پی ڈی ایم کی قیادت اور بصیرت
مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف ماننے کو تیار نہیں۔
TOKYO:
مخالف جماعتوں کا متحدہ محاذ بکھرگیا، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو بنانے اور بکھیرنے میں نمایاں کردار پیپلز پارٹی کا ہے مگر میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے پھر بصیرت کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے کم سے کم نکات پر پی ڈی ایم کے اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش نہیں کی۔
المیہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بھی میثاقِ جمہوریت سے پہلے کی سیاست پر بیان بازی کرنے لگے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت گزشتہ سال نیب کی زد میں تھی۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپورکی ضمانتیں ہوئی تھیں ، مگر بلاول بھٹوکو بھی نیب میں طلب کیا جا رہا تھا۔
پارٹی کے سینئر ترین رکن خورشید شاہ بدعنوانی کے متعدد مقدمات میں گرفتار ہوئے تھے اور ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد ہوچکی تھیں۔ گزشتہ سال ایک وقت ایسا بھی تھا کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو بار بار اسلام آباد میں نیب کے دفتر طلب کیا جا رہا تھا اور یہ افواہ پھیل جاتی کہ اس بار وہ گرفتار ہوجائیں گے۔آصف زرداری کے قریبی دوست سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے گھر پر نیب والے چھاپے مار رہے تھے۔ اس ماحول میں بلاول بھٹو زرداری نے مخالف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں شروع کیں۔
بلاول، مولانا فضل الرحمن سے ملے، وہ جاتی امراء گئے، مریم نواز سے مذاکرات کیے۔ بلاول نے کراچی میں حاصل بزنجو اور اختر مینگل سے بھی ملاقاتیں کی، یوں بلاول کی کوششوں سے اسلام آباد میں آل پارٹیزکانفرنس منعقد ہوئی اور پی ڈی ایم وجود میں آئی۔
پی ڈی ایم کی قیادت نے بنیادی حکمت عملی کے طور پر جنوری ، فروری میں لانگ مارچ اور حکومت کے خاتمے کے اعلانات کرنے شروع کیے، ملک بھر میں جلسے شروع ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے اپنی تقاریر میں اسٹبلشمنٹ کے افسروں پر براہِ راست حملے شروع کیے،یہ ایک مختلف نوعیت کی صورتحال تھی۔ پنجاب میں ان جلسوں میں عوام کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔ انتظامیہ کی رکاوٹوں کے باوجود ملتان کا جلسہ بھرپور طور پرکامیاب رہا۔ ان جلسوں میں بلاول بھٹو زرداری کا رویہ جارحانہ تھا ، پھر انھوں نے 5 جنوری کے جلسے میں مریم نوازکو مدعوکیا۔
شریف خاندان کے کسی فرد کی گڑھی خدا بخش میں یہ پہلی تقریر تھی۔ کراچی جلسہ کے بعد کیپٹن(ر) صفدرکی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کا واقعہ رونما ہوا۔ بلاول بھٹو نے کیپٹن(ر) صفدرکی گرفتاری کی مذمت کی۔ حکومت سندھ نے اس گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہارکیا اور الزام لگایا کہ رینجرز دستوں نے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کو اغواء کیا اور دباؤ پرکیپٹن(ر) صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ بلاول بھٹو کا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ رابطہ ہوا۔ جنرل صاحب نے تحقیقات کے بعد اس واقعے میں ملوث افسروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ سندھ کی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے وزراء کی ایک کمیٹی قائم کی۔
لاہور میں دسمبر میں ایک بڑے جلسے کا فیصلہ ہوا ، مگر مسلم لیگ ن کی تنظیمی کمزوریاں سامنے آئیں۔ توقع سے کم لوگ جلسہ میں آئے اور جلسہ انتہائی غیر منظم رہا، حکومت کو پہلی دفعہ سکون محسوس ہوا۔ اس دوران مولانا فضل الرحمن نے اسمبلیوں سے استعفوں اور مارچ میں لانگ مارچ کے بیانات میں تیزی کردی۔ اس اثناء میں سندھ حکومت نے پی ڈی ایم کے رہنماؤں پر انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات چلانے کی منظوری دی اور سندھ کے وزراء پر مشتمل کمیٹی نے اپنی رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں سندھ کے آئی جی کے اغواء میں رینجرز کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کی تردید کی گئی۔
