل نہ ہوسکی۔
عمر مسلمانوں کے اسلحہ خانے کی چوکیداری پر مامور تھا ۔ وہ روزانہ کارتوس شمار کرتا، بندوقوں کو ترتیب دیتا کہ وہ اس کے دفاع کا سامان ہے۔ ایک روز اس کے پوتے کے اسکول پر سربوں نے راکٹ داغے جس میں کئی ننھے وجود شہید ہوئے۔ تاہم عمر نے ایک ایسا قدم اٹھایا جو بوسنیا کی جنگ میں اس کے جذبے کو زندہ و جاوید کرگیا۔
سلیم نے ایک ٹرک میں کئی زخمیوں کو اسپتال پہنچایا۔ وہ نیچے گھاٹی میں تھا اور اوپر دونوں جانب سرب فوجی قہقہہ لگاتے اسے نشانہ بناتے رہے۔ یہ کہانی عین فٹ بال میچ کے انداز میں بیان کی گئی جہاں منٹ منٹ بدلتی صورتحال دل ہلانے کےلیے کافی ہے۔
بوسنیا کی ان 22 سچی کہانیوں میں کرب، امید، ہمت، بے بسی اور بہادری کی وہ داستانیں ہیں جو آپ کو مدتوں یاد رہیں گی۔ یہ واقعات محترمہ وحیدہ دیمیرووِچ نے کوئی 25 برس قبل ایک کتابی صورت میں لکھے تھے۔ اس کتاب کا نام 'موت سے دوڑ' یا ریس ود ڈیتھ تھا۔ اب یہ کتاب ''بوسنیا پہ کیا گزری'' کے نام سے دوبارہ شائع کی گئ ہے۔
اگرچہ مغرب 70 برس بعد بھی ہٹلر کےمظالم پر فلمیں اور ناول لکھ رہا ہے لیکن افسوس کہ عراق، افغانستان اور بوسنیا کی نسل کشی پر نوحہ کرنے والا کوئی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں اب ان کہانیوں کو دوبارہ آب و تاب سے شائع کیا گیا ہے۔ مہذب یورپ کے قلب میں ہونے والے اس ہولناک انسانی المیے کو اب 30 برس کا عرصہ گزرچکا ہے۔ اس دوران بہت سے اتارچڑھاؤ آئے لیکن بوسنیا ہرزیگووینا کے بے قصور مسلمانوں کو اب تک انصاف نہیں مل سکا۔
یہ کتاب دوبارہ گفتگو پبلیکیشنز نے بہت آب و تاب کے ساتھ شائع کی ہے اور اس کا نام بوسنیا پہ کیا گزری رکھا گیا ہے۔ کتاب کا ترجمہ سہیل یوسف نے کیا ہے اور یہ اہم تصنیف یہاں سے رعایتی قیمت پر خریدی جاسکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پڑھیے کہ بوسنیا کا ایک قصبہ جب چاروں طرف سے گھِر گیا تو اچانک خاموشی سے کچھ مجاہد نمودار ہوئے۔ انہوں ںے پورے علاقے کا دفاع کیا اور اپنا مشن مکمل کرکے اچانک غائب ہوگئے۔ ان میں سے ایک زخمی پر جب برفانی کتوں نے حملہ کردیا تو اس نے کس بہادری سے اپنی جان بچائی؟
حاجریہ اور احمد کی کہانی بتاتی ہے کہ کس طرح بوسنیا کی آگ مسلم نسل کشی کی دوزخ میں بدلی اور آخرکار ایک واقعے سے حاجریہ کے اعصاب جواب دے گئے اور وہ دماغی توازن کھو بیٹھی؟
جب تیسرے روز، سربیائی افواج کے نسل کشی کے لیے عبدالرحمان کا نام پکارا تو اس نے خوف اور بے رحمی کے سرد عالم میں خود کو بچانے کا کون سا آخری راستہ اختیار کیا؟
امیر اور سمیر جڑواں بھائی ہیں۔ ان کی عادتیں یکساں اور ان کے خیالات بھی ایک جیسے ہیں لیکن بوسنیا کی جنگ میں دونوں کا ایک جیسا نقصان ہوا جو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔
