دم توڑتی پی ڈی ایم

دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف جاری تحریک کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے

اے این پی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کرکے پی ڈی ایم کو عملاً توڑ دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

SEOUL:
2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے توقعات کے مطابق کامیابی حاصل کی اور پہلی مرتبہ اقتدار حاصل کیا۔ عمران خان وزیراعظم بنے۔ اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگایا اور حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں میدان میں اتر آئیں۔ کل تک ایک دوسرے کو سڑکوں پر کھینچنے والے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئے۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز جو پاکستانی سیاست میں آگ اور پانی کی حیثیت رکھتے ہیں، پی ٹی آئی کی کامیابی نے دونوں جماعتوں کو ایک میز پر بٹھادیا۔ جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف اور آصف زرداری کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کردار ادا کیا۔ اس سے قبل جے یو آئی نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا اور دعویٰ کیا گیا کہ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچتے ہی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن جے یو آئی کا دھرنا صرف چند دن کا رہا اور جے یو آئی کو اسلام آباد سے دھرنا ختم کرنا پڑا۔

گزشتہ سال ستمبر میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف موثر تحریک چلانے کےلیے پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے حکومت مخالف اتحاد بنایا اور حکومت کے خلاف جلسوں اور مظاہروں کا آغاز کردیا۔ جب اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی باتیں سامنے آرہی تھیں تو اس وقت بھی یہ تبصرے کیے جارہے تھے کہ مسلم لیگ کیسے پیپلزپارٹی کی قیادت کو قبول کرے گی اور پیپلزپارٹی کیسے مسلم لیگ کے زیر سایہ کام کرے گی؟ لیکن اس تاثر کو ختم کرنے کےلیے پی ڈی ایم کی سربراہی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو دی گئی۔

اس اتحاد کے بنتے ہی یہ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ آگ اور پانی کا ملن اتنی دیر تک چلنے والا نہیں۔ جب مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کی چھتری تلے ایک ہوئے تو حکومت کےلیے بھی ایک دھچکا ضرور تھا، کیونکہ ملک کی دو بڑی جماعتوں کا حکومت کے خلاف ایک ہونا خطرے کی گھنٹی ہے۔ پی ڈی ایم کے بننے کے کچھ عرصے بعد ہی پی ڈی ایم میں اختلافات کی باتیں سامنے آنے لگیں لیکن مولانا فضل الرحمان اتحاد کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوتے رہے۔ سینیٹ الیکشن کا مرحلہ آیا تو پیپلزپارٹی اپنی اتحادی جماعتوں سے مل کر اسلام آباد کی واحد نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی لیکن معاملہ چیئرمین سینیٹ الیکشن کے بعد بگڑ گیا۔ پی ڈی ایم کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی تو مطلوبہ ووٹ پورے لیتے ہیں لیکن ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے امیدوار عبدالغفور حیدری کو کم ووٹ پڑتے ہیں۔ پی ڈی ایم میں یہیں سے دراڑ پڑنا شروع ہوئی۔


پی ڈی ایم کے جلسوں میں بھی اختلافات کی خبریں سامنے آرہی تھیں۔ حکومت کے خلاف مرحلہ وار احتجاج کے بعد پی ڈی ایم نے 26 مارچ کو حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا لیکن پیپلزپارٹی نے استعفوں کے معاملے پر اختلاف کیا اور وہاں سے پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے درمیان دوریاں بڑھنے لگیں۔ ایک جانب پیپلزپارٹی نے استعفوں کے معاملے پر وقت مانگا تو دوسری جانب سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی نشست پیپلزپارٹی نے چپکے سے حاصل کرلی۔ پی ڈی ایم قیادت نے پیپلزپارٹی کی اس واردات پر اور پیپلزپارٹی کا ساتھ دینے پر اے این پی سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ دونوں جماعتوں کو شوکاز نوٹس دے کر وضاحت طلب کی گئی۔

پی ڈی ایم کے اس شوکاز نوٹس پر اے این پی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کرکے پی ڈی ایم کو عملاً توڑ دیا۔ اب پیپلزپارٹی کے فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ پی ڈی ایم میں پڑنے والی دراڑ کے بارے میں کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم میں دراڑ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈالی گئی ہے۔ جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں میں بے اعتمادی دراڑ کی وجہ بنی۔ کچھ اطلاعات یہ ہیں کہ پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف کھل کر کھیلنے کے موڈ میں نہیں۔ آصف علی زرداری اقتدار کی ہوائیں لے چکے ہیں، اب ان کے اکلوتے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کا نمبر ہے۔ اسی لیے وہ کسی صورت بھی مزاحمت کی سیاست نہیں کرنا چاہتے اور کچھ حلقوں کی جانب سے انھیں مستقبل کے اشارے بھی مل چکے ہیں۔ اسی لیے وہ اب اپنی وکٹ پر رہتے ہوئے کھیلیں گے۔

جہاں تک عوامی نیشنل پارٹی کی بات ہے، اے این پی نے صوبے کے نام کی تبدیلی پر سیاست کی اور صوبے کی نام کی تبدیلی کا سہرا آصف علی زرداری کے سر ہے، اسی لیے اے این پی کسی صورت پیپلزپارٹی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ اے این پی کی علیحدگی سے قبل اے این پی کے سربراہ آصف زرداری اور اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدرہوتی سے رابطہ ہوا اور دونوں جماعتوں کی مشاورت کے بعد اس فیصلے پر اتفاق کیا گیا۔ اب پیپلزپارٹی بھی اے این پی کے بعد راہیں جدا کرنے کا اعلان کرسکتی ہے۔

پی ڈی ایم سے اگر پیپلزپارٹی بھی الگ ہوجاتی ہے تو اتحاد میں دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ نواز اور جے یو آئی رہ جاتی ہیں۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان طبیعت ناسازی کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے رہے، جبکہ کورونا صورتحال کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں رک گئی ہیں۔ اب انتظار پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کا ہے۔ جس میں دیکھنا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف جاری تحریک کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق جو زور پی ڈی ایم کا تھا اب وہ ٹوٹنے لگا ہے، اسی لیے پی ڈی ایم کو میدان میں نکلنے سے قبل پوری تیاری کرنا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story