بعد ازاں پی ڈی ایم نے ضمنی انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ بلاول کے مشیر مصطفی نواز کھوکھر نے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ نشست کا انتخاب لڑانے کی تجویز پیش کی۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے اس فیصلے کی توثیق کی اور یہ طے پایا کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست مسلم لیگ ن کو دی جائے گی، یوں پی ڈی ایم کی مشترکہ حکمت عملی اورکچھ نئی طاقت کی مدد سے یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہوگئے۔
اسی دوران راولپنڈی کی احتساب کی عدالت نے 24 بلین روپے کی Plebargain dealکو منظورکیا۔ اس منظوری سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سابق ڈی جی منظور کاکا اور بے نامی بینک اکاؤنٹس ہولڈرزکو تحفظ حاصل ہوگیا۔ شایع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ بے نامی بینک اکاؤنٹس کا الزام پیپلز پارٹی کی قیادت پر عائدکیا گیا تھا۔ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں کھیل بگڑگیا اور سینیٹ کے پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ کے متنازعہ فیصلے کی بناء پر یوسف رضا گیلانی کامیاب نہ ہوسکے، براڈشیٹ رپورٹ عام ہوئی۔ اس رپورٹ میں آصف علی زرداری کے سوئٹزرلینڈ اکاؤنٹس کے کیس دوبارہ کھلنے اور اہم دستاویزکے غائب ہونے کے الزامات عائد ہوئے۔
گزشتہ مہینے کے آخر میں پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں دو انتہا پسندانہ رویے سامنے آئے۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے منتخب اسمبلیوں سے استعفیٰ اور لانگ مارچ کو لازم و ملزوم قرار دیا۔ آصف زرداری نے اپنے کمزور ڈومیسائل اور اکلوتے بیٹے کا ذکرکیا اور شرط عائد کی کہ میاں نواز شریف اور اسحق ڈار ملک واپس آئیں، یہ دو انتہا پسندانہ رویے تھے، یوں یہ سربراہی کانفرنس ناکام ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی نے معاملے کو اس بنیاد پر مؤخرکیا کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوگا مگرنامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ اجلاس نہ ہوسکا۔
پیپلز پارٹی نے 2017 کی راہ اختیارکی۔ اس وقت بلوچستان میں اچانک بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) قائم ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی تھی اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں باپ کے امیدوار صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی۔ تحریک انصاف کی مدد سے پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے تھے، پیپلز پارٹی نے ایک دفعہ پھر باپ ، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹروں کی مدد سے یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف منتخب کرایا تھا، یوں اب پیپلز پارٹی کی قیادت میں 64سینیٹر جمع ہوئے۔ بقول سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اب صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کی نئی حکمت عملی کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی قیادت نے Hybrid نظام کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے بلاول بھٹو نے پنجاب میں تبدیلی کا امکان ظاہرکیا ہے اور کہا ہے کہ پنجاب میں نئے وزیر اعلیٰ بننے کا پہلا حق حمزہ شہبازکا ہے، ورنہ چوہدری پرویز الٰہی سے بات کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے ایک رکن پنجاب اسمبلی حسن مرتضیٰ نے پھر دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے 10منتخب اراکین ان کے ساتھ ہیں اور عید الفطرکے بعد پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔
پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافیوں کو اس دعویٰ میں بہت زیادہ سنجیدگی نظر نہیں آتی کیونکہ دوماہ قبل عدم اعتماد کا ارادہ ظاہر ہونے کے بعد حکومت خاموش نہیں بیٹھ سکتی مگر بلاول بھٹو کے اس اعلان سے ثابت ہوگیا کہ اب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق اور بلوچستان میں باپ کے ساتھ اشتراک کرنے پر آمادہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نوازکھوکھر ، رضا ربانی نے پیپلز پارٹی کے باپ کے سینیٹروں کے ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنوانے کو پیپلز پارٹی کی نظریاتی اساس پر حملہ قرار دیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے 2017 میں صادق سنجرانی کی حمایت کر کے Hybrid نظام کا حصہ بننے کی کوشش کی تھی مگر بالادست قوتیں کچھ اور فیصلہ کرچکی تھیں، اس بناء پر اقتدارکے کیک میں سے پیپلز پارٹی کوکچھ نہیں ملا ، مگر پیپلز پارٹی اس طرح آئین کی پاسداری اور پارلیمنٹ کی تمام اداروں پر بالادستی کے اصولی مؤقف سے دور ہٹ گئی جس کا سب سے زیادہ نقصان چھوٹے صوبوں کو ہوگا۔
مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف ماننے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی جواب میں قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ یوں ایک کمزور حکومت محفوظ ہو رہی ہے اور حزب اختلاف کے جھگڑوں سے عوام سیاسی کلچر سے مایوس ہورہے ہیں۔
مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے سینیٹ میں ایک الگ گروپ بنانے، پیپلز پارٹی کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس دینے اور بلاول بھٹو کی 4 اپریل کی تقریرکے بعد حزبِ اختلاف کے متحدہ محاذکا شیرازہ بکھرگیا ہے، مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو بصیرت کا ثبوت دینا چاہیے۔
کم از کم ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری بندکردینی چاہیے تاکہ مستقبل میں اتحاد کا دروازہ کھلا رہے۔ پی ڈی ایم کے انتشارکا اثر مزاحمتی تحریکوں پر پڑے گا، مگر پیپلز پارٹی کو نوشتہ دیوار کو پھر پڑھ لینا چاہیے، اس Hybrid نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
مخالف جماعتوں کا متحدہ محاذ بکھرگیا، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو بنانے اور بکھیرنے میں نمایاں کردار پیپلز پارٹی کا ہے مگر میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے پھر بصیرت کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے کم سے کم نکات پر پی ڈی ایم کے اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش نہیں کی۔
المیہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بھی میثاقِ جمہوریت سے پہلے کی سیاست پر بیان بازی کرنے لگے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت گزشتہ سال نیب کی زد میں تھی۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپورکی ضمانتیں ہوئی تھیں ، مگر بلاول بھٹوکو بھی نیب میں طلب کیا جا رہا تھا۔
پارٹی کے سینئر ترین رکن خورشید شاہ بدعنوانی کے متعدد مقدمات میں گرفتار ہوئے تھے اور ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد ہوچکی تھیں۔ گزشتہ سال ایک وقت ایسا بھی تھا کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو بار بار اسلام آباد میں نیب کے دفتر طلب کیا جا رہا تھا اور یہ افواہ پھیل جاتی کہ اس بار وہ گرفتار ہوجائیں گے۔آصف زرداری کے قریبی دوست سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے گھر پر نیب والے چھاپے مار رہے تھے۔ اس ماحول میں بلاول بھٹو زرداری نے مخالف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں شروع کیں۔
بلاول، مولانا فضل الرحمن سے ملے، وہ جاتی امراء گئے، مریم نواز سے مذاکرات کیے۔ بلاول نے کراچی میں حاصل بزنجو اور اختر مینگل سے بھی ملاقاتیں کی، یوں بلاول کی کوششوں سے اسلام آباد میں آل پارٹیزکانفرنس منعقد ہوئی اور پی ڈی ایم وجود میں آئی۔