جب کم سن علم دین دشمن کے خلاف بندوق نہ اٹھا سکا تو اس نے مورچوں کو دشمن سے چھپانے کا کام شروع کردیا۔ وہ گولیوں اور دستی بموں سے بے خوف ہوکر اپنا کام کرتا رہا لیکن اسے اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
موستار کے اسپتال میں نذیر کا پاؤں گھٹنے سے نیچے تک کاٹ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسے اپنے بیٹے 19 سالہ مصطفیٰ کے بارے میں خواب آنے لگے لیکن وہ محض خواب نہ تھے بلکہ ایک بڑے سانحے کی پیش آگہی ثابت ہوئے۔
فاطمہ روٹیاں لینے گھر سے نکلی اور اچانک اس نے کشت و خون کا ایک تالاب دیکھا۔ وہاں بم دھماکا ہوگیا تھا اور وہ اس میں منجمد ہوچکی تھی۔ تاہم ایک امید اور واقعے نے اس کی جان بچائی۔
ایک جلتے ہوئے گھر سے ماں اور بچے کو تنہا بچانے والا فائر فائٹر فخرالدین اس کاوش کے بعد کئی ہفتے اسپتال میں رہا لیکن اس نے ایک پورے خاندان کو بچالیا۔
بوسنیائی لڑکی کی جب بے حرمتی ہوئی تو اس کی آنکھوں سے تمام خواب روٹھ گئے، وہ بھیانک سپنے دیکھتی اور آخردم تک نارمل نہ ہوسکی۔
عمر مسلمانوں کے اسلحہ خانے کی چوکیداری پر مامور تھا ۔ وہ روزانہ کارتوس شمار کرتا، بندوقوں کو ترتیب دیتا کہ وہ اس کے دفاع کا سامان ہے۔ ایک روز اس کے پوتے کے اسکول پر سربوں نے راکٹ داغے جس میں کئی ننھے وجود شہید ہوئے۔ تاہم عمر نے ایک ایسا قدم اٹھایا جو بوسنیا کی جنگ میں اس کے جذبے کو زندہ و جاوید کرگیا۔
سلیم نے ایک ٹرک میں کئی زخمیوں کو اسپتال پہنچایا۔ وہ نیچے گھاٹی میں تھا اور اوپر دونوں جانب سرب فوجی قہقہہ لگاتے اسے نشانہ بناتے رہے۔ یہ کہانی عین فٹ بال میچ کے انداز میں بیان کی گئی جہاں منٹ منٹ بدلتی صورتحال دل ہلانے کےلیے کافی ہے۔
بوسنیا کی ان 22 سچی کہانیوں میں کرب، امید، ہمت، بے بسی اور بہادری کی وہ داستانیں ہیں جو آپ کو مدتوں یاد رہیں گی۔ یہ واقعات محترمہ وحیدہ دیمیرووِچ نے کوئی 25 برس قبل ایک کتابی صورت میں لکھے تھے۔ اس کتاب کا نام 'موت سے دوڑ' یا ریس ود ڈیتھ تھا۔ اب یہ کتاب ''بوسنیا پہ کیا گزری'' کے نام سے دوبارہ شائع کی گئ ہے۔
اگرچہ مغرب 70 برس بعد بھی ہٹلر کےمظالم پر فلمیں اور ناول لکھ رہا ہے لیکن افسوس کہ عراق، افغانستان اور بوسنیا کی نسل کشی پر نوحہ کرنے والا کوئی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں اب ان کہانیوں کو دوبارہ آب و تاب سے شائع کیا گیا ہے۔ مہذب یورپ کے قلب میں ہونے والے اس ہولناک انسانی المیے کو اب 30 برس کا عرصہ گزرچکا ہے۔ اس دوران بہت سے اتارچڑھاؤ آئے لیکن بوسنیا ہرزیگووینا کے بے قصور مسلمانوں کو اب تک انصاف نہیں مل سکا۔
یہ کتاب دوبارہ گفتگو پبلیکیشنز نے بہت آب و تاب کے ساتھ شائع کی ہے اور اس کا نام بوسنیا پہ کیا گزری رکھا گیا ہے۔ کتاب کا ترجمہ سہیل یوسف نے کیا ہے اور یہ اہم تصنیف یہاں سے رعایتی قیمت پر خریدی جاسکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