پی ڈی ایم کی قیادت نے بنیادی حکمت عملی کے طور پر جنوری ، فروری میں لانگ مارچ اور حکومت کے خاتمے کے اعلانات کرنے شروع کیے، ملک بھر میں جلسے شروع ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے اپنی تقاریر میں اسٹبلشمنٹ کے افسروں پر براہِ راست حملے شروع کیے،یہ ایک مختلف نوعیت کی صورتحال تھی۔ پنجاب میں ان جلسوں میں عوام کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔ انتظامیہ کی رکاوٹوں کے باوجود ملتان کا جلسہ بھرپور طور پرکامیاب رہا۔ ان جلسوں میں بلاول بھٹو زرداری کا رویہ جارحانہ تھا ، پھر انھوں نے 5 جنوری کے جلسے میں مریم نوازکو مدعوکیا۔
شریف خاندان کے کسی فرد کی گڑھی خدا بخش میں یہ پہلی تقریر تھی۔ کراچی جلسہ کے بعد کیپٹن(ر) صفدرکی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کا واقعہ رونما ہوا۔ بلاول بھٹو نے کیپٹن(ر) صفدرکی گرفتاری کی مذمت کی۔ حکومت سندھ نے اس گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہارکیا اور الزام لگایا کہ رینجرز دستوں نے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کو اغواء کیا اور دباؤ پرکیپٹن(ر) صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ بلاول بھٹو کا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ رابطہ ہوا۔ جنرل صاحب نے تحقیقات کے بعد اس واقعے میں ملوث افسروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ سندھ کی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے وزراء کی ایک کمیٹی قائم کی۔
لاہور میں دسمبر میں ایک بڑے جلسے کا فیصلہ ہوا ، مگر مسلم لیگ ن کی تنظیمی کمزوریاں سامنے آئیں۔ توقع سے کم لوگ جلسہ میں آئے اور جلسہ انتہائی غیر منظم رہا، حکومت کو پہلی دفعہ سکون محسوس ہوا۔ اس دوران مولانا فضل الرحمن نے اسمبلیوں سے استعفوں اور مارچ میں لانگ مارچ کے بیانات میں تیزی کردی۔ اس اثناء میں سندھ حکومت نے پی ڈی ایم کے رہنماؤں پر انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات چلانے کی منظوری دی اور سندھ کے وزراء پر مشتمل کمیٹی نے اپنی رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں سندھ کے آئی جی کے اغواء میں رینجرز کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کی تردید کی گئی۔
بعد ازاں پی ڈی ایم نے ضمنی انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ بلاول کے مشیر مصطفی نواز کھوکھر نے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ نشست کا انتخاب لڑانے کی تجویز پیش کی۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے اس فیصلے کی توثیق کی اور یہ طے پایا کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست مسلم لیگ ن کو دی جائے گی، یوں پی ڈی ایم کی مشترکہ حکمت عملی اورکچھ نئی طاقت کی مدد سے یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہوگئے۔
اسی دوران راولپنڈی کی احتساب کی عدالت نے 24 بلین روپے کی Plebargain dealکو منظورکیا۔ اس منظوری سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سابق ڈی جی منظور کاکا اور بے نامی بینک اکاؤنٹس ہولڈرزکو تحفظ حاصل ہوگیا۔ شایع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ بے نامی بینک اکاؤنٹس کا الزام پیپلز پارٹی کی قیادت پر عائدکیا گیا تھا۔ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں کھیل بگڑگیا اور سینیٹ کے پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ کے متنازعہ فیصلے کی بناء پر یوسف رضا گیلانی کامیاب نہ ہوسکے، براڈشیٹ رپورٹ عام ہوئی۔ اس رپورٹ میں آصف علی زرداری کے سوئٹزرلینڈ اکاؤنٹس کے کیس دوبارہ کھلنے اور اہم دستاویزکے غائب ہونے کے الزامات عائد ہوئے۔
گزشتہ مہینے کے آخر میں پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں دو انتہا پسندانہ رویے سامنے آئے۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے منتخب اسمبلیوں سے استعفیٰ اور لانگ مارچ کو لازم و ملزوم قرار دیا۔ آصف زرداری نے اپنے کمزور ڈومیسائل اور اکلوتے بیٹے کا ذکرکیا اور شرط عائد کی کہ میاں نواز شریف اور اسحق ڈار ملک واپس آئیں، یہ دو انتہا پسندانہ رویے تھے، یوں یہ سربراہی کانفرنس ناکام ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی نے معاملے کو اس بنیاد پر مؤخرکیا کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوگا مگرنامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ اجلاس نہ ہوسکا۔
پیپلز پارٹی نے 2017 کی راہ اختیارکی۔ اس وقت بلوچستان میں اچانک بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) قائم ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی تھی اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں باپ کے امیدوار صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی۔ تحریک انصاف کی مدد سے پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے تھے، پیپلز پارٹی نے ایک دفعہ پھر باپ ، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹروں کی مدد سے یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف منتخب کرایا تھا، یوں اب پیپلز پارٹی کی قیادت میں 64سینیٹر جمع ہوئے۔ بقول سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اب صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کی نئی حکمت عملی کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی قیادت نے Hybrid نظام کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے بلاول بھٹو نے پنجاب میں تبدیلی کا امکان ظاہرکیا ہے اور کہا ہے کہ پنجاب میں نئے وزیر اعلیٰ بننے کا پہلا حق حمزہ شہبازکا ہے، ورنہ چوہدری پرویز الٰہی سے بات کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے ایک رکن پنجاب اسمبلی حسن مرتضیٰ نے پھر دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے 10منتخب اراکین ان کے ساتھ ہیں اور عید الفطرکے بعد پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔
پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافیوں کو اس دعویٰ میں بہت زیادہ سنجیدگی نظر نہیں آتی کیونکہ دوماہ قبل عدم اعتماد کا ارادہ ظاہر ہونے کے بعد حکومت خاموش نہیں بیٹھ سکتی مگر بلاول بھٹو کے اس اعلان سے ثابت ہوگیا کہ اب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق اور بلوچستان میں باپ کے ساتھ اشتراک کرنے پر آمادہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نوازکھوکھر ، رضا ربانی نے پیپلز پارٹی کے باپ کے سینیٹروں کے ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنوانے کو پیپلز پارٹی کی نظریاتی اساس پر حملہ قرار دیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے 2017 میں صادق سنجرانی کی حمایت کر کے Hybrid نظام کا حصہ بننے کی کوشش کی تھی مگر بالادست قوتیں کچھ اور فیصلہ کرچکی تھیں، اس بناء پر اقتدارکے کیک میں سے پیپلز پارٹی کوکچھ نہیں ملا ، مگر پیپلز پارٹی اس طرح آئین کی پاسداری اور پارلیمنٹ کی تمام اداروں پر بالادستی کے اصولی مؤقف سے دور ہٹ گئی جس کا سب سے زیادہ نقصان چھوٹے صوبوں کو ہوگا۔
مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف ماننے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی جواب میں قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ یوں ایک کمزور حکومت محفوظ ہو رہی ہے اور حزب اختلاف کے جھگڑوں سے عوام سیاسی کلچر سے مایوس ہورہے ہیں۔
مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے سینیٹ میں ایک الگ گروپ بنانے، پیپلز پارٹی کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس دینے اور بلاول بھٹو کی 4 اپریل کی تقریرکے بعد حزبِ اختلاف کے متحدہ محاذکا شیرازہ بکھرگیا ہے، مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو بصیرت کا ثبوت دینا چاہیے۔
کم از کم ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری بندکردینی چاہیے تاکہ مستقبل میں اتحاد کا دروازہ کھلا رہے۔ پی ڈی ایم کے انتشارکا اثر مزاحمتی تحریکوں پر پڑے گا، مگر پیپلز پارٹی کو نوشتہ دیوار کو پھر پڑھ لینا چاہیے، اس Hybrid نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